حضرت مولانامفتی محمد تقی عثمانی صاحب

عالم اسلام کی دو عظیم علمی شخصیتیں
شیخ صدیق الضریر ؒ اور شیخ وھبۃ الزحیلیؒ
حمدوستائش اس ذات کے لئے ہے جس نے اس کارخانۂ عالم کو وجود بخشا
اور
درود و سلام اس کے آخری پیغمبرپر جنہوں نے دنیا میں حق کا بول بالا کیا

الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی رسولہ الکریم وعلی آلہ وأصحابہ أجمعین

رمضان المبارک اور شوال کے دوران شرق اوسط کی دو انتہائی مایۂ ناز علمی شخصیتوں کی وفات کا سانحہ پیش آیا۔ ۱۸ رمضان المبارک۵؍جولائی ۲۰۱۵ ؁ ء کو حضرت شیخ صدیق محمد امین الضریررحمۃ اللہ علیہ کی وفات کی اطلاع ملی ،اور میں اُن کے بارے میں اپنے تأثرات لکھنے کاارادہ کرہی رہا تھا کہ۲۲؍شوال۸؍ اگست ۲۰۱۵؁ئ)کو عالم اسلام کے معروف اور کثیر التالیف عالم اور ہمارے بہترین دوست شیخ وہبہ زحیلی رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات کی خبر دل پر بجلی سی گراگئی ۔
یوں تو کسی بھی عالم کی وفات امت کا بڑا نقصان ہوتی ہے ، اور ہر عالم کی وفات پر افسوس طبعی امر ہے ، لیکن ان دونوں بزرگوں سے اس ناکارہ کا جو خصوصی تعلق تھا ، اُس کی بنا پر ان کی وفات سے ایسا محسوس ہوا جیسے خاندان کا کوئی قریبی رشتہ دار داغ مفارقت دے گیا ہو۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
شیخ صدیق الضریر رحمۃ اللہ علیہ سوڈان سے تعلق رکھتے تھے ، اور اگرچہ برصغیر پاک وہند میں زیادہ مشہور نہیں تھے ، لیکن عرب ممالک میں ان کے علمی اور خاص طورپر فقہی مقام بلند کا بڑا شہرہ تھا ۔
میں نے پہلی بار اُن کا نام صفر ۱۴۰۵؁ ء (مطابق نومبر ۱۹۸۴؁ئ) میں اُس وقت سنا جب مجمع الفقہ الاسلامی الدولی کا پہلا عملی اجلاس مکہ مکرمہ میں ہورہا تھا، اور اُس میں مجمع کے دستورکو آخری شکل دی گئی ، اور اُس میں یہ طے کیا گیا کہ اسلامی ملکوں کے رسمی نمائندوں کے علاوہ کچھ حضرات کو ان کے علمی مقام کے لحاظ سے بھی مجمع کی مجلس کا رکن بنایا جائیگا ۔ اس موقع پر جن حضرات کے نام آئے ، اُن میں شیخ صدیق الضریر کا نام بھی پیش ہوا، اورعرب ملکوں کے ارکان نے اُس کی بڑھ چڑھ کر تائید کی۔ جب مجمع کا اگلا اجلاس ۱۹۸۵؁ء (۱۴۰۶ھ)میں جدہ میں منعقد ہوا ، تو اُس وقت وہ تشریف لائے ، اور اُن کا بڑی گرمجوشی سے استقبال کیا گیا۔مسائل پر بحث کا وقت آیا، تو اُن کی جچی تُلی تقریروں سے میں بڑا متأثر ہوا، اور اُس کے بعد اُن سے بے تکلفی کی حد تک محبت آمیز تعلقات قائم ہوگئے ۔ اُن کے مقالات کو میں غور سے پڑھتا ، اور مجمع میں اُن کی بحثوں کو خصوصی توجہ سے سُنا جاتا۔ پھر جب قرارات کی تسوید کا وقت آتا ، اور اُس کے لئے خاص خاص ارکان پر مشتمل کمیٹیاں بنائی جاتیں ، تو بکثرت اُن کمیٹیوں میں بھی اُن سے استفادے کا موقع ملتا تھا، اور ہربار فقہ پر اُن کی گہری نظر کا اندازہ ہوتا تھا ۔ وہ اصلاً مالکی تھے ، لیکن دوسرے مذاہب پر بھی اُن کی نظر کافی وسیع تھی ، اور جدید مسائل میں وہ ہرمذہب سے استفادہ کرتے تھے۔ انہوں نے قدیم طرز کے مشائخ سے بھی علم حاصل کیا تھا ،اور فقہی مسائل پر ان کی گرفت بڑی مضبوط تھی۔ ان کے والد شیخ محمد الامین خود بڑے عالم تھے ، اور اُن کے دادا ترکی خلافت کے زمانے میں سوڈان کے شیخ العلماء رہ چکے تھے ، اس کے علاوہ انہوں نے خرطوم یونیورسٹی سے شرعی قانون کا ڈپلوما اور جامعۃ القاہرہ سے قانون میں گریجویشن کی ڈگری بھی حاصل کی ، اور بعد میں اسی یونیورسٹی سے ۱۹۶۷؁ ء میں ڈاکٹریٹ بھی کیا۔انگریزی بھی وہ اچھی خاصی سمجھتے تھے۔ان کا وہ فقہی کارنامہ جس نے اُنہیں زیادہ شہرت دی، وہ انکی کتاب "الغررُ وأثرہ فی العقود” ہے جس میں اُنہوں نے فقہ کی اصطلاح "غرر” کا تفصیلی جائزہ لیا ہے ، اور مختلف عقود میں اُس کے اثرات پر بڑی فاضلانہ بحثیں کی ہیں، اسی کتاب پر اُنہیں شاہ فیصل ایوارڈبھی دیا گیا تھا۔
ان کی پیدائش ۱۹۱۸؁ء کی تھی ، اس لحاظ سے جب میری اُن سے پہلی ملاقات ہوئی تو وہ ۶۷سال کے تھے، لیکن ماشاء اللہ قویٰ بڑے مضبوط تھے ، اور علمی مجلسوں میں انتھک کام کرنے کے عادی تھے ۔ اپنے علمی مقام کے باوجود اُن میں تواضع کا وصف نمایاں تھا ۔وہ نہایت وضع دار بزرگ تھے ، اور ہمیشہ سوڈانی لباس اور عمامے میں اپنے دراز قد کے ساتھ محفل میں نمایاں رہتے تھے۔ میں عمر، علم ، تجربے ہر اعتبار سے اُن سے کہیں فروتر تھا ، لیکن وہ ہمیشہ میرے ساتھ دوستوں جیسا معاملہ فرماتے تھے ، اور میری گزارشات پر غور بھی فرماتے تھے ۔ مجھے سب سے زیادہ تردد اُس وقت ہوا ، جب بحرین کی "المجلس الشرعی” میں مجھے صدر منتخب کیا گیا ، جبکہ شیخ صدیق رحمۃ اللہ علیہ بھی اُس کے رکن رکین تھے ، میں نے یہ عذر بھی کیا کہ جس مجلس میں شیخ صدیق ، شیخ وہبہ زحیلی ، شیخ عبداللہ بن منیع جیسے حضرات موجود ہوں جو نہ صرف علم ، بلکہ عمرمیں بھی مجھ سے کہیں زیادہ ہیں ، اُس مجلس کی صدارت کا میں بالکل اہل نہیں ۔ لیکن سب حضرات نے باتفاق یہ فیصلہ برقرار رکھا ، تو میں اس پر مجبور ہوگیا ، پھر سالہا سال شیخ صدیق الضریر ؒ پوری دلچسپی ، محنت اور اہتمام کے ساتھ "المجلس الشرعی” کے تمام اجلاسات میں نہ صرف شریک ہوتے ، بلکہ فعال کردار ادا کرتے تھے۔ جدید فقہی مباحث میں اہل علم کا اختلاف رائے نہ بعید ہے ، نہ مذموم ، چنانچہ بہت سے مسائل میں اُن سے اختلاف بھی ہوتا ،لیکن وہ بڑی کشادہ دلی اور وسعت ظرفی کے ساتھ اختلاف کو برداشت کرتے۔مجلس کے دوسرے اعضاء کے ساتھ بحث کی گرما گرمی میں کبھی کبھی مجھے بحیثیت صدراُن سے کسی خاص حد پر رک جانے کی درخواست بھی کرنی پڑتی تھی، لیکن ان تمام باتوں سے کبھی تعلقات میں ذرہ برابر بال نہیں آیا ۔سفروں میں بھی بعض اوقات ان کی رفاقت میسر آئی، ایک مرتبہ ہم نے عمرہ بھی ساتھ کیا ، وہ میرے لئے ہمیشہ سراپا شفقت ومحبت بنے رہے۔ جب کبھی میں اُن سے اپنے اکابر علمائے دیوبند کا ذکر کرتا ، یا اُن کی کوئی علمی یا اصلاحی بات نقل کرتا، تووہ توجہ سے سنتے ، اور اُس کی قدر فرماتے تھے۔ میں سوڈان دو مرتبہ گیا ، میرا قیام تو کہیں اور تھا ، لیکن اُنہوں نے اپنی شان کے مطابق میزبانی فرمائی۔
مجمع الفقہ الاسلامی اور المجلس الشرعی کے اجلاسات کی وجہ سے اُن سے تیسرے چوتھے مہینے ضرور ملاقات ہوجایا کرتی تھی ، بلکہ مجھے ان کی قوت ایمانی پر حیرت ہوتی تھی کہ وہ کس طرح اس عمر میں بڑے بڑے سفروں اور طویل طویل مجلسوں کی محنت برداشت کرتے ہیں ۔ لیکن رفتہ رفتہ عمر کا ضعف غالب آنے لگا ، ان کی عمر نوے سال سے متجاوز ہوچکی تھی ،اس لئے ان اجتماعات میں اُن کی حاضری رفتہ رفتہ کم ہوگئی ، اور آخر میں ان کا کہنا یہ تھا کہ میں مدینہ منورہ کے سوا کہیں اور سفر نہیں کرسکتا ، لہٰذا اگر میری شرکت مطلوب ہو تو اجتماع مدینہ منورہ میں رکھا جائے ۔ ان کی اس خواہش پر بقدر امکان عمل بھی کیا گیا، لیکن تقریباً تین سال سے اُنہوں نے سفر بالکل بند کردیا ۔ ان کے فاضل شاگرد ڈاکٹر احمد علی عبداللہ المجلس الشرعی کے اجلاسوں میں آتے ، تو اُن سے ہربار بڑھتے ہوے ضعف کا علم ہوتا رہتا تھا ، اور آخر کار جب ان کی عمر ستانوے سال ہوچکی تھی ، تو ان کا وہ وقت موعود آپہنچا جس سے کسی کو مفر نہیں ۔۱۸؍ رمضان۱۴۳۶؁ھ کو مجھے ٹیلی فون کے ایک پیغام کے ذریعے اطلاع ملی کہ وہ اپنے مالک حقیقی کے پاس پہنچ گئے ہیں ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اُن کی مکمل مغفرت فرماکر اُنہیں اپنی رحمت کے شایان شان مقامات قرب عطا فرمائیں ۔ آمین ، ثم آمین۔
شیخ وہبہ زحیلی ؒ
دوسرے بزرگ جن کی وفات کی اطلاع ابھی چند دن پہلے(۲۲؍شوال۱۴۳۶؁ھ) کو ملی ، شیخ وہبہ زحیلی رحمۃ اللہ علیہ ہیں ۔ وہ اپنی فاضلانہ کتاب "الفقہ الإسلامی وأدلتہ "کی وجہ سے بر صغیر سمیت پورے عالم اسلام میں مشہور تھے، اور انہیں ہرجگہ بجا طورپر نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔جب کبھی اسلامی دنیا میں عالمی سطح پر کسی فقہی اجتماع کی تجویز ہوتی ، تو ممکن نہیں تھا کہ شیخ وہبہ زحیلیؒ کو اُس میں مدعو کرنے کا خیال نہ آئے۔عربی زبان میں کثرت تالیف اور سرعت تالیف میں شاید اس وقت اُن کا کوئی ثانی نہیں تھا ۔
وہ ۱۹۳۲ئ؁ میں دمشق کے قریب ایک بستی دیر عطیہ میں پیدا ہوئے ، ابتدائی تعلیم دمشق کے مدارس ابتدائیہ وثانویہ میں حاصل کی ، اور ہر درجے میں ممتاز رہے ۔پھر اعلیٰ تعلیم کے لئے جامعۃ الأزہر گئے ، اور وہاں علوم شریعت میں پہلے عالمیہ اور پھر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔اس کے علاوہ اپنے عہد کے جلیل القدر مشائخ سے بھی پرائیویٹ طورپر استفادہ کیا ، اسکے بعد ۱۹۶۳؁ ء سے ۱۹۷۵؁ ء تک جامعہ دمشق میں استاذ رہے ، اور اس دوران تصنیف وتالیف اور محاضرات کا سلسلہ بھی جاری رہا ۔ دو سال لیبیا میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے ، اور پانچ سال ( ۱۹۸۴؁ ء تا ۱۹۸۹؁ ء ) جامعۃ الإمارات کے کلیۃ الشریعۃ والقانون میں فقہ کے استاذ رہے ۔ اس کے علاوہ مختلف ملکوں میں استاذ زائر کے طورپر انہیں بلایا جاتا رہا۔عرب ممالک کے میڈیا پر انکی تقریریں اور لیکچر بڑی دلچسپی کے ساتھ سنے گئے ۔اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں انہیں بڑے اہتمام کے ساتھ بلایا جاتا تھا۔
میرا اُن سے سب سے پہلا تعارف اُن کی دو کتابوں سے ہوا ،ایک ان کی شاہکارکتاب "الفقہ الإسلامی وأدلتہ ” اوردوسرے” نظریۃ الضرورۃ الشرعیۃ” .اب یہ یاد نہیں کہ ان میں سے کونسی کتاب میرے سامنے پہلے آئی ۔پہلی کتاب تو گیارہ جلدوں میں ہے ، اور ظاہر ہے کہ اُسے باستیعاب پڑھنا میرے لئے مشکل تھا، سرسری نظر میں اُسکی ترتیب اچھی لگی ، لیکن دوسری کتاب میں نے تقریباً پوری پڑھی ۔ یہ نہایت نازک موضوع پر تھی ، اور اس کا موضوع یہ تھا کہ "ضرورت” کی بناپر فقہی احکام میں کہاں کہاں سہولتیں دی گئی ہیں ، اور اُس ضرورت کا معیار کیا ہے جس کی وجہ سے کوئی سہولت دی جائے ۔ یہ وہ موضوع ہے جس میں اچھے اچھے مصنفین پھسل گئے ہیں ، لیکن میں نے دیکھا کہ اس کتاب میں انہوں نے بڑے اعتدال ، توازن اور انضباط کے ساتھ اس فقہی اصول کی وضاحت فرمائی ہے ، اُسی وقت اس سے ملتے جلتے موضوع پر شیخ سعید رمضان بوطی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "المصلحۃ وضوابطہا فی الشریعۃ الإسلامیۃ” بھی میں نے پڑھی تھی ، اور وہ بھی مجھے بہت پسند آئی تھی ۔ اُس وقت سے ان دونوں کی بڑی قدر دل میں تھی ، اور اُن سے ملنے کااشتیاق بھی ۔بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان دونوں سے نہ صرف ملاقات،بلکہ ساتھ مل کر کام کرنے کے مواقع بھی پیدا فرمائے ۔
شیخ وہبہ زحیلی رحمۃ اللہ علیہ سے میری پہلی ملاقات آج سے تیس سال پہلے مجمع الفقہ الإسلامی کے اجلاس منعقدہ جدہ ( ۱۹۸۵؁ء )میں ہوئی، اُس وقت وہ جامعۃ الإمارات میں تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے ۔ وہ مجمع الفقہ الإسلامی کے باقاعدہ رکن نہیں تھے ، لیکن انہیں ہر اجلاس میں خصوصی دعوت پر بلایا جاتا تھا ۔ہر اجلاس میں ان کا کوئی نہ کوئی مقالہ ضرور ہوتا تھا ، اوروہ ان لوگوں میں سے تھے جوہر مسئلے پر بحث میں فعال کردار ادا کرتے تھے ، اور قراردادوں کی تسوید میں بھی انکا حصہ ہوتا تھا ۔مغربی افکار کے زیرِ اثر بعض لوگوں نے شریعت میں کتربیونت کا جو طریقہ اختیار کیا ہے ، اس کے مقابلے میں وہ بڑے معتدل اور متوازن فکر کے حامل تھے، مجمع الفقہ کے سالانہ دوروں کے علاوہ اس کے چھوٹے اجتماعات میں بھی ان سے ملاقاتیں رہتی تھیں ، اور انکی وجہ سے ان سے بے تکلف دوستی کے تعلقات قائم ہوگئے تھے ۔ ہم آپس میں اپنی تالیفات کے بارے میں ایک دوسرے سے تبادلۂ خیال بھی کرتے ۔ میں اُن دنوں تکملۂ فتح الملہم کی تالیف میں مشغول تھا ، وہ ہر مرتبہ مجھ سے پوچھتے کہ تالیف کہاں تک پہنچ گئی ہے ، اور جب اسکی ابتدائی جلدیں شائع ہوئیں ، تو انہوں نے مجھے خط لکھ کر اُن پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا ، اور میری ہمت افزائی فرمائی، انکا یہ خط "تکملہ فتح الملہم” میں چھپ بھی گیا ہے۔ تکملہ کی تکمیل پر انہوں نے ہی یہ تحریک کی کہ یہ کتاب بیروت سے شاندار طریقے پر چھپنی چاہئے اور دار القلم دمشق کے مالک جناب محمد علی دولہ کی مجھ سے ملاقات کرائی، جس میں انہوں نے مجھ سے فتح الملہم بیروت سے شائع کرنے کی فرمائش کی، اور پھر واقعۃً وہ وہاں کے معیار کے مطابق شائع ہوئی۔
جب غیر سودی بنکاری کے سلسلے میں جدو جہد شروع ہوئی ، تو وہ اُس میں بھی پیش پیش تھے ۔بحرین کے مالیاتی ادارے "المؤسسۃ العربیۃ المصرفیۃ” (Arab Banking Corporation) کی ہیئۃ الرقابۃ الشرعیۃ بنی ، تو ایک عرصے تک میں اُس کا رکن رہا ، اور شیخ وہبہ ؒ اُسکے صدر تھے ۔میں نے کسی وجہ سے اُس کی رکنیت سے استعفاء دیا ، تو اُنہوں نے مجھ سے واپس آنے پر اصرار کیا ، اور فرمایا کہ میں اُسکی صدارت تمہارے حوالے کرکے تمہارے ساتھ بحیثیت رکن کام کرنے کو تیار ہوں ، لیکن مجھے واقعۃً عذر تھا ، اس لئے اُن سے معذرت کے سوا چارہ نہیں تھا ، پھر انہوں نے بھی میری معذرت قبول کرلی۔ بعد میں جب بحرین میں "المجلس الشرعی” کا قیام عمل میں آیا ، تو وہ اُسکے بھی رکن رکین تھے جسکا ذکر میں شیخ ضریرؒ کے سلسلے میں کرچکا ہوں۔اس مجلس میں بھی ان سے سالہا سال خوب استفادے کا موقع ملا۔میں چونکہ اُس زمانے میں،میں سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ میں تھا ، اس لئے بعض اوقات اُسکی مصروفیت کی وجہ سے پاکستان سے باہر نہیں جاسکتا تھا ، اس لئے بعض چھوٹے اجتماعات کے لئے اپنے رفقاء سے درخواست کرتا تھا کہ وہ پاکستان ہی میں اجتماع منعقد کرلیں ، چنانچہ وہ حضرات کبھی اسلام آباد اور کبھی کراچی تشریف لے آتے تھے ۔ غالباً کسی ایسے ہی موقع پر شیخ وہبہ ؒ کراچی تشریف لائے ، تو میں نے انہیں اور شیخ عبدالستار ابوغدہ کو دارالعلوم کراچی میں دعوت دی ، اور ان دونوں کے اعزاز میں دارالعلوم کی مسجد میں ایک اجتماع بھی منعقد کیا جس میں شیخ وہبہ ؒ نے طلبہ اور اساتذہ سے مفید خطاب کیا۔
شیخ وہبہ زحیلی ؒ مسلک میں شافعی تھے ، لیکن دوسرے مذاہب پر بھی انکی نظر بہت وسیع تھی ،یہ بات انکی کتاب "الفقہ الإسلامی وأدلتہ "سے توواضح ہے ہی ،لیکن اس سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ انہوں نے چاروں فقہی مذاہب میں سے ہر مذہب کی الگ الگ کتابیں تالیف کی ہیں ۔انکا ایک عام فہم مجموعۂ کتب اسی قسم کا ہے ، "الفقہ الحنفی المیسر”حنفی فقہ کی عام فہم کتاب ہے ، "الفقہ الشافعی المیسر” شافعی فقہ کی ، "الفقہ المالکی المیسر” مالکی فقہ کی اور "الفقہ الحنبلی المیسر” حنبلی فقہ کی کتاب ہے ، نیز "أصول الفقہ الحنفی” کے نام سے اُنہوں نے حنفی اصول فقہ کی کتاب لکھی ہے , اور "قواعدالفقہ الحنبلی”میں انہوں نے المغنی لابن قدامۃ سے فقہ حنبلی کے قواعد جمع کئے ہیں ۔ جدید مسائل میں وہ دوسرے مذاہب سے استفادے کیبھی قائل تھے ، بلکہ انکا ایک مقالہ مجمع الفقہ الإسلامی میں اسی موضوع پر تھا کہ کسی مسئلے میں آسانی کی خاطر کسی دوسرے مذہب کو بھی اختیار کیا جا سکتا ہے ۔ اس کے بعض حصوں پر میری اور بڑے بھائی حضرت مولانا مفتی محمد رفیع صاحب مدظلہم کی اُن سے تھوڑی سی بحث بھی ہوئی ، لیکن عبادات کے معاملے میں وہ بہت محتاط تھے ۔مجھے یاد ہے کہ مجمع الفقہ الاسلامی یا المجلس الشرعی کے اجلاسات اُس وقت پورے پورے ہفتے چلا کرتے تھے ۔ اس پور ے وقت میں بیشتر حضرا ت ائمۂ ثلاثہ کے قول پر عمل کرتے ہوے ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کی نمازیں جمع کیا کرتے تھے ، میں وقتی نماز کی جماعت میں تو شامل ہوتا، اور وقت سے پہلے والی جماعت میں شامل نہیں ہوتا تھا ۔ بلکہ ایسا بھی بکثرت ہوا کہ وقتی نماز میں نے پڑھائی ، اوروقت سے پہلے والی کسی اور نے ۔ایک مرتبہ میں نے دیکھا کہ شیخ وہبہؒ بھی میری طرح دوسری جماعت میں شامل نہیں ہوئے ،اور جماعت کرنے والوں میں سے بعض کو حیرت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں ، میں قریب پہنچا تو فرمانے لگے کہ ” یہ عجیب بات ہے کہ یہ حضرات دو نمازیں جمع کرنے میں تو شافعی مسلک پر عمل کرتے ہیں ، اور مدت قصر کے مسئلے میں حنفی مسلک پر ” انکا مطلب یہ تھا کہ شافعی مسلک میں مدت قصر صرف چار دن ہے ، اسکے بعد انکے نزدیک نہ قصر جائز ہے ، نہ جمع بین الصلو تین ۔ حنفی مسلک میں چودہ دن تک قصر کیا جاسکتا ہے ، لیکن اُس میں جمع بین الصلوتین نہیں ہوسکتی ۔یہ حضرات چار دن سے زیادہ قیام کی نیت کے باوجود قصر اور جمع کرکے تلفیق کرتے ہیں ۔میں ایسی تلفیق درست نہیں سمجھتا ۔
جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں ، کثرت تالیف اور سرعت تالیف دونوں میں وہ ایک عجوبے سے کم نہ تھے ۔ ہر ملاقات میں پتہ چلتا تھا کہ وہ ایک نئی کتاب لکھ رہے ہیں ، فقہ پر اپنی ڈھیر ساری کتابوں کے علاوہ معلوم ہوا کہ وہ اصول فقہ پر کام کررہے ہیں ، اور عصرجدید کے بیشتر مسائل پر انکی کوئی نہ کوئی تالیف ، فتویٰ یا مقالہ موجود ہے ۔ آخر میں انہوں نے تفسیر قرآن کریم پر کام شروع کیا تھا ، اور غالباً تین مختلف تفسیریں لکھی ہیں : ایک "التفسیر المنیر” جو سولہ جلدوں میں ہے ، ایک "التفسیر الوجیز "جو ایک ہی جلد ہے، اور ایک "التفسیر الوسیط”جو تین جلدوں میں ہے ۔مجھے بذات خود ان تفسیروں سے استفادے کا موقع نہیں ملا، لیکن میری آخری ملاقاتوں میں وہ مجھ سے یہی فرماتے تھے کہ اب میں تفسیر پر کام کررہا ہوں ۔ ان سے آخری ملاقات اب سے تقریباً دو سال پہلے عمّان (اردن) میں مؤسسۃ آل البیت کی ایک کانفرنس میں ہوئی تھی ، اُس کے بعد شام میں جو افسوسناک حالات پیدا ہوے ، ان کی وجہ سے وہ دمشق سے باہر نہیں جاتے تھے ۔ کچھ عرصہ پہلے مجھے ڈاکٹر عبدالستار ابوغدہ وغیرہ نے بتایا کہ انہیں رعشہ کی بیماری ہوگئی ہے ، اور صحت ٹھیک نہیں ۔ بالآخر۲۲؍شوال کو مجھے ایک پیغام کے ذریعے انکی وفات کا علم ہوا ، فون کے ذریعے معلوم کرنے سے خبر کی تصدیق ہوگئی ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کی مکمل مغفرت فرماکر اُن کی خدمات جلیلہ کو اپنی بارگاہ میں شرف قبول عطا فرمائیں ، اور انہیں اپنے مقامات قرب سے نوازیں ۔ آمین ثم آمین ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ – ذوالقعدہ 1436 ھ)