خطاب: حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم

استخارہ کا مسنون طریقہ
(دوسری قسط)

حضرت موسی علیہ السلام کا ایک واقعہ
میرے شیخ حضرت ڈاکٹر عبدالحئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مرتبہ ایک واقعہ سنایا ۔ یہ واقعہ میں نے انہیں سے سنا ہے ، کہیں کتاب میں نظر سے نہیں گزرا لیکن کتابوں میں کسی جگہ ضرور منقول ہوگا۔ وہ یہ ہے کہ جب موسی علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کے لئے کوہ طورپر تشریف لے جارہے تھے تو راستے میں ایک شخص نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ حضرت ! آپ اللہ تعالیٰ سے ہم کلا م ہونے کے لئے تشریف لے جارہے ہیں ، آپ کو اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوگا اور اپنی خواہشات ، اپنی تمنائیں اور اپنی آرزوئیں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کرنے کا اس سے زیادہ اچھا موقع اور کیا ہوسکتا ہے ، اس لئے جب آپ وہاں پہنچیں تو میرے حق میں بھی دعا کردیجئے گا ۔ کیونکہ میری زندگی میں مصیبتیں بہت ہیں اور میرے اوپر تکلیفوں کا ایک پہاڑ ٹوٹا ہوا ہے ، فقر وفاقہ کا عالم ہے اور طرح طرح کی پریشانیوں میں گرفتار ہوں ۔ میرے لئے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کیجئے گا کہ اللہ تعالیٰ مجھے راحت اور عافیت عطافرمادیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے وعدہ کرلیا کہ اچھی بات ہے ، میں تمہارے لئے دعا کروں گا۔
جاؤ ہم نے اس کو زیادہ دے دی
جب کوہ طور پر پہنچے تو اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے ۔ ہم کلامی کے بعد آپ کو وہ شخص یاد آیا جس نے دعا کے لئے کہا تھا ۔ آپ نے دعا کی یا اللہ ! آپ کا ایک بندہ ہے جو فلاں جگہ رہتا ہے ، اس کا یہ نام ہے ، اس نے مجھ سے کہا تھا کہ جب میں آپ کے سامنے حاضر ہوں تو اس کی پریشانی پیش کردوں ۔یا اللہ ! وہ بھی آپ کا بندہ ہے ، آپ اپنی رحمت سے اس کو راحت عطافرمادیجئے تاکہ وہ آرام اور عافیت میں آجائے اور اس کی مصیبتیں دور ہوجائیں اور اس کو بھی اپنی نعمتیں عطافرمادیں۔اللہ تعالیٰ نے پوچھا کہ اے موسیٰ ! اس کو تھوڑی نعمت دوں یا زیادہ دوں ؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سوچا کہ جب اللہ تعالی سے مانگ رہے ہیں تو تھوڑی کیوں مانگیں ۔ اس لئے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے فرمایا کہ یا اللہ ! جب نعمت دینی ہے تو زیادہ ہی دے دیجئے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جاؤ ہم نے اس کو زیادہ دے دی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام مطمئن ہوگئے ۔اس کے بعد کوہ طوپر جتنے دن قیام کرنا تھا قیام کیا ۔
ساری دنیا بھی تھوڑی ہے
جب کوہ طور سے واپس تشریف لے جانے لگے توخیال آیا کہ جاکر ذرا اس بندہ کا حال دیکھیں کہ وہ کس حال میں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے حق میں دعا قبول فرمالی تھی ۔ چنانچہ اس کے گھر جاکر دروازے پر دستک دی تو ایک دوسراشخص باہر نکلا۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے فلاں شخص سے ملاقات کرنی ہے۔اس نے کہا کہ اس کا تو کافی عرصہ ہو اانتقال ہوچکا ہے ۔آپ نے پوچھا کہ کب انتقال ہوا ؟ اس نے کہ فلاح دن اور فلاں وقت انتقال ہوا۔ حضرت موسیٰ علیہ اسلام نے اندازہ لگا یا کہ جس وقت میں نے اس کے حق میں دعا کی تھی اس کے تھوڑی ہی دیر بعداس کا انتقال ہواہے ۔اب موسیٰ علیہ اسلام بہت پریشان ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ یا اللہ ! یہ بات میر ی سمجھ میں نہیں آئی میں نے اس کے لئے عافیت اور راحت مانگی تھی اور نعمت مانگی تھی ، مگر آپ نے اس کی زندگی ختم کردی؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے تم پوچھا تھا کہ تھوڑی نعمت دیں یا زیادہ دیں ؟ تم نے کہا تھا زیادہ دیں ، اگر ہم ساری دنیا بھی اٹھاکر دے دیتے تب بھی تھوڑی ہی ہوتی اور اب ہم نے اس کو آخرت اور جنت کی جو نعمتیں دی ہیں ان پر واقعی یہ بات صادق آتی ہے کہ وہ زیادہ نعمتیں ہیں ، دنیا کے اندر زیادہ نعمتیں اس کو مل ہی نہیں سکتی تھی ، لہٰذا ہم نے اس کو آخرت کی نعمتیں عطافرمادیں۔
یہ انسان کس طرح اپنی محدود عقل سے اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ وہی جانتے ہیں کہ کس بندے کے حق میں کیا بہتر ہے ۔ اور انسان صرف ظاہر میں چند چیزوں کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ سے شکوہ کرنے لگتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کو بُرا ماننے لگتا ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلہ کوئی نہیں کرسکتا کہ کس کے حق میں کیا بہتر ہے ۔
استخارہ کرنے کے بعد مطمئن ہوجاؤ
اسی وجہ سے اس حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما فرمارہے ہیں کہ جب تم کسی کام کا استخارہ کرچکو تو اس کے بعد اس پر مطمئن ہوجاؤ کہ اب اللہ تعالیٰ جو بھی فیصلہ فرمائیں گے وہ خیر ہی کا فیصلہ فرمائیں گے ، چاہے وہ فیصلہ ظاہر نظر میں تمہیں اچھا نظر نہ آرہا ہو، لیکن انجام کے اعتبار سے وہی بہتر ہوگا۔ اور پھر اس کا بہتر ہونا یا تو دینا ہی میں معلوم ہوجائے گا ورنہ آخرت میں جاکر تو یقیناً معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے جو فیصلہ کیا تھا وہی میرے حق میں بہتر تھا۔
استخارہ کرنے والا ناکام نہیں ہوگا
ایک اور حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَاخَابَ مَنِ اسْتَخَارَ وَلَانَدِمَ مَنِ اسْتَشَارَ (مجمع الزوائد : جلد ۸ صفحہ ۹۶)

یعنی جو آدمی اپنے معاملات میں استخارہ کرتا ہو وہ کبھی ناکام نہیں ہوگا اور جو شخص اپنے کاموں میں مشورہ کرتا ہو وہ کبھی نادم اور پشیمان نہیں ہوگا کہ میں نے یہ کا م کیوں کرلیا یا میں نے یہ کام کیوں نہیں کیا ، اس لئے کہ جو کام کیا وہ مشورہ کے بعد کیا اور گر نہیں کیا تو مشورہ کے بعد نہیں کیا ، اسی وجہ سے وہ نادم نہیں ہوگا ۔ اس حدیث میں یہ جو فرمایا کہ استخارہ کرنے والا ناکام نہیں ہوگا ، مطلب اس کا یہی ہے کہ انجام کا ر استخارہ کرنے والے کو ضرور کامیابی ہوگی ، چاہے کسی موقع پر اس کے دل میں یہ خیال بھی آجائے کہ جو کام ہوا وہ اچھا نہیں ہو ا، لیکن اس خیال کے آنے کے باوجود کامیابی اسی شخص کو ہوگی ، جو اللہ تعالی سے استخارہ کرتا ہے ۔ اور جو شخص مشورہ کرکے کام کرے گا وہ پچھتائے گا نہیں ، اس لئے کہ بالفرض اگر وہ کام خراب بھی ہوگیا تو اس کے دل میں اس بات کی تسلی موجود ہوگی کہ میں نے یہ کام اپنی خود رائی سے اور اپنے بل بوتے پر نہیں کیا بلکہ اپنے دوستوں سے اور بڑوں سے مشورہ کے بعد یہ کام کیا تھا ، اب آگے اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے کہ وہ جیسا چاہیں فیصلہ فرمادیں ۔ اس لئے اس حدیث میں دوباتوں کا مشورہ دیا ہے کہ جب بھی کسی کام میں کشمکش ہو تو دو کام کرلیا کرو، ایک استخارہ اور دوسرے استشارہ یعنی مشورہ ۔
جاری ہے …..
٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ – شعبان المعظم 1436 ھ)