حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ

مولانا شیرعلی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ
حمدوستائش اس ذات کے لئے ہے جس نے اس کارخانۂ عالم کو وجود بخشا
اور
درود و سلام اس کے آخری پیغمبرپر جنہوں نے دنیا میں حق کا بول بالا کیا

پچھلے دنوں ہمارے ملک کی ایک نہایت قیمتی متاع حضرت مولانا شیر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہم سے جدا ہوکر اپنے مالک حقیقی کے پاس پہنچ گئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ انکے جنازے میں اطراف پاکستان اور افغانستان کے جس انبوہ غفیر نے شرکت کی ، اسکی مثال اس خطے میں نہیں ملتی، اور یہ انکی مقبولیت اور ہردلعزیزی کی ایک روشن مثال ہے ۔ وہ اصلاً دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے فارغ التحصیل تھے ، اور حضرت شیخ الحدیث مولانا عبد الحق صاحب قدس سرہ کے شاگرد خاص اور منظورنظر۔ پھر اسی مدرسے میں تدریس شروع کی ، تو اُسکے مایۂ ناز استاذ قرار پائے جو نہ صرف طلبہ بلکہ اساتذہ کے لئے بھی ایک مرجع کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان سے میری سب سے پہلی ملاقات ۱۹۶۷؁ ء میں اُس وقت ہوئی جب میں اپنے محب مکرم مولانا سمیع الحق صاحب مدظلہم سے ملاقات اور حضرت شیخ الحدیث مولانا عبد الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کے لئے اکوڑہ خٹک حاضرہوا ۔ مولانا سمیع الحق صاحب نے اُن سے تعارف کرایا ، اور بتایا کہ وہ انکے ہم سبق رہے ہیں ، اور دونوں کی دوستی بے تکلفی کی آخری حدود میں تھی ۔ ان سے مل کر اُسی وقت دل نے انکی طرف ایک کشش محسوس کی ۔ انکی باتوں میں علمی اور ادبی لطائف وظرائف نے انکے ساتھ مجلسوں کو گل وگلزار بنائے رکھا ۔ چند ہی دنوں میں انکے علمی اور ادبی ذوق سے بڑی مناسبت پیدا ہوگئی۔ اسکے ساتھ انکے تدین، خوش اخلاقی اورعبادت گذاری کا بھی گہرا نقش قائم ہوا ، اور اسی مختصر عرصے میں ایسا محسوس ہوا کہ ہم ایک دوسرے کومدت سے جانتے ہیں ۔
پھر اکوڑہ خٹک کے ایک اور سفر میں بھی انکی رفاقت میسر رہی، اور اکوڑہ سے بالا کوٹ تک انکے ساتھ بڑا پُرلطف سفر ہوا جس میں انکے مزید جوہر کھلے۔ انہیں عربی زبان میں گفتگو پر قدرت بھی تھی اور اُسکا شوق بھی تھا ، اس لئے اس معاملے میں ہم ذوقی نے ان سے اور زیادہ قریب کردیا ۔پھر انہیں مدینہ منورہ میں جاکر جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں تکمیل تعلیم کا شوق پیدا ہوا ، اور جب مجھے اسکی اطلاع ملی ، تو مجھے حیرت بھی ہوئی کہ انکی جیسی قابلیت کا شخص کسی اور یونی ورسٹی کا کیوں رخ کرے ؟ لیکن اندازہ یہ ہوا کہ انہیں جامعہ کی ڈگری لینے سے زیادہ اصل شوق مدینہ منورہ کے با برکت قیام کا تھا ، اور غالباً یہی وجہ تھی کہ انہیں ڈاکٹریٹ کے لئے جو موضوع ملا تھا ، اُسے مکمل کرنے میں انہیں کسی بڑی مدت کی ضرورت نہیں تھی ۔ وہ مختصر مدت ہی میں یہ کام کامیابی سے کرسکتے تھے ، لیکن انہوں نے شاید مدینہ منورہ کے قرب کے شوق میں ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھنے میں معمول سے زیادہ مدت لگادی۔ان کا موضوع حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر سے متعلق تھا، اور انہوں نے خود حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی سوانح پر اتنا بھر پور کام کیا کہ غالباً انکی شخصیت پر ایسا کوئی اور کام دستیاب نہیں ہے، اور اس دوران نہ صرف مدینہ منورہ کے فضائل سے سیراب ہوتے رہے ، بلکہ وہاں تعلیم پانے والوں میں عقیدۂ وعمل میں جو کوتاہیاں نظر آتی تھیں ، انکا بڑی حکمت اور تدبر اور میانہ روی سے سد باب کرنے کی کوشش کی ۔
مدینہ منورہ کے قیام کے دوران جب کبھی میری وہاں حاضری ہوتی ، تو اُن سے ملاقات ہوتی تھی، مگر اب انکی وہ باغ وبہار مجلسیں جنکا تجربہ میں نے اکوڑہ خٹک میں کیا تھا ،انتہائی سنجیدہ ، بامقصد اوردرد دل کی باتوں میں تبدیل ہوچکی تھیں ۔ ایک سے زائد مرتبہ میری مدینہ منورہ حاضری کے وقت انہوں نے جامعہ کے اساتذہ اور طلبہ کے ساتھ غیر رسمی اجتماع کا اہتمام بھی فرمایا، جس میں میری خواہش تھی کہ وہ خطاب فرمائیں ، لیکن انکے اصرار پر مجھے ہی کچھ کہنا پڑا، اور اس طرح وہاں کے اساتذہ اور طلبہ سے قرب بھی پیدا ہوا، اور علماء دیوبند کے مآثر اور انکی خدمات کو اجاگر کرنے کا موقع ملا۔
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے واپسی کے بعد انہوں نے کچھ عرصہ ہماری درخواست پر دارالعلوم کراچی میں بھی حدیث کی تدریس کی خدمات انجام دیں ، جو ہم سب کے لئے باعث صد مسرت تھیں۔ لیکن حضرت مولانا سمیع الحق صاحب مدظلہم کا انکے یار غار ہونے کی حیثیت سے یقیناً حق زیادہ تھا ، اس لئے وہ پھر وہیں تشریف لے گئے ، اور اپنے اسی مادری ادارے کو اپنے فیوض کا مرکز بنایا جہاں وہ صحیح بخاری کی تدریس میں مشہور ومعروف تھے ۔
ان کے دل میں امت مسلمہ کا خاص درد تھا ، اور بالخصوص پاکستان میں اسلامی شریعت کا نفاذ انکی سب سے بڑی آرزو۔ چنانچہ اس سلسلے میں بھی انہوں نے تقریر وتحریر سے اپنا فریضہ ادا کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ۔ افغانستان میں تحریک طالبان نے امارت اسلامیہ کے نام پر اسلامی حکومت قائم کی ، تو انکی ہمت افزائی کی، اور انکی رہنمائی میں وہ آخر تک پیش پیش رہے ، اور افغانستان کے طالبان انہیں اپنا استاذ اور مربی تصور کرتے تھے ، اور وہ یقیناً اس کے لائق تھے۔ بعض اوقات اپنے اس پُرخلوص جذبے کے تحت اُن پر غلبۂ حال کی سی کیفیت بھی طاری ہوجاتی تھی۔اسکے باوجود اعتدال کی روش سے انہوں نے عملاً کبھی انحراف نہیں کیا، لال مسجد کے قضیے کو سلجھانے میں بھی انہوں نے بہت کوشش کی ، لیکن مقدرات سے کوئی نہیں لڑسکتا، اور وہ حادثہ ان ساری کوششوں کے باوجود اُس وقت کے صدر کی ہٹ دھرمی سے پیش آکر رہا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ افغانستان میں انکے اثرات کا معمولی سا اندازہ انکے جنازے کے شرکاء کے ناپیدا کنار سمندر سے ہوسکتا ہے جو ہزاروں میل کا سفر کرکے جنازے کی سعادت سے بہرہ ور ہونے کے لئے وہاں پہنچے۔
وفات سے شاید دو تین سال پہلے مجھے مولانا سمیع الحق صاحب نے اپنی کتاب کی تقریب رونمائی کے لئے مدعو کیا تھا ۔ اس موقع پر وہ بڑی حدتک صحت مند تھے ، اور اس موقع پر انکے اور مولانا سمیع الحق کے ساتھ بڑی پُرکیف مجلس رہی جس میں بزرگوں کے تذکرے کے علاوہ شعر وشاعری کا دور بھی چلا۔ حاضرین نے مجھے اپنا ٹوٹا پھوٹا کلام پیش کرنے کا بھی اصرار کیا ، اور میں نے انکی خواہش کی تعمیل بھی کی۔ اُس وقت ان پر بیماری کے شدید اثرات ظاہر نہیں ہوے تھے ۔ ہم اپنے عہد شباب کے واقعات بھی بے تکلفی سے یاد کرتے رہے، اور انہوں نے بڑی محبت اور شفقت سے رخصت کیا ۔
اسکے بعد حضرت مولانا سمیع الحق کی نئی معرکۃ لآراء کتاب "مکاتیب مشاہیر” کی تقریب منعقد ہوئی، اور انہوں نے مجھے میری ناکارگی کے باوجود اس تقریب کے مہمان خصوصی کے طورپر پھر مدعو فرمایا۔ اُس وقت مولانا شیر علی شاہ صاحب بہت بیمار اور صاحب فراش تھے ۔ ہم انکی عیادت کے لئے گئے ، وہ کرسی پر بیٹھے ہمارے منتظر تھے ۔ چہرہ حسب سابق کِھلا ہوا تھا، اور ظاہری طورپر کسی بڑی بیماری کے اثرات نظر نہیں آرہے تھے۔ میں نے اس پر خوشی کا اظہار کیا توفرمایا کہ:

انکے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پررونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمارکا حال اچھاہے!

لیکن انداز وادا سے کچھ یہ محسوس ہورہا تھا کہ یہ روشن چراغ اپنی آخری لوَ دے رہا ہے۔ انہوں نے جلسے میں حاضری سے بھی معذرت کرلی ، ورنہ ان سے یہ ممکن نہیں تھا کہ اپنے جگری دوست مولانا سمیع الحق صاحب اور مجھ ناکارہ کی جلسے میں موجودگی کے باوجود وہ تشریف نہ لائیں۔ چنانچہ اس مبارک تقریب میں انکی غیر موجودگی سے یقیناً مجلس میں پھیکا پن محسوس ہوا۔ اور آخر کار یہ ثابت ہوا کہ یہ میری ان سے آخری ملاقات تھی۔
کچھ ہی عرصے کے بعد میں نے حضرت مولانا سمیع الحق صاحب مدظلہم کو ایک اور کام کے لئے فو ن کیا ، تو انہوں نے اس کام کا ذکر کرنے سے پہلے یہ جانگداز خبر سُنائی کہ مولانا شیرعلی شاہ صاحب ہمیں داغ مفارقت دے گئے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔انکی وفات سے امت نہ صرف ایک مایۂ ناز عالم سے، بلکہ ملک وملت کے ایک ایسے خاموش اور درویش صفت رہنما سے بھی محروم ہوگئی جسکا نفسِ وجود فتنوں کے دور میں امت کی ڈھارس کا باعث ہوا کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالی انہیں جنات عالیہ میں مقامات خاص سے نوازیں ، اور انکے پسماندگان کو صبر جمیل اور اجرجزیل عطا فرماکرانکے فیوض ومآثر کو قائم ودائم رکھنے کی توفیق خاص مرحمت فرمائیں ۔ آمین:

ہرگزنہ میر د آن کہ دلش ز ندہ شدبعشق
ثبت است بر جریدۂ عالم دوامِ ما

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ – جمادی الاولیٰ 1437ھ)