خطاب :حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
ضبط وترتیب:——-محمد رضوان ترابی

پاکستان سے وفاداری دینی فریضہ ہے

حسب معمول اس دفعہ بھی جامعہ دارالعلوم کراچی میں ۱۴؍اگست ۲۰۱۶ ء کویوم استقلال پاکستان کی تقریب منعقد کی گئی جس کا مختصر حال "شب وروز” میں درج کیا گیا ہے ، آخر میں نائب رئیس جامعہ دارالعلوم کراچی حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم کا مفصل بیان ہوا ، جس میں حضرت والا مدظلہم نے حصول ِ وطن کی روح پرور تحریک قیام پاکستان کی ابتدائی تاریخ اوروطن عزیز کی جغرافیائی اور معاشی اہمیت پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔یہ خطاب نذر قارئین ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ادارہ

آج اللہ جلّ جلالہ کے فضل و کرم سے ہم اس کی عظیم نعمت پر شکر ادا کرنے کے لیے جمع ہیں ،جو آج سے 69سال پہلے بظاہر انتہائی نامساعد حالات میں ہمیں پاکستان کی صورت میں عطا فرمائی ۔کوہِ ہمالیہ کے دامن میں پھیلا ہوا یہ وسیع و عریض اور سر سبز و شاداب ملک ایک ایسے موقع پر عطا فرمایا جب غیر اسلامی طاقتیں اس بات پر پورا زور صرف کر رہی تھیں کہ یہ ملک وجود میں نہ آئے ۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے غیب سے مسلمانانِ برصغیر کی مدد فرمائی اور دنیا کے نقشے پر پہلی بار ایک ایسی ریاست وجود میں آئی ،جو اسلام کے نام پر قائم ہوئی۔
اُس منظر کو دیکھنے والے اب بہت کم لوگ ہوں گے لیکن ہمیں وہ مناظر آج بھی یاد ہیں ،جب ہندوستان کی فضائوں میں یہ نعرے گونجا کرتے تھے’’پاکستان کا مطلب کیا ؟لا الہ الّا اللہ‘‘۔ان نعروں اورعزائم میں اللہ تعالیٰ نے برکت عطا فرمائی اور یہ ملک اپنے فضل سے ہمیں عطا فرمایا ۔
یوں تو انسان کے فرائض میں یہ بات داخل ہے کہ اللہ جلّ جلالہ اور محمد مصطفیٰﷺ کے بعد اس کو اُس وطن سے وفادار ہونا چاہیے جس وطن میں وہ رہ رہا ہے ،جہاں کی نعمتوں سے وہ فیض یاب ہو رہا ہے،اس وطن کا یہ حق ہے کہ اس سے محبت کی جائے ۔لیکن ایک ایساملک جو اسلام کے نام پر بنا ،جو صرف اس بنیاد پر قائم ہوا کہ اسلام کفر سے ایک حقیقت ہے ،اور اسلام ہی اس قوم کی اجتماعی وحدت کی بنیاد ہے،ایسے ملک کے ساتھ وفاداری، اس کے ساتھ محبت اور اس کی تعمیر و ترقی کی کوشش نہ صرف یہ کہ وطن کا حق ہے ،بلکہ ہمار ا دینی فریضہ بھی ہے۔جس کی وجہ سے اس میں ایک عظیم تقدس شامل ہو جاتا ہے ۔
ایک بات ہمیں اس موقع پر یاد رکھنی چاہیے کہ پاکستان کے قائم ہونے سے قبل ایک پروپیگنڈے کی مہم شروع ہوئی۔یہ مہم شروع میں ایک فکری نوعیت کی تھی ۔جس میں یہ نعرے لگائے گئے کہ ’’بھوکا پاکستان ،ننگا پاکستان‘‘،اوریہ بھی کہا گیا کہ ’’پاکستان جب بن جائے گا تو یہ ایک ناکام ملک ہو گا‘‘۔بچپن میں ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھاکہ جب ہم ہندوستان سے آ رہے تھے تو ہندوستان کی سرحدپر کسٹم کی ایک چوکی قائم تھی۔جو آنے والوں سے ان کاسرمایہ اور ان کے سامان میں جو بھی بے سلا کپڑا دیکھتے اس کو ضبط کر لیتے تھے۔
لیکن میرے والد ماجد مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے:’’مجھے سب سے زیادہ فکراس بات کی تھی کہ میں جو کتابیں لے کر آرہا تھا وہ محفوظ طریقے سے پاکستان پہنچ جائیں ۔لیکن ان لوگوں کا حال یہ تھا کہ ا ن کو کتابوں سے کوئی سروکار نہ تھا ،بلکہ وہ یہ چاہتے تھے کہ کوئی کپڑا پاکستان نہ جاسکے‘‘۔وہ لوگ ان نعروں (بھوکا پاکستان ،ننگا پاکستان )کی عملی تصویر لوگوں کو دکھانا چاہتے تھے۔
لیکن اللہ جلّ جلالہ کا فضل و کرم تھا کہ اس سارے پروپیگنڈے اور ساری کوششوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے یہ ملک بنایا ۔جبکہ اس وقت یہ ایک بے وسیلہ ملک تھا،اس کے پاس کوئی مال و دولت نہ تھا ،دفتروں میں بیٹھ کر کام کرنے کے آلات نہ تھے ،ببول کے کانٹوں سے پِن کا کام لیا جاتا تھا ،دفاتر کھلی ہوئی بیرکوں میں قائم کئے گئے ۔اس طرح یہ ملک وجود میں آیا ۔لیکن ان سب حالات کے باوجود اللہ ربُّ العزت نے اسے بے شمار انعامات سے نوازا۔اور بھوکا ننگا پاکستان کا نعرہ الحمدللّہ ہمیشہ کے لیے دفن ہو گیا ۔
پاکستان بننے کے بعدایک مستقل پروپیگنڈے کی مہم ہے ۔جو مسلمانوں کو اس ملک کے خلاف بھڑکاتی ہے۔جس کے نتیجے میں یہ جملے لوگوں کی نوکِ زبان پررہتے ہیںکہ پاکستان میں یہ ہو گیا ،پاکستان میںفلاں خرابی پیدا ہو گئی ،فلا ں نقصان ہو گیا،یہاںگرانی ہے ،بد امنی ہے ،یہاں اسلامی نظام نافذ نہیں ۔عجیب معاملہ یہ ہے کہ وہ پاکستانی جو دوسرے ملکوں میں مقیم ہیں وہ پاکستان کی برائیاں کرتے نہیں تھکتے۔یہ جملے ہمارے ہاں بھی اکثر لوگوں کی زبانوں پر جاری رہتے ہیںاور مجلسیں اس سے گرم کی جاتی ہیں ۔
میں آپ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگرچہ پاکستان میں بد عنوانی ہے ،اس کے باوجودمیں پورے اعتماد سے یہ بات کہتا ہوں کہ پوری دنیا میں اس سے زیادہ مستحکم اور اس سے زیادہ مفید ملک مسلمانو ںکے لیے کوئی اور نہیں ہے۔الحمد للّٰہ میں نے دنیا کے تمام بڑے بڑے ممالک کا سفر کیا اور اسلامی ملکوں میں تو کوئی ملک ایسا نہیں ہے جس میں جانے کا اتفاق نہ ہوا ہو،جس کو قریب سے دیکھ کر اس کے حالات کا جائزہ نہ لیا ہو۔اس سب کچھ کے بعد میں یہ بات پورے اعتماد کے ساتھ کہتا ہوں کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کے لیے پاکستان جیسا مفید تر اور عظیم ملک کوئی نہیں ہے۔
پاکستان سے باہر اسلامی ممالک تو بہت ہیں لیکن یہ اعزاز صر ف اور صرف پاکستان ہی کو حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو اسکے دستورکا بنیادی پتھر قر ار دیا گیا ہے۔یہاں تک کہ سعودی عرب کے دستور میں بھی اس بات کی صراحت نہیں کہ حاکمیت اعلی اللہ تبارک وتعالیٰ کو حاصل ہے اور اس ملک میں جو بھی حکومت قائم ہو گی وہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے اعتراف اور اس کے احکام کے ماتحت قائم ہو گی۔اور یہ اعزاز بھی صرف ملک ِپاکستان کو حاصل ہے کہ اس میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا ۔اور عدالتی قوانین کو قرآن و سنّت کے ڈھانچے میں ڈھالا جائے گا ۔اس دستور میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ ہر شہری کویہ حق حاصل ہے کہ وہ عدالت میں غیر اسلامی قوانین کو چیلنج کرے اور اس کے خلاف دعویٰ دائر کرے،اگر عدالت اس دعوے کو قبول کر لے تو عدالت کو یہ اختیار ہے کہ وہ اس قانون کو ختم کر دے اور اس کی جگہ اسلامی قانون نافذکردے۔
افسوس!یہ عظیم دفعہ ہمارے حکمرانوں ،عوام اور خصوصاََہمارے دینی حلقوں کی بے حسی کی وجہ سے معطّل پڑی ہوئی ہے ۔اگر آج ہم یہ تہیہ کر لیں کہ اس دفعہ کو بروئے کار لائیں گے تو اس کا راستہ کھلا ہوا ہے۔لہٰذا جو لوگ یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ پاکستان میں اسلامی نظام لانے کے لیے ہتھیار اٹھائے بغیر چارہ کا ر نہیں ،یہ غلط اور جھوٹا پروپیگنڈہ ہے۔پر امن طریقے سے اسلامی قوانین کو نافذ کرنے کا راستہ موجود ہے۔شرط یہ ہے کہ اپنی بے حسی ختم کردیں اور شعور پیدا کریں ۔
میں 17سال وفاقی شرعی عدالت اورسپریم کورٹ کے شریعت پیلٹ بینچ میں کام کرتا رہا ہوں ۔اس میں ہم نے الحمد للّٰہ200کے قریب قوانین عدالت کے ذریعے اسلامی سانچے میں ڈھالنے کا حکم جاری کیا۔اور وہ قوانین تبدیل ہوئے۔بے دینوں اور ملحدین کی طرف سے دعوے کیے گئے اور ان پر فیصلے بھی ہوئے ۔مگر افسوس !ہمارے دینی حلقوں کی طرف سے کوئی درخواست دائر نہیں کی گئی ،میں نے ان کے سامنے ہاتھ جوڑے اور منّتیں کیں کہ خدارا آپ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور دعویٰ دائر کریں ،لیکن ہمارے طبقے نے اس دفعہ سے فائدہ نہیں اٹھایا۔
آج اعتراض کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی ہے ،لیکن اگر آپ دوسرے ممالک سے اس کا جائزہ لیں تو الحمدللّٰہ پاکستان آج بھی سستا ترین ملک ہے۔ساتھ ہی تحریر و تقریر کی آزادی پاکستان کے علاوہ کسی ملک میں نہیں ہے،کہ آدمی اپنا اظہار ما فی الضمیر کر سکے۔پاکستان سے باہراتنی پابندیاں ہیںکہ لوگوں کے گلے بند ہیں ۔لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ نعمت ہمیں عطا کی ہے۔چنانچہ اس نعمت کی قدر کرو۔اور اس نعمت کو نعمت سمجھو۔
کسی بھی قسم کے غلط پروپیگنڈے سے متأثر ہونے کے بجائے اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر ادا کرو۔جس نے یہ نعمت عطاء فرمائی ہے۔اللہ تعالیٰ کے اس عظیم احسان کا شکر یہ بھی ہے کہ اس ملک میںمایوسی پھیلانے کے بجائے امید کے چراغ روشن کرو۔ ہر شخص جذبہ،ہمّت ،خلوص اور حبّ الوطنی سے سرشار ہو کرملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرے ،اور یہ سمجھے کہ اس ملک کی خدمت اسلام کی خدمت ہے۔اور اسلام کی خدمت ایک عظیم صد قہ جاریہ ہے،جو اس کے لیے زندگی بھر ثواب کا سبب بنے گا۔اگر اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال رہی تو یہ ملک ان شاء اللہ ترقی کرے گا اورہم آگے بڑھتے رہیں گے۔
الحمدللّٰہ ہمارے والد ماجد ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے پاکستان کے لیے نہ صرف یہ کہ جدو جہد کی بلکہ عظیم قربانیاں بھی دیں ۔پاکستان میں جس قرار دادِمقاصد کے تحت یہ دفعات وجود میں آئیں ،اس کے پاس کرانے میں علّامہ شبّیر احمد عثمانیؒ،ہمارے والدِ ماجدؒ،علّامہ ظفر احمد عثمانی ؒاور دوسرے علمائے کرام کا بڑا حصہ تھا۔چنانچہ انہوں نے دارالعلوم کراچی کی بنیادرسمی طور پر نہیں رکھی، بلکہ اس کے پیچھے ایک عظیم مقصد تھا۔اور وہ یہ کہ اس دارالعلوم میں ایسے افراد تیار کئے جائیں جو ملّت کی رہنمائی کر سکیں ۔یہ ہمارے والدِ ماجد ؒ کی تمنّا تھی کہ یہاں سے ایسے لوگ نکلیں جو عصری علوم میں بھی مہارت کے ساتھ ہر شعبہ زندگی میں اس ملک کی خدمت کر رہے ہوں ۔
کوشش کی جا رہی ہے کہ حضرتِ والد ماجدؒ کی آرزو کے تحت اس ادارے کو آگے بڑھایا جائے۔اوران تمام مقاصد کے پیشِ نظر وہ تمام شعبے قائم کئے جائیں جن کی حضرتِ والد ؒ کو تمنّا تھی۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس ملک کی تعمیرو ترقی میں وہ کردار ادا کرنے کی توفیق عطاء فرمائے جو ہم سے مطلوب ہے۔آج ہم اس موقع پر پاکستان کی نعمت کا شکر ادا کرنے کے لیے جمع ہیں ۔ہمیں یہ احساس کرنا چاہیے کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں، اخلاص ،محنت ،توجہ اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خا طر اپنی پوری کوشش اس ملک کی ترقی کی خاطر صرف کریں گے۔
ہر گز یہ نہ سوچیں کہ ایک ادارہ یا ایک فرد معاشرے میں کیا تبدیلی لا سکتا ہے؟یہ محض شیطان کا ایک دھوکہ ہے۔اللہ تعالیٰ جب کسی کو توفیق دیتے ہیں تو اس کے نتیجے میں ایک چراغ جلتا ہے۔اس چراغ سے دوسرے چراغ جلا کرتے ہیں ۔یہی اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔چنانچہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہیے کہ وہ ہمارے قدموں کو سیدھے راستے پر رکھے ،اور ہم بھٹکنے نہ پائیں۔اللہ تعالیٰ اس ملک کو دن دونی ،رات چوگنی ترقی عطاء فرمائے،اور ہمیں اس ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ ڈالنے کی توفیق عطاء فرمائے۔(آمین)
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین ۔

(ماہنامہ البلاغ – ذوالحجه 1437 ھ)