حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم

حضرت مولانا ریاست علی بجنوری صاحب رحمۃ اللہ علیہ
حمدوستائش اس ذات کے لئے ہے جس نے اس کارخانۂ عالم کو وجود بخشا
اور
درود و سلام اس کے آخری پیغمبرپر جنہوں نے دنیا میں حق کا بول بالا کیا

اس رمضان المبارک سے کچھ پہلے قافلۂ دارالعلوم دیوبند کے ایک عظیم رکن حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری رحمۃ اللہ علیہ کے حادثۂ وفات کی خبر نے اہلِ علم ودین کی صفوں میں رنج وغم کی لہر دوڑادی ، انّاللّٰہ وانّاالیہ راجعون ۔
حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ سے مجھ ناکارہ کو شرفِ ملاقات تودو تین بار سے زیادہ حاصل نہیں ہوا ، لیکن ان کی تحریروں ، ان کے ترانۂ دارالعلوم اور ان کی دوسری خدمات کی بناپر وہ دل سے ہمیشہ قریب رہے، جس سال انہوں نے دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوکر تعلیم کے سلسلے کا آغاز کیا یعنی ۱۹۵۱ء ، اسی سال میں نے اور میرے بڑے بھائی حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب نے دارالعلوم کراچی میں تعلیم شروع کی اور جس سال یعنی ۱۹۵۸ء میں وہ دورۂ حدیث سے فارغ ہوئے ، اس سے اگلے سال ہم نے دارالعلوم کراچی میں دورہ ٔ حدیث کی تکمیل کی ، وہ حضرت مولانا فخرالدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کے خصوصی شاگرد وں میں سے تھے، انہوں نے ہی موصوف کے درسی افادات کو قلمبند کیا تھا، اور ’’ایضاح البخاری ‘‘کے نام سے ان کو ترتیب دے رہے تھے، جس کی دس جلدیں شائع ہوکر مقبول ہوچکی ہیں۔
دارالعلوم دیوبند کا ماہانہ رسالہ’’ دارالعلوم ‘‘ بھی ایک عرصے تک آپ کی ادارت میں شائع ہوتارہا، اور ۱۹۷۲ء سے آخری لمحات تک وہ دارالعلوم دیوبند کے قابل اور مقبول اساتذۂ کرام میں شمار ہوتے تھے ، جہاں آپ نے ابتدائی درجات سے لیکر تخصصات تک کی کتابیں کامیابی کے ساتھ پڑھائیں ، اور چند سال سے جامع ترمذی جلد اول سے کتاب النکاح تک آپ ہی کے زیر ِ تدریس تھی، اور امسال بھی انہوں نے ترمذی شریف مذکورہ مقام تک پڑھائی۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں علمی وادبی ذوق کا وافر حصّہ عطا فرمایاتھا، ان کی اسی خصوصیت کی بناپر انہیں ’’ شیخ الہند ؒ اکیڈمی ‘‘ کے نگران کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، اور ان کے ادبی مقام کا شاہد ِ صدق اُن کا وہ ترانہ ٔ دارالعلوم ہے جو انہوں نے دارالعلوم دیوبند کے اجلاسِ صد سالہ کے موقع پر کہاتھا، اور اس کے بعد اس کے دلکش ، پرجوش اور دل سے نکلے ہوئے اشعار کی گونج پورے برصغیر میں پھیل گئی، اور اب دینی مدارس کے جلسوں میں عموماً یہ ترانہ بڑے ذوق وشوق سے پڑھا جاتا ہے ، اور اس مضمون کے آخر میں، میں اسے مکمل نقل کرنے کی سعادت حاصل کررہاہوں۔
میں ایک مرتبہ اپنے شیخِ ثانی حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب قدس سرہ کی صحبت میں چند روز گزارنے کیلئے ہندوستان گیا تھا، اس موقع پر چند روز دیوبند میں بھی گزارنے کی نوبت آئی ، اس موقع پر حضرت مولانا بجنوری رحمۃ اللہ علیہ نے غایتِ محبت وشفقت سے بندہ کے اعزاز میں ’’ شیخ الہند اکیڈمی‘‘کی طرف سے ایک تقریب منعقد فرمائی جس میں علماء کرام کو بطور ِ خاص مدعو کیا گیاتھا، اس موقع پر انہوں نے مجھ ناکارہ کی جس طرح ہمت افزائی فرمائی ، وہ بندہ کے استحقاق سے بہت زیادہ تھی۔
ان کی طبیعت میں سادگی ، تواضع اور بے تکلفی ایسے اوصاف تھے کہ بندہ کو ان سے خاص مناسبت معلوم ہوتی تھی۔
اب آخر ی بار جب دارالعلوم دیوبند میں میری مختصر حاضری ہوئی ، اور اہلِ دارالعلوم نے "جامع الرشید” میں مجھ سے خطاب کی فرمائش کی ،تو اس موقع پر تعارفی کلمات بھی حضرت مولانا ریاست علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائے۔ اور ان کایہ جملہ، جو ان کی انتہائی تواضع اور خورد نوازی کا مظہر ہے ، اور بندہ کیلئے ایک فالِ نیک ، مجھے بھولتانہیں ہے، انہوں نے فرمایاتھا کہ جب دارالعلوم میں کوئی مہمان آتاہے تو ہم اس کے سامنے دارالعلوم دیوبند کا تعارف پیش کرتے ہیں ، لیکن آج ہمارے یہاں ایک ایسے مہمان آئے ہیں جن سے ہمیں پوچھنا ہے کہ دارالعلوم دیوبند کیا ہے ؟
بات تو میری حیثیت سے بہت اونچی تھی، لیکن ایک فالِ نیک کے طور پر بندہ کے ذہن میں محفوظ ہوگئی۔
مولانا ؒ(۱) کی پیدائش ۹ مارچ ۱۹۴۰ء کو ہوئی تھی، اور ۱۹ و ۲۰ مئی ۲۰۱۷ء (۲۲،۲۳ شعبان ۱۴۳۸ھ)کی درمیانی رات میں بعمر ۷۷ سال وہ اپنے مالک حقیقی سے جاملے ۔ انّاللّٰہ وانّاالیہ راجعون۔ اللھم اکرم نزلہ ووسع مدخلہ وأبدلہ دارا خیرا من دارہ وأھلا خیرا من اھلہ ونقہ من الخطایا کما ینقی الثوب الأبیض من الدنس ۔
اللہ تعالیٰ ان کو درجات ِ عالیہ سے سرفراز فرماکر ان کے صاحبزادگان مولانا محمد سفیان ، مولانا محمد عدنان، اور مولانا محمد سعدان صاحبان کو ان کا خلفِ صدق بناکر ان کے مآثر کو زندہ رکھنے اور ان کے کام کو آگے بڑھانے کی توفیق عطافرمائیں۔ آمین

ترانۂ دارالعلوم دیوبند
یہ علم وہنر کا گہوارہ تاریخ کا وہ شہ پارہ ہے

ہر پھول یہاں اک شعلہ ہے ہر سر ویہاں مینارہ ہے
خود ساقی کوثر نے رکھی مے خانے کی بنیاد یہاں

تاریخ مرتب کرتی ہے دیوانوں کی روداد یہاں
جووادی فاراں سے اٹھی گونجی ہے وہی تکببیر یہاں

ہستی کے صنم خانوں کیلئے ہوتا ہے حرم تعمیر یہاں
برسا ہے یہاں وہ ابر کرم اُٹھا تھا جو سوئے یثرب سے

اس وادی کا سارا دامن سیراب ہے جوئے یثرب سے
کہسا ریہاں چھپ جاتے ہیں طوفان یہاں رُک جاتے ہیں

اس کاخ ِفقیری کے آگے شاہوں کے محل جھک جاتے ہیں
ہر بوند ہے جس کی امرت جل یہ بادل ایسا بادل ہے

سو ساگر جس سے بھر جائیں یہ چھا گل ایسا چھاگل ہے
مہتاب یہاں کے ذروں کو ہر رات منانے آتا ہے

خورشید یہاں کے غنچوں کو ہر صبح جگانے آتا ہے
یہ صحن چمن ہے بر کھا ت ہر موسم ہے برسات یہاں

گلبانگ سحر بن جاتی ہے ساون کی اندھیری رات یہاں
اسلام کے اس مرکز سے ہوئی تقدیس عیاں آزادی کی

اس بام حرم سے گونجی ہے سو بار اذاں آزادی کی
اس وادی گل کا ہر غنچہ خورشید جہاں کہلایاہے

جو رند یہاں سے اٹھا ہے وہ پیر مغاں کہلایاہے
جو شمع یقیں کی روشن ہے یہاں وہ شمع حرم کا پرتو ہے

اس بزم ولی اللہ میں تنویر ثبوت کی ضوء ہے
یہ مجلس مے وہ مجلس ہے خود فطرت جس کی قاسم ہے

اس بزم کا ساقی کیا کہیے جو صبح ازل سے قائم ہے
جس وقت کسی یعقوب کی لے اس گلشن میں بڑھ جاتی ہے

دَھاڑوں کی ضیاء خورشید جہاں کو ایسے میں شرماتی ہے
عابد کے یقیں سے روشن ہے سادات کا سچا صاف عمل

آنکھوں نے کہاں دیکھا ہوگا اخلاص کاا یسا تاج محل
یہ ایک صنم خانہ ہے جہاں محمود بہت تیار ہوئے

اس خاک کے ذرے ذرے سے کس درجہ شرر بیدار ہوئے
ہے عزم حسین احمد سے بپا ہنگامہ گیر ودار یہاں

شاخوں کی لچک بن جاتی ہے باطل کے لئے تلوار یہاں
رومیؒ کی غزل رازیؒ کی نظر غزالیؒ کی تلقین یہاں

روشن ہے جمالِ انورؒ سے پیمانۂ پیمانہ فخرالدین یہاں
ہر رند ہے ابراہیم یہاں ہر میکش ہے اعجاز یہاں

رندان ہدیٰ پر کھلتے ہیں تقدیس طلب کے راز یہاں
ہیں کتنے عزیز اس محفل کے انفاس حیات افروز ہمیں

اس ساز معانی کے نغمے دیتے ہیں یقیں کا سوز ہمیں
طیبہ کی مئے مرغوب یہاں دیتے ہیں سفالِ ہندی میں

روشن ہے چراغِ نعمانی اس بزم کمالِ ہندی میں
خالق نے یہاں ایک تازہ حرم اس درجہ تمہیں بنوایاہے

دل صاف گواہی دیتا ہے یہ خلد بریں کا سایہ ہے
اس بزم جنوں کے دیوانے ہر راہ سے پہنچے یزداں تک

ہیں عام ہمارے افسانے دیوار چمن سے زنداں تک
سوبار سنوارا ہے ہم نے اس ملک کے گیسوئے برہم کو

یہ اہل جنوں بتلائینگے کیا ہم نے دیا ہے عالم کو
جو صبح ازل میں گونجی تھی فطرت کی وہی آوازہیں ہم

پروردۂ خوشبو غنچے ہیں گلشن کیلئے اعجاز ہیں ہم
اس برقِ تجلی نے سمجھا پروانۂ شمع نوریہیں

یہ وادیِ ایمن دیتی ہے تعلیم کلیم طور یہیں
دریائے طلب ہوجاتاہے ہر مے کش کا پایاب یہاں

ہر تشنہ لبوں نے سیکھے ہیں مے نوشی کے آداب یہاں
بلبل کی دعا جب گلشن میں فطرت کی زباں ہوجاتی ہے

انوار حرم کی تابانی ہر سمت عیاں ہوجاتی ہے
امدادؒ ورشیدؒ واشرفؒ کا یہ قلزمِ عرفاں پھیلے گا

یہ شجرۂ طیبؒ پھیلا ہے تاوسعتِ امکاں پھیلے گا
خورشید یہ دین احمدؑ کا عالم کے افق پر چمکے گا

یہ نور ہمیشہ چمکا ہے یہ نور برابر چمکے گا
یوں سینۂ گیتی پر روشن اسلاف کا یہ کردار رہے

آنکھوں میں رہیں انوارِ حرم سینہ میں دلِ بیدار رہے
٭٭٭ ٭٭٭ ٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ ذوالقعدہ 1438ھ)