خطاب: حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
ضبط وترتیب: مولانا راشد حسین صاحب
(فاضل جامعہ دارالعلوم کراچی)

موجودہ ملکی حالات میں عام آدمی کےکرنے کےکام

۱۸؍ شوال المکرم ۱۴۴۳ھ مطابق ۲۰؍ مئی ۲۰۲۲ء کو حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے جامعہ دارالعلوم کراچی کی جامع مسجد میں نمازِ جمعہ سے پہلے فکر انگیز خطاب فرمایا جس میں وطنِ عزیز پاکستان کے حالیہ معاشی و سیاسی حالات کے تناظر میں عام مسلمانوں کو اپنی اصلاحِ احوال کی طرف فکرمند کرتے ہوئے مملکتِ خداد پاکستان کی قدر کرنے کی طرف متوجہ فرمایا اور آخر میں موجودہ پریشان کن حالات میں بچاؤ کے راستوں کی طرف بھی رہنمائی فرمائی، یہ خطاب بہت ہی اہم ہے اس لئے تحریری شکل میں نذرِ قارئین ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ادارہ)


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نَحْمَدہ، وَ نَستَعِینہ، وَ نَستَغفِرُہ ونُوْمنُ بہٖ و نَتوکَّلُ علیہِ، وَ نَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَیِّاتِ أعمَالِنَا، مَن یَھدِ ہ اللّٰہُ فَلا مُضِلَّ لَہ ُ وَ مَنْ یُّضلِل فَلا ھَادِیَ لَہ ُ، وَ أشھَد أن لا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہ وَحدَہ لا شَرِیکَ لَہ، وَ أشھَد أن سیدنا و نبیا و مولانا مُحمَداً عَبدہ وَ رَسولہ، صلی اللہ تعالیٰ علیہ و علی آلہ و اصحابہ، و بارک و سلم تسلیماً کثیراً، أما بعد
فَاعَوذُ بِاللّٰہ مِنَ الشَیطَانِ الرَجِیم
بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِیم
ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِ یْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِی عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ (الروم: ۴۱)
آمنتُ بِاللّٰہِ صَدَقَ اللّٰہُ مولانا الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُوُلُہُ النَّبِیُّ الْکَرِیْمُ وَ نَحَنُ عَلٰی ذٰلِکَ مِنَ الشّٰہِدِیْنَ وَ الشَّاکِرِیْنَ وَ الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔

میرے محترم بزرگو دوستو اور بھائیو!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
میں نے ابھی آپ کے سامنے قرآنِ کریم کی ایک آیت تلاوت کی ہے، جس میں اللہ تبارک و تعالی نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ لوگوں کے اپنے ہی اعمال کی وجہ سے خشکی میں اور سمندر میں، یعنی پوری دنیا میں فساد پھیلا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کبھی کوئی عالمگیر پریشانی لاحق ہوتی ہے یا فساد پھیلتا ہے تو وہ درحقیقت خود انسانوں کے اپنے کرتوتوں اور اپنے اعمال کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں آگے یہ بھی فرمایا کہ لِیُذِیقَہُمْ بَعْضَ الَّذِی عَمِلُوْا…! تاکہ انہوں نے جو اعمال کئے ہیں، ان کا کچھ مزہ انہیں دنیا میں ہی چکھا دیں، یعنی انہوں نے جو خراب اعمال کئے ہوئے ہیں،ان کا مکمل مزہ تو ہم اس دنیا میں نہیں چکھاتے، اور جس عذاب کے وہ مستحق ہوتے ہیں، وہ پورے کا پورا عذاب تو ان کے اوپر نازل نہیں کیا جاتا، لیکن اس کا کچھ مزہ چکھا دیا جاتا ہے، تاکہ شاید وہ اپنے ان اعمال سے باز آجائیں۔
معاشرتی فساد کی اصل وجہ ہمارے اپنے اعمال ہیں
اس آیت میں ہدایت یہ دی گئی ہے کہ جب کبھی معاشرے میں فساد پھیلا ہوا ہو، اور لوگ اس فساد کی وجہ سے پریشان ہوں تو عام آدمی کا کام یہ ہے کہ وہ یہ سمجھے کہ یہ سب کچھ میرے کسی عمل کی خرابی کی وجہ سے ہورہا ہے۔ ہمارا عمومی مزاج یہ بن گیا ہے کہ جب کبھی کوئی خرابی سامنے آتی ہے یا جب کبھی اصلاح کی بات آتی ہے تو ہم اس کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال دیتے ہیں اور ذہن میں یہی بات آتی ہے کہ لوگ خراب ہوگئے ہیں اور ان کے حالات بگڑ گئے ہیں، فلاں نے یہ کردیا، فلاں نے یہ کردیا اور اس کی وجہ سے ہم اس مصیبت میں مبتلا ہوگئے، لہٰذا ان کی اصلاح کرنی چاہیے، لیکن یہ خیال کبھی نہیں آتا کہ خودمیری اپنی زندگی میں اور زندگی کے معاملات میں بھی کوئی خرابی ہوسکتی ہے، جس کی وجہ سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ عذاب نازل کردیا ہو یا یہ پریشانی پھیلا دی گئی ہو، اور میرے کسی عمل یا بدعملی کی وجہ سے پورے معاشرے کو سزا مل رہی ہو اور یہ انتشار پھیلا ہوا ہو،اس کی طرف کبھی خیال نہیں جاتا۔
حضرت ذوالنون مصریؒ کا واقعہ اور اپنی کوتاہی کا خیال
حضرت ذوالنون مصری ؒ، جن کا شمار بڑے درجے کے اولیاء اللہ میں ہوتا ہے،ان کے بارے میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ جہاں وہ رہتے تھے،ایک مرتبہ وہاں پر قحط پڑ گیا، بارش نہیں ہورہی تھی، لوگ پریشان اور مجبور ہوگئے۔چنانچہ کچھ لوگ دعا کرانے کے لئے حضرت ذوالنون مصری ؒ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ حضرت خلقت بہت پریشان ہے، بارشیں نہیں ہو رہیں، پانی کی قلت ہے، قحط پڑا ہوا ہے، لہٰذا آپ دعا فرما دیجئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ یہ قحط دور فرما دے اور ہم سے یہ پریشانی رفع ہو جائے۔ حضرت ذوالنون مصری ؒ نے فرمایا کہ یہ سارے حالات انسانوں کے اپنے اعمال کی وجہ سے آتے ہیں، لہٰذا اگر بارش نہیں ہورہی تو میری کسی بدعملی کی وجہ سے ایسا ہورہا ہے، لہٰذا میں ا س شہر سے چلا جاتا ہوں، میں چلا جاوں گا تو شاید لوگوں کو کچھ راحت نصیب ہوجائے اور یہ عذاب اُن سے ٹل جائے، گویا پہلا خیال جو گیا وہ اپنے عمل کی طرف گیا کہ میرے کسی عمل میں کوئی خرابی ہے اور اس کی وجہ سے یہ آزمائش آئی ہوئی ہے۔
معاشرتی فساد کے وقت اپنی کوتاہیوں کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت
قرآنِ کریم اسی طرف متوجہ فرما رہا ہے کہ جب معاشرے کے اندر فساد پھیلا ہوا ہو تو ہر آدمی کو یہ سوچنا چاہیے کہ کہیں میری کسی بدعملی کی وجہ سے تو ایسا نہیں ہورہا، اور اگر ہر انسان اپنی طرف متوجہ ہوجائے اور اپنی غلطیوں اور اپنے عیوب پر نگاہ ڈال کر ان کی اصلاح کرنے کی فکر کر لے تو سارا معاشرہ صحیح ہو جائے گا۔
اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اہْتَدَیْتُمْ(المائدۃ: ۱۰۵)
ترجمہ: اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو، اگر تم صحیح راستے پر ہوگے تو جو لوگ گمراہ ہیں، وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔

قرآنِ کریم نے عَلَیْکُمْ أَنْفُسَکُمْ، کے الفاظ استعمال فرمائے،یعنی تمہیں چاہیے کہ خود اپنی خبر لو، اپنے حالات کا جائزہ لو اور دیکھو میں کہاں کہاں غلطیاں کر رہا ہوں، مجھ سے کیا کیا گناہ سرزد ہو رہے ہیں، ان کی فکر کرکے انہیں ختم کرو، اور دوسروں کی طرف جو دیکھتے رہے کہ فلاں گمراہ ہو گیا، فلاں نے یہ کردیا، فلاں نے یہ مصیبت ڈال دی، اس کا مراقبہ کرنے کے بجائے اپنے اعمال کا مراقبہ کرو کہ میں کہاں کھڑا ہوں؟ اگر ہر شخص دوسروں کے طرزِعمل کو دیکھنے کے بجائے اپنی اصلاح کی فکر میں لگ جائے تو رفتہ رفتہ پورا معاشرہ بھی اصلاح کی طرف لوٹ جائے گا۔
فرض کرو اگر ایک آدمی اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور وہ اپنے عیوب پرنگاہ ڈالتا ہے کہ میں صبح سے شام تک کی زندگی میں کیا کرتا ہوں؟ کیا میں اللہ کے حقوق صحیح طریقے سے ادا کررہا ہوں؟ اللہ تعالیٰ کے حقوق یہ ہیں کہ میں بروقت نماز باجماعت کا اہتمام کروں، کیا میں یہ کررہا ہوں؟ اگر نہیں کررہا ہو تو اس کا اہتمام کروں۔کیا میں اللہ کے بندوں کے حقوق ٹھیک ٹھیک ادا کررہا ہوں؟ مثلاً جب میں اپنے گھر والوں کے ساتھ معاملات کرتا ہوں تو آیا میں سنت کے مطابق کر رہا ہوں یا نہیں؟ نبی کریم سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ سنت جس میں یہ فرمایا گیا کہ تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو، گھر والوں کے ساتھ اس کا سلوک اچھا ہو، اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ تم سب سے زیادہ بہتر سلوک کرنے والا ہوں۔(سنن الترمذی)کیا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا مصداق ہوں؟
اسی طرح کیا میں اپنی زبان کو قابو میں رکھتا ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ ’’املک علیک لسانک‘‘(سنن الترمذی) یعنی اپنی زبان کو قابو میں رکھو،اس سے کہیں جھوٹ نہ نکل جائے، اس سے غیبت نہ نکل جائے، اس سے کسی پر الزام نہ لگ جائے،اس سے کسی کی دل آزاری نہ ہو جائے۔کیا میں اپنی زبان کو واقعی قابو میں رکھے ہوئے ہوں؟ اللہ تعالی نے مجھے نگاہیں دی ہیں تو ان نگاہوں کو استعمال کرنے کا طریقہ بھی بتایا ہے کہ ان کو فلاں جگہ استعمال نہیں کرنا،کسی نامحرم پر لذت لینے کی غرض سے نگاہ ڈالنا حرام ہے۔یہ اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمت کا غلط استعمال اور اس نعمت کی ناشکری ہے، اللہ تعالیٰ نے آنکھ کی کتنی بڑی نعمت دے رکھی ہے ، اور یہ اس لئے دی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی پھیلی ہوئی کائنات کا نظارہ کرو اور اس سے اللہ تعالیٰ کی حکمت و قدرت کا تصور ذہن میں لاؤ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَآیٰتٍ لِاُوْلِی الْاَلْبَابِ (۱۹۰) الَّذِینَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَامًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ(آل عمران: ۱۹۰، ۱۹۱)
ترجمہ:بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے باری باری آنے جانے میں ان عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں، اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں۔

تو نگاہوں سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مظاہر دیکھنے کا کام لو اور انہیں صحیح جگہ استعمال کرو۔ اسی طرح یہ دیکھنا چاہیے کہ میں جو روزی کما رہا ہوں اور روٹی کھارہا ہوں، کیا وہ حلال طریقے سے حاصل کررہا ہوں؟ اس میں کچھ حرام چیز شامل تو نہیں ہورہی، اگر میں کہیں ملازمت کرتا ہوں تو ملازمت کے جو فرائض میرے ذمے ہیں، کیا وہ میں ٹھیک ٹھیک ادا کرر ہا ہوں؟صحیح وقت پر جاتا ہوں، صحیح وقت پر آتا ہوں اور کیا اپنے اوقات کو صحیح مصرف پر خرچ کررہا ہوں؟ اس نقطہ نظر سے ہر شخص کو صبح سے لے کر شام تک کی اپنی زندگی کاجائزہ لینا چاہیے، یہ معنی ہیں:’’عَلَیْکُمْ أَنْفُسَکُمْ‘‘ کے، یعنی اپنی خبر لو کہ میرے اندر کیا عیوب ہیں؟
اگر اس نقطہ ٔنظر سے نگاہ ڈالو گے تو اپنے اندر بے شمار عیوب پاؤگے اور جب بے شمار عیوب اپنے اندر نظر آنے لگیں تو انسان دوسروں کے عیوب بھول جاتا ہے اور اسے اپنی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ دوسروں کے عیوب اسی وقت نظر آتے ہیں اور ان کی طرف اسی وقت توجہ ہوتی ہے، جب انسان اپنے آپ سے غافل ہوتا ہے۔بہادر شاہ ظفر نے کہا تھا ؎

تھے جو اپنی برائیوں سے بے خبر،رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائی پہ جو نظر، تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا

جس کی اپنے عیبوں پر نظر ہو وہ دوسروں کے عیب نہیں دیکھتاجب انسان اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے تو پھر اس کو دوسروں کی خرابیوں کے بجائے اپنی خرابیاں زیادہ نظر آتی ہیں۔اگر میرے پیٹ میں شدید درد ہورہا ہے، جس نے بے چین کیا ہوا ہے، اس وقت مجھے اپنے پیٹ کے درد کی فکر ہوگی یا دوسرے کے نزلے زکام کی فکر ہوگی؟ ایسی حالت میں ہر شخص یہ چاہے گا کہ کسی طرح میرے پیٹ کا درد دور ہوجائے، کس کو نزلہ ہورہا ہے، کس کو کھانسی ہورہی ہے، اس کی طرف اس کا دھیان بالکل نہیں جائے گا۔
مجھے یاد ہے میں میری ایک عزیزہ مرحومہ، جنہیں پیٹ کی بہت زیادہ تکلیف تھی اور اس میں زیادہ تر حصہ ان کی کچھ نفسیاتی کیفیت کا بھی تھا، میں ایک مرتبہ انہیں لے کر جارہا تھا،ہسپتال لے جاتے ہوئے سامنے دیکھا کہ ایک شخص بے چارہ وہیل چیئر پر آرہا ہے،اس کے جسم کے تقریباً ہر عضو پر پٹیاں بندھی ہوئیں تھیں، چہرے سے خون جاری ہے، پاؤں سے معذورہے، غرض سر سے لے کر پاؤں تک اس میں وہ ساری کی ساری جسمانی خرابیاں اور عوارض نظر آرہے تھے جنہیں دیکھ کر انسان کو عبرت ہو۔ جب میں نے اسے دیکھا تو اپنی عزیزہ کے بارے میں یہ سوچ کر کہ ذرا ان کا ذہن اس پیٹ کی بیماری کی تکلیف سے دوسری طرف پلٹ جائے، میں نے ان سے کہا کہ دیکھو یہ بے چارہ کتنی مصیبت اور پریشانی میں ہے،ہاتھ اس کے ٹوٹے ہوئے ہیں، پاؤں اس کے کام نہیں کررہے اور سارے کا سارا جسم زخمی ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سن کر انہوں نے کہا کہ ہاں! یہ بات تو ہے لیکن اس کے پیٹ میں تو درد نہیں ہورہا، ان کو ساری فکر اپنے پیٹ کی اور اپنے درد کی تھی۔ اسی طرح اگر ہمیں اپنی برائیوں کا اور اپنے عیوب کا خود کچھ احساس ہوجائے تو پھر نگاہ میں کوئی بھی برا نہ رہے گا، پھر اپنی ہی فکر دامن گیر رہے گی۔
معاشرے کے سدھار کا بنیادی پتھر
لہٰذا قرآن کریم نے یہ سبق دے دیا کہ جب معاشرے میں فساد برپا ہو تو اس کا علاج یہ ہے کہ ہر انسان اپنے عیوب پر نظر ڈال کر اپنی اصلاح کی فکر کرے۔ اگر ایک آدمی درست ہوگیا تو پھر چراغ سے چراغ جلتا چلا جائے گا اور آہستہ آہستہ سارا معاشرہ سیدھے راستے پر آجائے گا۔ لیکن اصلاح کا بنیادی پتھر یہی ہے کہ میں اپنی فکر میں پڑ جاؤں، اپنے حالات کو درست کرلوں، جب یہی نہیں ہوتا تو پھر ہر شخص کو اپنے سوا ساری دنیا خراب نظر آتی ہے، خود کو معصوم سمجھتا ہے کہ مجھ سے گناہ نہیں ہوسکتا، مجھے سے کوئی غلط کام نہیں ہوسکتا، اور یہ ساری غلطیاں دوسروں کی ہیں، سارے عیوب دوسروں میں ہیں۔جب یہ تصور انسان کے دل میں پیدا ہوجاتا ہے، تو پھر اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرے میں بگاڑ پھیلتا چلا جاتا ہے۔
پاکستان کی نعمت اور ہندوستان کے حالات
میرے بھائیو اور عزیزو! آج اگر ہم اگر اپنے ملک کی صورتِ حال کو دیکھیں تو اسی آیت کا نقشہ نظر آتا ہے کہ ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ خشکی اور سمندر میں فساد پھیلا ہوا ہے۔اور یہ فساد ہمارے اپنے اعمال ہی کی وجہ سے پھیلا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وطنِ عزیز پاکستان کی صورت میں ہمیں ایک ایسی نعمت عطا فرمائی جس کا شکر ہم ساری زندگی سجدے میں پڑکر بھی ادا کرنا چاہیں تو نہیں کرسکتے۔ آج دیکھو ہندوستان میں مسلمانوں کے کیسے حالات ہیں، مسلمانوں کیساتھ کیسے کیسے ظلم و ستم ہورہے ہیں۔ ابھی میرے پاس کسی شخص کا دہلی سے پیغام آیا، اس نے کہا کہ بھائی! خدا کے لیے تم اس پاکستان کی نعمت کی قدر کرو، ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہم اپنی جان بچانے کے لیے اور لوگوں کی تکلیفوں سے بچنے کے لئے’’تلک‘‘ لگانے پر مجبور ہیں۔ تِلک لگا کر باہر نکلتے ہیں، تاکہ ہمیں مسلمان نہ سمجھا جائے۔بچوں کو یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اگر تمہیں کوئی ناگہانی صورتحال پیش آجائے تو اللہ تو دل میں کہنا،لیکن زبان سے رام کہنا، تاکہ تمہیں مسلمان سمجھ کر کوئی تکلیف نہ پہنچائے،وہاں پر یہ صورتِ حال بن رہی ہے۔
پاکستان قدرتی وسائل اور نعمتوں سے مالا مال خطہ
اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں پاکستان کی نعمت عطا فرمائی ہے اور مجھے افسوس ہے کہ بہت سے لوگ اب تک پاکستان کو دل سے تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں ایک ایسا ملک عطا فرمایا جو ہر نعمت سے مالا مال ہے۔ اگر پاکستان کا جائزہ لو تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسے وسائل عطا فرمائے ہیں،جو دنیا کے بہت کم ممالک کے اندر ہوتے ہیں، دریا ہمارے پاس ہیں، صحرا ہمارے پاس ہیں، پہاڑ ہمارے پاس ہیں، معدنیات ہمارے پاس ہیں۔ ہمارے یہاں پاکستان میں کتنے قسم کے پھل پیداہوتے ہیں اور پھر ہر پھل کی کئی کئی اقسام ہیں۔ میں تو چونکہ ساری دنیا میں گھوما ہوں، تو میں نے دیکھا ہے کہ اگر کسی ملک میں ایک دو پھل پیدا ہوتے ہیں تو وہ اسی پر فخر کرتے ہیں کہ ہمارے یہاں یہ پھل پیدا ہوتا ہے، ہمارے یہاں یہ ہوتا ہے، جبکہ ان کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اتنے سارے پھل عطا فرمائے ہوئے ہیں۔ہمارے یہاں سیب پیدا ہوتا ہے اور پھر سیب ایک نہیں، سیب کی کئی اقسام ہوتی ہیں۔ آپ سنگترہ دیکھ لیں،اس کی بھی کئی اقسام ہیں، مثلاً کینو اور خدا جانے کیا کیا الگ الگ نام رکھے ہوئے،آم کی اقسام دیکھ لو،انگور کی اقسام دیکھ لو، کتنے پھل اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائے ہیں جو دنیا کے بہت کم ملکوں میں ہوتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسی زمینیں عطا کی ہیں جو انتہائی زرخیز ہیں اور سونا اگلنے کے قابل ہیں، ہمیں اللہ تعالیٰ نے سارے موسم عطا کئے ہوئے ہیں، غرض اللہ تعالیٰ نے اس خطے کو ہر لحاظ سے قدرتی نعمتوں سے بھرا ہوا ہے۔
ہماری معاشی و اخلاقی صورتحال
لیکن ان تمام نعمتوں کے باوجود ہماری معاشی صورتحال یہ ہے کہ ہم دوسروں کے محتاج بنے ہوئے ہیں، ہماری اقتصادی حالت تباہ ہورہی ہے، ہمارے روپے کی قدر گر گر کرکہاں تک پہنچ چکی ہے۔ہم سارے وسائل موجود ہونے کے باوجود دوسروں کے محتاج ہیں اورقرضوں پر جی رہے ہیں، سالہا سال سے قرضے لے لے کر قرضوں کا ایک پہاڑ ہمارے سر پر قائم ہوگیا ہے۔
ہماری اخلاقی صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارے یہاں رشوت کا بازار گرم ہے، اگر کسی محکمے میں کوئی کام پڑ جائے تو رشوت دیے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔ایک عام آدمی کے لئے ویسے ہی مہنگائی کی وجہ سے جینا دو بھر ہوگیاہے، پھر اس پر مستزاد یہ کہ اگر کسی دفتر سے اس کا واسطہ پڑجائے تو دفتروں میں لوگ حرام کھانے کے لئے منہ کھولے بیٹھے ہوئے ہیں۔اس طرح ہماری اخلاقی حالت تباہی کا شکار ہے۔ ہمیں سچ اور جھوٹ کی کچھ پرواہ نہیں ہے، جھوٹ بولنے میں اور جھوٹ پھیلانے میں کچھ ایسا مزہ آتا ہے کہ بلا تحقیق باتیں کرنا اور باتیں پھیلانا ہمارا شیوہ بن چکا ہے۔ اس کی فکر نہیں کہ اس سے مجھے کیا نقصان ہوگا یا میرا کیا انجام ہوگا؟ ابھی کل پرسوں خبر پھیلادی گئی کہ تقی کے اوپر قاتلانہ حملہ ہوگیا، اللہ جانے کس نے یہ خبر پھیلادی؟لیکن جھوٹ بولنے کا کچھ ایسا مزہ لگا ہوا ہے کہ بس دنیا کے اندر میری خبر پھیل جائے،چاہے وہ کیسی ہی ہو، ہم اخلاقی گرواٹ کے اس درجے تک پہنچ چکے ہیں۔
وطنِ عزیز کی سیاسی صورتحال اور سیاست میں اخلاق کا فقدان
اسی طرح سیاسی اعتبار سے ہم تقسیم ہوچکے ہیں اور اس طرح ہوچکے ہیں کہ ایک دوسرے پر گالم گلوچ کا ایک سیلاب آیا ہواہے، کوئی کسی دوسرے کی بات سننے کا روادار نہیں۔ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ مجھے اقتدار نصیب ہو جائے، وہ اقتدار کہ جس کے نتیجے میں ہم زوال کی انتہا کو پہنچ گئے ہیں، اسی کے پیچھے دوڑ لگی ہوئی ہے اور اس دوڑ کے اندر صورتحال یہ ہے کہ زبانی طور پر بھی اور جسمانی طور پر بھی لڑائیوں کا ایک بازار گرم ہے۔ پہلے کبھی سیاسی اختلاف ہوتا تھا تو اس کے اندرکچھ تہذیب اور شائستگی ہوا کرتی تھی، لیکن اب تو بالکل بازاری زبان استعمال ہو رہی ہے اور ایسی بازاری زبان کہ اگر دل میں ذرا سی بھی کوئی شرافت ہو تو ایسی زبان کو پسند نہیں کیا جا سکتا۔
ابھی کچھ عرصہ پہلے میں نے کہ یہاں جمعہ بیانات میں آپ حضرات کے سامنے سورۂ حجرات کی تفسیر میں عرض کیا کہ اس سورت میں اللہ تعالی نے ہمیں کیا کیا احکام عطا فرمائے ہیں اور کیا کیا معاشرتی آداب سکھائے ہیں۔قرآنِ کریم کے ان احکام کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہورہی ہے۔سیاسی بحث بازی اورسیاسی اختلافات میں نہ رمضان کے تقدس کا خیال رکھا گیا، نہ حرمین کے تقدس کا اور نہ کسی انسان کی عزت محفوظ ہے، یہ وہ حالات ہیں جن میں ہم مبتلا ہیں۔
موجودہ حالات میں بچاؤکا پہلا راستہ؛رجوع الی اللہ
میرے بھائیو! اللہ بچائے یہ عذاب کی اور اسی فساد کی علامتیں ہیں،جو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِی النَّاسِ۔ ان پریشان کن حالات میں واحد راستے دو ہیں جنہیں اختیار کرکے ہم ان آزمائشوں سے بچ سکتے ہیں؛پہلا راستہ یہ کہ ہم سب اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں۔ جتنے لوگ یہاں بیٹھے ہیں ان میں سے کوئی ایسا نہیں جس کے قبضے میں اور جس کے اختیار میں ان حالات کی اصلاح ہو۔ کیا اس مجمع میں کوئی ایک آدمی ایسا ہے جو اپنے بل بوتے پر ان حالات کی اصلاح کر سکے؟ معاشی حالات کی اصلاح کر دے؟ اخلاقی حالت بہتر کر دے؟ سیاسی حالات ٹھیک کر دے؟ایسا کوئی ایک آدمی نظر آتا ہے کہیں؟ نہیں! ایسا کوئی نظر نہیں آتا۔باوجود اس کے کہ ہمارے اختیار میں کچھ نہیں ہے، لیکن صورتحال یہ ہے کہ ہم مجلسیں جمائے بیٹھے ہیں اور مجلسوں میں تبصرے ہو رہے ہیں کہ فلاں نے یہ کر دیا فلاں نے یہ کر دیا، فلاں اچھا ہے فلاں برا ہے۔ اور پھر اچھے برے کے درمیان دھڑوں میں تقسیم ہو کر آپس میں ہی لڑائیاں ہو رہی ہیں کہ وہ فلاں کا حامی ہے یہ فلاں کا حامی ہے، وہ اِس کا مخالف ہے اور یہ اُس کا مخالف ہے۔مجلس مجلس، گھر گھر یہ اختلاف اور جھگڑے پھیلے ہوئے ہیں، حالانکہ کسی کے بس میں کچھ نہیں ہے اور سب بیکار وقت ضائع کر رہے ہیں جس سے اور زیادہ اشتعال پھیل رہا ہے اور مزید نفرتیں جنم لے رہی ہیں۔
ان سارے حالات کی اصلاح اگر کوئی کر سکتا ہے تو وہ اللہ جل جلالہٗ ہیں، لہٰذا ان بیکار مشغلوں میں وقت ضائع کرنے کے بجائے اگر یہ وقت رجوع الی اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے، اللہ تعالیٰ سے مانگنے اور اصلاحِ احوال کی دعائیں کرنے میں صرف کیا جائے، تو ان شاء اللہ، اللہ تعالیٰ کی رحمت متوجہ ہوگی اور ہمارے حالات بہتر ہوجائیں گے، چنانچہ ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگیں کہ یا اللہ ہم کچھ نہیں کر سکتے، ہم بے بس ہیں، حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ اب آپ ہی ہمارے لئے بہتری کا کوئی راستہ نکال دیجیے۔
اگر ہر انسان ہر مسلمان اپنی اپنی جگہ روزانہ دو رکعت نماز حاجت پڑھ کر اللہ تعالی سے مانگے کہ یا اللہ! ہم اپنی شامتِ اعمال کے سبب اس مصیبت میں پھنس گئے ہیں،ہمارے گناہوں کو معاف فرما دیجئے اور ہماری اصلاح بھی کر دیجئے اور ان حالات کو بھی درست فرمادیجئے۔ پاکستان میں ۲۲؍ کروڑ انسان بستے ہیں؟ ہے،اگر۲۲؍ کروڑ میں سے ایک کروڑ انسان بھی روزانہ دو رکعت نماز حاجت پڑھ کر اللہ تبارک و تعالی سے رجوع کریں اور اس سے مانگیں کہ یا اللہ ان حالات کی اصلاح ہمارے بس میں نہیں ہے، آپ اپنے فضل و کرم سے ہماری بھی اصلاح فرما دیجیے،ہمارے سیاستدانوں کی بھی اصلاح فرما دیجیے اور ہمارے ملک کی بھی اصلاح فرما دیجئے۔ اگر ایک کروڑ انسان روزانہ یہ دعا مانگیں گے تو ان شاء اللہ، اللہ تبارک و تعالی کبھی یہ دعائیں رد نہیں کریں گے اور ضرور ہمارے حالات بدل جائیں گے۔ یہ سب سے اہم حل ہے،لیکن اس طرف ہماری توجہ نہیں ہے۔ ہم بحث مباحثے کرنے پر اور مجلسیں جمانے پر تیار ہیں لیکن اللہ کی طرف رجوع کرنے پر تیار نہیں،لہٰذا ہم سب کو اہتمام کے ساتھ رجوع الی اللہ کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔
پہلے زمانے میں مسلمان معاشروں میں یہ طریقہ ہوتا تھا کہ جب کوئی پریشانی پھیلتی تھی تو گھر گھر آیت کریمہ کے ختم ہوا کرتے تھے اور عورتیں بچے سب مل کر آیۃ کریمہ؛ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِینَ، پڑھا کرتے تھے۔ عام طور سے معمول تھا کہ اگر سوا لاکھ مرتبہ آیت کریمہ پڑھ کہ اللہ تعالی سے دعا کی جائے تو مصیبت ٹل جاتی ہے، چنانچہ اس کا اہتمام ہوا کرتا تھالیکن اب کہیں یہ دستور نظر نہیں آتا۔ اگر موجودہ حالات میں بھی اس کا اہتمام ہو جائے کہ تھوڑا سا وقت نکال کر گھروں میں آیتِ کریمہ کا ختم کریں اور اللّٰہ تبارک و تعالیٰ سے دعا کریں کہ یا اللہ ہم نہیں جانتے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے؟ ہم نہیں جانتے کہ کون اچھا ہے اور کون برا ہے؟ آپ ہمارے لئے کوئی اچھائی کا راستہ پیدا فرما دیجئے اور ہمارے ملک کے حالات بہتر فرما دیجیے۔ یہ ہے کرنے کا اصل کام، نہ کہ مجلسیں جما کر حالات پر تبصرے کئے جائیں اور ایک دوسرے کے اوپر لعن طعن کیا جائے۔
موجودہ حالات میں بچاؤ کا دوسرا راستہ؛اصلاحِ احوال کی فکر
دوسری بات کہ ہر آدمی اپنے گناہوں پر معافی مانگے اوراپنی کوتاہیوں سے توبہ تائب ہو کر اپنے احوال کی اصلاح کی فکر کرے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ قرآنِ کریم نے’’عَلَیْکُمْ أَنْفُسَکُمْ‘‘ کے ذریعے یہ پیغام دیا ہے کہ ہر شخص اپنے اعمال کی فکر کرے،چنانچہ ہمیں چاہیے کہ ہر آدمی اپنا جائزہ لے کر یہ دیکھے کہ میں نے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ تو پڑھا ہوا ہے، لیکن میں لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے تقاضوں پر پر کتنا عمل کر رہا ہوں؟ صبح سے لے کر شام تک کی زندگی کا جائزہ لے اور جائزہ لے کر اپنی اصلاح کی طرف قدم بڑھائے، یقین رکھو کہ اگر اس بائیس کروڑ کی آبادی میں ہر ہر شخص اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہو جائے تو کیا اللہ تعالی کو ہم سے کوئی دشمنی ہے کہ وہ ہمارے حالات کو ہمیشہ خراب ہی رکھیں گے؟ قرآن کریم کہتا ہے:

مَا یَفْعَلُ اللَّہُ بِعَذَابِکُمْ إِنْ شَکَرْتُمْ وَآمَنْتُمْ(النسائ: ۱۴۷)
ترجمہ:اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم شکر گذار بنو اور صحیح معنی میں ایمان لے آؤ۔

اگر ہم ایمان کے تقاضوں پر عمل کرنے والے بن جائیں گے تو اللہ تعالیٰ ضروری ہمارے احوال کی اصلاح فرمادیں گے۔
میرے بھائیو یہ میری انتہائی دردمندانہ گزارش ہے کہ ہم ان حالات میں ان دونوں باتوں پر عمل کریں،یعنی،ایک تو اللہ کی طرف رجوع کا اہتمام کریں ہر مسلمان روزانہ دو رکعت نماز حاجت پڑھ کر اپنے گرد و پیش کے حالات کو درست کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگے، اور دوسرے اپنی صبح سے لے کر شام تک کی زندگی کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ جہاں جہاں کوئی گناہ کا کام کر رہے ہیں یا جہاں جہاں اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی خلاف ورزی ہورہی ہے تو اس سے اپنے آپ کو نکالیں،اس طرح ان شاء اللہ اللہ تبارک و تعالی اصلاح کا راستہ کھول دیں گے،ضرور کھولیں گے،ضرور کھولیں گے ان شاء اللہ۔اللہ تعالی ہم سب کو اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ :ذیقعدہ ۱۴۴۳ھ)