خطاب: حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم

استخارہ کا مسنون طریقہ
(پہلی قسط)

الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ اما بعد!
عن مکحول الازدی رحمہ اللہ تعالیٰ قال: سمعت ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ یقول : ان الرجل یستخیر اللہ تبارک وتعالیٰ فیختار لہ، فیسخط علی ربہ عزوجل، فلایلبث ان ینظر فی العاقبۃ فاذاھوخیرلہ(کتاب الزہدلابن مبارک ، زیادات الزھد لنعیم بن حماد ، باب فی الرضا بالقضاء ص ۳۲)

حدیث کا مطلب
یہ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما کاایک ارشاد ہے ۔ فرماتے ہیں کہ بعض اوقات انسان اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرتا ہے کہ جس کام میں میرے لئے خیر ہووہ کام ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے وہ کام اختیار فرمادیتے ہیں جو اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے ، لیکن ظاہری اعتبار سے وہ کام اس بندہ کی سمجھ میں نہیں آتا تو وہ بندہ اپنے پروردگار پر ناراض ہوتا ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے تو یہ کہاتھا کہ میرے لئے اچھاکام تلاش کیجئے، لیکن جو کام ملا وہ تومجھے اچھا نظر نہیں آرہا ہے ، اس میں تو میرے لئے تکلیف اور پریشانی ہے ۔ لیکن کچھ عرصہ کے بعد جب انجام سامنے آتا ہے تب اس کو پتہ چلتا ہے کہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ نے میرے لئے جو فیصلہ کیا تھا وہی میرے حق میں بہترتھا۔ اس وقت اس کو پتہ نہیں تھا اور یہ سمجھ رہا تھا کہ میرے ساتھ زیادتی اور ظلم ہوا ہے ، اور اللہ تعالیٰ کے فیصلے کا صحیح ہونا بعض اوقات دنیا میں ظاہر ہوجاتا ہے اور بعض اوقات آخرت میں ظاہر ہوگا۔
اس روایت میں چند باتیں قابل ذکر ہیں ، ان کو سمجھ لینا چاہیے۔ پہلی بات یہ ہے کہ جب کوئی بندہ اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے خیر کا فیصلہ فرمادیتے ہیں ۔ استخارہ کسے کہتے ہیں؟اس بارے میں لوگوں کے درمیان طرح طرح کی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ، عام طورپر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ "استخارہ” کرنے کاکوئی خاص طریقہ اور خاص عمل ہوتا ہے ، اس کے بعد کوئی خواب نظرآتا ہے اور اس خواب کے اندرہدایت دی جاتی ہے کہ فلاں کام کرویانہ کرو۔ خوب سمجھ لیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے "استخارہ” کا جو مسنون طریقہ ثابت ہے اس میں اس قسم کی کوئی بات موجود نہیں ۔
استخارہ کا طریقہ اور اس کی دعا
"استخارہ” کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ آدمی دورکعت نفل استخارہ کی نیت سے پڑھے۔ نیت یہ کرے کہ میرے سامنے دوراستے ہیں ، ان میں سے جو راستہ میرے حق میں بہتر ہو، اللہ تعالیٰ اس کا فیصلہ فرمادیں۔پھر دورکعت پڑھے اور نماز کے بعد استخارہ کی وہ مسنون دعاپڑھے جو حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمائی ہے ۔ یہ بڑی عجیب دعاہے ، پیغمبر ہی یہ دعامانگ سکتا ہے اور کسی کے بس کی بات نہیں،اگرانسان ایڑی چوٹی کا زور لگالیتا تو بھی ایسی دعا نہ کرسکتا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمائی۔ وہ دعا یہ ہے :

اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَاَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَاَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ ، فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَااَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلَااَعْلَمُ ، وَاَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ ، اَللّٰہُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ھٰذَاالْاَمْرَ خَیْرٌلِیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعِیْشَتِیْ وَعَاقِبَۃَ اَمْرِیْ اَوْقَالَ فِیْ عَاجِلِ اَمْرِیْ وَآجِلِہٖ فَیَسِّرْہُ لِیْ ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ وَاِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ھٰذَالْاَمْرَ شَرٌّلِیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعِیْشَتِیْ وَعَاقِبَۃِ اَمْرِیْ اَوْقَالَ فِیْ عَاجِلِ اَمْرِیْ وَآجِلِہٖ فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ وَاقْدِرْ لِیْ اْلخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ ارْضِنِیْ بِہٖ(ترمذی کتاب الصلوۃ باب ماجاء فی صلاۃ الاستخارۃ)

دعا کا ترجمہ:”اے اللہ ! میں آپ کے علمکا واسطہ دے کر آپ سے خیر طلب کرتا ہوں اور آپ کی قدرت کا واسطہ دے کر میں اچھائی پر قدرت طلب کرتا ہوں ، آپ غیب کو جاننے والے ہیں ۔ اے اللہ ! آپ علم رکھتے ہیں ،میں علم نہیں رکھتا۔ یعنی یہ معاملہ میرے حق میں بہتر ہے یا نہیں ، اس کا علم آپ کو ہے مجھے نہیں ۔ اور آپ قدرت رکھتے ہیں اور میرے اندر قدرت نہیں ۔یااللہ ! اگر آپ کے علم میں ہے کہ یہ معاملہ (اس موقع پر اس معاملہ کا تصور دل میں لائے جس کے لئے استخارہ کررہا ہے ) میرے حق میں بہتر ہے ، میرے دین کے لئے بھی بہتر ہے ،میری معاش اور دنیا کے اعتبار سے بھی بہتر ہے تو اس کو میرے لئے مقدر فرمادیجئے اور اس کو میرے لئے آسان فرمادیجئے اور اس میں میرے لئے برکت پیدا فرمادیجئے ۔اور اگر آپ کے علم میںیہ بات ہے کہ یہ معاملہ میرے حق میں بُرا ہے ، میرے دین کے حق میں بُرا ہے یا میری دنیا اور معاش کے حق میں بُرا ہے یا میرے انجام کار کے اعتبار سے بُرا ہے تو اس کا م کو مجھ سے پھیردیجئے اور مجھے اس سے پھیر دیجئے ، اور میرے لئے خیر مقدر فرمادیجئے جہاں بھی ہو۔یعنی اگر یہ معاملہ میرے لئے بہتر نہیں ہے تو اس کو تو چھوڑدیجئے اور اس کے بدلے جوکام میرے لئے بہتر ہواس کو مقدر فرمادیجئے ، پھر مجھے اس پر راضی بھی کردیجئے اور اس پر مطمئن بھی کردیجئے”۔

دورکعت نفل پڑھنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرلی تو بس استخارہ ہوگیا۔
استخارہ کا کوئی وقت مقرر نہیں
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ استخارہ ہمیشہ رات کو سوتے وقت ہی کرناچاہیے یا عشاء کی نماز کے بعد ہی کرناچاہیے۔ ایسا کوئی ضروری نہیں ، بلکہ جب بھی موقع ملے اس وقت یہ استخارہ کرلے ۔ نہ رات کی کوئی قید ہے ، اور نہ دن کی کوئی قید ہے نہ سونے کی کوئی قید ہے اور نہ جاگنے کی کوئی قیدہے ۔
خواب آنا ضروری نہیں
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ استخارہ کرنے کے بعد خواب آئے گا اور خواب کے ذریعہ ہمیں بتایاجائے گا کہ یہ کام کرو یا نہ کرو۔ یادرکھئے! خواب آنا کوئی ضروری نہیں کہ خواب میں کوئی بات ضرور بتائی جائے یا خوا ب میں کوئی اشارہ ضروردیا جائے ، بعض مرتبہ خواب میں آجاتا ہے اور بعض مرتبہ خواب میں نہیں آتا۔
استخارہ کا نتیجہ
بعض حضرات کا کہنا یہ ہے کہ استخارہ کرنے کے بعد خود انسان کے دِل کارجحان ایک طرف ہوجاتا ہے ، بس جس طرف رجحان ہوجائے وہ کام کرلے ، اور بکثرت ایسا رجحان ہوجاتا ہے ۔لیکن بالفرض اگر کسی ایک طرف دل میں رجحان نہ بھی ہو بلکہ دل میں کشمکش موجود ہوتو بھی استخارہ کا مقصد پھر بھی حاصل ہے ، اس لئے کہ بندہ کے استخارہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ وہی کرتے ہیں جو اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے۔اس کے بعد حالات ایسے پیدا ہوجاتے ہیں کہ پھر وہی ہوتا ہے جس میں بندے کے لئے خیر ہوتی ہے اور اس کو پہلے سے پتا بھی نہیں ہوتا۔ بعض اوقات انسان ایک راستے کو بہت اچھا سمجھ رہا ہوتا ہے لیکن اچانک رکاوٹیں پیداہوجاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کو اس بندے سے پھیر دیتے ہیں ۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ استخارہ کے بعد اسباب ایسے پید افرمادیتے ہیں کہ پھر وہی ہوتا ہے جس میں بندے کے لئے خیر ہوتی ہے ۔ اب خیر کس میں ہے ؟ انسان کو پتہ نہیں ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ فیصلہ فرمادیتے ہیں ۔
تمہارے حق میں یہی بہترتھا
اب جب وہ کام ہوگیا تو اب ظاہری اعتبار سے بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ جو کام ہوا وہ اچھا نظر نہیں آرہا ہے ، دل کے مطابق نہیں ہے ، تو اب بندہ اللہ تعالیٰ سے شکوہ کرتا ہے کہ یااللہ ! میں نے آپ سے مشورہ اور استخارہ کیا تھا مگر کام وہ ہوگیا جو میری مرضی اور طبیعت کے خلاف ہے اور بظاہر یہ کام اچھا معلوم نہیں ہورہا ہے ۔اس پر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرمارہے ہیں کہ ارے نادان! تواپنی محدود عقل سے سوچ رہا ہے کہ یہ کام تیرے حق میں بہتر نہیں ہوا، لیکن جس کے علم میں ساری کائنات کا نظام ہے ، وہ جانتا ہے کہ تیرے حق میں کیا بہترتھا اور کیابہتر نہیں تھا ، اس نے جو کیا وہی تیرے حق میں بہترتھا۔بعض اوقات دنیا میں تجھے پتہ چل جائے گا کہ تیرے حق میں کیا بہترتھا اور بعض اوقات پوری زندگی میں کبھی پتہ نہیں چلے گا، جب آخرت میں پہنچے گا تب وہاں جاکر پتہ چلے گا کہ واقعۃً یہی میرے لئے بہتر تھا ۔
تم بچے کی طرح ہو
اس کی مثال یوں سمجھیں جیسے ایک بچہ ہے جو ماں باپ کے سامنے مچل رہا ہے کہ فلاں چیز کھاؤں گااور ماں باپ جانتے ہیں کہ اس وقت بچے کا یہ چیز کھانابچے کے لئے نقصان دہ ہے اور مہلک ہے ۔ چنانچہ ماں باپ بچے کو وہ چیز نہیں دیتے ، اب بچہ اپنی نادانی کی وجہ سے یہ سمجھتا ہے کہ میرے ماں باپ نے میرے ساتھ ظلم کیا ، میں جو چیز مانگ رہا تھا وہ چیز مجھے نہیں دی اور اس کے بدلے میں مجھے کڑوی کڑوی دواکھلارہے ہیں ۔ اب وہ بچہ اس دوا کو اپنے حق میں خیر نہیں سمجھ رہا ہے لیکن بڑا ہونے کے بعد جب اللہ تعالیٰ اس بچے کو عقل اور فہم عطافرمائیں گے اور اس کو سمجھ آئے گی تو اس وقت اس کو پتہ چلے گا کہ میں تو اپنے لئے موت مانگ رہا تھا اور میرے ماں باپ میرے لئے زندگی اور صحت کا راستہ تلاش کررہے تھے۔ اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں پر ماں باپ سے زیادہ مہربان ہیں ، اس لئے اللہ تعالیٰ وہ راستہ اختیار فرماتے ہیں جو انجام کاربندہ کے لئے بہتر ہوتا ہے ۔اب بعض اوقات اس کا بہتر ہونا دنیا میں پتہ چل جاتا ہے اور بعض اوقات دنیا میں پتہ نہیں چلتا۔
جاری ہے …..
٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ – رجب المرجب 1436 ھ)