خطاب:حضرت مولانامفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم

حسنِ معاشرت اور آدابِ مہمانی
(دوسری اور آخری قسط)

وقت کاضیاع مہمان کاحق نہیں
اس میں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ مہمان کاحق یہ ہے کہ اس کااکرام کیاجائے،اس کوکچھ وقت دیاجائے،اگروہ کوئی بات کرنا چاہتاہے تواس کی بات کوتوجہ سے سناجائے۔لیکن مہمان کایہ حق نہیں کہ وہ وقت ضائع کرنے لگے،مثلاًمہمان آکربیٹھ جائے اوربلاوجہ ایسی گفتگو شروع کردے جس کاکوئی مقصدنہیں، توایسے مہمان کااکرام کی حدتک معاملہ درست ہے لیکن اس کی فضول باتوں میں اس کاساتھ دینایہ اس کا حق نہیں ہے،بلکہ تم ایسی صورت میں اپنے کام میں لگ سکتے ہو۔
مہمان کی خاطرمدارات کااُصول
حضرت فرماتے ہیں کہ مہمان کی کچھ خاطرمدارات کرو اورایک روزکسی قدرتکلف کاکھاناکھلادو۔تین دن مہمانی کاحق ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ جب کوئی مہمان رہنے کیلئے آئے تو:

جَائِزَتُہٗ یَوْمٌ وَلَیْلَۃٌ وَضِیَافَتُہٗ ثَلاَثَۃُ اَیَّامٍ

یعنی ایک دن کچھ تکلف کے ساتھ مہمان کے کھانے کاانتظام کیاجائے۔یعنی معمول کے کھانے سے کچھ بہترکھانابنالیاجائے۔ اورباقی تین دن ضیافت ہیں،یعنی معمول کے مطابق جیساگھرمیں پکتا ہے وہی مہمان کوکھلادو۔
مہمان کی ذمہ داری
رسولِ کریمﷺنے فرمایاکہ کسی مہمان کیلئے یہ زیبانہیں کہ وہ کسی میزبان کے گھرمیں اتنارہے کہ اس کوتنگ کردے۔
یہ اس زمانے کی بات ہے جب شہروں اوربستیوں میں سرائے اورہوٹل وغیرہ نہیں ہواکرتے تھے،توگھروں میں ہی مہمان نوازی ہوا کرتی تھی، توایسی صورتحال میں تین دن تک تومہمان کاحق ہے،اس کے بعداس کواپناانتظام خودکرلیناچاہئے۔
میزبان کوتنگ کردینے میں یہ بات بھی داخل ہے کہ مثلاًکوئی شخص کسی سے ملنے گیاتواس میں بھی اتناوقت اس کے ساتھ نہ رہے کہ میزبان تنگ ہوجائے۔
مہمان کورخصت کرتے وقت دروازے تک چھوڑنا
دوسری بات جوحضرت والاؒنے ارشادفرمائی وہ یہ ہے کہ رخصت کے وقت مہمان کودروازے تک پہنچانابھی سنت ہے، رسولِ کریم ﷺکااپنے صحابہ کرامؓکے ساتھ یہی عمل تھا،بعض مرتبہ کسی لشکر کواگرروانہ کرناہوتاتومدینہ منورہ کے باہرتک اس کورخصت فرماکر واپس تشریف لاتے۔
رسول اللہﷺ کاحضرت معاذ ؓبن جبل کو رخصت کرنا
چنانچہ جب حضرت معاذ ؓبن جبل کویمن کی طرف بھیجاتواس طرح رخصت فرمایاکہ حضرت معاذ ؓ بن جبل گھوڑے پرسوارتھے اورنبی کریم ﷺ باگ پکڑکرمدینہ منورہ سے باہرتشریف لے گئے،اس وقت حضرت معاذ ؓبن جبل سے نبی کریمﷺنے فرمایاکہ اے معاذ! شاید آج کے بعدتم مجھے نہ دیکھو۔اوراب آؤ تومیری قبرپرآؤ۔حضرت معاذ ؓبہت لاڈلے صحابی تھے،جن کارسرکارِدوعالم ﷺسے عشق انتہاء درجے کاتھا،یہ سن کران کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے، حدیث میں ہے کہ رسولِ کریم ﷺنے بھی حضرت معاذ ؓسے چہرہ ہٹاکرمدینہ منورہ کی طرف کرلیا،اندازحدیث کا یہ ہے کہ سرکارِدوعالم ﷺپربھی ان کے رونے کاتاثرہوااورحضرت معاذ ؓسے چھپانے کیلئے آپ ﷺ نے چہرہ پھیرلیا۔اورفرمایاکہ اے معاذ! جومیری سنت پرعمل کرتاہے وہ مجھ سے قریب ہے،اورجومیری سنت پرعمل نہیں کرتا،وہ مجھ سے دور ہے چاہے وہ میرے کتناقریب ہو۔یہ جملہ ارشادفرماکرحضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو رخصت فرمایا۔رسولِ کریم ﷺکی یہ عادت ِمبارکہ تھی کہ مہمان کو رخصت کرتے وقت دروازے تک تشریف لیجاتے،اس کو’’مشایعت ‘‘ کہتے ہیں۔
مہمان کوکھاناکھلانے پراصرارنہ کریں
حضرت والاؒنے آگے فرمایاکہ مہمان کے حقوق اورمیزبان کے آداب میں یہ بات داخل ہے کہ کھانے پراصرارتکلف کے ساتھ، خلافِ مصلحت ِمہمان نہیں چاہئے۔یعنی مہمان کے اکرام وعزت کرنے کاحکم ہے،اس کاتقاضایہ ہے کہ مہمان کوراحت پہنچائی جائے، لہٰذا مہمان کی طبیعت یامصلحت کے خلاف کسی بات پراصرارنہیں کرناچاہئے۔مثلاًمہمان کی طبیعت کھاناکھانے کونہیں چاہ رہی اورمیزبان اصرار کئے جارہاہے کہ کھاناضرورکھائیے، تویہ بات اس کیلئے تکلیف کا باعث ہوگی۔
مہمان کیلئے خاطرمدارات کاانتظام کرنااچھی بات ہے، اس کو تھوڑابہت رسمی طورپرکھانے کیلئے کہہ دینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں، لیکن اس کوکھانے پرمجبورکردینااوراس پرمسلط ہوجانادرست بات نہیں۔
محبت اوراکرام کاتقاضاراحت رسانی ہے
محبت اوراکرام دونوں کاتقاضایہ ہے کہ راحت رسانی کی جائے،اس کی پسندوناپسندکاخیال رکھاجائے، نہ یہ کہ آپ زبردستی اس پراپنی پسندمسلط کردیں کہ وہ نہ کھائے تومشکل اورکھائے توکیسے کھائے کہ اس کی طبیعت نہیں چاہ رہی۔
انگلینڈمیں ہمارے ایک دوست ہیں جن کانام محمدیوسف متالا ہے،ماشاء اللہ بزرگوں کے صحبت یافتہ ہیں،حضرت شیخ الحدیثؒ کے خلیفہ ہیں، جیسے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ دسترخوان پر جس کااکرام وعزت زیادہ کرنی مقصودہوتوکھانالالاکراس کی پلیٹ میں ڈالتے رہتے ہیں،پہلے وہ منع کرتے رہے کہ بھئی مجھے اپنی پسندسے کھانے دو،لیکن لوگوں کااصرارتھاکہ ختم ہی نہیں ہوتاتھا،توآخرمیں انہوں نے یہ طریقہ اختیارکیاکہ جب کوئی ڈال رہاہے تواس کوکہتے ہیں کہ جتناتمہارادل چاہ رہاہے،وہ ڈال دو،جب وہ ڈال کرفارغ ہوتاتوفرماتے کہ بھئی! یہ توآپ کی پسندہے،اب آپ تناول فرمائیں،کیونکہ اس کی تعیین اور مقدارآپ کی مقررکردہ اورپسندیدہ ہے اورمیںاپنی پلیٹ میں اپنی پسند اورمقدارکے مطابق لے لوں گا۔
مہمان کی خاطرمدارات کرنے کایہ طریقہ اختیارکرنا بہت ہی غلط بات ہے، اس سے مہمان کوتکلیف ہوتی ہے اورکھانابھی برباد ہوتا ہے،اسی لئے حضرت فرماتے ہیں کہ کسی بات پر مہمان کواصرارکرکے اورمجبورکرکے راضی نہیں کرناچاہئے۔
اپنے شیخ وبزرگ کی دعوت کرنے کااُصول
حضرت والاؒنے فرمایاکہ جب اپنے کسی بزرگ کی دعوت کرے اوران کے ساتھ ان کے متعلقین میں سے کسی اورکی بھی دعوت کرناچاہے توان بزرگ سے یہ نہ کہے کہ فلاں کوبھی ساتھ لیتے آئیے گا، بعض اوقات ان کوساتھ لینایادنہیں رہتااوراپناکام اپنے بزرگ سے لیناخلاف ِادب بھی ہے،درست طریقہ یہ ہے کہ ان سے اجازت لیکر ان سے خودکہہ دے اورمتعلق کوبھی چاہئے کہ اپنے بزرگ سے پوچھ کرمنظورکرے۔مثلاًآپ اپنے بزرگ سے کہیں کہ جناب! آپ کی دعوت ہے اورآپ اپنے شاگردوں سے بھی کہہ دیجئے کہ وہ بھی ساتھ تشریف لے آئیں،گویاآپ نے شاگردوں کی دعوت کی اوران بزرگ کو اطلاع دینے کاکام سونپ دیایہ بے ادبی کی بات ہے ،صحیح طریقہ یہ ہے کہ خودجاکران شاگردوں کوپیغام دے اورشاگردوں کوبھی چاھیئے کہ دعوت ملنے پراپنے استاذسے اجازت لیکرقبول کریں۔
طفیلی بن کرکھاناکھانااہلِ علم کے وقارکے منافی ہے
آگے حضرت والاؒ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ نواب صاحب کے بلانے پرڈھاکہ گیاتووہاں پربنگال کے اہلِ علم ملاقات کیلئے آئے تومیں نے سب سے کہہ دیاکہ کھانابازارسے کھاناچاھئے، کیونکہ حضرت تونواب صاحب کے مہمان تھے، باقی حضرات حضرت سے ملاقات کیلئے آرہے تھے،جب نواب صاحب کواس بات کاپتہ چلاتوانہوں نے منتظم سے فرمایاکہ جوبھی حضرت سے ملنے کیلئے آرہاہے،اس کے کھانے پینے کاانتظام ہمارے ہاں سے کیاجائے،میں نے نواب صاحب سے کہلوایاکہ جولوگ مجھ سے ملنے کیلئے آرہے ہیں،یہ میرے احباب ہیں،طفیلی نہیں ہیں،لہٰذامیں ان سے نہیں کہوں گاکہ آپ بھی کھانایہیں کھالیں،بلکہ اگرآپ کوان کی دعوت کرنی ہے توبراہِ راست، خوددعوت دیں،چنانچہ نواب صاحب نے آنے والے تمام حضرات میں سے ایک ایک کے پاس جاکراس کودعوت دی۔حضرت فرماتے ہیں کہ اگرمیں ان کوکھاناکھانے کاکہتاتووہ طفیلی بن کرکھاتے،جوکہ اہلِ علم کے وقارکے خلاف ہے،نواب صاحب کی دعوت ملنے کے بعد انہوں نے مجھ سے پوچھاکہ نواب صاحب دعوت دے رہے ہیں،ہم قبول کریں یانہ کریں تومیں نے اجازت دیدی۔
اندازہ لگائیے کہ حضرت ؒاہلِ علم کاوقاربلندرکھنے کیلئے کتنی باریک باتوں کی رعایت فرماتے تھے۔
حضرت معاویہ ؓ اورایک دیہاتی کاواقعہ
تیسری بات یہ ارشادفرمائی کہ میزبان،مہمان کے اُوپرمسلط ہوکرنہ بیٹھے،بلکہ آزادچھوڑدے کہ جس طرح اس کادل چاہے، وہ کھائے۔حضرت معاویہؓکے بارے میں مشہورہے کہ ان کادسترخوان کافی وسیع ہوتاتھا،ایک دفعہ ایک اعرابی یعنی دیہاتی مہمان بن کر آیا، وہ بڑے بڑے لقمے لیکرکھارہاتھا،حضرت معاویہؓچونکہ جلیل القدرصحابی بھی تھے اورحاکم ہونے کے لحاظ سے رعایاکے مربی اوروالی کی حیثیت میں بھی تھے،توحضرت معاویہؓنے اس اعرابی سے کہاکہ اگرتم لقمے چھوٹے بناکرکھاؤگے توزیاد ہ آسانی ہوگی اورصحت کیلئے بھی مضرنہیں ہوگا،دیہاتی یہ بات سن کرکھاناچھوڑکرغصہ سے کھڑاہوگیااورکہاکہ آپ کادسترخوان اس قابل نہیں کہ کوئی شریف آدمی بیٹھ کرکھاناکھاسکے، حضرت معاویہؓنے پوچھاکہ کیوں؟ اس نے کہاکہ آپ میرے لقموں کو دیکھ رہے ہیں اوریہ مہمان کے اکرام کے خلاف ہے،حضرت معاویہؓ نے کہاکہ میں تمہاری صحت کے لئے کہہ رہاتھا،لیکن وہ دیہاتی کسی طرح راضی نہیں ہوا۔
حضرت معاویہؓ کامقصدتعلیم وتربیت تھی،جیسے کوئی استاذاگراپنے شاگردوں کے کھانے وغیرہ کے اندازمیں کوئی غلطی یاخرابی دیکھے توان کوسکھانے کیلئے کچھ کہہ سکتاہے،یہ کوئی بُری بات نہیں ہے،لیکن جومیزبان اس درجے میں نہیں ہے،اگروہ ٹوہ لیکرمہمان کے لقمے دیکھے کہ کیسے کھارہاہے؟کم کھارہاہے یازیادہ؟یہ بات مہمان کے اکرام کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ ہمیں تمام حقوق اپنی رضاکے مطابق اداکرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین

وآخردعوانا أن الحمدللہ رب العلمین
٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ – جمادي الثانيه و رجب المرجب 1437 ھ)