خطاب:حضرت مولا نا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
ضبط وترتیب ____________ ذیشان علی صادق آبادی

اس سال عید الفطر کے موقع پر نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مد ظلہم نے ناظم آباد کراچی کی وسیع وعریض عیدگاہ میں مسلمانوں کے جم غفیر سے جو بصیرت افروز، روح پروراورچشم کشا خطاب فرمایا ، یہ خطاب عالم اسلام کے موجودہ حالات میں اہم ہدایات پر مشتمل ہے جونذر قارئین ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ادارہ)
مسلمانوں میں کسی بھی بنیاد پر تفریق گوارا نھیں
حمدوستائش اس ذات کے لئے ہے جس نے اس کارخانۂ عالم کو وجود بخشا
اور
درود و سلام اس کے آخری پیغمبرپر جنہوں نے دنیا میں حق کا بول بالا کیا

خطبۂ مسنونہ کے بعد فرمایا:
میرے محترم بزرگو اور دوستو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں سب سے پہلے آ پ تمام حضرات کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ اللہ جل جلالہ نے اپنے فضل وکرم سے ہمیں اپنی زندگی میں ایک اور رمضان المبارک کے روزے رکھنے، تراویح پڑھنے اور قرآن پاک کی تلاوت کرنے کی توفیق عطافرمائی اس پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اس رمضان اور اس کی عبادتوں کے انعام کے طور پر عید الفطر کا یہ پر مسرت دن پوری امت مسلمہ کو عطا فرمایا ۔۔۔ دنیا کی ہر قوم اور مذہب وملت کے لوگ خاص خاص ایام میں تہوار مناتے ہیں جو ان کی خوشیوں کے دن ہوتے ہیں اور وہ ان میں مسرت کا اظہار کرتے ہیں اللہ جل جلالہٗ نے امت مسلمہ کو دو عظیم تہوار عطا فرمائے ہیں ایک عیدالفطر اور ایک عیدالاضحی لیکن اللہ تعالیٰ نے اسلام میں تہوار منانے کا بھی ایک منفرد انداز رکھا جو دوسری اقوام اور ملتوںمیں نہیں پایا جاتا۔
اسلام میں تہوار منانے کا ایک منفرد انداز
پہلی بات تو یہ ہے کہ دوسری قومیں عام طور پر خوشی کے مواقع اور تہوار کسی خاص واقعے کی بنیاد پر مناتی ہیں جو ماضی میں ہوکر ختم ہوچکا یعنی کسی کے یوم پیدائش یاکسی تاریخی واقعے کی بنیاد پر تہوار منائے جاتے ہیں مثلاً عیسائیوں کے ہاں کرسمس کا تہوار ہوتا ہے جو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یوم پیدائش کے طور پر منایا جاتاہے اگرچہ تاریخی اعتبار سے یہ بات مشکوک ہے کہ ۲۵؍ دسمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا دن تھا بلکہ اس کے خلاف دلائل موجود ہیں لیکن بہرحال وہ یہ دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے طور پر مناتے ہیں یہودیوں کے ہاں نیروز کا تہوار منایاجاتا ہے ، حضرت موسٰی ؑ کو جو فرعون پر فتح حاصل ہوئی تھی فرعون غرق ہوا تھا یہ تہواراس واقعے کی یادمیں منایا جاتاہے حاصل یہ کہ اکثر وبیشتر قومیں جو تہوار مناتی ہیںوہ کسی تاریخی واقعے کی یاد میں ہوتا ہے جو ماضی میں ہو کر ختم ہوچکا لیکن امت مسلمہ اور اسلام کی تعلیم کو دیکھیے کہ اس میںعیدالفطر اور عیدالاضحی کے جو دو تہوار رکھے گئے ہیںان میں سے کوئی تہوار بھی ایسا نہیں ہے جسکا ماضی کے کسی تاریخی واقعے سے تعلق ہو۔ ورنہ یہ ہوسکتا تھا کہ وہ دن عید کا ہوتا جس دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے، یہ ہوسکتا تھا کہ وہ دن عید کا ہوتا جس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی، یہ ہوسکتا تھا کہ وہ دین عید کا رکھا جاتا جس دن اللہ تعالیٰ نے غزوہ ٔبدر کے میدان میں۳۱۳؍نہتوں کو ۱۰۰۰؍ مسلح سورماؤں پر فتح نصیب فرمائی ،یہ ہوسکتا تھا کہ وہ دن عید کا رکھا جاتا جس دین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح فرمایا اور کعبے کی چھت سے پہلی بار اذان کی آواز بلند ہوئی ۔
الحمد للہ، مسلمانوں کی تاریخ ایسے عظیم واقعات سے لبریز ہے لیکن اسلام نے ان میں سے کسی بھی واقعے کو تہوار کی بنیا د بنانے کے بجائے دو عیدیں ایسے موقع پر رکھیں کہ جس میں ہر سال مسلمانوں کو یہ سعادت حاصل ہوتی ہے کہ وہ کسی عبادت میں مشغول رہتے ہیں ۔ عیدالفطر کو اللہ تعالیٰ نے اس وقت رکھا جب رمضان پورا ہو ا، رمضان میں اللہ تعالیٰ نے روزے رکھنے اور عبادتیں کرنے کی توفیق عطافرمائی اور عیدالاضحی ایسے موقع پر منائی جاتی ہے جب مسلمان ایک دوسری عظیم الشان عبادت کی تکمیل کرتے ہیں یعنی حج جب حج کی عظیم الشان عبادت ۹ ذی الحجہ کو عرفات کے میدان میں تکمیل پا جاتی ہے تو عیدالاضحی کا دن خوشی کے طور پرمنایاجاتا ہے ۔سبق یہ دیا جارہا ہے کہ خوشی اور تہوار منانے کا فیصلہ محض اپنے آباؤ اجداد اور اسلاف کے کارناموں پر ہی نہیں بلکہ خود مسلمان کے اپنے عمل کی بنیاد پر ہوناچاہیے اور اسکی خوشی منانی ہے، یہ نہیں کہ بس اپنے آباؤ اجداد کے کارناموں پر فخر کرتے رہو اور اس پر خوشی مناتے رہو اسکو یاد کرتے رہو اور خود ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے بیٹھ جاؤ۔
امت مسلمہ کو خوشی منانے کا حق کب حاصل ہے ؟
خاص طور پر امت مسلمہ کو خوشی منانے اور تہوار منانے کا حق اسوقت پہنچتا ہے جب تم نے خود کوئی عمل انجام دیا ہو چنانچہ حدیث مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب مسلمان رمضان کا مہینہ گزار کر روزے رکھ کر اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق عبادتیں انجام دیکر عیدگاہ میں جمع ہوتے ہیں نماز عید ادا کرتے ہیں اور یہ بھی خوشی منانے کا ایک منفرد انداز ہے کہ خوشی منانے سے پہلے اپنے پروردگار کے سامنے سربسجود ہو جاؤ اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدہ کرکے اب تم خوشیوں کا آغاز کرو اور اس سے پہلے صدقۃالفطر نکال کر آؤ تاکہ ان لوگوں کا بھی تمہیں دھیان رہے جن کے چولہے آج کے دن بھی ٹھنڈے ہیں ان کی فکر کرکے عیدگاہ آنے سے پہلے صدقۃ الفطر نکال کر اب حاضری دو۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نظام رکھا اور حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ جب مسلمان رمضان کی تکمیل کے بعد عیدگاہ میں جمع ہوتے ہیں تو اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے فرشتوں سے خطاب کرتے ہیں یہ وہ فرشتے ہیں کہ جب حضرت آدم کو پیدا کیا جارہاتھا تو انہوں نے سوال کیا تھا کہ ’’ اَتَجْعَلُ فِیْہَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّمَائَ‘‘(البقرۃ۳۰) کہ آپ زمین میںایسے لوگ پیدا کررہے ہیں جو خون بہائیں گے ’’وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکْ‘‘ اور ہم آپ کی تسبیح وتقدیس پر مامور ہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اِنِّیْ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْن‘‘ تمہیں نہیں معلوم میں کیسی مخلوق پیدا کرنے جارہاہوں تم تو ایسی مخلوق ہو کہ نہ تمہیں بھوک لگتی ہے ،نہ پیاس لگتی ہے، نہ کوئی اور خواہش تمہارے دل میں پیدا ہوتی ہے تمہیں پیدا ہی اس لیے کیا گیا ہے کہ تم میری عبادت،تسبیح وتقدیس میں مصروف رہو چنانچہ تم مصروف رہتے ہو لیکن میں ایک ایسی مخلوق پیدا کرنے جارہا ہوں جسکو بھوک لگے گی مگر بھوک کے باوجود میرے حکم پر کھانا چھوڑدے گی اسکو پیاس لگے گی مگر میرے حکم پر پانی پینا چھوڑدے گی اور جب وہ مخلوق اپنی خواہشات کچل کر میرے احکامات کی تعمیل کرے گی تو اے فرشتو!وہ تم سے آگے بڑھ جائے گی چنانچہ اللہ تعالیٰ عید کے دن فرشتوں سے خطاب کرتے ہیں کہ میرے فرشتو! یہ بتاؤ کہ جس مزدور نے اپنا کام پورا کردیا ہو اسکو کیابدلہ ملنا چاہیے فرشتے جواب دیتے ہیں کہ اے اللہ جس مزدور نے اپنا کام پورا کرلیا ہو اس کاصلہ یہ ہے کہ اسکو پورا پورا اجر اور پوری پوری اجرت دی جائے ، اللہ تعالیٰ پھر فرشتوں سے فرماتے ہیںکہ اے میرے فرشتو! میرے بندے اور بندیاں یعنی مسلمان مردوں اور عورتوں کے ذمے میںنے ایک فریضہ لگایا تھا کہ رمضان کے مہینے میں روزے رکھیں انہوں نے اپنا فریضہ پورا کردیا اب آج یہ اس عید گاہ میں جمع ہیں اورمجھ سے دعائیں مانگ رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیںکہ میری عزت کی قسم، میرے جلال کی قسم،میری کبریائی کی قسم آج میں ان سب کی دعائیں قبول کرونگا نہ صرف یہ کہ دعائیں قبول کرونگا بلکہ ’’بَدَّلْتُ سَیِّاتَہُمْ حَسَنَاتْ‘‘ انکی عبادتوں میں جو کوتاھیاں ہوئی ہیں انکو بھی حسنات میںبدل کر ایسے بھیجونگا کہ جب یہ واپس جائیں گے تو انکی مغفرت ہوچکی ہوگی۔
تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس عیدالفطر کے ذریعے ہم پر احسان فرمایاہے کہ رمضان کے روزوں کی قبولیت کا اعلان فرمارہے ہیںاور فرمارہے ہیں کہ انکی برائیوں کونیکیوںمیں تبدیل کردوںگا، برائیوں سے مراد یہ ہے کہ ان کو جس طرح نماز پڑھنی چاہیے تھی اسطرح نہیں پڑھی جس طرح زکوٰۃ دینی چاہیے تھی اس طرح نہیں دی یعنی ان آداب کے ساتھ عبادت نہیں کی جن آداب کے ساتھ ان کو عبادت کرنی چاہیے تھی تو آج میں انکی سیئات کو بھی حسنات میں تبدیل کرکے انکی مغفرت کرکے واپس بھیجوں گا۔
یہ اللہ تعالیٰ کے انعام کا دن ہے
تو بھائیو! یہ اللہ تعالیٰ کے انعام کا دن ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس امت مسلمہ پر یہ عظیم انعام فرمایا ہے کہ اس عبادت کو قبول کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے لیے مغفرت کا راستہ بھی نکال دیا ہے لیکن یہ خوب سمجھ لیجئے کہ جہاں جہاں بھی حدیث میں یا قرآن میں یہ آتا ہے کہ نیک عمل سے بندے کی مغفرت ہوجاتی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے حقوق معاف فرمادیتے ہیں لیکن جہاں تک بندوں کے حقوق کا تعلق ہے وہ صرف توبہ سے ہی معاف نہیں ہوتے بلکہ اس وقت تک معاف نہیں ہوتے جب تک آدمی یا تو حق ادا نہ کردے یا وہ بندہ جس کا حق پا مال کیا ہے وہ معاف نہ کردے اسی لیے کہا گیا ہے کہ حقوق العباد کا معاملہ حقوق اللہ سے زیادہ تنگ ہے۔ اللہ فرماتے ہیں کہ میں اپنا حق معاف کردونگا لیکن میرے بندے کا جو حق تم نے پامال کیا وہ اسوقت تک معاف نہیں ہوگا جب تک وہ بندہ معاف نہ کردے یا تم اسکا حق ادا نہ کرو، اسی وجہ سے حدیث پاک میں فرمایا گیا ہے کہ لیلۃ البرا ء ۃ میں اللہ تعالیٰ اتنے انسانوں کی مغفرت فرماتے ہیں جتنے بنی کلب کی بکریوں کے بال ہیں لیکن دو آدمیوں کی مغفرت نہیں ہوتی ایک وہ متکبر ہے جس نے تکبر سے اپنے زیر جامہ کو لٹکایا ہوا ہو،دوسر اوہ جس کے دل میں کسی مسلمان کے خلاف بغض ہو اسکی مغفرت شب برأت میں بھی نہیں ہوتی لہذا اللہ تبارک وتعالیٰ سے آج معافی مانگنے کابھی دن ہے دعا کرنے کا بھی دن ہے اور ساتھ ساتھ اس ارادے کا بھی دن ہے کہ آئندہ زندگی میں ہم اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کرینگے اور بندوں کے حقوق بھی ادا کرینگے۔
شریعت کے نام پر خونریزی ہورہی ہے
افسوس یہ ہے کہ چند سالوں سے عالم اسلام کی عیدیں مسلمانوں کے درمیان اخوت ، محبت اور اتحاد کے بجائے خانہ جنگی اور دہشت گردی کی فضاء میںآرہی ہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کا فضل وکرم ہے کہ پچھلے سالوں کے مقابلے میں اس وقت بہتر صورتحال ہے لیکن اب بھی دہشت گردی کا عفریت نجانے کتنے خاندانو ں کو اجاڑ چکا ہے کتنے بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتارچکا ہے کتنے لوگ اغواء ہوئے ہیں اور ان کے ماں باپ ان کے خاندان ان کی تلاش میں ہیں ان لوگوں کی بے چینی کا اندازہ کیجئے جن کے جگر گوشے، جن کے دل کے ٹکڑے اس طرح لاپتہ ہیں کہ یہ بھی پتہ نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا نہیں ۔ ہیں تو کہاں ہیں، کب ان سے ملاقات ہوگی،ایسے ایسے واقعات پیش آرہے ہیں ۔ تو میرے بھائیو! آج ہمیں ایک بات کے بارے میں ذہنوں کو اچھی طرح صاف کرلینا چاہیے وہ یہ کہ دشمنوں کی سازشوں اور پروپیگنڈوں کے نتیجے میں عالم اسلام کے ہر ملک میں ایسی تحریکیں کھڑی ہورہی ہیں جو نام اسلام اور شریعت کے نفاذ کا لیتی ہیں لیکن بازار انہوں نے خونریزی کاگرم کر رکھا ہے، انسانوں کی جان لے رہے ہیں، عورتوں اور بچوں پر حملے کررہے ہیں اور بدبختی کی انتہاء یہ ہے کہ ابھی ایک دو دن پہلے مدینہ منورہ کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ہے وہ مدینہ منورہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر ہے ،وہ شہر جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی برکتوں سے مالامال ہے اُسے دہشت گردی کا نشانہ بنایا جارہا ہے اس سے بڑی بدبختی اور کیا ہوسکتی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اقدس کے قریب جا کر دھماکے کیے جارہے ہیں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے یہ پیغام ساری امت کو بھیجا تھاکہ ’’المدینۃ حرام ما بین عیر الی ثور‘‘کہ مدینہ منورہ حرم ہے جیسے مکہ مکرمہ حرم ہے اسمیں یہ ارشاد فرمایا تھا کہ ’’فمن احدث فیہا حدثاً او اٰوٰی محدثا فعلیہ لعنۃ اللّٰہ والملائکۃ والناس اجمعین‘‘ (مشکوۃ جلد۱ص۲۳۸ باب حرم المدینۃحرسہا اللّٰہ تعالٰی ) جو شخص اس مدینہ کے اندر کوئی حادثہ پیداکرے یا کسی ایسے شخص کو ٹھکانہ دے جو حادثہ پیدا کرنے والا ہواِس پر لعنت ہے اللہ کی، لعنت ہے اسکے فرشتوں کی، لعنت ہے سارے مسلمانوں کی، یہ الفاظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے بارے میںارشاد فرمائے تھے اور آج جو لوگ اسلام کے قیام اور شریعت نافذ کرنے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں اسی اسلام کے نام پر دھماکے کیے جارہے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اقدس کے باہر دھماکہ ہوا ہے اس سے ان لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہیں جو اس غلط پروپیگنڈے میں آئے ہوئے ہیںکہ شریعت کے نفاذ کے لیے دفاعی ہتھیار اٹھائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہمارے نوجوانوں کو گمراہ کیا جارہاہے ، ہمارے کمسن بچوں کو گمراہ کیا جارہا ہے اور انکو یہ کہا جارہا ہے کہ تم لوگوں پر خودکش حملے کرو انکی جانیں لو اور بچوں پر حملے کرو اور مختلف مقامات پر جاکر کاروائیاں کرو ایسا کروگے تو سیدھا جنت میں جاؤگے۔
تخریبی کارروائیوں کا فائدہ کس کو پہنچ رہا ہے ؟
میرے بھائیو! یہ اس دور کا سب سے بڑا فتنہ ہے ہر واقعے کے بارے میں کوئی عمل ہو کوئی تحریک ہو یا کوئی واقعہ پیش آئے ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ اسکا فائدہ کس کو پہنچ رہا ہے نام بے شک اسلام کا لیا اور شریعت کے نفاذ کا لیاجارہا ہے لیکن جو کارروائیاں تم کررہے ہو ان کارروائیوں سے فائدہ کس کو پہنچ رہا ہے اگر انسان میں ذرا بھی عقل ہے تو اسکو پتہ چل جائے گا کہ ان ساری کارروائیوں کا خاص فائدہ یا امریکہ کو پہنچ رہا ہے یا اسرائیل کو پہنچ رہا ہے یا اسلام دشمن طاقتوں کو پہنچ رہا ہے ۔
پاکستان کو تباہ کرنے کی کوشش کیوں ہورہی ہے ؟
اسرائیل یا یہودیوں کے مقابلے پر جو جو ملک بھی ذرا کھڑے ہوتے ہیں ان کو ایک ایک کرکے نشانہ بنایا جاتا ہے اور خود مسلمانوں کے اندر ایسے لوگ پیدا کیے جارہے ہیں جو مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر ان کی طاقتوں کو ملیا میٹ کررہے ہیں اور اب اللہ بچائے پاکستان کے اندر جو کہ اسلام کے نام پر قائم ہوا ،ہزار بد عملیا ں سہی، اللہ تعالیٰ ان سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ہمارے حکام کو بھی اللہ تعالیٰ توفیق دے لیکن یہ ملک اسلام کے نام پر بنا،اسی لیے اس کو تباہ کرنے کی کوشش ہورہی ہے اور اس لیے کہ یہ ایک ایٹمی طاقت ہے اپنی اس طاقت کے ذریعے یہ اسرائیل کو چیلنچ کرسکتا ہے لہذا اس کے خلاف سازشوں کے جال بنے جارہے ہیں۔ دشمن آکر اس طرح نہیں کہے گا کہ ہم تمہیں تقسیم کرنا چاہتے ہیں، تمہیں مٹانا چاہتے ہیں دشمن ہمیشہ ایسے لوگوں کو کھڑا کرے گا جو مسلمانوں کو آپس میں لڑائیںمسلمانوں کو ایک د وسرے کے خلاف برسر پیکار کریں اور ان میں فتنے پیدا کریں کبھی دہشت گردی کا فتنہ کھڑ ا کرنا کبھی مسلمانوں کو فرقہ واریت میں تقسیم کرنا یہ شیعہ ہے یہ سنی ہے یہ بریلوی ہے یہ دیوبندی ہے یہ اہل حدیث ہے انکو آپس میں لڑاؤاور انکے درمیان آپس میں جنگ وجدال کی فضا پیدا کرو یہ اس لیے تاکہ یہ کمزور ہوںاور خودایک دوسرے کو کاٹ کر ختم کردیں۔ خدا کے لیے اس فکر سے خود بھی بچنے اور نوجوانوں اور اپنے بچوں کو اسکی تربیت دینے کی ضرورت ہے۔
آپس میں محبت کی فضا قائم کریں
آج عید کے موقع پر الحمدللہ اتنا بڑا مجمع مسلمانوں کا موجود ہے اور الحمدللہ رمضان کی عبادتیں انجام دے کر آیا ہے اللہ تعالیٰ سے دعا کیلئے جمع ہواہے تو میرے بھائیو! یہ پیغام سارے مسلمانوں کو ذہن نشین کرنا چاہیے آج کے دن اس بات کا عزم کرنا چاہیے کہ مسلمانوں کے درمیان تفریق چاہے وہ مذھبی بنیاد پر ہو فرقہ وارانہ بنیاد پر ہو یا علاقائی بنیاد پر ہو ایسی تفریق کو گوارا نہیں کیا جائے گا ہماری مشکلات کا کوئی حل اس کے سوا نہیں ہے کہ تمام امت مسلمہ متحد ہو اور آپس کے خطروں ، آپس کے اختلافات اور آپس کی نفرتوں کو ختم کرکے محبت کی فضا پیدا کریں اور متحد ہوکر اپنے مشترک دشمن کا مقابلہ کریں آج کے دن اللہ تعالیٰ ہمیں اسکا عہد کرنے کی توفیق عطا فرمائے اس راستے میں جدوجہد کرنے کی توفیق عطافرمائے اور اس جدوجہد کو اپنے فضل وکرم سے کامیابی سے ہمکنار فرمائے۔

وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العٰلمین ۔

٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ – ذوالقعدہ 1437 ھ)