یہ آشیاں کسی شاخ چمن پہ بار نہ ہو

حمدوستائش اس ذات کے لئے ہے جس نے اس کارخانۂ عالم کو وجود بخشا
اور
درود و سلام اس کے آخری پیغمبرپر جنہوں نے دنیا میں حق کا بول بالا کیا

حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی کی ایک مطبوعہ اہم تحریر نذر قارئین ہے ، جس کا استحضار ہر کلمہ گو مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ مغرب کے تصور مذہب کے برعکس اسلام چند رسومات کانام نہیں ہے ، یہ وہ دین سماوی ہے جس میں انسانی زندگی کا مکمل دستور فکروعمل ہے ، یہ ظاہر وباطن کا بھی دین ہے اور فرد ومعاشرے کا بھی ، اپنی ہر سرگرمی میں اس کی جامع تعلیمات واحکام بندۂ مؤمن کے لئے واجب العمل ہیں ، دنیا وآخرت میں فلاح وکامرانی کا حصول پورے اسلام پر عمل سے ہی وابستہ ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ادارہ )

 

مشہور ہے کہ چند نابینا افراد کو زندگی میں پہلی بار ایک ہاتھی سے سابقہ پیش آیا ، آنکھوں کی بینائی سے تو وہ سب محروم تھے ، اس لئے ہر شخص نے ہاتھوں سے ٹٹول کر اُس کا سراپا معلوم کرنا چاہا، چنانچہ کسی کا ہاتھ اُس کی سونڈ پر پڑگیا، کسی کا اُس کے ہاتھ پر ، کسی کا اس کے کان پر، جب لوگوں نے اُن سے پوچھا کہ ہاتھی کیسا ہوتا ہے ؟تو پہلے شخص نے کہا کہ وہ مڑی ہوئی ربر کی طرح ہوتا ہے ، دوسرے نے کہا نہیں ، وہ لمبا لمبا ہوتا ہے ، تیسرے نے کہا کہ وہ تو ایک بڑے سے پتے کی طرح ہوتا ہے ۔ غرض جس شخص نے ہاتھی کے جس حصے کو چھوا تھا اسی کو مکمل ہاتھی سمجھ کر اس کی کیفیت بیان کردی ، اور پورے ہاتھی کی حقیقت کسی کے ہاتھ نہ آئی ۔
کچھ عرصے سے ہم اسلام کے ساتھ کچھ ایسا ہی سلوک کررہے ہیں جیسا ان نابیناؤں نے ہاتھی کے ساتھ کیاتھا ، اسلام ایک مکمل دین ہے جس کی ہدایات و تعلیمات کو چھ بڑے شعبوں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے ، عقائد ، عبادات ، معاملات ، معاشرت ، سیاست اور اخلاق۔ ان چھ شعبوں میں سے ہر ایک سے متعلق تعلیمات دین کا لازمی حصہ ہیں جسے نہ دین سے الگ کیاجاسکتا ہے ، اور نہ صرف اسی کو مکمل دین کہاجاسکتا ہے ، لیکن کچھ لوگوں نے دین کو صرف عقائد و عبادات کی حدتک محدود کرکے باقی شعبوں کو نظر انداز کردیا ، کسی نے معاملات سے متعلق اس کے احکام کو دیکھ کر یہ کہدیا کہ اسلام تو درحقیقت ایک فلاحی معیشت کا نظام ہے ، کسی نے اس کی سیاسی تعلیمات کا مطالعہ کیا تو اس نے یہ سمجھ لیا کہ دین کا اصل مقصد سیاست ہے ، اور باقی سارے شعبے اس کے تابع ہیں،یا محض ثانوی حیثیت رکھتے ہیں ۔
لیکن اس سلسلے میں سب سے زیادہ پھیلی ہوئی غلط فہمی یہ ہے کہ دین صرف عقائد و عبادات کا نام ہے ، اور زندگی کے دوسرے مسائل سے اس کا کوئی تعلق نہیں ، اس غلط فہمی کو ہوا دینے میں تین چیزوں نے بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے ___ ایک تو عالم اسلام پر غیر مسلم طاقتوں کا سیاسی تسلّط تھا جس نے دین کا عمل دخل دفتروں ، بازاروں اور معاشرے کے اجتماعی معاملات سے نکل کر اُسے صرف مسجدوں ، خانقاہوں اور بعض جگہ دینی مدرسوں تک محدود کردیا ، اور جب زندگی کے دوسرے شعبوں میں اسلامی تعلیمات کا چلن نہ رہا تو رفتہ رفتہ یہ ذہن بنتا چلاگیا کہ دین صرف نماز روزے کا نام ہے ___ دوسرا سبب وہ سیکولر ذہنیت ہے جس نے سامراج کے زیر اثر تعلیمی اداروں نے پروان چڑھایا ، اِس ذہنیت کے نزدیک دین و مذہب صرف انسان کی انفرادی زندگی کاایک پرائیویٹ معاملہ ہے ، اور اُسے معیشت و سیاست اور معاشرت تک وسعت دینے کا مطلب گھڑی کی سوئی کو پیچھے لے جانے کے مرادف ہے ___ تیسرا سبب خود اپنے اپنے طرزِ عل نے پیدا کیا ، اور وہ یہ کہ دین سے وابستہ بہت سے افراد نے جتنی اہمیت عقائد و عبادات کو دی ، اس کے مقابلے میں معاملات ، معاشرت اور اخلاق کو دسواں حصہ بھی اہمیت نہیں دی ۔
بہر حال ! ان تینوں اسباب کے مجموعے سے نتیجہ یہی نکلا کہ معاملات ، معاشرت اور اخلاق سے متعلق اسلام کی تعلیمات بہت پیچھے چلی گئیں ، اور ان سے ناواقفیت اتنی زیادہ ہوگئی کہ گویا وہ دین کا حصہ ہی نہیں رہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عقائد اور عبادات دین کا جزوِ اعظم ہیں ، ان کی اہمیت کو کسی بھی طرح کم کرنا دین کا حلیہ بگاڑنے کے مرادف ہے ، خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی بنیاد جن چیزوں پر قراردی ہے ، ان میں سے ایک کا تعلق عقائد سے ، اور چار چیزوں کا تعلق عبادات سے ہے ، اور جو لوگ عقائد و عبادات سے صرف نظر کرکے صرف اخلاق ، معاشرت اور معاملات ہی کو سارا دین سمجھتے ہیں وہ دین کو محض ایک مادّہ پرستانہ نظام میں تبدیل کرکے اُس کا وہ ساراحُسن چھین لیتے ہیں جو دوسرے مادّہ پرستانہ نظاموں کے مقابلے میں اس کا اصل طرّہ امتیاز ہے ، اور جس کے بغیر اخلاق ، معاشرت اور معاملات بھی ایک بے روح جسم اور ایک بے بنیاد عمارت کی حیثیت اختیار کرجاتے ہیں ۔
لیکن یہ بھی اپنی جگہ ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ دین کی تعلیمات عقائد وعبادات کی حدتک محدود نہیں ہیں ، اور ایک مسلمان کی ذمہّ داری صرف نماز روزہ اداکرکے پوری نہیں ہوجاتی ، خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ "ایمان کے ستّر سے زائد شعبے ہیں جن میں اعلیٰ ترین شعبہ توحید کی شہادت ہے ، اور ادنیٰ ترین شعبہ راستے سے گندگی دورکرنا ہے "۔ بلکہ معاملات ، معاشرت اور اخلاق کا معاملہ اس لحاظ سے زیادہ سنگین ہے کہ ان کا تعلق حقوق العباد سے ہے ، اور یہ اصول مسلّم ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حقوق توبہ سے معاف کردیتا ہے ، لیکن حقوق العباد صرف توبہ اور استغفار سے معاف نہیں ہوتے ، ان کی معافی کی دو ہی صورتیں ہیں یا تو حق دار کو اس کا حق پہنچایا جائے ، یا وہ خوش دلی سے معافی دیدے ، لہٰذا دین کے یہ شعبے خصوسی اہتمام کے متقاضی ہیں۔
پھر معاملات ، معاشرت اور اخلاق کے ان تین شعبوں میں بھی سب سے زیادہ لاپروائی معاشرت کے شعبے میں برتی جارہی ہے ، معاشرتی برائیوں کا ایک سیلاب ہے جس نے ہمیں لپیٹ میں لیا ہوا ہے ، اور اچھے خاصے پڑھے لکھے ، تعلیم یافتہ ، بلکہ ایسے دین دار حضرات بھی جو دین سے اپنی وابستگی کے لئے مشہور سمجھے جاتے ہیں اس پہلو سے اتنے بے خبر ہیں کہ ان معاشرتی خرابیوں کو گناہ ہی نہیں سمجھتے ۔
قبل اس کے کہ میں ان معاشرتی مسائل کی جزئیات سے بحث کروں ، آج کی صحبت میں یہ اصولی اشارہ مناسب ہے کہ اسلام کی ساری معاشرتی تعلیمات کی بنیاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر ہے کہ :

"المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ”
مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔

اسلام کی ساری معاشرتی تعلیمات اسی بنیادی اصول کے گرد گھومتی ہیں کہ ہر مسلمان اپنے ہر ہر قول وفعل میں اس بات کی احتیاط رکھے کہ اس کی کسی نقل وحرکت یا کسی انداز سے کسی دوسرے کو کسی بھی قسم کی جسمانی ، ذہنی ، نفسیاتی یا مالی تکلیف نہ پہنچے ۔
اوپر جو حدیث لکھی گئی ہے کہ اس میں دو نکتے قابلِ ذکر ہیں ۔ اوّل تو اس حدیث میں ہاتھ اور زبان کا بطور خاص ذکر کیاگیا ہے ۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہاتھ اور زبان کے سوا کسی اور ذریعے سے تکلیف پہنچاناجائز ہے ، ظاہر ہے کہ اصل مقصد ہر قسم کی تکلیف پہنچانے سے روکنا ہے ، لیکن چونکہ زیادہ تر تکلیفیں ہاتھ اور زبان سے پہنچتی ہیں ، اس لئے ان کابطورِ خاص ذکر کیا گیا ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ زبان اور ہاتھ سے دوسرے ، مسلمان محفوظ رہیں ۔ اس کا بھی یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی غیر مسلم کو تکلیف پہنچانا جائز ہے ۔ چونکہ بات ایک اسلامی معاشرے کی ہورہی ہے جس میں زیادہ تر واسطہ مسلمان ہی سے پڑتا ہے ، اس لئے "مسلمان”کا ذکر بطور خاص کردیا گیا ہے ، ورنہ قرآن وحدیث کے دوسرے ارشادات کی روشنی میں یہ اصول تمام فقہاء کے نزدیک مسلم ہے کہ جو غیر مسلم افراد کسی اسلامی ملک میں امن کے ساتھ قانون کے مطابق رہتے ہوں ، بیشتر معاشرتی احکام میں ان کوبھی وہی حقوق حاصل ہوتے ہیں جو ملک کے مسلمان باشندوں کو حاصل ہیں ، لہٰذا جس طرح کسی مسلمان کو کوئی ناروا تکلیف پہنچانا حرام ہے ، اسی طرح مسلمان ملک کے کسی غیر مسلم باشندے کو بھی ناحق تکلیف دینا حرام وناجائز ہے ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں دوسروں کو تکلیف سے بچانے کی کس قدر اہمیت تھی ؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ جُمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے ، اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک صاحب اگلی صفوں تک پہنچنے کے لئے لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ منظر دیکھ کر خطبہ روک دیا ، اور اُن صاحب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : بیٹھ جاؤ ، تم نے لوگوں کو اذیت پہنچائی ہے ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی مسجد کی پہلی صف میں نماز پڑھنے کی بڑی فضیلت بیان فرمائی ہے ، بلکہ یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ پہلی صف میں کتنا اجر وثواب ہے تو وہ گھٹنوں کے بل آنے سے بھی گریز نہ کریں ، لیکن یہ ساری فضیلت اسی وقت تک ہے جب تک پہلی صف میں پہنچنے کے لئے کسی دوسرے کو تکلیف دینی نہ پڑے ، لیکن اگر اس سے کسی کو تکلیف پہنچنے لگے تو یہ اصول سامنے رکھنا ضروری ہے کہ پہلی صف تک پہنچنا مستحب ہے ، اور دوسروں کو تکلیف سے بچانا واجب ہے ، لہٰذا ایک مستحب کی خاطر کسی واجب کو چھوڑا نہیں جاسکتا ۔
مسجدِ حرام میں طواف کرتے ہوئے حجر اسود کو بوسہ دینا بہت اجر وثواب رکھتا ہے ، اور احادیث میں اس کی نجانے کتنی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں ، لیکن ساتھ ہی تاکید یہ ہے کہ اس فضیلت کے حصول کی کوشش اسی صورت میں کرنی چاہئے جب اس سے کسی دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے ، چنانچہ دھکا پیل اور دھینگا مُشتی کرکے حجر اسود تک پہنچنے کی کوشش کرنا نہ صر ف یہ کہ ثواب نہیں ہے بلکہ اس سے الٹا گناہ ہونے کا اندیشہ ہے ، اگر کسی شخص کو تمام عمر حجر اسود کا بوسہ نہ مل سکے تو ان شاء اللہ اس سے یہ باز پرس نہیں ہوگی کہ تم نے حجر اسود کا بوسہ کیوں نہیں لیا؟لیکن اگر بوسے لینے کے لئے کسی کمزور شخص کو دکھا دے کر تکلیف پہنچادی تو یہ ایسا گناہ ہے جس کی معافی اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک وہ شخص معاف نہ کردے ۔
غرض اسلام نے اپنی تعلیمات میں قدم قدم پر اس بات کا خیال رکھا ہے کہ ایک انسان دوسرے کے لئے تکلیف کا باعث نہ بنے ، اسلام کی بیشتر معاشرتی تعلیمات اسی محور کے گرد گھومتی ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ

تما م عمر اسی احتیاط میں گذری
یہ آشیاں کسی شاخِ چمن پہ بار نہ ہو

یہ شعر قلم پر آیا تو ذہن میں ایک عجیب واقعے کی یاد تازہ ہوگئی ، میرے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ (جن کی تفسیر معارف القرآن آج ایک عالم کو سیراب کررہی ہے) رمضان ۱۳۹۶ھ میں سخت بیمار اور صاحبِ فراش تھے ، پورا رمضان بیماریوں کے عالم میں گذرا ، رمضان کے آخر عشرے میں ایک روز فرمانے لگے :” میرا حال بھی عجیب ہے ، لوگ رمضان میںمرنے کی تمنا کرتے ہیں ، اور اس مقدس مہینے کی برکتوں کے پیشِ نظر خواہش مجھے بھی یہ ہوئی کہ موت تو آنی ہی ہے ، اسی مقدس مہینے میں آجائے ۔ لیکن میں کیاکروں کہ اس کے لئے دُعا میری زبان پر نہ آسکی ۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی میں یہ دُعا کرنا چاہتا ذہن میں خیال آتا کہ اگر رمضان کے مہینے میں میری موت کا واقعہ پیش آیا تو میرے عزیزوں اور دوستوں کو بہت تکلیف ہوگی ۔صدمے کے علاوہ روزے کے عالم میں تجہیز وتکفین اور تدفین کے انتظام میں معمول سے کہیں زیادہ مشقت بڑھ جائے گی ، اور اس بات پر دل آمادہ نہیں ہوتا کہ اپنی خواہش کی خاطر اپنے چاہنے والوں کو تکلیف میں ڈالاجائے "یہ کہہ کر انہوں نے یہ شعر پڑھا ؎

تما م عمر اسی احتیاط میں گذری
یہ آشیاں کسی شاخِ چمن پہ بار نہ ہو
۱۷؍شعبان ۱۴۱۴ ھ ۳۰؍جنوری ۱۹۹۴ ء

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ – رجب المرجب 1442 ھ)