خطاب: حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
ضبط وترتیب: مولانا راشد حسین صاحب
(فاضل جامعہ دارالعلوم کراچی)

وفاق المدارس العربیہ کا اتحاد عظیم نعمت

۲۹؍ صفر المظفر ۱۴۴۳ھ مطابق ۷ ؍اکتوبر ۲۰۲۱ ء کو وفاق المدارس العربیۃ کے تحت ملتان مین”وفاق المدارس کنونشن”منعقد ہوا، جس میں بڑی تعداد میں علما ومشائخ نے شرکت کی۔اس کنونشن میں صدر وفاق المدارس العربیہ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم نے صدارتی خطاب فرمایا، جس میں دینی مدارس کی آزادی وخود مختاری اور ان کے تحفظ وبقاپر پر مغز گفتگو فرمائی ۔ یہ گفتگو نذرِ قارئین ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ادارہ)


الحمد للہ رب العالمین، والصلوۃ والسلام علی سیدنا و مولانا محمدخاتم النبیین و علی آلہ و اصحابہ و علی کل من تبعہم بإحسان إلی یوم الدین۔

جناب مولانا محمد حنیف جالندھری زید مجدہ، ناظم وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور حضرات علماء و مشائخ!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

وفاق المدارس کی صدارت کا گراں بار فریضہ
مجھے جامعہ خیرالمدارس میں بحیثیت طالب علم بارہا حاضری کا موقع ملا ہے اور وفاق المدارس کے مختلف اجتماعات میں بھی اللہ تعالیٰ نے شرکت کی سعادت بخشی ہے،لیکن آج میں جس شرمندگی کے عالم میں یہاں حاضری دے رہا ہوں، اس کی کیفیت اللہ تبارک و تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ حضرات نے اپنے حسنِ ظن اور محبت کی بنا پر مجھے اُس منصب پر بٹھایا ہے، جو ہمارے اتنے جلیل القدر اکابر کا منصب ہے کہ ہم اپنے آپ کو ان کی خاک پا بھی نہیں سمجھتے۔
گذشتہ رات جب پہلی بار میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر دفتر میں داخل ہوا اور اس کمرے میں میرے قیام کا انتظام کیا گیا، جس میں میرے استاذِ گرامی، شیخ الکل حضرت مولانا سلیم اللہ خان قدس اللہ تعالیٰ سرہ تشریف فرما ہوتے تھے۔ جنہوں نے ستائیس سال وفاق المدارس کی اس طرح قیادت فرمائی کہ اس کی نظیر ملنی مشکل ہے۔ اپنی پوری زندگی وفاق کے لیے وقف کر دی اور ان کے بعد ان کے فاضل بیٹے نے وفاق ہی کی راہ میں اپنی جان کی قربانی دی۔ مولانا عادل خان صاحب شہید رحمۃ اللہ علیہ کو جس وقت جام شہادت پلایا گیا، وہ وفاق ہی کے کام کے سلسلہ میں میرے پاس تشریف لائے تھے اور میرے بعد وہ جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن جانے والے تھے،اس دوران راستے میں ان کی شہادت ہوگئی۔ میرے وہ عظیم استاذ جنہوں نے مجھے انگلی پکڑ کر چلایا، ان کی مسند پر بیٹھنے یا ان کے کمرے میں قیام کرنے پر سچی بات ہے، مجھے انتہائی شرمندگی معلوم ہوئی اور میں صحیح کہوں تو رات کو میں سو بھی نہیں سکا۔مجھ جیسے آدمی کی وفاق المدارس العربیہ کے لیے صدارت پر مجھے حماسی کا وہ شعر یاد آتا ہے:

ذَہَبَ الکِرَامُ فَسُدتُّ غَیر مُسَوَّد
وَمِنَ الشقائِ تَفَرُّدِیْ بِالسُّودَدِ
ذَہَبَ الَّذینَ یُعاشُ فی أَکْنافِہِم
وَبَقیتُ مِنْھُمْ کَالْبَعِیْرِ الأَجرَبِ
(۱)

لیکن یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی سنت ہے کہ کوئی بھی اس دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں آتا، اور ان چھوٹوں پر ہی بعض اوقات ذمہ داری کا گراں بار فریضہ عائد ہوجاتا ہے جواپنے علم و عمل میں ان بزرگوں سے کوئی نسبت نہیں رکھتے –
بہرحال یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فیصلہ ہے جو آپ حضرات کے ذریعہ کرایا گیا – مجھے ان بزرگوں کے تعلق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ذمہ داری عطا فرمائی ہے تو صحیح راستے کی توفیق بھی ان شاء اللہ ضرور عطا فرمائیں گے –
مغربی طاقتوں کا اصل ہدف؛مدارس و اہلِ مدارس
جہاں تک وفاق کے مقاصد اور موجودہ صورت حال میں اس کے راستے کی رکاوٹوں کا تعلق ہے، حضرت مولانا محمد حنیف جالندھری، اللہ تعالیٰ ان کی عمر میں، علم میں برکتیں عطا فرمائے، نے اپنے خطاب میں وہ ساری باتیں کہہ دی ہیں، جو میں کہنا چاہتا تھا، اس میں کچھ اضافہ کی ضرورت نہیں ہے،تاہم اس کی تاکید کے طور پر کچھ باتیں عرض کرتا ہوں۔
اس وقت اہل مدارس دنیا کی ساری غیر اسلامی طاقتوں کا ہدف اور نشانہ ہیں اور خاص طور پر وہ مغربیت جس کا ذکر حضرت مولانا شمس الحق افغانی قدس اللہ سرہ نے فرمایا اور جس کا حوالہ حضرت مولانا نے دیا، وہ در حقیقت اس راز کو اب سمجھ گئی ہے کہ دین کو اپنی جگہ سے ہلانے کے لئے ہم اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے، جب تک ان مدارس کو ختم نہ کر دیں۔ یہ مدرسے ہی کا مُلاّ ہمارے تمام عزائم کے راستہ میں رکاوٹ بن رہا ہے اور جو اپنی جان کی بازی لگا دیتا ہے، لیکن دین کے کسی ایک حکم پر آنچ آنا گوارا نہیں کرتا۔اب یہ حقیقت انہیں اچھی طرح سمجھ میں آ چکی ہے اور اسی لئے ان کی ساری توانائیاں اس بات پر خرچ ہو رہی ہیں کہ اگر دین کو ختم کرنا ہے، اسلام کو ختم کرنا ہے یا تو ان مدرسوں کو کسی طرح-العیاذ باللہ- ختم کر دو یا انہیں اس طرح جکڑ دو کہ وہ چوں کرنے کے قابل بھی نہ رہیں –
عالمِ اسلام میں مغربیت کا سیلاب اور اس کے اسباب
پورے عالمِ اسلام کا جائزہ لے لیجیے،میں نے مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک ہر اسلامی ملک کا دورہ کیا ہے اور وہاں کے حالات کا جائزہ لیا ہے، جہاں جہاں مدرسے ختم ہوئے، وہاں وہاں مسلمانوں میں مغربیت کا سیلاب امڈ آیا۔اگرچہ وہاں آج بھی محقق علماء موجود ہیں، میں انہیں ذاتی طور پر جانتا ہوں، میری ان سے دوستی ہے، میری ان کے ساتھ نشستیں رہتی ہیں، یہ ایک حقیقت ہے کہ علم و تحقیق کے میدان میں ان کا کوئی جواب ملنا مشکل ہے،لیکن ان سب پر حکومت کا شکنجہ کسا ہوا ہے۔
وہ جامعۃ الازہر، جس نے علامہ سیوطی ؒ کو پیدا کیا، آج وہاں سے سود کے حلال ہونے کا فتویٰ نکل رہا ہے، آج وہاں سے ایسے فتوے نکل رہے ہیں جو ہمارے مسلّم اور مجمع علیہ امور کے خلاف ہیں۔اور اس کی وجہ وہی ہے کہ جامعۃ الازہر حکومت کے ماتحت ہے۔ماتحت بننے کے نتیجہ میں ان پر حکومت کا پریشر آتا ہے اور چونکہ مدرسے کی روح جو اِن دریوں، بوریوں اور چٹائیوں پر پروان چڑھتی ہے، وہ روح وہاں سے غائب ہو چکی ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پریشر سہارنے کی طاقت باقی نہیں رہی اور جو حکومت چاہتی ہے، اس کے چشم و ابرو کا اشارہ دیکھ کر اس کے مطابق فتوے بھی جاری ہو رہے ہیں۔
تحریفات کے دروازے کھل گئے ہیں
ابھی کچھ عرصے پہلے ایک بڑی کانفرنس تھی جس میں عالم اسلام سے علماء آئے ہوئے تھے، اس میں، مجھ سے پہلے وہاں کے ایک مفتی صاحب نے خطاب کیا اور خطاب میں یہ کہا: مجھے افسوس ہے کہ میں نے دینی جامعات و دینی اداروں کا سروے کیا ہے اور اس سروے سے مجھے پتہ چلا ہے کہ جتنے دینی ادارے، دینی مدارس اور دینی جمعیتیں ہیں، وہ سب غیر مسلموں کے ساتھ پرامن زندگی گذارنے کے منکر ہیں۔ میں نے اپنے خطاب میں ان کی بات کا جواب بھی دیا اور بعد میں ان سے پوچھا کہ آپ نے سروے کیا ہے،حالانکہ غیر مسلم ممالک میں بہت سے مسلمان رہتے ہیں، انڈیا میں دیکھیے! مسلمان کتنے امن سے رہتے ہیں،دیگر ممالک میں دیکھ لیجیے،لہذا آپ نے کیسے یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ پرامن زندگی گذارنے کے منکر ہیں؟
کہنے لگے کہ: ” میں نے جتنے لوگوں سے سوال کیا کہ کرسمس کے موقع پر عیسائیوں کو ہیپی کرسمس(happy christmas) کہنا جائز ہے یا نہیں؟ تو اسی فیصد لوگوں نے جواب دیا کہ کرسمس چونکہ عیسائیوں کا دینی و مذہبی شعار ہے، اس لیے ہیپی کرسمس کہنا ناجائز ہے،اس لیے میں سمجھا کہ یہ غیر مسلموں کے ساتھ پر امن بقاء باہمی(التعایش السلمی) کے قائل نہیں ہیں۔ ”
اب گویا ان کے نزدیک ہیپی کرسمس یا میری کرسمس(merry christmas) کہنا، یہ ایک ایسی چیز ہے کہ اگر کوئی آدمی اسے نہ مانے تو وہ بہت بُرا انسان ہے، وہ اسلام کی صحیح نمائندگی نہیں کرتا اور وہ غیر مسلموں کے ساتھ پرامن زندگی گزارنے کے خلاف ہے۔غرض اتنی تحریفات کے دروازے کھل گئے، جس کا کوئی اندازہ نہیں۔
برصغیر میں دینی تصلّب مدارس کے مرہونِ منت ہے
مجھے یاد ہے آج سے بیس پچیس سال بلکہ اس سے بھی پہلے میں عراق میں شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر واقع ایک سرکاری مدرسے میں گیا(۲)۔ مجھے پتہ چلا کہ وہاں ایک بہت بڑے اور پرانے عالم شیخ عبدالکریم مدرّس رحمۃ اللہ علیہ ہیں، تو میں ان کی زیارت کے لئے حاضر ہوا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا: آپ کیا کرتے ہیں؟ میں نے بتایا کہ مدرسہ میں پڑھاتا ہوں، پوچھا: کیا پڑھاتے ہیں؟ میں نے جب کتابوں کے نام لینے شروع کیے اور اس میں کافیہ وغیرہ جیسی کتابوں کے نام لینا شروع کیے تو وہ تقریباً چیخ کر کہنے لگے:’’تم خوش قسمت ہو کہ ابھی تک یہ کتابیں پڑھاتے ہو،ہمارے ہاں تو اس قسم کے نظامِ تعلیم کا بیج ہی مار دیا گیا ہے،اس کی وجہ سے علم میں گہرائی ہی پیدا نہیں ہوتی، علم میں عمق پیدا نہیں ہوتا”، وہ یہ بات کہتے ہوئے تقریباً رونے لگے۔
اگر دیکھا جائے تو تمام عالم اسلام پر مغربی طاقتوں نے اس لحاظ سے قبضہ جمالیا ہے، لیکن الحمد للہ! ابھی بر صغیر میں علماء دیوبند اور دارالعلوم دیوبند کی برکات سے صرف پاکستان ہی نہیں، ہندوستان، بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا، تھائی لینڈ میں کوئی ان اہلِ مدارس کو جھکا نہیں سکا اور پریشر میں لا کر ان سے کوئی ایسی بات نہیں کہلوا سکا جو مجمع علیہ امور کے خلاف ہو،یہ ان مدارس کی برکات ہیں،یہ ہمارے اکابر کے اخلاص اور تقوی کی برکات ہیں کہ جس کی وجہ سے ہم ابھی تک کم از کم نظریاتی طور پر ہی سہی، عمل میں ہماری کتنی ہی کوتاہی ہو، عملی اعتبار سے ہم کتنے ہی نیچے چلے گئے ہوں، لیکن الحمد للہ، نظریات اور عقیدہ کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم محفوظ ہیں تو یہ ان مدارسِ دینیہ کی برکت ہے۔
میرے بھائیو! وفاق المدارس العربیہ ہمارے لئے عظیم نعمت ہے، یہ بہت بڑا سائبان ہے جس کے نیچے ہم اکٹھے ہو کر اپنے مسائل کا تذکرہ کر لیتے ہیں،ان پر مشورہ کر لیتے ہیں اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کرتے ہیں- اس عظیم ادارے کے پیشِ نظر آپ حضرات سے میری یہ گذارش ہے اور میں اسی بات کی تاکید کرتا ہوں کہ وفاق المدارس کا فائدہ اسی وقت ہے، جب ہم متحد، متفق اور یکجان ہو کر ان مدارسِ دینیہ کی قدروقیمت کو سمجھیں اور اس کے مطابق اپنے معیار تعلیم اور معیار تربیت کو بلند کریں۔
مغربی طرزِ فکر کو سمجھنے اور اس کے مقابلے کیلئے تیار ہونے کی ضرورت
حضرت مولانا شمس الحق افغانی صاحبؒ نے جو یہ فرمایا تھا کہ اب ہمارا مقابلہ مغربیت سے ہے، تو مغربیت کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں اپنے ہتھیار بھی تیز کرنے ہیں، یعنی ہمیں سمجھنا ہے کہ مغربیت کیا چیز ہے؟ اس کے پیچھے فلسفہ کیا ہے؟ وہ کن نظریاتی طاقتوں کے ذریعے لوگوں پر چھائی ہے، کس وجہ سے چھائی ہے اور انہیں شکست دینے کے لیے ہمیں کس قسم کے طرز فکر اور طرز دعوت کی ضرورت ہے؟یہ ہمارا فریضہ ہے اور ہمیں یہ فریضہ انجام دینے کی فکر و کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالی نے ہر دور میں علمائے کرام کو ان کے دور کے تقاضوں کے مطابق خدمتِ دین کی توفیق عطا فرمائی ہے – آج ہم بھی اللہ تعالیٰ کی اس توفیق کے محتاج ہیں۔
مغربیت کا مقابلہ کرنے کے لئے سب تو پہلے تو یہ ضروری ہے کہ ہم سب متحد اور یکجان ہوں، دشمن کا سب سے بڑا ہتھیار یہ ہوتا ہے کہ تقسیم کرو، پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو۔اس سے اپنی حفاظت کرنی ہے، دوسرا یہ کہ اپنے حالات کا جائزہ لے کر اپنی تعلیم کے نظام کو زیادہ مستحکم ومضبوط اور ایسا کرنا ہے کہ مغربیت کا مقابلہ کر سکیں۔اس کے لئے اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ وفاق کا سفر جو بہت زمانے سے جاری ہے اور الحمد للہ ہمیشہ رو بترقی رہا ہے،اب بھی ہم اپنی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید کرتے ہوئے یہ توقع رکھتے ہیں اور بجا طور پر رکھتے ہیں کہ ان شاء اللہ یہ ترقی کا سفر جاری رہے گا، اور دنیا کی کوئی طاقت اسے ختم نہیں کر سکتی –
دینی مدارس کی آزادی و خود مختاری اور بقا کا اصل راستہ
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم نہ کسی کے دشمن ہیں اور نہ مداہن ہیں –اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے بھروسہ پر کہتا ہوں کہ ہم کسی موقعہ پر بھی ادنیٰ مداہنت کو گوارا نہیں کر سکتے – مجھے آپ حضرات نے وفاق کا صدر تو اب بنایا ہے لیکن الحمدللہ اس سے پہلے بھی تھوڑی بہت وفاق کی خدمت کرنے کی مجھے توفیق ہوئی ہے اور الحمد للہ بڑے بڑے صاحب جاہ و جلال لوگوں سے گفتگو ہوئی ہے، تیز و تند گفتگو بھی ہوئی،اور اللہ تبارک وتعالی کے فضل و کرم سے میرا یہ جملہ ان کے دلوں پر لکھا ہوا ہے کہ ہم مدرسے کا ادنی رشتہ بھی سرکار کے ساتھ قائم کرنے کے روادار نہیں ہیں۔یہ اس لیے نہیں کہ ہم سرکار کے دشمن ہیں،بلکہ اس لئے کہ سرکار کے ماتحت آ جانے کے بعد ہم اپنے مذاق و مزاج کو اور اپنے نظریات کو اس طرح محفوظ نہیں رکھ سکتے، جس طرح آزادی و خودمختاری کی حالت میں قائم رکھ سکتے ہیں۔
میں نے آپ کو جامعۃ الازہر کی مثال دی اور بتایا کہ جو کوئی بھی سرکار کے زیرِ تسلط آیا، اس کا تصلب باقی نہ رہا،اس کے اندر اپنی اقدار کے تحفظ کے لیے قربانی دینے کا جذبہ باقی نہ رہا۔ اس لیے ہم حکومت کے ساتھ صرف ایک رشتہ قبول کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ہماری رجسٹریشن ہو، پہلے سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹریشن تھی، اب وزارت تعلیم کے ساتھ رجسٹرڈ ہونا بادلِ نخواستہ منظور کر لیا گیاہے۔لیکن یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ رجسٹرڈ ہونے کے یہ معنی نہیں کہ ہم ان کے ماتحت آ گئے یا ان کی تمام شرائط کو تسلیم کر لیا یا وہ ہم پر ہیئتِ حاکمہ بن گئے، یہ باتیں ہمیں کسی قیمت پرقبول نہیں اور نہ ہی ان شاء اللہ قبول کریں گے۔ہم دین کے تحفظ کے لئے ، اسلام کی بقاء کے لئے مدارس کی اس خودمختاری کو ضروری سمجھتے ہیں –اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ – ان شاء اللہ- ہم اپنے اس مقصد میں ضرور کامیاب ہوں گے اور مدارس کی اس شکل کو کوئی ختم نہیں کر سکتا۔
دینی مدارس کے نظامِ تعلیم و تربیت کو مستحکم کرنے کی ضرورت
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اکابر کے طریقہ پر قائم رہیں اور اپنے نظام کو زیادہ سے زیادہ مضبوط ومستحکم بنائیں، تعلیم و تربیت کو بہتر بنائیں۔ ہمارے اندر ایسے واقعات پیش نہ آئیں جو مدارس کی بدنامی کا سبب بنیں، ہمارے اندر ایسے معاملات نہ ہوں جو مدارس پر انگلی اٹھانے کا سبب بنیں، مثلاً کوئی یہ کہے کہ ان کے ہاں مالی معاملات میں احتیاط نہیں۔ یاد رکھیں! مالیات میں احتیاط اکابر کی میراث ہے، جیسے مدرسہ اکابر کی میراث ہے ایسے ہی تقویٰ و احتیاط بھی انہی کی میراث ہے – جب تک ہم اس پر قائم رہیں گے، ان شاء اللہ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں نہیں مٹا سکے گی۔
اس نظام کی مضبوطی اور بہتری کے لئے ہمیں آپ سب حضرات کے تعاون کی ضرورت ہے، آپ سب حضرات میں سے ہر مہتمم، ہر مدرسہ جہاں بھی ہے، وہ اس عظیم مقصد کا ایک ستارہ ہے اور اسے آگے بڑھانے کا ایک ذریعہ ہے۔جس طرح ہمارے بڑے مدارس اس کوشش کا حصہ ہیں، اسی طرح چھوٹے مدارس بھی الحمدللہ اسی مشن پر گامزن ہیں۔ہمیں پتہ چلتا رہتا ہے کہ جو بڑے بڑے مدرسے ہیں سرکاری لوگ وہاں آنے میں ذرا جھجکتے ہیں اور انہیں آکر زیادہ تنگ نہیں کرتے، لیکن چھوٹے مدرسوں کے پاس تھانے دار بھی آجاتا ہے،لیکن الحمدللہ!ہمارا چھوٹے مدرسے کا جو چھوٹا سا مہتمم ہے، اور جو اپنے مدرسے کو چلا رہا ہے وہ بھی اس تھانیدار کی دھمکی گوارا نہیںکرتا، اور اس کی مداخلت برداشت نہیں کرتا۔اگر ہم اسی طرح اپنے معاملات صاف رکھیں گے، نظام بہتر بنائیں گے اور اجتماعیت کے ساتھ خودمختاری کو قائم رکھیں گے تو کامیاب ہونگے۔اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے، اپنی رحمت سے ہمیں اسی طرح متحد اور مضبوط رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ :ربیع الثانی ۱۴۴۳ھ)


(۱) عظیم لوگ چلے گئے تو میں بغیر سردار بنائے سردار بن گیا اور میراتنہا سرداربن جانا میرے لئے بڑی پریشانی ہے ۔ وہ لوگ رخصت ہوگئے جن کے زیرِ سایہ زندگی بسر ہوا کرتی تھی اور میں نالائق لوگوں میں پڑا رہ گیا ہوں جیسا کہ خارش زدہ اونٹ تنہا کھڑا ہوتا ہے ۔
(۲) اس واقعے کی مزید تفصیل کے لئے دیکھئے ، حضرت والا مدظلہم کا سفر نامہ "جہانِ دیدہ””وادیٔ دجلہ وفرات”(عراق کا سفر نامہ) طبعِ جدید۔ ۲۰۱۵ء ۔