خطاب : حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
ضبط وترتیب ______مولانا عبداللہ میمن صاحب مدظلہ

دنیا کی حقیقت

کئی سال پہلے حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کی تشریح فرمائی تھی ، جس میں آپ نے دنیا کی حقیقت کو بیان فرمایا تھا ۔ مولاناعبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم نے اس بیان کو ضبط کیا۔ اور اب وہ قارئین البلاغ کی خدمت میں پیش ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ادارہ

الحمدللہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ ، ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا ، من یھدہ اللہ فلامضل لہ ومن یضللہ فلا ھادی لہ ، واشھد ان لاالہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ ، واشھد ان سیدنا وسندنا ونبینا ومولانا محمدا عبدہ ورسولہ ۔۔ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا۔۔۔
اما بعد ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرّ علی مزبلۃ فی طریق من طرق المدینۃ ۔ فقال : من سرہ ان ینظر الی الدنیا بحذافیرھا فلینظر الی ھذہ المزبلۃ ، ثم قال :لو ان الدنیا تعدل عند اللہ جناح ذباب مااعطی کافراً منھا شیئاً ۔(کتاب الزھد لابن مبارکؒ ، الجزء الخامس ، حدیث نمبر ۶۲۰)

دنیا کو اِس کے اندر دیکھ لو
بزرگانِ محترم وبرادران عزیز! یہ ایک مختصر حدیث ہے ، جس میںایک واقعہ بیان کیاگیا ہے وہ یہ کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے راستوں میں سے ایک راستہ میں تشریف لے جارہے تھے ، راستے میں ایک جگہ کوڑا پڑا ہوا نظر آیا ، یعنی وہ جگہ جہاں کوڑا ڈالا جاتا ہے ، اس کے قریب سے آپ گذرے ، اسے دیکھا ، اور دیکھ کر فرمایا کہ جو دنیا کو اس کے سارے سازو سامان کے ساتھ دیکھنا چاہتا ہو ،تو وہ اس کوڑے کے ڈھیر کو دیکھ لے ، یعنی دنیا اور اس کا سازوسامان کوڑے کا ڈھیر ہے ۔
یہ دنیا کے سامان کا انجام ہے
اس ارشاد کے دو مطلب ہیں ، ایک مطلب یہ ہے کہ دنیا کاجتنا سازوسامان ہوتا ہے ، جس کے پیچھے انسان لپکتا ہے ، اور جس کو حاصل کرنے کے لئے انسان دوڑ دھوپ کرتا ہے ، اور صبح سے لے کر شام تک جس کی جستجو میں سرگرداں رہتا ہے ، اگر غور سے دیکھو تو وہ سازوسامان بالآخر اس کوڑے کے ڈھیر پر منتج ہوتا ہے ۔۔ دنیا کی ساری لذتیں ، سارا حسن ، ساری خوبصورتی ، ساری رعنائیاں ، ان سب کا انجام یہ کوڑے کا ڈھیر ہے ۔ کیونکہ جو چیز بھی انسان اپنی زندگی میں استعمال کرتا ہے ، وہ کتنے بھی اعلی درجہ کی چیز ہو ، ایک دن ایسا آئے گا جب وہ کوڑے کے ڈھیر پر پہنچے گی۔
کھانے کا آخری انجام
مثلاً آپ بڑے شوق اور ذوق سے بازار سے کھانے کا سامان خرید کر لائے پیسے خرچ کئے ، محنت کرکے شاندار کھانا تیار کیا ،اور بڑی رغبت اور ذوق وشوق سے کھایا۔۔۔لیکن کھانے کے بعد وہ غذا جو بچ گئی ، اور وہ غذا جو پیٹ میں چلی گئی ۔ دونوں کا انجام کوڑے کا ڈھیر ہے ۔۔۔ اس لئے کہ جو کھانا بچ گیا ، اگر وہ کسی کو دے دیا تو ٹھیک ورنہ جو بچ گیا اور خراب ہوگیا تو وہ کوڑے کے ڈھیر کی زینت بنے گا۔۔۔ اور جو کھانا آپ نے کھالیا ، اس کھانے کا کچھ حصہ تو جسم کا جز بن گیا ، اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اس کو جزوبدن بنادیا وہ تو بدن کے اندر شامل ہوگیا ۔ لیکن باقی کھانا فضلہ کی شکل میں نکل گیا۔
کپڑے کا آخری انجام
اعلیٰ سے اعلیٰ اور شاندار سے شاندار کپڑا ، آپ بڑے ذوق وشوق سے خرید کر لائے ، اور پھر اس کو درزی سے شاندار طریقے سے سلوایا ، پیسے خرچ کئے اور پھر اس کو پہنا ، اور اس کا انجام بھی بالآخر یہی ہوگا کہ وہ لباس پرانا ہوجائے گا اور بوسیدہ ہوجائے گا ، اور ایک دن وہ بھی کوڑے کے ڈھیر میں چلا جائے گا۔۔۔۔ دنیا کی کوئی چیز ایسی ہے جس کاانجام بالآخر کوڑے کا ڈھیر نہ ہو ۔۔۔۔ بہرحال : اس حدیث کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ دنیاکے سازوسامان جس کے گرد انسان چکر لگاتا رہتا ہے ، اس کو دیکھنا ہو تو اس کوڑے کے ڈھیر کو دیکھ لوکہ اس میں وہ سب چیزیں ملیں گی جس کی خاطر ایک زمانے میں لوگ آپس میں لڑ رہے تھے ، اور جس کی خاطر ایک بھائی دوسرے بھائی کا گلا کاٹ رہا تھا ، جس کے لئے حلال اور حرام ایک کیاہوا تھا ، یہ سب وہی چیزیں ہیں ، جو بالآخر کوڑے میںپہنچ گئیں ۔
دنیا کی کوئی نعمت پائیدار نہیں
اس سے اشارہ اس بات کی طرف کردیا کہ دنیا کی کوئی نعمت ، کوئی لذت ، کوئی خوبصورتی پائیدار نہیں ، ایک نہ ایک دن اس کو ختم ہونا ہے ، اور فنا ہونا ہے ، اور ایسا فنا ہونا ہے کہ تم اس سے نفرت کرنے لگوگے ، اس لئے کسی ایسی چیز جس کو بالآخر تم نفرت کرکے پھینک دوگے اس کے ساتھ اس طرح دل لگابیٹھنا کہ صبح سے شام تک اس کے علاوہ کوئی خیال ہی نہ آئے ، کسی دانش مند سے اس کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔
انسان بھی مہذب کوڑا ہے
دنیا کی دوسری نعمتیں ، اور کھانے پینے کا سامان تو اپنی جگہ ۔۔۔ خود انسان کا یہی حال ہے کہ ایک انسان بہت محبوب ہے ، بہت پیارا ہے ، وہ باپ ہے ، یا بیٹا ہے ، یا بیوی ہے ، یا شوہر ہے ، یا بھائی ہے ، یا بہن ہے ، اس انسان کے ساتھ اتنا دل لگا ہوا ہے کہ اس کے تصور کے بغیر چین نہیں آتا ، اور اس کی جدائی کسی طرح برداشت نہیں ، لیکن جس دن یہ آنکھ بند ہوگئی ، اور روح پرواز کرگئی ، اور موت آگئی تو اب وہ انسان چاہے کتنا ہی بڑا سے بڑا جاننے والا ہو ، کتنا ہی قریبی اور پیارا کیوں نہ ہو ، کوئی شخص اس کو گھر میں رکھنے کے لئے تیار نہیں ۔۔۔ اس انسان کا انجام بھی کوڑے کا ڈھیر ہے ۔۔۔ بس اتنی بات ہے کہ وہ "انسان” مہذب قسم کاکوڑا ہے لہٰذا اس کے ساتھ اکرام کرتے ہوئے اس کو غسل دیکر کفن پہنا کر نماز جنازہ پڑھ کر قبر میں عزت کے ساتھ دفن کردو ۔۔۔ بہرحال دنیا کی ہر چیز کا انجام کوڑے کا ڈھیر ہے ۔
جتنا لذیذ کھانا اتناہی زیادہ بدبودار
اس لئے اس حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یاد دلایا کہ تم جن چیزوں سے ہر وقت دل لگائے بیٹھے ہو۔۔ وہ سب بالآخر اس مقام تک پہنچنے والی ہیں ۔۔۔۔ بلکہ میرے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ جو غذا جتنی زیادہ لذیذ ہوتی ہے اور اعلیٰ درجے کی ہوتی ہے ، وہ غذا سڑنے کے بعد اتنی ہی زیادہ بدبودار ہوجاتی ہے ، اگر معمولی اور سادہ قسم کی غذا ہوتو وہ اگر سڑ جائے تو اس میں اتنی زیادہ بدبو نہیں ہوگی ، اور جو جتنی مرغن غذا ہوگی ، سڑنے کے بعد اس کے اندر بدبو اتناہی زیادہ ہوگی اور دنیا کی تمام نعمتوں کا یہی حال ہے ۔۔۔ بہرحال : اس حدیث کا ایک مطلب تو یہ ہے ، اور اس کے ذریعہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرف توجہ دلادی کہ یہ دنیا ناپائیدار ہے ۔ اور بڑی سے بڑی نعمت کا انجام ایک دن یہ کوڑے کا ڈھیر ہے ۔
دنیا آخرت کے مقابلے میں کوڑے کا ڈھیر
اس حدیث کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کے نزدیک ، اور آخرت کی نعمتوں کے مقابلے میں دنیا کی ساری نعمتیں ، چاہے وہ نعمتیں اپنے شباب پر ہوں ۔ اس وقت بھی آخرت کی نعمتوں کے مقابلے میں ایسی ہیں جیسے یہ کوڑے کا ڈھیر۔۔۔ ابھی تک چونکہ آخرت کی نعمتوں کی ہوا نہیں لگی ، اور ابھی تک آخرت کی نعمتیں سامنے نہیں آئیں ، اس وجہ سے دنیا کی ان نعمتوں کو ہی سب کچھ سمجھا ہوا ہے ، اور دن رات ان دنیاوی نعمتوں کے حصول میں سرگرداں ہے ، اور اسی کو اپنا منتہاء مقصود بنایا ہوا ہے ، لیکن جس دن اللہ تعالیٰ آخرت کی نعمتوں کا ذرا سا منظر دکھادیں گے ، اس وقت پتہ چلے گا کہ واقعی دنیا کی نعمتیں کوڑے کا ڈھیر تھیں۔
دوزخ کی ہوا لگنے کا نتیجہ
حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آخرت میں ایک ایسے شخص کو لایا جائے گا جس نے پوری زندگی عیش وآرام میں گذاری ، بڑا مالدار ، سرمایہ دار اور دولت مند تھا ، اور دنیا بھر کی نعمتیں اس کے پاس موجود تھیں۔۔۔ اللہ تعالیٰ ایک فرشتے سے فرمائیں گے کہ ذرا اس سے پوچھو کہ تم نے دنیا میں کیسی زندگی گذاری ؟ ۔۔۔ وہ شخص جواب دے گا کہ یا اللہ : بڑے عیش اور آرام میں گذری ۔ اور دنیا میں ہر طرح کی نعمتیں میسر رہیں ۔۔۔ اللہ تعالیٰ فرشتے سے فرمائیں گے کہ اس کو ذرا دوزخ کی ہوا لگاکر لے آؤ ۔۔۔ چنانچہ فرشتہ اس کو لیجائے گا، اور دوزخ کی ہوا لگا کر اس کو واپس لایا جائے گا۔۔۔ پھر سوال ہوگا کہ اب بتاؤ ، دنیا میں کسی زندگی گذاری ؟ ۔۔۔ وہ جواب دے گا کہ یا اللہ : میں نے کبھی خوشی کی صورت بھی نہیں دیکھی ، راحت اور نعمت کی شکل بھی نہیں دیکھی ۔۔۔ چند لمحے دوزخ کے قریب گذارنے کے نتیجے میں وہ دنیاکی ساری نعمتیں بھول جائے گا۔
جنت کی ہوا لگنے کا نتیجہ
پھر ایک ایسے شخص کو لایا جائے گا جس نے دنیا میں صرف تکلیفیں اور مصیبتیں اٹھائیں ، صدمے اور پریشانیاں اٹھائیں ۔۔۔ اس سے اللہ تعالیٰ پوچھیں گے کہ دنیا میں کیسی زندگی گذاری ؟ ۔۔ وہ کہے گا کہ یا اللہ ! میں دنیا میں فقر وفاقہ اور مصیبتوں کا شکار رہا ، میں نے دنیا کے اندر کوئی عیش وآرام نہیں دیکھا ، اللہ تعالیٰ فرشتے سے فرمائیں گے کہ اس کو جنت کی ہوا لگواکر لے آؤ۔۔۔۔ چنانچہ اس کو جنت کے پاس سے گذار کر واپس لایا جائے گا تو پھر سوال ہوگاکہ اب بتاؤ کہ دنیا کی زندگی کیسی گذری ؟ ۔۔۔ وہ کہے گا کہ یا اللہ ! میں نے تکلیف اور پریشانی کی شکل تک نہیں دیکھی ۔ میری تو ساری زندگی عیش و آرام میں گذری ، لہٰذا جنت کے چند لمحات دنیا کی تمام تکالیف پر بھاری ہوجائیں گے ۔ اور انسان یہ سمجھے گا کہ میں بہت راحت اور آرام میں زندگی گذار کر آیا ہوں ۔ لہذا آخرت کی نعمتوں کے مقابلے میں دنیا کی نعمتیں ایسی ہی بے حقیقت ہیں جیسے کوڑے کا ڈھیر بے حقیقت ہوتا ہے ۔(مسلم شریف ، کتا ب صفات المنافقین ، باب صبغ انعم اھل الدنیا فی النار ، حدیث نمبر ۲۸۰۷)
حضور ﷺ کی نظر میں دنیا
ہماری اور آپ کی عقل ماحول کی حدودمیں جکڑی ہوئی ہے ، اس سے باہر نکلنے کو تیار نہیں ، اور اس سے باہر کی بات سمجھنے کو تیار نہیں ، اس وجہ سے اس کو دنیا کی ہر چیز اچھی لگتی ہے ۔۔۔ لیکن جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ آخرت کا منظر دکھادیتے ہیں ۔ جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے آخرت کا منظر دکھادیاتھا۔ اس لئے آپ کی نظر میں پوری دنیا کوڑے کا ڈھیر تھی ۔
ایک عبرتناک واقعہ
میں نے ایک مرتبہ ایک عبرت کا منظر دیکھا ، ہمارے دارالعلوم کے پاس ایک آبادی ہے جو "کورنگی”کہلاتی ہے ۔ اس آبادی میں کسی کام سے جانا ہوا ، اس آبادی کے باہر ایک کوڑے کا ڈھیر تھا ۔ اور اس میںدنیا بھر کا کوڑا کرکٹ جمع تھا ،اور اس سے اتنی بدبو اٹھ رہی تھی کہ اس کے قریب سے گذرنا مشکل تھا ، اس کوڑے کے ڈھیر کے بالکل درمیان میں ایک آدمی کھڑا ہواتھا ، اور اس کے قریب ایک کتابھی کھڑا ہوا تھا۔۔ اس کتے اور آدمی کے درمیان ایک ھڈی پر چھینا جھپٹی ہورہی تھی ۔ کتا اس کی کوشش میں تھا کہ وہ ھڈی میں لیجاؤں اور اس آدمی کی کوشش یہ تھی کہ وہ ھڈی میں لیجاؤں ۔۔ اور ایسا معلوم ہورہا تھا کہ کسی بڑی دولت پر لڑائی ہورہی ہے ، بہرحال وہ انسان انسان تھا ، اور کتا کتا تھا ، بالآخر وہ انسان کتے پر غالب آگیا ، اور اس انسان نے وہ ھڈی کتے سے چھین لی ۔۔ اور اس وقت اسی انسان کی مسرت کا منظر قابل دید تھا ۔اور وہ انتہائی خوشی کا اظہار رکررہا تھا،ا ور فاتحانہ انداز میں قہقہے لگارہا تھا ، جیسے اس نے بہت بڑی دولت لوٹ لی ہو، اور اس کوڑا کرکٹ میں اس طرح کھڑا ہواتھا ، جیسے وہ کسی گل گلزار میں کھڑا ہوا ہے ۔
عقل کھوجانے کا نتیجہ
یہ واقعہ سن کر آپ حضرات کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ وہ آدمی صحیح العقل نہیں تھا ، بلکہ پاگل تھا ، عقل کے چلے جانے کی وجہ سے اس انسان کو کوڑے کا ڈھیر گل گلزار نظر آرہاتھا ، اور وہ ہڈی جو اس نے کتے کے منہ سے چھینی تھی وہ اس کو بہت بڑی دولت معلوم ہورہی تھی ، اس واقعہ کو دیکھ کر بڑی عبرت ہوئی کہ انسان عقل کے کھوجانے پر اس درجہ تک پہنچ جاتا ہے ۔
وہ انسان بھی پاگل ہے
بعد میں خیال آیا کہ جس طرح میں اس انسان کی اس حرکت پر حیرت کررہا ہوں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تھوڑی سی عقل دے رکھی ہے ۔ اس طرح جب انبیاء علیہم السلام نے اس دنیا کی حقیقت معلوم کرلی ، اور ان کو پتہ چل گیا کہ یہ دنیا حقیقت میں کیا چیز ہے ۔ اور جو انسان اس دنیا کو حاصل کرنے کے لئے اس کے پیچھے دوڑ رہا ہے ۔۔۔ اس انسان کی مثال اس پاگل جیسی ہے جو کتے کے منہ میں ھڈی چھین کر فاتحانہ انداز میں قہقہے لگارہا تھا ۔
دنیا کی حقیقت ابھی دیکھی نہیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنہیں اللہ جل شانہ نے اس دنیا کی حقیقت کا علم عطا کردیا، دیکھ کر بھی ، اور وحی کے ذریعہ بھی ۔ وہ آکر اس دنیا کو کوڑے کا ڈھیر نہ سمجھیں تو کیا سمجھیں ؟ ۔۔ اصل بات زاویہ نگاہ کی ہے ، اس دنیا کی حقیقت کو دیکھا نہیں ہے ، اور جس دن اس کی حقیقت کو دیکھ لوگے ، اور وہ مرنے کے بعد ہی دیکھ سکوگے ۔۔۔یا جب کوئی دیکھنے والا اس دنیا کی حقیقت بتادے ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے بڑھ کر اس دنیا کی حقیقت دیکھنے والا اور کون ہوسکتا ہے ؟ اور آپ نے اس کی حقیقت بیان فرمادی، اگر وہ بات ہمارے دل میں اترجائے تو واقعۃً پھر یہ دنیا ایسی ہی بے حقیقت نظر آئے گی جیسے کوڑے کا ڈھیرہو۔
صحابۂ کرام دنیا کے طلب گار نہیں تھے
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کا حال یہی تھا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نے آخرت پر ایمان ، یقین اور دنیا کی بے ثباتی پر یقین ان کے دلوں میں اس طرح جاگزیں کردیاتھا کہ ؎

شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہاں داروں کی

دنیا کی بڑی سے بڑی تہذیب میں پہنچ گئے ، اور جگ مگ کرتے مناظر سامنے آئے ، لیکن دل میں چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات بیٹھی ہوئی تھی ، اس لئے یہ دنیا ان کو دھوکہ نہیں دے سکی ۔۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ دنیا کے اندر رہے ، لیکن دنیا کے طلب گار بن کر نہیں رہے ، دنیا کے محب بن کر نہیں رہے ، اور اس "دنیا” کی خاصیت یہ ہے کہ جوشخص اس دنیا سے منہ موڑلے اور اس دنیا کی محبت اپنے دل سے نکال دے ، تو پھر یہ دنیا ذلیل ہوکر اس کے قدموں میں آتی ہے ۔۔۔ صحابہ کرام کے قدموں میں بھی آکر یہ دنیا اسی طرح گری ہے ۔۔۔ دنیا بھر کے خزانے ان کے قدموں میں ڈھیر ہوتے ۔
پوری دنیا ایک مکھی کے پر کے برابر
اس حدیث میں اگلا جملہ یہ ارشاد فرمایا کہ :

لو ان الدنیا تعدل عند اللہ جناح ذباب مااعطی کافرا منھا شیئا (کتاب الزھد ، حوالہ بالا)

کہ اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی حقیقت مکھی کے پر کے برابر بھی ہوتی تو کسی کافر کو اس کا ایک گھونٹ بھی کبھی نہ پلاتے ، لیکن چونکہ اللہ کے نزدیک یہ دنیا بے حقیقت چیز ہے ، اس لئے کافروں پر انڈیل رکھی ہے ۔ لوکھاؤ ، اور مزے اڑاؤ۔ لیکن آخرت میں تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے ۔

پھر یہ دنیا تمہیں نہیں ڈسے گی
ایک طرف تو یہ کہا جارہا ہے کہ کسبِ معاش بھی دین کا ایک حصہ ہے ، ضرورت کے مطابق انسان اپنے لئے دنیا وی سامان جمع کرے ، اس کی اجازت ہے ، لیکن بار بار یہ بات حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے ذہن نشین کراتے رہے کہ اس دنیا کے اندر رہو، اس دنیا کو حاصل کرو، اس کو برتو ضرور، لیکن اس دنیا کی حقیقت ذہن میں رہے ۔۔۔ اگر اس دنیا کی حقیقت ذہن میں رکھ کر اس کوحاصل کروگے تو پھر یہ دنیا تمہیں ڈسے گی نہیں ۔۔۔ لیکن اس کی حقیقت سمجھے بغیر اس دنیا کے پیچھے چل پڑے تو یہ دنیا تمہیں تباہ کردے گی، اور تمہیں کسی کام کا نہیں چھوڑے گی ۔
حضرت سعد بن معاذ کو دیئے جانے والے رومال
ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں تشریف فرماتھے کہ کسی دوسرے ملک سے بہت عمدہ کپڑا آگیا ، وہ ریشمی کپڑا تھا ، صحابہ کرام کے سامنے جب وہ کپڑا آیا تو چونکہ ایسا کپڑا کبھی دیکھا نہ تھا ۔ اس لئے صحابہ کرام نے اس کی عمدگی پر حیرانی کا اظہار کیا، اور ایک دوسرے کو ہاتھ میں لیکر دکھانے لگے کہ دیکھو کتنا عمدہ کپڑا ہے۔ ۔۔۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ دیکھا کہ صحابہ کرام اس طرح ایک دوسرے کو یہ کپڑا دکھارہے ہیں تو کہیں ان کے دلوں میں اس کپڑے کی محبت نہ سماجائے ۔ اسی وقت ان صحابہ کرام سے آپ نے فرمایا : لَمَنَادِیْلُ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ خَیْرٌ مِنْھَا (بخاری شریف ، کتاب مناقب الانصار ، باب مناقب سعد بن معاذؓ، حدیث نمبر ۳۸۰۲)
حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ، ایک صحابی تھے ، جن کا انتقال ہوچکا تھا ۔ ان کا نام لے کر فرمایا کہ حضرت سعد بن معاذ کو جنت میں جو رومال عطاہوئے ہیں ، وہ رومال اس کپڑے سے ہزار درجہ بہتر ہیں ، اس سے اشارہ اس طرف فرمادیا کہ دنیا کی کسی چیز سے اتنا دل مت اٹکاؤ کہ تم آخرت کو بھول جاؤ۔۔۔ قدم قدم پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح تعلیم دیا کرتے تھے ۔
ہمارے افکار کا محور یہ دنیا ہے
صحابہ کرام میں اور ہم میں یہی فرق ہے کہ دنیا صحابہ کرام کے پاس بھی آئی ، اور بہت سے صحابہ کرام مالدار اور صاحب ثروت بھی ہوئے ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ ، یہ سب اغنیاء اور مالدار صحابہ کرام تھے ۔ لیکن مالدار ہونے کے باجود دنیا ان کی سوچ کا، ان کی فکر کااور ان کی دوڑ دھوپ کا محور نہیں تھی کہ ہروقت صبح شام صرف دنیا کا تذکرہ ہے ، صرف دنیا ہی کاخیال ہے ، صرف دنیا ہی کی فکر ہے ، اور کسی طرف دھیان ہی نہیں ۔۔۔ جبکہ ہم نے اپنی سوچ وبچار اور اپنی فکر کا محور اس دنیا کو بنارکھا ہے ۔۔ اسی چیز کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ختم کرنا چاہتے ہیں کہ یہ دنیا سب کا سب کوڑے کا ڈھیر ہے ۔
ماں کے پیٹ میں بچہ کی سوچ
دیکھئے ، جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو اس وقت اس نے دنیانہیں دیکھی ہوتی ، اس بچے سے اگر پوچھا جائے کہ جس دنیا میں تو زندگی گزار رہا ہے ، یہ دنیا کیسی ہے ؟۔۔۔ وہ بچہ اس دنیا کو اپنے لئے بہت شاندار سمجھے گا کہ ماں کا پیٹ ہی میرے لئے سب کچھ ہے ۔ اور اگر اس کوکوئی بتائے کہ یہ ماں کا پیٹ تو بہت چھوٹی سی جگہ ہے ، اور تیری اس دنیا سے باہر اتنی بڑی دنیا ہے کہ وہ تیری اس دنیا سے لاکھوں کروڑوں گنا بڑی دنیا ہے تو اس بچے کو اس بات کا یقین نہیں آئے گا اور وہ یہ کہے گا کہ میری دنیا تو یہی ہے ، اس سے بڑی دنیا اور کیا ہوگی۔
چھوٹے بچے کی غذا
میرے والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ جب صاحبزادے ماں کے پیٹ سے نکل کر اس دنیا میں تشریف لاتے ہیں تو ترک وطن کے صدمہ میں روتے ہوئے تشریف لاتے ہیں ، لیکن یہاں پہنچنے کے بعد جب وہ اس وسیع دنیا کو دیکھتے ہیں تب ان کو احساس ہوتا ہے کہ ہم تو بڑی حماقت میں مبتلا تھے وہ تو بہت تنگ و تاریک جگہ تھی ، وہ تو بہت گندی جگہ تھی ، اور اس غذا کا آج تصور کرو کہ وہاں پر کیا غذا مل رہی تھی تو اس غذا کا تصور کرکے گھن آئے گی ۔۔ اور آگے بڑھے تو اس کمرے کو جس میں صاحبزادے رہائش پذیر تھے ۔ اسی کمرے کو بہت بڑا تصور کررہے تھے کہ بس یہی ساری کائنات ہے ، اور اس وقت جو ان کو غذا دی گئی ، یعنی ماں کا دودھ، اگر وہ نہیں مل رہا ہے ، تو صاحبزادے رورہے ہیں ، اور رو رو کر طلب کررہے ہیں ، کوئی اس بچے سے کہے کہ ماں کے دودھ کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، اس سے بڑی بڑی نعمتیں اس کائنات کے اندر موجود ہیں ، لیکن صاحب زادے اس دودھ کو سب سے بڑی نعمت سمجھے ہوئے ہیں ۔
ایک اور زندگی آنے والی ہے
جب وہ اور بڑے ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ اس دنیا کے اندرتو اور بھی بہت شاندار شاندار نعمتیں ہیں، اور لذیذ اشیاء کھانے کے لئے موجود ہیں ۔۔ اب اس سے کوئی کہے کہ ان نعمتوں کو چھوڑ دو ، اور وہ ماں کا دودھ پیو ، یا مصنوعی دودھ پیو ، تو اب اس دودھ کے پینے کے تصور سے گھن آتی ہے اب اس نے اپنی نعمتوں کو سب کچھ سمجھا ہوا ہے کہ بس ، یہی سب کچھ ہے ، اس سے آگے دیکھنے کو تیار نہیں ۔۔۔ لیکن وہ حضرات انبیاء علیہم السلام جن کی نگاہیں آگے کی نعمتوں کو دیکھ رہی ہیں ، وہ فرماتے ہیں کہ ارے بھائی ، ابھی تم نے دیکھا ہی کیا ہے؟ اب تک جو کچھ تم نے دیکھا ، وہ کوڑے کا ڈھیر ہے ، اس کے بعد ایک اور زندگی آنے والی ہے ، وہاں پتہ چلے گا کہ اصل نعمتیں کیا ہیں ، جو نعمتیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے وہاں تیار کر رکھی ہیں ۔
ایک سبق آموز واقعہ
بہت عرصہ پہلے کی بات ہے ، میں ایک مرتبہ ہندوستان ایک گاؤں میں گیا ، بمشکل اس گاؤں میں تین چار سو آدمی رہتے تھے ، اور وہ گاؤں شہر سے دور تھا ، وہاں ایک بوڑھی خاتون رہتی تھی ، اس خاتون کو پتہ چلا کہ کچھ لوگ کراچی سے آئے ہیں ۔۔۔ وہ خاتون ملنے کے لئے آگئی ، اور آکر پوچھا کہ بیٹاتم کراچی میں رہتے ہو،میں نے کہا جی ہاں ۔۔ اس خاتون کے بیٹے کا نام حسن تھا ، وہ بھی کراچی میں رہتا تھا ، وہ خاتون پوچھنے لگی کہ تم حسن کو جانتے ہو؟ ۔۔ میں نے جواب دیا کہ میں تو حسن کو نہیں جانتا ۔۔ وہ خاتون کہنے لگی کہ تم کراچی میں رہتے ہو اور حسن کو نہیں جانتے ، اس خاتون کو اس بات پر حیرت ہورہی تھی کہ ایک شہر میں رہتے ہوئے یہ شخص حسن کو نہیں جانتا، کتنا بے وقوف آدمی ہے ۔۔۔ میں نے اس خاتون سے کہا کہ کراچی بہت بڑا شہر ہے اس میں ایک آدمی دوسرے آدمی کو نہیں جانتا ۔۔۔ وہ خاتون بیچاری یہ سمجھ رہی تھی کہ جس طرح ہمارا یہ گاؤں ہے ، اس میں ہر شخص دوسرے کو پہچانتا ہے ، اس طرح کراچی میں بھی ہر شخص دوسرے کو جانتا ہوگا۔۔۔ اس کی عقل میں یہ بات کسی طرح نہیںتھی کہ ایک شہر میں رہنے والے لوگ ایک دوسرے کو نہیں جانتے ہوں گے ، اس لئے کہ اس کی محدود عقل نے وہ چھوٹا سا گاؤں ہی دیکھا تھا ، اس سے آگے کبھی اس نے سوچا ہی نہیں تھا ۔
ہم بھی اس بڑھیا کی طرح ہیں
یہی حال ہم سب لوگوں کا ہے کہ ہم نے اپنی محدود زندگی میں بس یہ دنیا ہی دیکھی ہے ، اس بڑھیا پر تو ہم لوگ ہنستے ہیں ، اور اس کا مزاق اڑاتے ہیں ، لیکن اگرکوئی شخص اس دنیا سے باہر کی کوئی خبر لائے تو اس پر حیرا ن ہوتے ہیں کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے ۔۔ لیکن وہ خبر سچی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر دی ہے ۔۔۔ اگر یہ بات دل میں بیٹھ جائے تو پھر دنیا کی حقیقت روشن ہوجائے ۔۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے دلوں میں یہ بات اتار دے ۔ آمین ۔

وآخردعوانا ان الحمد للہ رب العلمین

٭٭٭ ٭٭٭ ٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ جمادی الاولیٰ 1441ھ)