حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم

استخارہ کا مسنون طریقہ
(آخری قسط)

استخارہ کی مختصر دعا
استخارہ کا جو مسنون طریقۂ یہاںعرض کیا گیا ہے ، یہ تو اس وقت ہے جب استخارہ کرنے کی مہلت اور موقع ہو، اس وقت تو دورکعت پڑھ کر وہ مسنون دعا پڑھے ۔ لیکن بسا اوقات انسان کو اتنی جلدی فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ اس کے پاس پوری دورکعت پڑھ کر دعا کرنے کا موقع ہی نہیں ہوتا ، اس لئے کہ اچانک کوئی کام سامنے آگیا اور فوراً اس کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنا ہے ۔اس موقع کے لئے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دعا تلقین فرمائی ہے ۔ وہ یہ ہے :

اَلّٰلھُمَّ خِرْلِیْ وَاخْتَرْلِیْ (کنزل العمال : جلد ۷ حدیث نمبر ۱۸۰۵۳)

اے اللہ ! میرے لئے آپ پسند فرمادیجئے کہ مجھے کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے ۔ بس یہ دعا پڑھ لے ۔ اس کے علاوہ ایک اور دعا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمائی ہے ۔ وہ یہ ہے :

اَلّٰلھُمّ اِہْدِنِیْ وَسَدِّدْنِیْ (صحیح مسلم ، ابواب الذکر والدعاء ، باب التعوذ من شرما عمل)

اے اللہ !مجھے صحیح ہدایت عطافرمائیے اور مجھے سیدھے راستے پر رکھئے ۔ اسی طرح ایک اور مسنون دعا ہے :

اَلّٰلھُمّ اَلْہِمْنِیْ رُشْدِیْ(ترمذی کتاب الدعوات ، باب نمبر ۷۰)

اے اللہ ! جو صحیح راستہ ہے وہ میرے دل پر القا فرمادیجئے ۔ ان دعاؤں میں سے جو دعا یاد آجائے اس کو اسی وقت پڑھ لے ۔ اور اگر عربی میں دعا یاد نہ آئے تو اردو ہی میں دعا کرلو کہ یا اللہ ! مجھے یہ کشمکش پیش آگئی ہے آپ مجھے صحیح راستہ د کھا دیجئے ۔ اگر زبان سے نہ کہہ سکو تو دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے کہہ دو کہ یا اللہ ! یہ مشکل اور یہ پریشانی پیش آگئی ہے ، آپ صحیح راستہ دل میں ڈال دیجئے ۔ جو راستہ آپ کی رضا کے مطابق ہو اور جس میں میرے لئے خیر ہو۔
حضرت مفتی اعظم ؒ کا معمول
میں نے اپنے والد ماجد مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو ساری عمر یہ عمل کرتے ہوئے دیکھا کہ جب کبھی کوئی ایسا معاملہ پیش آتا جس میں فوراً فیصلہ کرنا ہوتاکہ یہ دوراستے ہیں ، ان میں سے ایک راستے کو اختیار کرنا ہے تو آپ اس وقت چند لمحوں کے لئے آنکھ بند کرلیتے ، اب جو شخص آپ کی عادت سے واقف نہیں اس کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ یہ آنکھ بند کرکے کیا کام ہورہا ہے ، لیکن حقیقت میں وہ آنکھ بند کرکے ذراسی دیر میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرلیتے اور دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرلیتے کہ یا اللہ ! میرے سامنے یہ کشمکش کی بات پیش آگئی ہے ، میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا فیصلہ کروں ، آپ میرے دل میں وہ بات ڈال دیجئے جو آپ کے نزدیک بہتر ہو۔ بس دل ہی دل میں یہ چھوٹا سا اور مختصر سا استخارہ ہوگیا۔
ہرکام کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرلو
میرے شیخ حضرت ڈاکٹر عبدالحئی صاحب قدس اللہ سرہ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص ہر کام کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرلے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کی مدد فرماتے ہیں ۔ اس لئے کہ تمہیں اس کا اندازہ نہیں کہ تم نے ایک لمحہ کے اندر کیا سے کیا کرلیا، یعنی اس ایک لمحہ کے اندر تم نے اللہ تعالیٰ سے رشتہ جوڑلیا،اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق قائم کرلیا ، اللہ تعالیٰ سے خیر مانگ لی اور اپنے لئے صحیح راستہ طلب کرلیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک طرف تمہیں صحیح راستہ مل گیا اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق قائم کرنے کا اجر بھی مل گیا اور دعا کرنے کا بھی اجر وثواب مل گیا ، کیونکہ اللہ تعالیٰ اس بات کو بہت پسند فرماتے ہیں کہ بندہ ایسے مواقع پر مجھ سے رجوع کرتا ہے اور اس پر خاص اجر وثواب بھی عطافرماتے ہیں ۔ اس لئے انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے ۔ صبح سے لے کر شام تک نہ جانے کتنے واقعات ایسے پیش آتے ہیں جس میں آدمی کو کوئی نہ کوئی فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ یہ کام کروں یا نہ کروں ۔ اس وقت فوراً ایک لمحہ کے لئے اللہ تعالیٰ سے رجوع کرلو، یا اللہ ! میرے دل میں وہ بات ڈال دیجئے جو آپ کی رضا کے مطابق ہو۔
جواب سے پہلے دعا کا معمول
حکیم الامت حضر ت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس اللہ سرہ فرمایا کرتے تھے کہ کبھی اس سے تخلف نہیں ہوتا کہ جب بھی کوئی شخص آکر یہ کہتا ہے کہ حضرت ! ایک بات پوچھنی ہے تو میں اسی وقت فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہوں کہ معلوم نہیں یہ کیا بات پوچھے گا؟ اے اللہ ! یہ شخص جو سوال کرنے والا ہے اس کا صحیح جواب میرے دل میں ڈال دیجئے ۔ کبھی بھی اس رجوع کرنے کو ترک نہیں کرتاہوں ۔ یہ ہے اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق۔ لہٰذا جب بھی کوئی بات پیش آئے تو فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرلو۔
ہمارے حضرت داکٹر عبدالحئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ بھائی ! اپنے اللہ میاں سے باتیں کیا کرو کہ جہاں کوئی واقعہ پیش آئے ، اس میں فوراً اللہ تعالیٰ سے مددمانگ لو ، اللہ تعالیٰ سے رجوع کرلو، اس میں اللہ تعالیٰ سے ہدایت طلب کرلواور اپنی زندگی میں اس کا م کی عادت ڈال لو۔ رفتہ رفتہ یہ چیز اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کو مضبوط کردیتی ہے ، اور یہ تعلق اتنا مضبوط ہوجاتا ہے کہ پھر ہر وقت اللہ تعالیٰ کا دھیان دل میں رہتا ہے ۔ ہمارے حضرت فرمایا کرتے تھے کہ کہاں کروگے وہ مجاہدات اور ریاضتیں جو پچھلے صوفیاء کرام اور اولیاء کرام کرکے چلے گئے ، لیکن میں تمہیں ایسے چٹکلے بتادیتا ہوں کہ اگر تم ان پر عمل کرلوگے تو ان شاء اللہ جو مقصود اصلی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کا قائم ہوجانا ، وہ ان شاء اللہ اسی طرح حاصل ہوجائے گا ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین ۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

(ماہنامہ البلاغ – رمضان المبارک 1436 ھ)