عربی مقالہ __________حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس __________ جامعہ دارالعلوم کراچی
اردو ترجمہ __________مولانایوسف حسین گجراتی

عالم اسلام اوررفاہ عامہ کے عملی میدان

بعض ایسے مقتدر حلقے جو اسلامی ریاستوں میں سے کسی ریاست میں عالمی رفاہی ادارے کی بنیا د رکھنا چاہتے ہیں ،ان کی فرمائش پر نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے اپنے ایک عربی مقالے میں اس طرح کے عالمی رفاہی ادارے کا ایک عملی خاکہ تجویز فرمایا تھا ۔ اس میں ذکر کردہ تجاویز ان حضرات کے لئے مشعل راہ ہیں جو عالمی سطح پر کوئی کردار اداکرنا چاہتے ہیں ۔
یہ گراں قدر مقالہ "مقالات العثمانی ” میں شائع ہوچکا ہے ، افادئہ عام کے لئے اس کا اردو ترجمہ پیش کیا جارہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ادارہ)

آج اگر ہم عالمی سطح پراسلامی ممالک اور ان میں موجود اسلامی تنظیموں کا بغور جائزہ لیں توہمار ی شامت اعمال اور بدنصیبی کا واضح طور پر ادراک ہوجاتاہے کہ ابھی تک ہماری کوئی ایک بھی ایسی عالمی مسلم نمائندہ تنظیم نہیں جو بین الاقوامی سطح پر قائم ہو اور جوبطور خاص ناموافق حالات میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے مصروف عمل رہے __ ان ناگفتہ بہ حالات میں مجوزہ فلاحی تنظیم ان شاء اللہ تعالیٰ عالم اسلام میں فلاح وبہبود کی مطلوبہ ضروریات کو پوراکرنے کے لئے ایک بہتر سنگ میل ثابت ہوگی۔
نیز من حیث القوم یہ بھی ہماری نااہلی ہے کہ اسلامی ریاستوں میں اسلامی تنظیموں کا ایک جال بچھا ہوا ہے مگر ان کے خاطر خواہ،قابل ذکر اور دور رس نتائج نظر نہیں آتے، باوجود یکہ ان پر بے پناہ مصارف آتے ہیں۔ایسی صورتحال میں یہ اقدام بلاشبہ قابل تحسین ہے کہ اس عظیم مقصد کیلئے ایک تنظیم تشکیل پذیر ہورہی ہے،تاہم اس کے قیام سے پہلے یہ اطمینان کرلیناضروری ہے کہ یہ نہ ہو کہ اس کی تشکیل کے بعد بھی اس کاحال اسی طرح قابل رحم ہو،جس طرح اس زمانے میں اس مقصد کے لئے قائم دیگر تنظیموں کے حالات ہمارے سامنے ہیں،اس لئے یہ ضروری ہے کہ اس کی تشکیل سے قبل ہی ہم بہترین حکمت عملی اپنائیں اور ان سب کاموں سے قطعی پرہیز کریں جو ہمیں ان سنگین نتائج تک لے جائیں اور اسے مستحکم بنیادوں اور گہرے علمی خطوط پر اس طرح استوار کریں کہ یہ اسلام اور مسلمانوں کے بہبود سے متعلق عملی اقدامات کے لیے ہرلحاظ سے مستعد اور تیار ہو، اور اس کے منتظمین واراکین مقررہ خاکہ کی عملی تنفیذ میں پیش آنے والی کسی بھی قسم کی مشکلات اور پیچیدگیوں سے قطعی متأثرنہ ہوںاورنہ ہی عملی کام کے تسلسل سے تھک ہار کر بیٹھ جائیں،چاہے یہ رکاوٹیں اور مشقتیں کیسی ہی سخت اور پریشان کن ہوں۔
رفاہ عامہ کی اس تنظیم کی جہاں تک تاسیس کا تعلق ہے تو اس کے لیے اتنا کافی ہے کہ ابتدائی طور پر درکار وہ بنیادی وسائل وعوامل میسر ہوں، جن سے اس کی ابتدائی تشکیل بسہولت ہوسکے، جبکہ اس کی حکمت عملی وسیع بنیادوں پر ہونا ضروری ہے تاکہ رفاہ عامہ سے متعلق تمام ہی شعبوں کو حاوی ہو، اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ پوری دقتِ نظری کے ساتھ ان ضروریات کا بغور جائزہ نہ لے لیا جائے جواس ادارہ کوعملی سرگرمیوں کے لئے درکار ہوسکتی ہیں یا کسی درجے میں ان کے ہونے کا امکان ہے، تاکہ اس کے منتظمین وکارکنان کے لیے یہ ممکن ہوسکے کہ وہ علیٰ وجہ البصیرت ممکنہ مشکلات اور خطرات کا سامنا کریں،اور اس کے لیے درکار وسائل کو روبکارلائیں۔
اور جب اس کا دائرۂ عمل قانون و دستور کی صورت میں وضع ہوجائے تو ایسا نہ ہو کہ بنیادی ضوابط رجسڑوں اور فائلوں تک ہی محدود ہوکررہ جائیں، بلکہ یہ ضروری ہے کہ تاسیس کی خشت اول رکھتے ہی اس پر کما حقہ عمل درآمد ہو۔
یہ سب کرنے کے بعد اس ضمن میں سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ اس تنظیم کی فنڈنگ کا ہے، جس کی اہمیت اب تک ذکر کیے گئے ضروری امور سے کم درجے کی نہیں ہے، اس حوالے سے جو جو بنیادی عوامل کار فرماہیں،ان پر ہم قدرے تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔
شعبہ برائے مالی معاونت(Funding Department)
اس سے پہلے کہ موضوع کی مناسبت سے میں کسی بھی تفصیل میں جاؤں، اس تنظیم کی فنڈنگ کے طریقہ ٔکار کے حوالے سے پوری تاکید سے یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ مستقبل میں اس کی فنڈنگ ایسے مختلف تجارتی اداروں کے بل بوتے پر ہو جو دنیا کے مختلف خطوں میں پھیلے ہوئے ہوں، جن سے یہ تنظیم اپنی مالی ضروریات پوری کرے،تاکہ نہ صرف یہ کہ ہر قسم کے خطرے سے محفوظ و مامون رہے،بلکہ طویل المدتی بنیادوں پر اس کاقیام ودوام ہوسکے۔

عملی ڈھانچہ

مستقل بنیادوں پر تین شعبوں کا قیام
اگر ٹرسٹ کو تین مستقل شعبوں میں تقسیم کردیا جائے تو بہت مناسب ہے، جنہیں ٹرسٹ کے مرکزی دفتر Head Office))سے چلایا (operate)کیاجائے، جس کے بعد ان تینوں شعبوں کے ذمہ داران پر واجب ہے کہ وہ ٹرسٹ کے اعلیٰ عہدیداران کو اپنی سالانہ کار کردگی کی رپورٹ پیش کریں۔
مجموعی فنڈز کی درجہ بندی اس طرح عمل میں آئے کہ فنڈز کا پچیس فیصد ٹرسٹ بطور حفاظت (reserve)اور انہیں قابل منافع بنانے کی غرض سے محفوظ رکھے، جبکہ بقیہ پچیس فیصد مذکور ہ تینوں شعبوں میں برابر برابر تقسیم کردے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ سیونگ کی یہ شرح کسی مخصوص سال میں پچیس فیصد سے کم ہوکربیس فیصد رہ جائے جبکہ یہ محسوس ہو کہ اس سال مخصوص شعبے میں معمول سے ہٹ کر کسی وجہ سے کچھ زائد فنڈز درکار رہے، اس کے علاوہ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی کم از کم پانچ فیصد شرح مقرر کردی جائے جو مذکورہ شعبوں میں سے کسی بھی شعبے کو صرف ناگہانی حالات میں مہیا کی جائے۔
مندرجہ ذیل جدول سے مرکزی دفتر کا دائرہ عمل اور اس کے شعبہ جات واضح ہوجاتے ہیں:
مرکزی دفتر( Head Office)
۱۔ شعبہ ہلال احمر۲۔ شعبہ دعوت وتبلیغ نشر واشاعت ۳۔ شعبہ مالی معاونت برائے مسلم اقلیتی کمیونٹی
تینوں شعبوں کے اراکین مجلس شورٰی
دنیا بھر سے مذکورہ ہر تین شعبوں میں سے ہر ایک شعبے کے اراکین کی تعداد حسب ذیل طریقے پر ہوتو بہت مناسب ہے:
دوارکان سعودی عرب سے، دوارکان افریقا سے، دوارکان ایشیاء وشرقِ اوسط سے، دوارکان یورپی ممالک سے، دوارکان امریکا سے، جس میں لاطینی امریکا بھی شامل ہے۔
اس سے پہلے کہ ان کی مجلس شورٰی کے عملی طریقۂ کار پر روشنی ڈالی جائے، میں ایک بار پھر پوری صراحت سے اس بات پر زور دوں گا کہ مذکورہ تینوں شعبوں میں سے ہر شعبہ دوسرے کے مقابلے میں مستقل بنیادوں پر قائم ہوگا، جس کی مجلس شوریٰ کے اراکین ایسے ذی وقار و مقتدر حضرات ہوں گے جو معاملات کی صفائی اور نیک نامی کے ساتھ عوام الناس میں مشہور ہوں، ان کی علمی خدمات سے دنیا بھر کی مسلم کمیونٹی واقف ہو، اور جو میدان عمل انہیں تفویض کیا جائے، وہ اس میں بھرپور تجربہ رکھتے ہوں۔ ان میں اعزازی امیر منتظمین کی مشاورت سے مقررکیاجاسکتاہے، جب کہ اس کی مدتِ امارت بلا کسی تجدید کے چار سال مقرر ہوگی، اور ہر چار سال بعد ایک نئے امیر کا انتخاب ہوگا، تاکہ آنے والے وقتوں میں تنظیم کی کارکردگی کسی صورت متأثر ہو، اور نہ ہی اس تنظیم پر کسی مخصوص فرد یا طبقہ کا کنٹرول قائم ہوسکے، جیسے کہ اکثر اسلامی تنظیموں اور اداروں کی صورت حال ہمارے سامنے ہے کہ کچھ مخصوص فرد یا طبقہ کا بے جا کنٹرول یا چودھراہٹ اس قدر ستم ڈھانے لگتی ہے کہ اس تنظیم یا ادارہ کے بنیادی مقاصد ہی بھلا دیے جاتے ہیں اور اہداف سے صرف نظر کرلیا جاتا ہے۔
مسلم نمائندہ تنظیموں کی آج جوقابل رحم صورت حال ہے، اس کی اولین وجہ ہی یہ ہے کہ ان کے عہدیداران و ذمہ داران سیاسی مقاصد کے پیش نظر منتخب ہوتے ہیں، نتیجۃً یہ عاقبت نااندیش لوگ اس انتہائی حسّاس منصب کا قلمدان سنبھالنے کے بعد اُس وقت تک اس پر تسلط قائم رکھتے ہیں جب تک کہ اس میں موجود اراکین یا کارکنان کی کارکردگی بالکل زیرو اور ان کی دلچسپی کا گراف بالکل نیچے نہیں آجاتا۔ لہٰذا اگر یہ تنظیم واقعۃً مسلم امہ کی بھلائی اورفلاح وبہود چاہتی ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کے اس کے اراکین، عہدیداران و ذمہ داران خالصۃً دیانت داری، صلاحیت و قابلیت اور عملی کارکردگی کی بنیاد پر منتخب کیے جائیں۔
مذکورہ شعبوں میں سے ہر شعبے کے لیے ضروری ہے کہ اس کاایک امیرہو اورباضابطہ طورپر ایک مجلس شوریٰ قائم ہو،چوں کہ عملی میدان میں ان میں سے ہر ایک پر مختلف نوعیت کے کاموں کا بوجھ ہوگا، لہٰذا ضروری ہے کہ مجلس شوریٰ میں ایسے رجال کار ہوں جو اپنے اپنے میدان میں بھرپور تجربہ اور دسترس رکھتے ہوں، اور یہ بھی ضروری ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً مختلف شہروں کا سفر کریں، جہاں ان سے متعلقہ امور پر پہلے سے کام ہورہاہو، تاکہ ان کے عملی تجربہ میں مزید پختگی آئے اور کارکردگی میں نکھار پیداہو۔
مستقبل قریب میں اس تنظیم کو جس طرح کی افرادی قوت درکار ہوسکتی ہے، ان میں شعبہ ہلال احمر کے لیے ایسے ڈاکٹرز اور اطباء درکار ہوں گے جو اپنے فن کے ماہر اور بھرپور تجربہ کے حامل ہوں۔ اسی طرح دعوت و تبلیغ کے شعبے میں ذی استعداد مسلمان مبلغین سمیت تعلیمی ماہرین کی اشد ضرورت رہے گی، جبکہ شعبہ مسلم اقلیتی کمیونٹی کے لیے ہمیں جو افرادی قوت درکار رہے گی، ان میں مبلغین و تعلیمی ماہرین سمیت سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے رجال کار شامل ہیں، بلکہ بہتریہ ہے کہ اس شعبہ میں زیادہ اہمیت سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والوں کی ہو، کیونکہ مسلم اقلیتی کمیونٹی کے لیے زیادہ تر مصالح حکومتی سطح کے ہوتے ہیں، جس کے حل کے لئے سیاسی تجربہ بہرحال ضروری ہے، لیکن اس میں بھی یہ ملحوظ رہے کہ یہ سیاسی لوگ بھی مسلمانوں کی فلاح و بہبود میں مثبت پیش رفت کے حوالے سے مخلص ہوں اور اس خالص دینی وفلاحی معاملے میں کسی بھی قسم کے پس و پیش سے کام لینے، ذاتی مفادات میں الجھنے یا دورویہ و منافقانہ رویہ اپنانے سے قطعی طورپر بری ہوں۔
تنظیم کے مرکزی دفتر( Head Office)کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے پاس ہر قسم کے ممکنہ حالات سے متعلق قواعد و ضوابط مرتب شکل میں موجود ہوں،جن کی روسے چاہے کیسا ہی صبر آزما مرحلہ ہو یاکیسے ہی سخت حالات ہوں، کسی بھی قسم کی خارجی مداخلت یا بیرونی دباؤ کو یکسر مسترد کردیا جائے، اور یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جو اس ادارے کی رفاہی خدمات کے تسلسل کو برقرار رکھنے اور اس کے طویل المدتی نفع بخش ہونے کا ضامن ہے اور اگر اس کے ذمہ داران اپنی ذاتی ہمت و قوت سے اس کی رعایت نہیں کریں گے تو مجھے اندیشہ ہے کہ اس کا حال بھی خدانخواستہ ان دیگر تنظیموں کی طرح نہ ہو جن پر کروڑوں کے مصارف سمیت بھاری وسائل استعمال ہورہے ہیں، مگر ان سے مسلم امہ کو ممکنہ فوائد و ثمرات میں سے ایک فی صد بھی نفع نہیں پہنچ رہا، اور جن کی عملی کارکردگی کا دائرۂ کار عالمی کانفرنسیں منعقد کرنے سے بڑھ کر ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھتا، جس سے اکثر برکت اور نفع رسانی کاپہلوکماحقہ برقرار نہیں رہتا۔
بلکہ میری حقیقت پسندانہ گزارش ہے کہ اس کے بنیادی اصول و ضوابط میں یہ شق بھی داخل کردی جائے کہ اس تنظیم کی طرف سے محض رسمی طور پر کوئی بھی عالمی کانفرنس کبھی منعقد نہ کی جائے، کیو نکہ اگر اس کے ذمہ داران و عہدیداران اپنے اپنے میدان عمل کے صحیح معنوں میں شناور اور اپنے کام میں پوری تندہی سے عمل پیرا ہیں، تو وہ خود ہی پیش آمدہ حالات و واقعات کے مد ّ نظر اپنے فرائض و و ظائف کا درست سمت میں تعین کریں گے، اور انہیں اس طرح کی رسمی کانفرنسوں کی کوئی حاجت نہیں رہے گی، جن کاحاصل بجز بے فائدہ قرار دادیں پاس کرنے کے اور کچھ بھی نہیں ہوتا، اورنہ اس کے سوا کوئی نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ بھاری بھرکم مصارف جن پر اولین درجے میں مستحقین کاحق تھا،ان بے فائدہ کا نفرنسوں پر خرچ کردیے جاتے ہیں۔
اور اگر واقعۃً کسی وقت تنظیم کو تجربہ کار ماہرین کی آراء درکار ہوں تو اس کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ درجن بھر افرادورجال کارجو اپنے فن میں معرفت تامہ اور صحیح معنیٰ میں تجربہ رکھتے ہوں، مختلف شہروں سے ایک ورکشاپ کی صورت میں جمع ہوں، اور امت مسلمہ کو پیش آمدہ مسائل پر چنددن یا چند ہفتے غور و فکر کریں اور ایسے عملی نتائج تک پہنچیں، جن کی روشنی میں بلاکسی تاخیر کے تنظیم اپنا دائرہ عمل طے کرسکے۔
یہ ایسے واضح اور مسلمہ اصول ہیں کہ اگر یہ تنظیم انہیں حرزجاں بنائے تو اسلام اور مسلمانوں کے لیے صحیح معنوں میں نفع بخش ہوسکتی ہے اور شک نہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لیے اگرتھوڑاسا کام بھی تسلسل کے ساتھ کیا جائے تو اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوتے ہیں، اور ظاہری وسائل کو بروئے کار لائے بغیر ضروری تشہیر بھی ہوجاتی ہے اوراخلاص کی بدولت مقبولیت عامہ بھی مل جاتی ہے۔
یہ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ عصر حاضر کے مسلمان شہرت کے حد درجہ دلدادہ ہیں اور ہماری بدعملی کا عالم یہ ہے کہ ہم کوئی کام شروع کرنے سے قبل ہی اس کی تشہیر کو اوّلین ہدف بناتے ہیں،بلکہ اس وقت تک خالصۃً عملی کام کی ابتداء نہیں کرتے جب تک کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے سالہا سال اس کی تشہیر نہیں کرلیتے،بالخصوص اس ماحول میں پوری صراحت کے ساتھ میں تاکید کرتاہوں کہ اس مجوزہ تنظیم کے لیے اس طرح کے مفاسد سے مکمل احتراز لازم ہے۔
اب میں اس تنظیم کے لیے ان تینوں مجوزہ امور کی وضاحت کی طرف آتا ہوں جن پر فی الوقت کسی عالمی تنظیم کی کوئی واضح کارکردگی سامنے نہیں آئی۔
شعبہ مسلم اقلیتی کمیونٹی
یہ شعبہ اس تنظیم کے دیگر شعبوں کے مقابلے میں اس لیے بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ شرق وغرب کی مسلم اقلیتی کمیونٹی اس سے بے حد امیدیں وابستہ رکھے ہوئے ہے۔
گزشتہ صدی کی ابتدا سے اب تک کے عالمی حالات پر اگر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر میں موجود تمام اقلیتی اقوام چاہے وہ یہودی ہو ںیا نصرانی، بدھ مت ہو ںیا ہندو مت ان میں سے کسی قوم پر اس قدر مصائب و مشکلات اور صبر آزما حالات نہیں آئے، جتنے کہ دنیا بھر میں موجود مسلم اقلیتی برادری پر مصائب اور مشکلات کے پہاڑ ٹوٹے، اور اس سے بڑھ کر مسلمانوں کے لیے کوئی المیہ نہیں کہ مسلمان من حیث القوم اس وقت سراپا مظلوم قوم تصور کی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ بہت سے مسلم ممالک ایسے ہیں کہ ان میں غیر مسلم اقلیتیں برسر اقتدار ہیں جن میں افریقا اس لحاظ سے خصوصیت سے قابل ذکر ہے کہ اس میں مسلمان انگریزی استعمار کے ہاتھوں مظلومیت کی چکی میں محض اس لیے پس رہے ہیں کہ ان میں مٹھی بھر لوگ بھی ایسے نہیں جو ثانوی تعلیم بھی حاصل کرپائے ہوں، چہ جائے کہ ان کے لیے اعلیٰ تعلیم کی راہیں ہموار ہوں۔نتیجہ یہ کہ جب اس کے کچھ خطے، جن میں تنزانیہ، موزمبیق اور سینیگال شامل ہیں، آزاد ہوئے تو مسلمانوں کے پاس ایسی افرادی قوت ہی نہیں تھی جو زمام اقتدار سنبھال سکے۔چنانچہ اقتدار کفار کے ہاتھوں میں چلا گیا بلکہ اس سے بڑھ کر ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں چلاگیا جو مرتد تھے، اوران پر عیسائی شہریوں نے بڑی مضبوطی سے پنجے گاڑ رکھے تھے، جن سے انہوں نے عصری علوم حاصل کیے تھے۔والعیاذ باللہ ۔
اس سے بھی زیادہ افسوسناک صورتحال یہ تھی کہ مغربی سامراج نے اپنے دور حکومت میں مردم شماری کے دوران باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں کی آبادی کو اقلیت میں ظاہر کیا، اور مسلمانوں کو ان کے ضروری وبنیادی حقوق سے محروم کرتے ہوئے مکمل طور پر دیوار سے لگادیا۔ جس کے بعد ان کے لیے ریاستی سطح پر اقلیتی قوم کا تصور ابھرا۔بالآخر وہ ہر قسم کی تعلیمی سہولیات سے محروم کردیے گے، حتیٰ کہ دینی تعلیم حاصل کرنا بھی ان کے لیے ممکن نہ ہوسکا اور رفتہ رفتہ اسلامی عقائد ان کے قلوب اور اذہان سے محو ہوتے گئے۔
جیسا کہ میں پہلے بھی ذکر کرچکا ہوں کہ اس وقت دنیا کے نقشہ پر سوائے ہندوستان کی ہریجی اور برما کی کیری قوم، کوئی ایک قوم بھی ایسی نہیں ہے جس پر اس درجہ ظلم ہوا ہو جیسا کہ دنیا بھر کی مسلم اقلیتی کمیونٹی پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے گئے ہیں۔ جن میں بالخصوص فلپائن، برما، سیون، تھائی لینڈ، حبشہ، مشرقی یورپ، روس اور چین کے مسلمان قابل ذکر ہیں۔ سب سے بڑھ کر ستم یہ ہے کہ ہندوستان میں کروڑوں کی مسلم آبادی ہے، لیکن ان پر کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جبکہ فرقہ وارانہ مسلم کش فسادات میں ان کے مردوں کو ذبح نہ کیا جاتا ہو، ان کے اموال و جائیداد پر غاصبانہ قبضہ نہ کیا جاتا ہو، ان کی عفت مآب ماؤں، بہنوں کی سرعام عزتیں پامال نہ کی جاتی ہوں اور ان کی بیٹیوں کو اغوا نہ کیا جاتا ہو اور یہ ظلم اور ستم صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتا بلکہ ہندوستان کی شدت پسند گورنمنٹ اور پولیس ان ظالموں و شر پسندوں پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے نہتے مسلمانوں پر اپنے یک طرفہ قانون کا شکنجہ کس دیتی ہے، اورجہاں ایک طرف ان ستمگروں اور بد قماشوں کی حمایت میں ریاستی سطح پر اعلامیے جاری ہوتے ہیں،وہیں دوسری طرف مظلوم مسلمان جیلوں میںظلم کی چکی میں پستے ہوئے اپنی عمر رفتہ کے دن گنتے نظر آتے ہیں۔
مسلم قوم پر بیتنے والے یہ واضح اور کھلے ہوئے زمینی حقائق ہیں، کوئی بنی بنائی کہانیاں اور دقیانوسی قصے نہیں ہیں، جن سے یوں ہی صرف نظر کرلیا جائے لیکن یہاں عالم یہ ہے کہ مسلم حکومتیں یا تجاہلِ عارفانہ برت رہی ہیں یا سراسر غفلت و لاپرواہی کا شکار ہیں۔
شک نہیں کہ یہ ابتر صورت حال ہر ایک مسلم حکومت کی پیشانی پرکلنک اور بد نما داغ ہے کہ دنیا بھر میں موجود ان کے مسلمان بھائی اس درجہ کسمپرسی کے عالم میں خط غربت کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اور وہ اپنے پاس موجود بے پناہ ذخیرۂ ا موال اور بہتے ہوئے وسائل کے باوجود کچھ بھی کرنے سے قطعی طور پر قاصر ہیں، حالانکہ اگر صحیح اور درست سمت میں یہ وسائل روبکار لائے جائیں تو دنیا بھر کی مسلم اقلیتی کمیونٹی کے لیے نتیجہ خیز اورمؤثراقدامات کیے جاسکتے ہیں۔
اور اب تو مسلمانوں کی پست حالی یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ برماکی مسلم کش و شدت پسند حکومت اپنے تئیں کئے گئے ان مظالم کو صیغۂ راز میں رکھنے میں مکمل کامیاب ہوگئی اور اس تاریخی ظلم و ستم کا ایک پَنّہ بھی برما کی سرزمین سے باہر نہیں کھل سکا،جنہیں سن کر ہر وہ شخص جو سینے میں دل رکھتاہے،لرزجاتاہے۔ ایسے چند مسلمانوں کی زبان سے جو حالت زار سامنے آئی وہ انتہائی افسوس ناک ہے، جو ظالم وجابر حکومت کی طرف سے قائم کردہ ان کیمپوں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے،جو برما کے صوبے ارکان میں حکومت کی طرف سے قائم تھے، انہوں نے ان کیمپوں کے حوالے سے لرزہ خیز حقائق سے پردہ اٹھایا کہ کس طرح مسلم اقلیتی کمیونٹی کو باقاعدہ طور پر ذبح کیا گیا، اور اس حد تک ظلم و بربریت کے باوجود مسلم حکومتوں اور اسلامی تنظیموں کی خاموشی تو تھی ہی،الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا نے بھی ان بے بس و لاچار مسلمانوں کو مناسب کوریج نہیں دی کہ ارکان کے ان موت کے منہ سے باہر آنے والے مظلوم مسلمانوں کی درد انگیز داستان دنیا بھر کے مسلمانوں کے سامنے لائی جاتی، جس سے متأثر ہوکر انسانیت کا درد رکھنے والے مسلمان ان کی مدد کے لیے ہاتھ بڑھاتے۔
اور اس صورتحال سے بھی ہر ایک واقف ہے کہ برما کے مسلمانوں کے پاس کوئی ایک دینی کتاب بھی نہیں پہنچی، حتیٰ کہ یہ لوگ قرآن کریم تک کو ترس گئے،حالانکہ اس کسمپرسی کے عالم میں جبکہ ان سے بنیادی انسانی حقوق بھی چھین لیے گئے، وہ اس تسلی آمیز اللہ کے پیغام کے سب سے زیادہ محتاج تھے لیکن تُف ہے ان نام نہاد اسلامی حکومتوں پر جنہوں نے اس عالمی مسلم کمیونٹی کے اس سب سے بڑے ایشو کو مچھرکے پر کے برابر بھی اہمیت نہ دی۔
جنوبی تھائی لینڈ کی حکومت نے جانتے بوجھتے پوری منصوبہ بندی سے تفرقہ بازی کے نام پر مسلمانوں کی بے دریغ نسل کشی کی،گوکہ ان میں بعض نوجوان ایسے بھی تھے جو فرقہ پرست تنظیم میں شامل ہوگئے تھے،لیکن ان کی شمولیت کی وجہ بھی اس کے سوا کوئی نہ تھی کہ ان مظالم کے خلاف جووہ پے درپے جھیل رہے تھے،کوئی ان کی حمایت کیلئے کھڑا نہیں ہورہاتھا،اور کسی کی حمایت بھی حاصل رہی تو یہ وہی فرقہ پرست لوگ ہی تھے جنہوں نے ان نوجوانوں کواپنے مفادات ومقاصد کے لئے محض استعمال کیا۔
دنیا کے اکثر خطوں میں جہاں کہیں مسلمان اقلیت میں آباد ہیں، اپنے انتہائی نازک حالات کے پیش نظر فوری توجہات اور مختلف پہلوؤوں سے مؤثر اقدامات سمیت ہنگامی بنیادوں پر معاونت کے محتاج ہیں، جس کے لیے ضروری ہے کہ اولاً ہم ان کے صحیح حالات سے واقفیت حاصل کریں،پھر عالمی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر ان سے متعلق خبروں کو نشر کریں، اور عالمی سطح پر عوامی شعور و آگہی کی فضا پیدا کریں۔بالخصوص اسلامی ریاستوں کا یہ اولین فرض ہے کہ غیر مسلم حکومتوں پر سیاسی اثر و رسوخ استعمال کریں۔ اور عالمی سطح پر تمام مسلم ممالک مل کر ان ممالک میں قیام پذیر مسلم کمیونٹی کے حقوق کے تحفظ کے لیے نتیجہ خیز اقدامات کریں۔ اسی طرح مسلمانوں کے لیے اس فکر کااجاگر ہونا انتہائی ضروری ہے کہ ان مسلم اقلیتی علاقوں میں مدارس اور اسلامک اسکولز کھولنے کے لیے جدو جہد کریں اور جو مدارس وہاں امدادی وسائل کے فقدان کے باعث مالی معاونت سے محروم ہیں، ان کی دستگیری کریں۔نیز یہ بھی ضروری ہے کہ ان مسلم اقلیتوں کے نوجوانوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے اندرون ملک و بیرون ملک خصوصی وظائف کا اجراء عمل میں لایا جائے،تاکہ کم از کم ان میں ایک جماعت ایسی ہو جو اعلیٰ تعلیم سے بہر مند ہو اور اپنے اپنے ممالک کے مسلمانوں کے لیے امید کی کرن کے طورپرسامنے آئے۔
اسی طرح مستقبل قریب میں جن مختلف شعبوں میں مسلم اقلیتیں معاونت کی محتاج ہیں، اگر ہم انہیں قدرے تفصیل سے بیان کریں تو اس موضوع پرپوری کتاب لکھی جاسکتی ہے، جس سے اور بہتر طریقے سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں جہاں کہیں مسلمان اقلیت میں ہیں، کس قدر مشکلات اور مصائب کا شکار ہیں لیکن دوسری طرف مسلم حکومتیں چہ جائے کہ ان مظالم کو روکنے میں کوئی مؤثر کردار ادا کریں، مسلمانوں کے خلاف وہ خودبھی انہی ظالم و جابر حکومتوں کی صفوں میں شانہ بشانہ کھڑی ہیں جو مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کے درپے ہیں۔
گو کہ دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے اقلیتی مسلمانوں کی خدمت اور مدد کی بہت سی جہتیں ہیں جن کی فہرست بہت زیادہ طویل ہے، لیکن ان میں سے بعض کی طرف اس مختصر گفتگو میں ہم نے اشارہ کردیا ہے، جن کی رو سے اس خاص شعبہ معاونت برائے مسلم اقلیتی کمیونٹی کی اہمیت روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے، جو صرف دنیا کے اقلیتی مسلمانوں کے حقوق کے لیے کوشاں رہے، تاکہ ان عسرت زدہ لوگوں کے درد کا مداوا ہوسکے، ان پر بیتے جانے والے حالات پر کم از کم اطلاع تو ہو،تاکہ مشرق و مغرب میں ان کے حقوق کے احیاء کے لیے انفرادی و اجتماعی سطح پر سعی پیہم اور جہد مسلسل صرف ہونے کی راہ ہموار ہوسکے۔

شعبہ دعوت و تبلیغ ا ور دینی تعلیم
مسلم امہ کے لیے جہاں دیگر شعبوں میں کام کے مواقع ہیں وہیں دعوت و تبلیغ اور تعلیمی شعبے میں بھی کام کا وسیع تر میدان ہے،اور یہ کہتے ہوئے دل میں ایک ٹیس اٹھتی ہے کہ اس شعبے میں بھی مسلمان من حیث القوم اپنے فرائض منصبی ادا کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں، باوجودیکہ ان کے پاس بے دریغ وسائل ہیں، جنہیں بخوبی بروئے کار لایا جاسکتا ہے، تعلیم و تعلم کے میدان میں اس سے زیادہ افسوس کی بات بھلا کیا ہوگی کہ اب بھی دنیا کی بعض زبانیں ایسی ہیں جن میں کوئی ایک بھی دینی کتاب مترجم شکل میں موجود نہیں، حتیٰ کہ قرآن کریم تک کا ترجمہ اب بھی بعض زبانوں میں نہیں ہوا، حالانکہ قرآن مجید کے بعض ترجمے تو ایسے غیر مسلموں نے بھی کردیے ہیں جو مسلمانوں کے خلاف تعصب اور بغض و عداوت میں معروف ہیں۔
ایسے انگریزی تراجم جو بعض مسلمانوں نے کیے ہیں مثلاً پکتھال اور عبد اللہ یوسف علی، تو انہیں بعض تجار انتہائی مہنگے داموں فروخت کررہے ہیں جبکہ بائبل کا عمدگی کے ساتھ تیار کردہ بے حد خوبصورت نسخہ ڈیڑھ ڈالر میں بسہولت مل جاتا ہے اورقرآن کریم کا ایک نسخہ سادے پیپر پر چھپائی کیساتھ بھی ساڑھے چار یا پانچ ڈالر یا اس کے برابر مالیت سے کم میں نہیں، جس سے قرآنی تراجم بھی مسلم نوجوانوں کی دسترس سے باہر ہوتے جارہے ہیں،اور اس سے بڑھ کر کیا افسوس کی بات ہوگی کہ مسلم ریاستیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے انواع و اقسام کے مالی و مادی وسائل سے مالا مال کیا ہے، اتنا بھی نہیں کر پا رہے کہ قرآن کریم کے حوالے سے صرف ان دو جہتوں سے مسلم امہ کی ضروریات پوری کردیں، حالانکہ اس پر بجز چند لاکھ ڈالر کے کوئی بہت سارے مصارف بھی نہیں۔
اور اگر کوئی ایک اسلامی حکومت بھی اپنی مسلم قوم کی اس بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی غرض سے معمولی نوعیت کے اقدامات بھی کرے اور چند ایک لاکھ ڈالر بھی خرچ کردے تو ہم اعلیٰ درجے کے انگریزی قرآنی تراجم سے بازار کے بازار بھر سکتے ہیں، اور کسی بھی قاری کے لیے صرف دو ڈالر میں قرآن کریم کے متن مع انگریزی ترجمے کی بسہولت دستیابی ہوسکتی ہے اور اسی طرح ہم یہ بھی کرسکتے ہیں کہ ان تراجم کو بغیر کسی منافع کے اصل قیمت پر فروخت کردیں تو اس سے مسلم امہ کی اہم ترین ضرورت کو بخوبی پورا کیا جاسکتا ہے اور اس سے بڑا فسوسنا ک پہلواور کیاہوگا کہ جب نصارٰی اپنی مقدس کتاب انتہائی سستے داموں فروخت کرسکتے ہیں تو ہم قرآن کریم جیسی عظیم القدر کتاب کے متن و تراجم کو بھلا کیوں کم سے کم نرخ پر فروخت نہیں کرسکتے؟
بالخصوص قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ غیر مسلموں کی اشد ترین ضرورت ہے، کیونکہ انگریزی کے علاوہ انہیں کوئی اور ترجمہ نہیں ملتا اور اگر ملتا بھی ہے تو اس کی قیمت اس قدر زیادہ ہے کہ ان کی دسترس سے باہر ہے۔
اگلے مرحلے میں دیگر دینی کتب کی بھی سستے داموں فراہمی ملت اسلامیہ کی اہم ترین ضرورت ہے، کیوں کہ بیشتر ایسی زبانیں ہیں، جن میں کوئی ایک دینی کتاب بھی معقول اور قابل تحمل ریٹ پر دستیاب نہیں۔اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ہمیں سالانہ بنیادوں پر لاکھوں ڈالر کا زر کثیر صرف اس غرض سے مختص کرنا ہوگا کہ جس سے زیادہ سے زیادہ ایسے دینی مکتبات و پبلشرز وجود میں آئیں، جو کتبِ دینیہ کو دنیا کی مختلف زبانوں مثلاً انگریزی، فرانسیسی، المانی، اٹیلی، سویسی، اسپینش، جیپنیز، روسی، چینی اور بعض افریقی زبانوں میں منتقل کروا کر مناسب ریٹ پر فروخت کریں۔اسی طرح ہم پر لازم ہے کہ ایسے دینی مطابع بھی متعارف کرائیں جو عالمی اسلامی تنظیموں کی وساطت سے بلا معاوضہ کتب کی تقسیم ممکن بنائیں۔
اس ضمن میں اگر ہم زمینی حقائق کی طرف ایک نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ بہت سی عیسائی مشنریز مسلم ممالک میں ملینوں ڈالرز محض تبلیغ کے نام پر خرچ کررہی ہیں، جن میں صرف ایک انڈونیشیا وہ ملک ہے جس میں 2سے 3کروڑ ڈالر مسلمان فقراء ومساکین کو عیسائی بنانے میں صرف کیے جارہے ہیں۔ والعیاذ باللہ! اور اس مقصد میں انہیں باقاعدہ طور پر خصوصی طیارے مہیا کیے گئے ہیں، تاکہ انہیں اپنے مطلوبہ اہداف تک پہنچنے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ہو، جبکہ اس کے قطعی برخلاف پوری اسلامی دنیا میں کوئی ایک اسلامی ریاست بھی ایسی نہیں جو اسلام کی دعوت و تبلیغ کے لیے 20 لاکھ ڈالرز بھی خرچ کرتی ہو، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مادی وسائل سے مالا مال کیا ہے۔اس ابتر صورتحال پر جس قدر افسوس کیا جائے کم ہے۔
اور اگر کہیں تھوڑا بہت خرچ بھی ہوتا ہے تو وہ اس طرح کہ بعض اسلامی تنظیمیں پمفلٹ یا کچھ دینی کتابیں مختلف ممالک میں تقسیم کرتی نظر آتی ہیں، مگر وہ اس بے ڈھنگے انداز میں طبع کی جاتی ہیں کہ اس میں کسی اجنبی قاری کی دلچسپی کا کوئی سامان نہیں ہوتا، گوکہ اس پر یکطرفہ زر کثیر صرف ہوتا ہے لیکن اگر اسی سرمائے کو اور منظم انداز میں صرف کیا جائے تو یقیناً ان معمولی وسائل سے غیر معمولی فوائد وثمرات حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
حق تو یہ ہے کہ دین اسلام کی دعوت و تبلیغ کے جو سنہری مواقع آج مسلمانوں کو میسر ہیں، اس سے پہلے چودہ سو سالہ تاریخ میں شاید کبھی ایسے مواقع میسر نہ تھے، لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کی اس درجہ حالت اور پست فکری پر ہر وہ مسلمان جو دین کا ادنیٰ درد رکھتا ہے، جتنے آنسو بہائے کم ہے۔
مسلمانوں پر ایک وہ کڑا وقت تھا جب کہ عیسائی عوام کو ان کے ارباب اقتدار اور مذہبی پیشواؤں کی طرف سے ورغلایا جاتا تھا اور اسلام جیسے مبارک دین کو اس بھدی اور وحشتناک شکل میں پیش کیا جاتا، جیسے یہ کوئی خشک اور معاشرتی اقدار سے بالا تر ایسا دین ہے جس کا دامن انتہائی تنگ ہے اور اس کے پاس ایسے احکام ہی نہیں جو عہد حاضر کے پیش آمدہ مسائل میں اپنے حاملین کی رہنما ئی کرسکیں۔ یہ ایسا دین ہے جس میں عورت کی حیثیت گویا ایک چوپائے کی سی ہے، جس کے جسم میں روح ہے اور نہ سینے میں دل، اور اسلام کے ان ازلی دشمنوں نے تاریخِ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ گھڑااور محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ہرزہ سرائی کرتے ہوئے ان پر یہ بد ترین بہتان باندھا کہ آپ نے معاذ اللہ نصرانیت سے کچھ باتیں اخذ کرکے اپنا مستقل دین اختراع کر لیا، ان علماء و نصارٰی کی اس طرح نہ جانے کتنی خرافات تھیں جو ایک زمانے تک عیسائی عوام الناس کے دلوں میں عقیدہ کی حد تک راسخ رہیں۔
لیکن الحمد للہ! آج یہ خرافات ان کے دلوں سے اس طرح زائل ہوچکی ہیں کہ اب اس طرح کے گمراہ کن نظریات کہیں سننے کو نہیں ملتے،اور یہ اس لیے کہ ان کی مسلمانوں سے باہمی تجارتی لین دین، میل جول اور ان کے شہروں میں آمدورفت اورنشست و برخاست سے ان کا اکثر طبقہ اب یہ یقین رکھتا ہے کہ یہ وہ من گھڑت قصے ہیں جنہیں محض مذہبی تعصب کی بنیاد پر گھڑا گیا ہے۔
سب سے بڑھ کر خوش آئند بات یہ ہے اب اکثر عیسائی پاپائیت وغیرہ سے متعلق گمراہ کن عقائدسے مکمل بے زار ہوچکے ہیں اور ان کا ایک بہت بڑا طبقہ وہ ہے جو ایک ایسے دین کی تلاش میں ہے جو ان کی عقل اور زاویہ ٔ فکر کو سکینت و طمانینت دے سکے، یہی وجہ ہے کہ اب اسلام کی دعوت و تبلیغ کے لیے اب وہ تمام رکاوٹیں الحمد للہ مکمل طور پر ختم ہوچکی ہیں، اور اب ہر اس شخص کے لیے جو دین کا پیغام دنیا کے کسی خطے میں پہنچانا چاہتا ہے، دعوت و تبلیغ کے راستے مکمل طور پر کھلے ہیں۔
دوسری جانب چھوٹے چھوٹے اسلامی ممالک تک کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے بے انتہا مادی وسائل سے نوازا ہے، اور ان کے لیے ہر قسم کے مثبت اقدامات کے لیے ہر طرف سے حالات ساز گار ہیں، جیسے دبئی، ابو ظہی، قطر، شارجہ، متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک ہوگئے، جبکہ بڑے بڑے اسلامی ممالک جیسے سعودیہ و لیبیا وغیرہ کے لیے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جس وافر مقدار میں خزانوں کی بارش ہے اس کی نظیر ماضی میں کہیں نہیں ملتی۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسلام کی طرف دعوت دینے کے لیے مسلمانوں کی مدد و نصرت کے لیے جس وافر مقدار میں ان دواسباب کو مقدر فرمایا ہے، اگر اسلامی حکومتیں اس کا معمولی حصہ بھی دعوت الی الاسلام کے شعبے میں صرف کردیں اور اس فن کے تجربہ کار حضرات کی خدمات لے کر نظام کو منظم کرنے کے جو معتبر طریقے ہیں، ان پر عمل کرتے ہوئے صحیح معنوں میں ضروری وسائل کوبھی روبکار لے آئیں تو اس سے ایسے فوائد وثمرات حاصل کیے جاسکتے ہیں جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
اور عصر حاضر میں دعوت دین کے جس قدر امکانات روشن ہیں، وہ صرف یورپی ممالک تک ہی محدود ہی نہیں، بلکہ جاپان، مشرق بعید،بدھ مت اور ہندو باسیوں کے دور داز ممالک اور دنیا کے انتہائی حصے میں واقع افریقی ممالک سمیت دنیا کے ہر خطے میں اسلام کی دعوت و تبلیغ کے لیے راہیں مکمل ہموار ہیں، کہیں کوئی استثناء ہے تو وہ کمیونسٹوں کے بعض خطے ہیں، اور اس میں بھی کچھ نہ کچھ لوگ ایسے مل جاتے ہیں جو ایک اللہ کی عبادت کو درست طریقے سے بجالانے کے موضوع پر بحث ومباحثہ کرتے نظرآتے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ پوری دنیا کے دروازے اسلام کی دعوت وتبلیغ کے لیے چوپٹ کھلے ہیں۔ ضرورت ہے تو صرف ایک منظم جدوجہد کی، جو خالص اللہ کی طرف بلانے کے لیے کی جائے اور ہم پر امید ہیں کہ روئے زمین پر ان کی کوششوں کے ثمرات کھلی آنکھوں اس طرح مشاہدہ کیے جاسکتے ہیں جنہیں ہم سوچ بھی نہیں سکتے، لیکن افسوس اور صد افسوس کہ ہم عہد حاضر کے ان آفتاب و ماہتاب کی مانند روشن امکانات اور اپنے پاس میسر گرانمایہ وسائل کو بروئے کار لانے میں کم ہمتی اور لاپرواہی کا شکار ہیں، جو در حقیقت ایک ایسا المیہ ہے جس کے لیے ہر مسلمان کی آنکھ خون کے آنسوؤں سے بھی روئے تو…اور حق تو یہ ہے کہ اس عظیم سانحہ پر خون کے آنسوؤں سے رونا بھی اس غم و اندوہ کا مداوا نہیں کرسکتا، جس کا یہ دل ادراک کررہا ہے۔
اور کتب دینیہ کے نقطۂ نظر سے روئے زمین کے مختلف خطوں میں واقع اسلامی تنظیمیں بھر پور مالی امداد کی محتاج ہیں، اسلامی مملکتوں کی حالت زار کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اب تک انہیں اتنی بھی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ ان اسلامی تنظیموں کی بابت صحیح تحقیق وتفتیش اور مکمل علمی استقراء کرے اور ان کی واقعی ضروریات کی سمری مرتب کرے، کیوں کہ ان گنت ایسی نام نہاد تنظیمیں ہیں جو فلاح و بہبود کے نام پر بھاری چندے اور عطیات وصول کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں، کیو نکہ وہ ان تمام چور دروازوں سے بخوبی واقف ہیں جہاں سے سادہ لوح لوگوں اور مالیاتی اداروں کو بوتل میں اتارا جاتا ہے، مگر ان میں سے کوئی بھی نہیں ہے،جسے اس بات کا ادنیٰ ادارک بھی ہو کہ ان خطیر رقموں کو کس طرح خرچ کرنا ہے، جبکہ حقیقی معنوں میں ایسی مستحق تنظیمیں اور ادارے بھی موجود ہیں، جنہیں اس ماحول میں کسی قسم کی مالی امداد بہم نہیں پہنچتی، حالانکہ وہ اولین درجے میں اس کے مستحق ہوتے ہیں۔
اور یہ بھی ممکن ہے کہ ہمارے مجوزہ پروگرام کے علاوہ کوئی اور مناسب پروگرام مسلم اقلیتی کمیونٹی اور دعوت و تبلیغ و دینی تعلیم ہر دو شعبوں کیلئے تجویز کرلیا جائے اور عملی اقدامات کرتے وقت ذکرکردہ ان تجاویزکو سامنے رکھ لیا جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ بہت بھاری وسائل کے محتاج نہیں، بلکہ ان میں سے ہر شعبے کے لیے سالانہ پانچ سے سات ملین ڈالر بہت حد تک کافی ہیں، جو مستقل قریب میں ان شاء اللہ مستقل بنیادوں پر طویل المدتی عرصے تک ثمر آور ثابت ہوسکتے ہیں اور یہ رقم بھی اس نسبت سے انتہائی معمولی ہے جو آج کل بغیر کسی فائدے کے فلاح و بہبود کے نام پر پانی کی طرح بہائی جارہی ہے۔
شعبہ ہلال احمر
ہلال احمر کے شعبے میں بھی کام کا وسیع میدان ہمارا منتظر ہے۔اسلامی دنیا میں بعض ممالک ایسے بھی ہیں جن میں فقر و فاقہ اور بھوک و افلاس کا گراف پورے عروج پر ہے۔انہیں جن صبر آزما حالات کا سامنا ہے،وہ حد درجہ مشقت آمیز اور اجتماعی نوعیت کے ہیں۔
بالخصوص پسماندہ ممالک میں جہاں کہیں مسلمان اقلیت میں ہیں، انتہائی بدحالی کا شکار ہیں۔ہندوستان کے بیشتر علاقے جو ۱۹۷۴؁ء سے۱۹۸۵؁ ء تک قحط سالی کی لپیٹ میں رہے، بالخصوص صوبہ گجرات اور ہندوستان کے وسطی علاقے، جن کی حد درجہ زبوں حالی کا اندازہ صرف اس بات سے لگائیے کہ ان کے اپنے مسلمان بھائی بھی ان غریب و مفلس اور مصیبت زدہ مسلمانوں کی مدد و نصرت پر قادر نہیں ہیں، جس کی وجہ سے مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو صرف بھوک کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتر گئی، لیکن ہندوستان کے اخبارات و جرائد سمیت عالمی میڈیا نے بھی انہیں کوئی مناسب کوریج نہیں دی۔اسی طرح لاکھوں لوگ جن میں اکثریت مسلمانوں ہی کی تھی، دو سال قبل بنگلہ دیش میں موت کے گھاٹ اتر گئے۔
نیز قحط سالی کی یہی کیفیت ساؤتھ افریقا کے وسطی ممالک میں بھی گزشتہ و گزشتہ سے پیوستہ سال پیش آئی، جس میں غالب آبادی مسلمانوں کی ہے، اور جب عالمی میڈیا کے ذریعے اس قحط کے حوالے سے عوامی شعور بیدار ہوا تو اقوام متحدہ نے ان کی کچھ مدد کی اور بعض عیسائی فلاحی اداروں مثلاً ریڈکراس(Red cross) نے بھی اس درماندہ مسلم کمیونٹی کی مدد کی، لیکن میرے علم کے مطابق اس کڑے وقت میں کوئی ایک اسلامی تنظیم بھی ایسی نہیں تھی، جس نے انسانیت کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کیے ہوں، کیو نکہ ان میں کوئی ایسی اسلامی تنظیم تھی ہی نہیں جو انٹرنیشنل لیول پر ان کی مدد کو آتی۔
اس موقع پر اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھا نامناسب سمجھتا ہوں کہ جب کمیونسٹوں نے کمبوڈیا، لاؤس اور ویت نام پر تسلط قائم کیا تو مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد برسرعام قتل اور باقاعدہ ذبح کردی گئی، جن کی حقیقی تعداد سے اللہ تعالیٰ ہی واقف ہے لیکن ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کی یہ اندوہناک خبریں کسی کے علم میں آئیں،نہ ہی کسی اسلامی تنظیم نے ان کے احوال کی کوئی خبرلی۔ حسب معمول عالمی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا نے مسلمانوں کے مصائب ومشکلات پر چپ سادھ لی اور مزید ان پر کتنے ہی مظالم کے پہاڑ توڑے گئے، پر ان کی یہ جانبدارانہ وتعصبانہ پالیسی وہی کی وہی رہی۔یومیہ ہزاروں مسلمان شہید ہوتے رہے اور ذبح ہوتے رہے لیکن ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی، غیروں سے کیا گلہ… حق تو یہ ہے کہ عالم اسلام کے اپنے جرائد و اخبارات اور میڈیا بھی ہمیشہ کی طرح ان طاغوتی نشریاتی اداروں کی ہاں میں ہاں ملا کر چلتے رہے جنہیں یہود و نصارٰی کی پشت پناہی حاصل ہے اور خبروں کی دنیا میں کوئی ایک نشریاتی ادارہ بھی ایسا نہیں تھا جسے عالم اسلام کی وکالت کا علمبردار گردانا جاتا۔
اپنے ہی وطن کی سرزمین پوری وسعتوں کے باوجودان پر اس قدر تنگ کردی گئی کہ وہ تھائی لینڈ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے لیکن تھائی گورنمنٹ نے بھی ان مہاجرین کو پناہ نہیں دی اور کیسے دیتی جب کہ وہ پہلے ہی جنوبی ممالک میں مسلمانوں پر مظالم ڈھا رہی ہے، چنانچہ اس نے مہاجرین کی بڑی تعداد کو بارڈر سے واپس کردیا اور یہ لوگ بھی وطن واپسی پر کمیونسٹوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتار دیے گئے اور جو لوگ کسی طرح تھائی لینڈ میں پناہ گزین ہوئے،وہ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبو رہیں۔
بڑی ہی فکر کی بات ہے کہ ہر سال موسم حج میں منیٰ میں ہزاروں قربانیاں ہوتی ہیں، لیکن ان کومثبت اندازمیں یوٹی لائز نہیں کیاجاتا،حالاں کہ ہلال احمرجیسے شعبے ترجیحی بنیادوں پر ان کے گوشت اور کھالوں کو ان مسلمانوں تک پہنچانے کا بندوبست کرسکتے ہیں جو مختلف ممالک میں بھوک کے مارے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دے رہے ہیں۔
نیز شعبہ ہلال احمر کی ذمہ داریوںمیں سے یہ بھی ہے کہ ہر اس خطے میں سسکتی ہوئی انسانیت کی خدمت کے لیے پہنچے، جو مختلف قسم کی تکالیف میں مبتلا ہیں اور ان کے لیے ہر وہ ضرورت مہیا کرنے کی فکر کرے جو ان کو درپیش ہیں، بالخصوص غذائی اجناس، لباس و پوشاک، خیمے اور ادویات کا ہنگامی بنیادوں پر انتظام کرے اور اس کے لیے باقاعدہ ایک امدادی ٹیم کی تشکیل کی ضرورت ہے، جو اپنے وظائف و واجبات کی ادائیگی کے لیے ہر دم مستعد رہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کی اس مجوزہ تنظیم کی وساطت سے اس کے منتظمین واراکین کوخیروفلاح کے کاموں کی توفیق بخشے۔واللہ سبحانہ ھو الموفق ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭