بیان: حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم

جناب محمد زکی کیفیؒ
میرے بھائی جان
تم کیا گئے کہ رونق ہستی چلی گئی

باقی رہنے والی ذات صرف اللہ کی ہے ــ ــــــــــــــ‘اس دنیاکی ہر شخصیت خواہ وہ کتنی دلکش کتنی پر بہار کتنی ہرو لعزیز اور کتنی زندگی افروز ہو بالآ خر اسے ایک نہ ایک دن یہاں سے جانا ہے۔ آگے اور پیچھے کا فرق ضرور ہے لیکن ہم میں سے کون ہے جو یہاں ہمیشہ رہنے کے لئے آیا ہو۔ لیکن انسان کی غفلت کا یہ عالم ہے وہ اس سامنے کی حقیقت کی ہمیشہ نظر انداز کرکے اس کائنات اور اس میں پائی جانے والی رنگینوں سے اس طرح دل لگا بیٹھتا ہے جیسے اسے ان کے بقائے دوام کی کوئی ضمانت مل گئی ہے کل من علیھا فان اور ولادتدری نفسی ہای ارض تعوت کے قرآنی ارشادات سے کوئی کڑ سے کڑ دہریہ بھی انکار نہیں کرسکتا ‘ لیکن عملی زندگی میں یہ مسلم حقیقت ہماری نظروں سے اس طرح اوجھل رہتی ہے جیسے یہ کوئی حقیقت ہی نہیں۔
اس نتیجہ ہے کہ اب تک اس بات پر یقین کر لینے کو دل آمادہ نہیں ہوتا کہ آج جو کچھ لکھنے جارہا ہوں وہ اپنے سب سے بڑے بھائی (مولانا محمد زکی کیفی صاحبؒ ) کی وفات کا تذکرہ ہے، ان کے سفر آخرت کا بیان ہے، ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے واقعات ہیں۔ جانتا ہوں کہ یہ روح فرسا واقعات پیش آچکے، مانتا ہوں کہ یہ دنیا فانی ہے اودر اس میں بھائی جان جیسی ہنستی کھیلتی، اور چہکتی مہکتی شخصیت کا یکا یک اٹھ جانا کوئی پہلا یا نیا واقعہ نہیں جسے تسلیم نہ کیا جائے لیکن دل میں رہ رہ کر اٹھنے والی اس ہوک کو کیا کروں جو بھائی جان کے نام کے،،مد ظلہم، کے بجائے ـ’’مرحوم و مغفور ‘‘ کے الفاظ لکھتے ہوئے دل پر لرزہ، ہاتھوں میں کپکپاہٹ اور جسم میں جھر جھری پیدا کر دیتی ہے۔ ہر وقت، ہر آن اور ہر لمحہ سامنے رہنے والی اس دلکش تصویر کع کیا کہوں جس کے بارے رہ رہ کر یہ محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ابھی سامنے سے مسکراہٹوں کے پھول بکھیرتی نمودار ہو گی۔ اور ہمیشہ کی طرح دل کے سارے داغ دھو دے گے۔ غموں کے سارے بادل چھٹ جائیں گے اور یہ ڈراونا خواب جو ایک ہفتہ سے نظر آرہا ہے یک بیک ختم ہوجائے گا۔ ہر گھڑی کانوں میں گونجنے والی اس محبت بھری آواز کو کیا کروں جو ہر پریشانی کے موقع پر تسلی اور سکون کا پیغام بن کر سنائی دیتی تھی اور اب بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ غموں کے اس انبوہ میں بیک سنائی دیگی اور ہمیشہ کی طرح آج بھی اس کی لذت وحلاوت سے جسم وجان کا گوشہ گوشہ سکون پاجائیگا۔ وہ آواز جس نے ہر کٹھن گھڑی میں ماں باپ، بہن بھائی اور بیوی بچوں سے لیکر اپنے تمام عزیزو اقارب اور دوست احبا ب کے حوصلے ابھارے۔ جس نے ہر نازک موڑ پر، یہاں تک کہ اپنے آخری لمحات تک اپنوں پرایوں سب کی ڈھارس بندھائی۔ جس نے ایک عرصہ تک علم و ادب اور دین و سیاست کی محفلیں زندہ رکھیں اور جس کی نغمہ بار چہک سے لاہور کے علمی و ادبی حلقے اب بھی مترنم ہیں کیسے یقین کرلوں کہ اب وہ جیتے جی دوبارہ سنائی نہیں دے گی       ؎

زمزوں سے جس کے لذت گیر ابتک گوش ہے
کیا وہ آواز اب ہمیشہ کے لئے خاموش ہے

لیکن نہیں !اب یہ یقین کرنا پڑے گا قدرت کے قوانین اٹل ہیں اور اس قسم کی جذباتی شاعری سے ان کا مفہوم بدلا نہیں کرتا۔ اگر کوئی سخت سے سخت محنت یا بڑی سے قیمت کسی جانے والے کو واپس لاسکتی تومیں سب سے پہلے اپنے بھائی جان کو موت کے پنجوں سے چھین کر اس ’’کاشانہ زکی‘‘کو دوبارہ خوشیوں سے آباد کرنے کی کوشش کرتا جو ابھی چند روز پہلے تک مسرتوں کا گہوارہ تھا اور آج آنسوئوں میں بہہ رہاہے۔ اگر کسی بڑی سے بڑی قربانی کے ذریعہ کسی کی موت کو مئوخر کرنا ممکن ہوناتو میں سب سے پہلے بھائی جان کو اپنے ان دل شکتہ والدین کے سامنے لاکھڑا کرتا جنہوں نے اس ضعیفی میں بستر علالت پر ایسے بیٹے کا زخم سہا ہے۔ لیکن تقدیر کے فیصلوں میں اس اگر مگر گنجائش نہیں، میں کیا اور میرا صدمہ کیا؟ اور اس صدمے کو دور کرنے کے لئے میری کسی قربانی کی حقیقت کیا؟ اس زمین کے سینے پر سب سے بڑا صدمہ ابوبکر صدیقؓ، عمر فاروقؓ، غنیؓ، علی مرتضیٰ ؓ، صدیقہ عائشہؓ، فاطمۃالزہرہؓ، اور تمام صحابہؓ نے سہا تھا۔ قربانی پیش کرنے کا لفظ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان جاں نثاروں پر سجتا تھا اور اگر کوئی بڑی سے بڑی قربانی کسی کی اجل کے فیصلے کو ٹلاسکتی تو وہ یقینا سرکار دو عالم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف ایک سانس کے بدلے اپنی ہزاروں زندگیاں نچھاور کر دیتے۔ لیکن حکیم وعلیم کا بنایا ہوا یہ کارخانہ حیات کوئی ہنسی کھیل نہیں ہے جس کے فیصلے آرزوئوں، تمنائوں اور حسرتوں کے مدار پر گردس کیا کریں۔ تم ایک محدوددائرے میں رہ کر سوچتے ہو، تمہاری ساری تمنائیں اور حسرتیں اسی تنگ دائرے سے وابستہ ہیں۔ اس دائرے سے باہر وہاں تک ان کی رسائی نہیں جہاں سے پور ی کائنات کا نظام کنٹرول ہورہا ہے، جہاں کائنات کی ہر چیز کی گھڑی گھڑی کا حساب مقرر ہے اور جہاں کی مستحکم اور حکیمانہ منصوبہ بندی میں کوئی جھول نہیں ہے۔ اگر تمہیں اس مستحکم منصوبہ بندی اور اس میں پنہاں حکمتوں کا علم نہیں تو ان حکیمانہ منصوبہ بندیوں کا قصور نہیں تمہاری جہالت کا قصور ہے۔ تم اس کائنات میں خدائی کے اختیارات لیکر نہیں خدا کے بندے بن کر آئے ہو لہٰذا مشیت کی حکمتوں کی جھانکتے پھرنا تمہارا کام نہیں، تمہارا کام یہ ہے کہ قدرت کے فیصلوں کے آگے سر تسلیم خم کرو اور انکی حکمتوں کو اللہ کو حوالے کردو۔
ہاں ایک ظلوم وجہول بندے کی حیثیت سے کسی المناک واقعہ پر رنجیدہ ہونا اور اپنے کسی چھوٹ جانے والے کو شرعی حدود میں رہ کریا دکرنا تمہارا فطری حق ہے اور اللہ نے تمہارے اس حق پر پابندی نہیں لگائی۔ اس تنّْبہ کے بعد مشیت ایزوی کے سامنے سر تسلیم خم ہے اور اس بات پر ایمان ہے کہ جو کچھ ہوا وہ حکیم مطلق کی حکمتوںکے عین مطابق ہے۔
لیکن اس حادثے نے دل ودماغ پر جو غیر معمولی اثر ڈالاہے اور اس کے بعد بھائی جان مرحوم کے ساتھ گزرے ہوئے تین سالہ واقعات کی جو چلتی پھرتی تصویریں ہر لمحے نگاہوں کے سامنے ہیں، ان سے مسلسل دل پر لگنے والے نشتروں کو روکنا میرے بس کی بات نہیں۔ آج ان نشتروں میں آپ کو بھی تھوڑا سا حصہ دار بنانا چاہتا ہوں۔
بچپن کے بالکل آغاز میں بھائی جان کا تصور ہمارے ذہن میں ایک ایسی محبوب مگر بارعب شخصیت کا تھا جن سے آنکھیں ملانا مشکل تھا۔ ان کا سب سے پہلا واقعہ جو مجھے یاد ہے، وہ یہ ہے کی ہمارے دیوبندی کے مکان میں ایک کمرہ بھائی جان کے لئے مخصوـص تھا۔ اس میں ایک میزپر ان کی کتابیں کاپیاں اور قلم دوات رکھی رہتی تھی۔ میری عمر اس وقت بمشکل چار سال کی ہوگی، میں ایک روزان کے کمرے میں داخل ہوا تو کھیلتے کھیلتے میرا ہاتھ ان کی دوات کو لگا اور ساری روشنائی میز پر پھیل گئی،روشنائی کے اس طرح پھیل جانے سے واقعتا جو نقصان ہوسکتا ہے اس کا احساـس تو اس وقت کیا ہوتا؟ لیکن بھائی جان کی بارعب شخصیت کے پیش نظر اس کے جو نتائج ہماری ذات پر اثر انداز ہوسکتے تھے ان کا اندیشہ ضرور دامن گیر ہوگیا۔ بھائی جان کا رعب تو بیشک چھایا ہواتھا۔ لیکن جس چیز کا رعب تھا۔ اس کا عملی تجربہ کبھی نہیں ہوا تھا،آج یہ یقین تو ہوگیا کہ اب یہ عملی تجربہ ہوکر رہیگا لیکن وہ کیسا ہوگا؟ اور ہمارے لئے کس حد تک قابل برداشت ہوگا؟ اس کا اندازہ بالکل نہیں تھا۔ ہم نے پہلے تو روشنائی کو صاف کرنے کی کوشش کی لیکن جب علاج سے درد بڑھتا ہی چلاگیا تو اس کو اپنے حال پر چھوڑ کر باہر نکل آئے اور گھر میں ایک ایک فرد سے یہ تحقیق شروع کی کہ بھائی جان کا ہاتھ (طمانچے کا ہاتھ) کیسا پڑتا ہے؟ لیکن اس کا جواب پانے کے لئے بجائے ہر فرف کے چہرے پر ہنسی دیکھ کر تشویش بڑھتی چلی گئی اور اس وقت رفع نہ ہوئی جب تک بھائی جان خود نہ آگئے۔ کیونکہ وہ بھی دوسروں کی زبانی میرا یہ سوال سنکر مسکرائے اور پھر ایک تبسم آمیز مصنوعی غصے کے ساتھ مجھے تھپتھپاکر رخصت کردیا۔ مجھے اپنے اس سوال کا عملی جواب تو اس کے بعد کبھی نہ مل سکا لیکن بڑے ہونے کے بعد بھائی جان یہ بات یا ددلا کر اکثر چھیڑا کرتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی رفاقت کے سلسلے میں ان کی سب سے پرانی بات جو مجھے یاد ہے وہ یہی ہے۔
قارئیں البلاغ شاید یہ الجھن محسوس کریں کہ اس مرتبہ میں نے خلاف عادت یہ ذاتی قصے کیوں چھیڑدئیے ہیں، لیکن میں نے دو وجہ سے ان واقعات کو بیان کرنا نامناسب نہیں سمجھا۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ قارئیں البلاغ سے آٹھ سالہ رفاقت کی بناء پر اپنا حق سمجھتا ہوں کہ اس جیسے موقع پر انہیں اپنے تاثرات میں حصہ دار بنائوں۔ دل میں ابلنے والے ان جذبات کی داستانہ آپ نہیں تو اورکون سنے گا۔ پچھلے آٹھ سال سے ہر مہینے کم ازکم البلاغ کا اداریہ تو ضرور لکھتا ہی ہوں لیکن لکھتے وقت مجھے یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ اسے کون کون پڑھے گا؟صرف ایک شخصیت ایسی تھی۔ جس کے بارے میں مجھے یقین ہوتا تھا کہ اسے جس دن البلاغ ملے گا اسی روزیہ اداریہ لازما اس کے مطالعہ میں آئیگا اور وہ بھائی جان کی شخصیت تھی۔ بھائی جان کواس سے بڑی غیرت آتی تھی کہ حضرت والد صاحب مد ظلہم یا ہم بھائیوں میں سے کسی کی کوئی قابل ذکر بات انہیں کسی تیسرے شخص کے واسطے سے معلوم ہو، وہ ہمارے ایک ایک بات سے خود باخبر رہتے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ البلاغ پہنچنے کے تیسرے ہی دن ان کا خط نہ ملے تب بھی یہ ممکن نہیں تھا کہ بھائی جان کو کوئی دوسرا شخص البلاغ میں میرے کسی مضمون کا حوالہ دے اور وہ انہوں نے نہ پڑھا ہو۔ آج یہ پہلا موقع ہے کہ میں اداریہ لکھ رہا ہوں اور اس پر کیف یقین سے محروم ہوں۔
دوسرے وجۃہے کہ بھائی جان کا تذکرہ محض میرا ذاتی تذکرہ نہیں، ان کی شخصیت ان خاموش رضا کاروں میں سے تھی جو انتہائی خلوص کے ساتھ ملک وملّت کی قیمتی خدمات انجام دیتے رہتے ہیں، لیکن جب شہرت اور کریڈٹ کے ہار تقسیم ہوتے ہیں گوشہ گمنامی میں جا بیٹھتے ہیں، جو لوگ ملک کی دینی تحریکات کے اندرونی احوال سے باخبرہیں ان سے پوچھئے کہ ملک کی تحریکات میں کونسا موقع ایسا تھا جس میں دامے قدمے سخنے ان کا کوئی نہ کوئی حصہ نہ ہو؟ لیکن جب ان تحریکات سے شخصیتوں کا ابھر نے کا موقع آتا تو وہ محض ایک دینی کتابوں کے ناشرو تا جریا زیادہ سے زیادہ ایک کامیاب شاعر تھے اس سے آگے کچھ نہیں۔ انہوں نے سچ کہا تھا        ؎

کہنے کو ایک ذرہ ناچیز ہیں مگر
تعمیر کائنات کے کام آرہے ہیں ہم

بڑے بڑے دینی اور سیاسی رہنمائوں کے تذکرہ نگار آپ کو بہت سے مل جائیں گے لیکن وہ خاموش رضا کار جن کے خون پسینے سے ملک وملّت کا چمن سیراب ہوتا ہے ان کے حالات سنانے والا آپ کو ڈھونڈے سے بھی ملنا مشکل ہے اور آج میں آپ کو ایک ایسے ہی رضا کار کا حال سنا رہا ہوں۔
ہاں تو بچپن میں بھائی جان کی شخصیت ہمارے لئے صرف ایک بارعب شخصیت تھی لیکن پھر رفتہ رفتہ اس رعب پر محبت غالب آتی چلی گئی۔ قیام دیوبند کے دوران مجھے ان کے چند ہی مناظر یاد ہیںجن میں سے وہ منظر بھلائے نہیںبھولتا جب ۱۹۴۸ء میں ہم چار بھائی اور دو بہنیں والدین کے ساتھ بغرض ہجرت پاکستان کے لئے روانہ ہورہے تھے اور بھائی جان دہلی کے اسٹیشن پر بھیگی نگاہوں کے ساتھ رخصت کررہے تھے۔ میں اس وقت پانچ سال کابچہ تھا اور زیادہ سے زیادہ اتنا سمجھ سکتاتھاکہ ان کے یہ آنسووالدین اور بھائی بہنوں سے جدائی کے تا ثرات ہیں، لیکن بعد میں ذرا ہوش آیا تو اندازہ وہوا کہ بات صرف اتنی نہیں تھی بلکہ ان آنسوئوں میں غموں حسرتوں اور تفکرات کا ایک جہاں پوشیدہ تھا۔ ہم بھائیوں میں تنہا وہ تھے جنہوں نے قیام پاکستان کی تحریک میں حضرت والد صاحب مد ظلہم کا ہاتھ بٹایاتھا جنہوں نے اس مقصد کے لئے والد صاحب کے ساتھ سفر کئے تھے، جو سرحد ریفرنڈم، لاہور کانفرنس اور حیدرآباد کانفرنس میں والد صاحب کے ساتھ رہے تھے۔ جنہوں نے اس کام کے لئے دیوبند میں نوجوانوں کی ایک تنظیم بنائی تھی جنہوں نے فسادات کے زمانے میںلوگوں کے گھروں پر راتوں کو پہرے دئیے تھے اور جن کی جوانی کی بیشتر امنگین پاکستان سے وابستہ تھیں، لیکن اسوقت بھائیوں میں تنہا وہی تھے جنہیں والد صاحب کے ساتھ پاکستان آنے کے بجائے ہندوستان میں روکنا پڑرہاتھا۔ اس ہندوستان میں جہاں (قیام پاکستان کے بعد ) ایک لمحہ ٹھہرنا بھی ان کے لئے دو بھر تھا اور جہاں کا ماحول اس وقت (خود بقول ان کے) انہیں کاٹ کھانے کو دوڑتا تھا لیکن چونکہ حضرت والد صاحب مد ظلہم شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کی فوری طلبی پر اچانک روانہ ہوئے تھے اور دیوبند میں بہت سے الجھے ہوئے کام نبٹانے باقی تھے جن میں بھائی جان کے سوا بھائیوں میں سے کوئی بھی کمسنی کے سبب نبٹانہیں سکتا تھا، اس لئے حضرت والد صاحب انہیں کچھ عرصے کے لئے وہیں چھوڑ کر جانے پر مجبور ہوئے۔ بھائی جان اس وقت تیئیس چوبیس سال کی عمر میں ان تمام الجھے ہوئے کاموں کا بوجھ، والد صاحب کے ساتھ پاکستان نہ پہنچنے کی حسرت اور گھر والوں سے جدائی کا غم لئے کھڑے تھے اور گویا زبان حال سے اپنا یہ شعر پڑھ رہے تھے کہ        ؎

میں ہوں کہ مرے دم سے ہے میخانے کی رونق
میرا ہی بھرے بزم میں اک جام تہی ہے

پھر تقریبا سات مہینے وہ ہندوستان میں رہے۔ اس دوران ان کی جو کیفیت تھی اس کا اندازہ ان کے ایک منظوم خط سے ہوتا ہے جو انہوں نے عید کے موقع پر ہم سب بہن بھائیوں کے نام بھیجا تھا اس خط کے یہ اشعار مجھے آج تک یاد ہیں           ؎

مانا کہ میں دل درد کا خوگر ہی بنا لوں
لیکن جو خلش چھپ نہ سکے کیسے چھپالوں ن
آنکھوں میں ہے اندھیر تو دل ڈوب رہا ہے
ایسے میں بتائو کہ میں کس کس کو سنبھالوں
تم عید کی خوشیوں سے کرو گھر میں چراغاں
میں محفل دل اپنے ہی داغوں سے سجالوں
ماں باپ جدا، بھائی بہن پاس نہیں ہیں
ایسے میں بتائو کہ میں کیا عید منالوں

لیکن ملّی غیرت کا یہ عالم تھا کہ جس ماحول میںپاکستان کا نام لینا جرم تھا وہاں اعلانیہ پاکستانی ٹوپی پہنتے پاکستان کے حق میں بحثیں کرتے اور اس کے خلاف کسی کی زبان سے ایک لفظ نہیں سن سکتے تھے۔ عید الاضحٰی کا موقعہ آیا اور گائے کی قربانی پر جگہ جگہ فسادات ہوئے۔ بہت سے مسلمانوں نے گائے کی جگہ بکرے ذبح کئے انہیں بھی سمجھایا گیا کہ ایسے ماحول میں گائے کی قربانی مناسب نہیں لیکن انہوں نے کسی کی ایک نہ سنی، گائے خرید کر کھلم کھلا ذبح کی اور ہندوئوں کے خوف سے اس معمول کوترک کرنا گوار نہیں کیا۔ ان کا مسلک خود ان کے بقول یہ تھا ؎

غیر کے سامنے جھک جائے یہ سر؟ ناممکن!
اس نے اے جان جہاں آپ کا درد دیکھا ہے

تقریباً سات مہینے ہندوستان میں رہے اور انہوں نے یہ زمانہ جس کرب میں گزار ا اس کا تذکرہ وہ بعد میں کبھی کبھی کیا کرتے تھے۔ ان کی عمر اس وقت کوئی بہت زیادہ نہ تھی لیکن انہوں نے نہایت خوش اسلوبی سے اپنی کٹھن ذمہ داریوں کو نبٹایا۔ حضرت والد صاحب مد ظلہم کی شخصیت دیوبند میں تمام اعزاء واقرباء واحباب کے لئے ایک مرکز ومحور کی حیثیت رکھتی تھی اور ان کی بہت سی ذمہ داریاں حضرت والد صاحب مد ظلہم کے سر تھیں جنہیں وہ پاکستان پہنچنے کے بعد نبٹانہیں سکتے تھے۔ بھائی جان دیوبند میں حضرت والد صاحب مد ظلہم کے نمائندے بن کر اور حضرت والد صاحب مد ظلہم کی ہدایات کے مطابق تمام ضروری کام انجام دیتے رہے۔ اس زمانے میں دونوں کے درمیان جو خط وکتابت ہوئی اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بھائی جان کتنا کٹھن کام انجام دے رہے تھے۔ ان کے کارنامے کے تصور سے خود انہی کا ایک شعر یا د آگیا            ؎

میں کچھ نہ سہی لیکن میری ہی اسیری ہے
اک رابط ہوا قائم گلزار سے زنداں تک

سات آٹھ مہینے بعد محرم ۲۸ ھ میں وہ ہماری بھابھی اور ضعیف دادی جان کو لے کر کراچی پہنچے۔ ادھران کی جلد از جلد آمد کے انتظار میں ہم لوگوں کا عالم یہ تھا کے برادر محترم مولانا محمد رفیع عثمانی صاحب مد ظلہم روزانہ ڈاکیہ کا انتظار کرنے کی بجائے خود ڈاک خانے پہنچ جاتے اور وہاں سے حضرت والد صاحب مد ظلہم کی ڈاک چھٹوا کر لایا کرتے۔
جسمیں عموماً بھائی جان کا خط ضرور ہوا کرتا تھا۔ وہ روزانہ اپنے حالات کی تفصیل سے مطلع کیا کرتے تھے اور پھر جس روز ان کا وہ خط موصول ہوا جس میں انہوں نے اپنی آمد کی تاریخ سے مطلع کیا تھا، اس روز گھر بھر میں مسرت کا عالم ناقابل بیان تھا۔ ہم سب لوگ انہیں لینے لے لئے ایئرپورٹ پہنچے اور انتظار کی شدید گھڑیاں گزارنے کے بعد اچانک ان کا جو مسرت سے دمکتا ہوا چہرہ سیڑھیوں پر نمودار ہوا وہ اس وقت بھی اس طرح فرودس نگاہ ہے جیسے ابھی یہ واقعہ ہورہا ہے۔ ہماری ضعیف دادی جان ان کے ہمراہ تھیں، اور اس وقت نقل وحرکت سے معذور ہوگئی تھیں، اس وقت ان کو کرسی سے کار تک لانے کاانتظار کچھ مشکل نہ تھا، لیکن بھائی جان اپنی ایک جھلک دکھا کر دوبارہ ہوائی جہاز میں گئے اور واپس آئے تو دادی جان کو انہوں نے بازوئوں میں اٹھایا ہوا تھا اور پھر اسی حالت میں انہیں باہر لیکر آئے۔
کراچی پہنچنے کے تھوڑے ہی عرصے بعد انہوں نے والدین کے مشورے سے لاہور کو مستقل سکونت کے لئے اختیار کرلیا۔ انار کلی میں مال روڈ کے قریب ایک وسیع دکان کرائے پرلیاور ’’ادارئہ اسلامیات‘‘ کے نام سے دینی کتابوں کا ایک کتب خانہ قائم کیا ‘جو بحمداللہ اب تک قائم ہے۔ یہ کتاب خانہ کیا تھا ؟ شہر بھر کے علمی اور ادبی حلقوں کا ایک مرکز تھا، جہاں علم وادب اور دین و سیاست کی باغ وبہار محفلیں جمتیں اور ہر شعبہ زندگی کے افراد کا رنگارنگ اجتماع رہتا تھا۔
۱۳۷۰ھ مطابق ۱۹۵۱ء میں بھائی جان نے والدین کے ہمراہ پہلا حج کیا۔ اس سفر میں مجھے بھی والدین اور بھائی جان کی رفاقت میسر آئی۔ میری عمر تو اس وقت صرف نوسال تھی۔ اس مبارک سفر میں والدین کی خدمت کی سعادت بھائی جان کے حصے میں آئی۔ وہ نہ صرف والدین کا بلکہ دوسرے ہمراہیوں کا کام بھی خود ہی کرنے کی فکر میںرہتے۔ مناسک حج کی ادائیگی میں ان کی والہیت قابل دید تھی، وہ ملتزم پر کھڑے ہو کر جس انداز سے بلک بلک کر دعائیں مانگتے اس کا نقشہ آج بھی آنکھوں کے سامنے پھر رہا ہے۔ اس سال حج کے موقع پر گرمی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی اب تو حجاج کے لئے حکومت کی طرف سے بہت سی سہولیات مہیا کردی گئی ہیں، اس وقت ان سہولیات کانام نہیں تھا۔ منیٰ میں درجہ حرارت ۱۲۰ درجہ تک پہنچا ہوا تھا۔ قربان گاہ پر بلا مبالغہ سینکڑوں افراد کھڑے کھڑے چکراکر گرے اور ختم ہوگئے۔ اس قیامت کی گرمی میں بھائی جان نے تنہا تمام ہمراہیوں کی طرف سے بڑے ذوق وشوق کے ساتھ قربانی ادا کی۔ وہ ہمیشہ ان تمام مشقتوں کا ذکر انتہائی محبت کے ساتھ کرتے اور کوئی شخص ان کا ذکر شکایت آمیز انداز میں کرتا تو اسے نرمی وہمدردی سے ٹوکتے تھے۔ ان کا مسلک تو خود انہی کے الفاظ میں یہ تھاکہ       ؎

تیرے دیوانوں کو خوفِ دار کیا ؟
پھول چننے ہیں توخوفِ کار کیا ؟

مکہ مکر مہ میں ہمارا قیام حرم شریف کے باب الرباط کے اوپر بنی ہوئی ایک عمارت میں تھا، جہاں سے حرم شریف کا منظر ہر وقت سامنے رہتا تھا، ایک دن اچانک بارش شروع ہوگئی بھائی جان بجلی کی سی پھرتی سے نیچے اتر کر میزاب رحمت کی طرف لپکے اور اس کے پانی سے اپنا جسم اور کپڑے تر کر لائے۔ میں نے بھی ان کے پیچھے پیچھے لپکنے کی کوشش کی مگر ان کا ساتھ نہ دے سکا اور قریب پہنچنے تک بارش رک گئی۔ وہ ہر ہر سعادت کے حصول میں اسی طرح ہمیشہ سبقت لیجاتے اور ہم ان کی گرد کو نہ پہنچ سکتے۔ لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ وہ آخرت کے سفر میں بھی اتنی عجلت سے کام لیں گے اور اس مرحلے میں بھی اتنی جلد ہمیں پیچھے چھوڑ جائیں گے۔ آہ وہ کیسا شعر کہہ گئے تھے         ؎

پھر مری گرد کو بھی پا نہ سکے گی دنیا
جس کو دل سے مرا بننا ہو وہ اب بن جائے

حج کے سفر سے واپسی پر سفینہ عرب ہی میں ہم نے شہید ملّت لیاقت علی خاں صاحب مرحوم کی شہادت کی خبر سنی۔ اس خبر پر جہاز کے تمام ہی افراد آبدیدہ تھے، لیکن بھائی جان کو میں نے اس موقع پر بچوں کی طرح روتے دیکھا۔
بچپن میں ہمیں بھائی جان کے ساتھ بے تکلف ہونے کی جرات نہ ہوئی، لیکن پھر رفتہ رفتہ انہوں نے ہم سب بھائیوں کو اپنے آپ سے اس حد تک قریب کرلیا کہ تکلف کے سارے پردے اٹھ گئے۔ ان سے ملاقات کرکے بیک وقت ایک باپ کی شفقت، ایک بھائی کا پیار اور ایک بے تکلف دوست کا لطف محسوس ہوتا تھا۔ ہمارے لئے اس سے بڑھ کر روزِ عید کوئی نہ ہوتا جب وہ کراچی آجاتے اور ان کے لئے اس سے بڑھ کر مسرت کا دن کوئی نہ ہوتا جب ہم بھائیوں میں سے کوئی لاہور پہنچ جاتا۔ ریلوے اسٹیشن یا ایئرپورٹ پر ایک دوسرے کو دیکھتے ہی ہماری کائنات مسرتوں سے گنگنا اٹھتی۔ ہم آپس میں ملتے ہی دنیا وما فیہا سے بے خبر ہوجاتے ایسا معلوم ہوتا جیسے اس فضائے بیکراں کا ہر ذرہّ ہماری مسکراہٹوں میں محو ہے اور افق سے افق تک مسرتوں کا اجالا ہی اجالا پھیل گیا ہے۔ بھائیوں کے درمیان الفت و محبت کا تعلق ایک فطری چیز ہے لیکن ہمارے تعلق میں بھائیوں کی محبت کے ساتھ دوستی کی ایک ایسی گھلاوٹ شامل ہوگئی تھی جسے بیان کرنے کے لئے اظہار محبت کے تمام اسلوب بے معنی معلوم ہوتے ہیں۔ ہمارے درمیان دین ومذہب، تاریخ، تصوّف، معیشت وسیاست، شعروشاعری، لطائف وظرائف، ادب وصحافت غرض کوئی موضوع ایسا نہ تھا جو زیر بحث نہ آیاہو۔ بحث ومباحثہ سے لیکر تفریح اور خوشی طبعی تک وہ ہم چھوٹوں کے ساتھ اس طرح شریک تھے جیسے وہ ہمارے ہم عمر اور بے تکلف دوست ہوں۔ ہم بات بات پر ہنستے بلکہ بعض اوقات بے بات بھی، ہماری تلمیحات کوبسا اوقات دوسرے لوگ سمجھ نہ پاتے اور پوچھتے کہ اس میں ہنسی کی کیا بات تھی؟ بھائی جان اکثر کہا کرتے تھے اور یہ ہم سب کا حال تھا کہ دنیا کی کسی محفل اور کسی تفریح میں اتنا کیف و سرور میسر نہیں ہوتا جتنا بھائیوں کی ملاقات میں ہوتا ہے اوراگر کوئی دوسرا شخص ہمیں اس طرح ایک دوسرے میں محو دیکھ لے تو شاید ہمیں دیوانہ سمجھے مگر وہاـں تو حال یہ تھا کہ        ؎

خلقے پس دیوانہ ودیوانہ بکارے

انہیں خود کوئی راحت یا ـخوشی میسر آتی تو والدین اور بہن بھائیوں کو اس میں شریک کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ بعض اوقات یہ جذبہ اس حد تک بڑھ جاتا کہ دوسروں کو الجھن ہونے لگتی۔ ایک مرتبہ میں لاہور میں تھا، رات گئے تک انہوں نے گھر بھر کر کشت زعفران بنائے رکھا، سونے کے وقت ہم اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے بستر پر لیٹ چکا تھا، روشنیاں گل ہوچکی تھیں، اچانک انہوں نے اپنے کمرے سے مجھے پکارا، مجھے کچھ تشویش سی ہوئی اور دوڑا ہوا پہنچا۔ لیکن انہوں نے مجھے اپنے قریب بستر پر بٹھایا اور بستر کے ایک حصے کی طرف اشارہ کیا۔ بات صرف اتنی تھی کہ ان کے سرہانے ایک کھڑکی تھی اور باہر سے ایک درخت کے پتوں میں چھن چھن کر بستر پر ایک عجیب سماں پیدا کررہی تھی۔ بھائی جان کہنے لگے کہ ’’دیکھو! کتنا خوبصورت منظر ہے، مجھے یہ منظر بڑا حسین معلوم ہوا میں نے سوچا کہ تم بھی اس منظر سے لطف اندوزہوکر سوئو، بس تمہیں اسی لئے بلایا تھا۔ ‘‘اور پھر اتنی سی بات مزید آدھا گھنٹہ ان کے پاس بیٹھنے اور باتیں کرنے کا بہانہ بن گئی۔ یہی وہ باتیں تھیں جب کے بارے میں وہ کہا کرتے تھے کہ دوسرے لوگ انہیں دیکھیں تو ہمیں دیوانہ کہیں۔
اسی آخری حج سے واپسی کے بعد وہ بار بار رکہتے تھے کہ اب دل یہ چاہتا ہے کہ سب بھائی ایک ساتھ عمرہ کے لئے جائیں اور میں نے اس کے لئے دعائیں بھی کی ہیں، مگر یہ کسے معلوم تھا کہ ان کی یہ آرزو ان تمنائوں میں ہے جن کے بارے میں وہ کہہ گئے تھے کہ        ؎

تمنائیں ہیں لاکھوں، کم ہے لیکن فرصتِ ہستی
اقامت کے ارادے ہیں مگر حالت سفر کی ہے

والدین سے انہیں جو تعلق تھا اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ وہ دور رہنے کے باوجود ان کے چھوٹے چھوٹے مسائل اور ان کی تمام جڑئیات سے پوری طرح باخبر رہتے اور ادا ادا سے انہیں راحت پہنچانے کی فکر کرتے تھے۔ والدین کو بھی ان سے جو راحت ملتی اور جس مزاج شناسی کے ساتھ وہ ان کے خدمت کرتے وہ ہم لوگوں کے لئے قابل رشک تھی۔ اللہ تعالیٰ حضرت والد ماجد مد ظلہم کو عافیت کے ساتھ ہمارے سروں پر سایہ فگن رکھے، پچھلے دنوں جب انہیں دل کا دورہ ہوا تو دوپہر کے وقت انہیں ہسپتال میں داخل کیا گیا اور شام کو مغرب کے فورََا بعد بھائی جان ان کے سرہانے موجود تھے۔ اس کے بعد پندرہ بیس روز تک انہوں نے جس انداز سے حضرت والد صاحب مد ظلہم کی خدمت کی وہ ہمارے لئے ایک گرانقدر مثال تھی۔ اسی زمانے میں پہلی بار انہیں بھی دل میں معمولی تکلیف محسوس ہوئی چند روز انہوں نے اس تکلیف کو چھپایا، لیکن ایک روز ہسپتال ہی میں کہنے لگے کہ ’’تم لوگ سوچو گے کہ مینڈکی کو بھی زکام ہوگیا لیکن میں چند روز سے دل کے پاس ایک خلش محسوس کررہا ہوں، اسی وقت معائنہ کرایا گیا لیکن کارڈیو گرام بالکل صاف تھا، اس لئے اطمینان ہوگیا لیکن واپس لاہور پہنچنے کے بعد انہیں یکے بعد دیگرے وجع القلب کے متعدد دورے ہوئے اور کچھ وقفے کے بعد ایک شدید حملہ ہوا، جس کی شدت کی اطلاع ہمیں بہت بعد میں ہوئی مگر بحمد اللہ کچھ دنوں کے بعد ان کی طبعیت ٹھیک ہوگئی اور اس کے بعد انہوں نے کراچی کے کئی سفر کئے۔
حضرت والد صاحب مد ظلہم سے ان کی خط وکتابت جسے انہوں نے پوری طرح محفوظ رکھاہے، گذشتہ ۲۶ سال کی پوری تاریخ ہے جس میں ملک وملت سے لیکر دارلعلوم اور گھریلوں مسائل تک کوئی قابلِ ذکر واقعہ فرو گزاشت نہیں ہوا۔ پھر حضرت والد صاحب مد ظلہم کی علالت کے بعد سے زیادہ تر خط وکتابت مجھ سے رہتی تھی۔ چند مہینے ہوئے ہیں کہ انہوں نے ایک مختصر خط میں ہمارے دیوبند کے ایک قریبی عزیز کے انتقال کی خبردی، یہ خبر ہم سب کے لئے انتہائی اندوہناک تھی، اسلئے ساتھ ہی انہوں نے مجھے لکھا کہ حضرت والد صاحب مدظلہم کو اس حادثے کی اطلاع کسی مناسب موقع پر رفتہ رفتہ کرکے دینا، ایسا نہ ہو کہ اچانک اس اطلاع سے حضرت والد صاحب کی صحت پر خدا نخواستہ کوئی برا اثر پڑے۔ چنانچہ یہ اطلاع ان کی ہدایت کے مطابق اسی طرح دی گئی۔ لیکن یہ کسے معلوم تھا کہ اب کچھ ہی دنوں بعد بھائی جان خود اپنے بارے میں اس سے زیادہ جانکاہ خبر اس سے کہیں زیادہ ضعف و علالت کے عالم میں حضرت والد صاحب مدظلہم کو سنانے کی ذمہ داری بھی ہمیں سونپنے والے ہیں۔ آہ بھائی جان کا کیسا شعر کس موقع پریا د آیا ہے        ؎

ابھی سے کس لئے ہے عارض گلنا ر پر شبنم
ابھی تو بات محفل میں حدیث دیگراں تک تھی

ابھی عید الفطر کے بعد وہ براور محترم جناب محمد رضی صاحب مد ظلہم کی بچی کی شادی میں شرکت کے لئے کراچی آئے تھے۔ اس موقع پر وہ انتہائی بے تابانہ انداز میں حج وزیارت کی خواہش کو ذکر کرنے لگے۔ اس وقت عالم اسباب میں اس خواہش کے پورے ہونے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا تھا۔ بات آئی گئی ہوگئی، لیکن یہ تمنا دعا بن کر ان کے سینے میں مچلتی رہی، یہاں تک کہ انہوں نے وہ نعمت کہی جو البلاغ کے اس شمارے میں شائع ہورہی ہے، اور جس کا مقطع یہ ہے کہ؎

دعا ہے یہ کیفی کہ اس سال ہم بھی
مدینے کے دیوار و در دیکھ آئیں

اس وقت تک بھی بظاہر اسباب حج کوجانے کو کوئی صورت نہیں تھی اور دن بالکل قریب آچکے تھے لیکن بار گاہ قضا وقدر میں ان کی یہ دعا قبول ہوچکی تھی، ان کو معلوم بھی نہ تھا کہ ان کے ایک مخلص اور باوفادوست جو کسی سرکاری عہدے پر فائز نہیں ہیں انہیں حج پر لیجانے کی کوشش کررہے ہیں۔ چنانچہ یہ نعت شائع کرنے کے دوسرے تیسرے ہی دن اچانک ان کا ٹیلی فون آیا کہ حکومت پاکستان کی طرف سے جو حج وفد بناہے اسمیں آپ کا نام بھی شامل ہے۔ بھائی جان نے لمحہ بھر کے لئے بھی اس وفد میں شامل ہونے کی کوشش نہیں کی تھی، لیکن جن غیب سے یہ صورت پیدا ہوئی تو انہوں نے حضرت والد صاحب مدظلہم سے اجازت کے لئے کراچی ٹیلیفون کیا، والد صاحب نے حالات سنکر اجازت دیدی۔ اس زمانے میںانھیں سینے میں وجع القلب (انجائنا) کی تکلیف چل رہی تھی، لیکن حضرت والد صاحب مدظلہم نے فرمایا کہ انشاء اللہ حجاز مقدس کی برکت سے وہ ٹھیک ہوجائے گی۔ چنانچہ انہوں نے حج کا ارادہ کرلیا اور اسی دوران انہوں نے وہ نعت کہی جو ان کی آخری نعت ہے اور جس کا مطلع ہے           ؎

اس لئے آرزو ہے جینے کی
دیکھ لوں پھر زمین مدینے کی

وہ حج کے ارادہ سے کراچی پہنچے، ایئرپورٹ سے گھر آتے ہوئے راستے ہی میں انہوـں نے سنایا کہ میں نے حج وفد میں شمولیت کی خود ذرہ برابر کوشش نہیں کی تھی،البتہ ایک روز اللہ تعالیٰ سے یہ باتیں کررہاتھا کہ ’’مالک بے نیاز آپ نے میری کودعا کبھی رد نہیں کی، لیکن میں حج وزیارت کی دعا کررہا ہوں، ابھی تک اس کے پوراہونے کے آثار نظر نہیں آتے اور اب حج کی آخری پرواز بھی جانے والی ہے۔ اب اگر حج مقدر نہیں توعمرہ ہی اسباب پیدا فرمادیجئے۔ ’’کہنے لگے کے ’’میں یہ دعا کرکے فارغ ہوا ہی تھا کہ میرے پاس ٹیلی فون آگیا کہ تمہارا نام حج وفد میں شامل کرلیاگیاہے ‘‘اس کے بعد انہوں نے اپنی یہ دونوں نعتیں بڑے مزے لے لیکر سنائیں۔
اس انداز سے بھائی جان حج کو گئے ان کے رفیق خاص جناب مصطفی صادق صاحب ( مدیر وفاقی لاہور) راوی ہیں کہ جس ذوق و شوق ولہیت اور رعایت حدود کے ساتھ انہوں نے مناسک ادا کئے ہیں، وہ سب لوگوں کے لئے باعث رشک تھے۔ ان کے بڑے صاجزادے مولوی محمود اشرف سلمہ مدینہ طیبہ میں زیر تعلیم تھے۔ وہ اس سفر میں ان کے ساتھ رہے، وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے دل کی تکلیف کو کدی فضلیت کے حصول یا عاشقانہ آرزو کی تکمیل میں آڑے آنے نہیں دیا۔ اور یہ تکلیف آڑے آتی بھی کیسے؟ انہیں تو۔ خود ان کے الفاظ میں۔ اس بات کا یقین تھا کہ         ؎

پھر سائے میں ہم روضہء اطہر کے رہیں گے
دیکھیں گے تجھے، تو غم ایام ! کہاں ہے ؟

چنانچہ وہ حج کے پورے سفر میںبحچییت مجموعی تندرست رہے، اور ان کی طبیعت لاہور کے مقابلے میں بہت بہتر رہی۔ تقریباََ انیس روز بعد وہ کراچی پہنچے تو یہ ہجری حساب ان کی ولادت کا دن تھا اور اس روز ان کی عمر کے پچاس سال پورے ہوئے تھے، اس مرتبہ کراچی میں وہ چوبیس گھنٹے ٹھہر کر، لاہور روانہ ہوئے۔ اس وقت یہ وہم وگمان کیسے ہوسکتا تھا کہ یہ ان سے آخری ملاقات ہوگی، لیکن بر اور محترم جناب مصطفیٰ صادق صاحب ( مدیر و فاق لاہور ) نے صحیح لکھا تھاکہ ’’وہ حج کے موقع پر اللہ کے مہمان بنکر گئے تھے مگر اس عارضی مہمانی سے ان کی طبیعت سیر نہیں ہوئی، اور وہ بہت جلد اللہ کے دائمی مہمان بن گئے‘‘ان کی اصلی خواہش تو وہ تھی جس کا اظہار انہوں نے اپنے ایک شعر میں کیا تھا         ؎

الہٰی نبضِ ہستی ٹوٹ جائے ایسے عالم میں
زہے قسمت کہ ان کا آستاں ہے اور جبیں میری

اور     ؎

نگاہ اولین کیفی کہ جب روضہ پہ ہو یا رب
تمنا ہے کہ رہ جائے نگاہ واپسیں ہو کر

وہ اکثر ایک بزرگ کا واقعہ بڑے رشک آمیز انداز میں سنایا کرتے تھے کہ انہوں نے ایک مرتبہ خواب میں نبی کریم سرور دو عالم صلی اللہ وسلم کی زیارت کی اور اس خواب میں یہ تمنا ظاہر کی کہ آپ کے جلوہ جہاں آرا کے بعد میں کسی اور کو دیکھنا نہیں چاہتا اس لئے اس دیدار کے بعد میری بینائی سلب ہوجائے،چنانچہ وہ بیدار ہوئے تو بینائی جاچکی تھی۔ اس واقعہ سے متاثرہ ہو کر انہوں نے کس قیامت کا شعر کہا تھا          ؎

چھین لے مجھے سے نظر اے جلوہ خوش روئے دوست
میں کوئی محفل نہ دیکھوں اب تری محفل کے بعد

اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ ساری دعائیں اور آرزوئیں کس شان سے پوری کی ہیں؟ اللہ اکبر ! حج سے واپس ہونے کے بعد انہیں چند ہی روز گزرے تھے کہ دل کی تکلیف شروع ہو گئی، یہ تکلیف انہیں پہلے بھی بار ہار ہوچکی تھی۔ اسلئے شروع میں کسی کو کوئی تشویش نہ ہوئی، ادھر حضرت والد صاحب مد ظلہم کی طبعیت کئی روز سے نا ساز تھی، پائوں میں ایک انتہائی شدید قسم کا درد روز بروز شدت اختیار کر رہاتھا۔ اس لئے بھائی جان نے اس حالت میں کراچی والوں کو صحیح صور تحال سے مطلع کرنا پسند نہ کیا، ٹیلیفون پر یہی کہتے رہے کہ طبعیت بحمداللہ ! افاقہ پذیر ہے۔ عاشورہ کے دن حضرت والد صاحب مد ظلہم العالی کی پوری ٹانگ میں ایسا شدید درد شروع ہوا جو اس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا اور جس کے بارے میں معالجوں کا خیال تھا کہ یہ درد کی شدید ترین قسم ہے، یہاں تک کہ نقل وحرکت بالکل بند ہوگئی۔ اسی حالت میں مغرب کے بعد لاہور سے فون آیا کہ بھائی جان کی تکلیف اب نسبتََہ شدت اختیار کر گئی ہے اور معالجوں کا مشورہ یہ ہے کہ انہیں ہسپتال میں داخل کردیا جائے۔ ہر چند کہ بعد میں فون کی کچھ دوسرے اطلاعات اطمینان بخش بھی ملیں مگر دل لحظہ بہ لحظہ بے تاب ہورہاتھا۔ طے یہ کیا گیا کہ ہم میں سے ایک بھائی صبح آٹھ بجے کی پرواز سے لاہور پہنچ جائے گا۔ لیکن یہ کسے معلوم تھا کہ صبح ہونے سے پہلے کیا قیامت گزرنے والی ہے؟ آہ! بھائی جان ہی کا شعر پھر یاد آگیا          ؎

ستارے ڈوبنا، شبنم کا رونا، شمع کا بجھنا
ہزاروں مرحلے ہیں صبح کے ہنگام سے پہلے

بھائی جان کے تیمار دار بالخصوص احقر کے بہوئی الحاج حافظ شفقت علی صاحب، بھائی جان کے مخلص اور باو فا دوست جناب مصطفی صادق صاحب مدیر وفاق۔ احقر کے بھانجے حکیم سید مشرف حسین صاحب اور دوسرے اعزاء انہیں ہسپتال لے جانا چاہیے تھے مگر وہ ہسپتال جانے پر راضی نہ تھے اور بضد تھے کہ انہیں گھر ہی میں رکھا جائے۔ ان کے اشعار کہاں تک سنائوں کہ ہر موقع پر ان کا ایک شعر اس طرح یاد آجاتا ہے جیسے وہ اسی موقع کیلئے کہا گیا ہو            ؎

دلِ مضطر نے مرنے کی تمنا عمر بھر کی ہے
نہ پوچھو داستانِ زیست کیونکر مختصر کی ہے
عزیزو جستجو بے فائدہ اب چارہ گر کی ہے
یہ ہے دردِ محبت! چوٹ یہ قلب و جگر کی ہے

انہی کے اس اصر ار کی بنائو پر ہسپتال لیجانے میں تا خیر ہوئی یہاں تک کہ گیارہ بجے کے قریب انہیں متلی ہوئی جس سے حالت بگڑ گئی۔ اس وقت تیمارداروں نے ہسپتال لیجانے کا فیصلہ کرلیا اور انہوں نجے سپر ڈال دی۔ انکو بڑی احتیاط سے ہسپتال لیجایا گیا، وہاں بھی اور راستے میں بھی نہ صرف باتیں کرتے رہے، بلکہ اپنی کیفیت کو بہتر بتاتے رہے، انہیں گلوکوز کا ڈرپ لگایا گیا، اسی حالت میں اچانک انھوں نے ڈاکٹر صاحب سے سانس رکنے کی شکایت کی گویا اپنا ہی یہ شعر پڑھ رہے ہوں           ؎

یوں سلسلئہ تارِ نفس ٹوٹ رہاہے
محسوس یہ ہوتا ہے قفس ٹوٹ رہا ہے

ڈاکٹروں نے باربار سانس دلانے کی تدبیریں کیں، آکسیجن تو پہلے ہی لگی ہوئی تھی، مکر کوئی کوشش کامیاب نہ ہوسکی وہ عالم بالا کا سفر شروع کرچکے تھے، آخری بار انہوں نے بجلی کی سی پھرتی سے دو کروٹیں لیں اور اس تماشاگاہ کی سرحد پار کرگئے۔ اناللہ واناالیہ راجعون

بجلی تڑپ کے قصہء غم ہی چکا گئی
الجھا ہوا میں خاروخسِ آشیاں میں تھا

ڈاکٹر وں نے بڑی محنت سے قلب کی مالش کرکے اسے حرکت میں لانے کی کوشش کی مگر ان کے چہرے پر چھایا ہوا ابدی سکون یہ کہہ رہاتھا کہ؎
اب کیا ستائیں گی ہمیں دوراں کی گردشیں         ؎

ہم اب حدود سود و زیاں سے نکل گئے

بھائی جان ۲۲ ذی الحجہ ۱۳۴۴ھ کو دیوبند میں پیدا ہوئے تھے، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمتہ اللہ علیہ نے ان کانام ’’محمد زکی‘‘ تجویز فرمایا تھا اور تاریخ نام ’’سعیداختر‘‘ (۱۳۴۵) رکھا گیا تھا (جس میں آٹھ دن حذف کرنے پڑتے ہیں ) بعد میں جب انہوں نے شعرو سخن کا سلسلہ شروع کیا تو اپنا تخلص کیفی کرلیا تھا۔ ان کی ذہانت وذکادت اور حاضر جوابی بچپن ہی سے حیرت انگیز تھی۔ ہمارے جد امجد حضرت مولانا محمد یاسین صاحب رحمتہ اللہ علیہ ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت والد صاحب مد ظلہم اور ہمارے دادا’’رحمتہ اللہ علیہ‘‘ کا دہلی جانا ہوا‘ بھائی جان اس وقت بہت چھوٹے تھے، والد
؎۱ یہ تمام شعار بھائی جان ہی کے ہیں اور غور کرنے سے آخری شعر میں عجیب وغریب لطیفہ یہ نظر آیا کہ اگر اس شعر کو اس طرح پڑھا جائے کہ          ؎

اب کیا سنائیں گی تمیں دوراں کی گردشیں
تم تو حدود نفع وزیاں سے نکل گئے

تو پہلا مصرعہ ان کی عیسوی تاریخ وفات ۱۹۷۵ء بن جاتا ہے اور دوسرا مصرعہ (آٹھ دن کے فرق سے ) ان کی ہجری تاریخ پیدائش (یعنی ۱۳۴۵ھ) رحمہ اللہ تعالیٰ رحمتہََ واسعۃََ ۔
صاحب انہیں ساتھ لے گئے۔ فتح پوری کی مسجد میں کسی نماز کے لئے جانا ہوا، وہاں سے واپسی میں بھائی جان نے حضرت والد صاحب مدظلہم کے جوتے اٹھالئے، مگر دادا مرحوم کے جوتے نہیں اٹھائے، دادا مرحوم نے ازراہِ تفنّن پوچھا، ’’کیوں بھئی یہ کیا ؟ تم نے میرے جوے کیوں نہیں اٹھائے؟ بھائی جان نے حضرت والد صاحب مد ظلہم کے طرف اشارہ کرتے ہوئے برجستہ جواب دیا’’آپ کے جوتے یہ اٹھائیں گے۔‘‘
ہم بھائیوں میں یہ سعادت صرف بھائی جان ہی کے حصے میں آئی کہ انہوں نے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ کی خدمت وصحبت بلکہ بیعت کا شرف بھی حاصل کیا، حضرت والد صاحب مد ظلہم انہیں ہر سال تھانہ بھون ساتھ لیجاتے تھے، اور حضرت تھانوی رحمتہ اللہ علیہ ان سے بہت محبت فرماتے تھے، بارہا حضرت نے انہیں سرکی مالش کرنے کا موقع دیا۔ حضرتؒ پان رکھنے کے عادی نہیں تھے، لیکن کھانے کے بعد بغیر کتھے چونے کا سادہ پتہ کبھی کبھی تناول فرمالیا کرتے تھے۔ بھائی جان اکثر ان کو بر وقت پان پیش کردیتے تھے، اس لئے حضرت نے ازراہِ مزاح ان کا نام ’’پانی‘‘ رکھا ہوا تھا۔ جب پان کی ضرورت ہوتی اور بھائی جان پاس نہ ہوتے تو فرماتے، ’’وہ ہمارا پانی کہاں گیا؟‘‘ ایک بہت بڑی سعادت انہیں یہ حاصل ہوئی کہ ایک روز انہوں نے حضرت سے درخواست کی کہ ’’مجھے پند نامہ عطار پڑھا دیجئے۔ ’’حضرت رحمتہ اللہ علیہ کے پاس اتنا وقت کہ تھا کہ وہ کسی بچے کو پند نامہ پڑھائیں لیکن بھائی جان پر غیر معمولی شفقت و محبت کے پیش نظر آپ نے اس معصومانہ درخواست کو ٹھکرانا پسند نہیں فرمایا اور جواب دیا کہ ’’اور تو میرے پاس کوئی وقت نہیں ہے لیکن عصر کے بعد میںہوا خوری کے لئے جاتا ہوں، اسوقت کتاب لیکر میرے ساتھ چلاکرد میں اس فرصت میں تمہیں پند نامہ پڑھادونگا۔‘‘
چنانچہ عصر کے بعد بھائی جان کتاب لیکر پہنچ گئے اور درس شروع ہوگیا۔ اس وقت حضرت کے اکا بر خلفاء بھی موجود تھے،انہیں اطلاع ہوئی تو انہیں بڑا رشک آیا۔ اور انہوں نے بھی اس درس میں شامل ہونے کی اجازت چاہی۔ حضرتؒ نے اجازت دیدی اس کے بعد اس پر کیف درس میں حضرت والد صاحب مدظلہم، حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحبؒ، حضرت مولاناخیر محمد صاحبؒ اور حضرت ڈاکٹر عبدالحیّ صاحب مدظلہم بھی شامل ہوگئے اور یہ درس رمضان بھر میں جاری رہا۔ حضرت مفتی محمد حسن صاحب رحمتہ اللہ علیہ بھائی جان سے اکثر اس واقعہ کا ذکر فرمایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ تم تو ہمارے سبق ہو اور تمہارے طفیل ہمیں حضرتؒ سے پند نامہ پڑھنے کی سعادت ملی ہے‘‘۔
بھائی جان نے جب بچپن میں لکھنا سیکھا تو حضرت والد صاحب مدظلہم نے ان سے سب سے پہلا خط حضرت حکیم الامت رحمتہ اللہ علیہ کے نام لکھوایا۔ اس خط کا جو جواب حضرتؒ نے مرحمت فرمایا وہ ایک مستقل سبق بھی ہے اور بھائی جان کے لئے ایک عظیم سرمایہ سعادت بھی۔ حضرتؒ نے فرمایاکہ ’’برخوردار سلمہ السلام علیکم مع الدعا، تمہارے حروف دیکھ کر دل خوش ہوا۔ تمہاری علمی و عملی ترقی کی دعا کرتا ہوں۔ خط ذرا اور صاف کر لو، اس سے مکتوب الیہ کو بھی سہولت وراحت ہوتی ہے اس نیت سے ثواب بھی ملتا ہے۔ دیکھو! میں تم کو بچپن سے صوفی بنارہا ہوں، درد درکایہ تعویز سر میں باندھ لو، سب گھروالوں کو سلام ودعا۔ اشرف علی۔
عام لوگ سوچیں گے کہ خط صاف کرنے کا تصوّف سے کیا واسطہ؟ لیکن یہ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمتہ اللہ علیہ کی خصوصیت تھی کہ انہوں نے شریعت و طریقت کے اہم ترین تقاضوں یعنی آداب معاشرت، اخلاق اور صفائی معاملات کی طرف اپنے متعلقین کو اس وقت بطور خاص متوجہ فرمایا جب دین دکے ان شعبوں کو دین سے خارج سمجھ لیا گیاتھا، اور ادو ظائف یا نوافل میں سستی پر حضرتؒ نے کبھی عتاب نہیں فرمایا، لیکن اگر کوئی شخص آداب معاشرت یا معاملات وغیرہ میں کوتاہی یا ایسا کام کرتا جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچے تو اس پر سخت گرفت فرماتے تھے۔
حضرتؒ کی اسی تعلیم وتربیت کا اثر تھا کہ بھائی جان ہمیشہ اپنی نقل و حرکت میں اس بات کا خاص اہتمام کرتے تھے کہ اس سے کسی دوسرے کوکوئی تکلیف نہ پہنچنے۔
حضرت حکیم الامتؒ سے بھائی جان کے بیعت ہونے کا واقعہ بھی عجیب ہے۔ بھائی جان اس وقت تک نابالغ تھے، حضرتؒ کی شفقتوں اور عنایتوں کو دیکھتے ہوئے انہوں نے ایک دن خود ہی حضرتؒ سے بیعت کی درخواست کی۔ حضرت عموماََ بلوغ سے پہلے بیعت نہیں فرماتے تھے اس لئے ازراہ خوش طبعی فرمایا کہ بیعت خالی ہاتھ تھوڑے ہی ہوتے ہیں، امرود لے کر آئو تو بیعت کریں۔ وہ موسم ایسا تھا کہ بازار میں امرود نہیں آرہے تھے، اس لئے حضرتؒ نے یہ بات انہیں ٹالنے کے لئے فرمائی تھی اور خیال یہ تھا کہ اس موسم میں وہ امرود نہیں لاسکیں گے۔ لیکن بھائی جان نہ جانے کہاں سے تلاش کرکے امرود لے آئے؟ حضرتؒ نے دیکھا تو بڑا تعجب ہوا اور چونکہ وعدہ فرما چکے تھے اس لئے بیعت کے لئے راضی ہوگئے۔ لیکن حضرتؒ کی برابر شرعی احکام کی رعایت کون کرے گا؟ بھائی جان اس وقت نا بالغ تھے اور نابالغ سے ہدیہ قبول کرنا والدین کی اجازت کے بغیر شرعََا جائز نہیں تھا، اس لئے بھائی جان کو واپس بھیجا کہ جاکر اپنے والدین سے پوچھ کر آئو بھائی جان اجازت لے آئے، تو اس کے بعد بیعت فرمایا۔
اس واقعہ کے بعد ۷ ربیع الثانی ۱۳۵۶ھ کو حضرت والد صاحب مد ظلہم نے حضرت حکیم الامت کے نام ایک خط تحریر فرمایا جس میں لکھا کہ۔
’’محمد زکی سلمہ کے لئے الحمداللہ مرید ہونے کی کھلی ہوئی برکت ظاہر ہوئی کہ نماز کا بہت ہی شوق ہوگیا عشاء کی نماز کے وقت پہلے سو جاتا تھا اب بیٹھا ہوا انتظار کرتا رہتا ہے۔‘‘
حضرت حکیم الامتؒ نے اس کے جواب میں تحریر فرمایا :
’’ماشااللہ ! دعا کیجئے مجھکو بھی اس بے گناہ بچے کی برکت نصیب ہو اور ہمّت عمل اور استقامت واخلاص عطاہو۔‘‘
بھائی جان کے بچپن کے بہت سے معاملات حضرت حکیم الامتؒ ہی کے مشوروں سے انجام پائے۔ ۱۰ رجب ۵۵ء کے مکتوب میں حضرت والد صاحب مد ظلہم نے حضرت تھانویؒ کو لکھا:
’’محمد زکی سلمہ سال بھر سے زائد ہوا کہ اس کو حفظ قرآن مجید شروع کرادیا تھا مگر کچھ عرصہ چھ ماہ سے وہ بیمار چلا جاتا ہے۔۔۔۔اب بعض اقرباء کا مشورہ یہ ہے کہ حفظ قرآن کی محنت یہ برداشت نہیں کرسکتا۔۔۔سخت تردو میںہوں، کیا کروں۔‘‘
حضرتؒ نے جواب دیا:
’’اگر زکی میرا بچہ ہوتا تو حفظ چھڑا دیتا، پھر جب کسی موقع پر قوت ہوتی(گو بعد فراغ فرسیاست سہی) پھر تکمیل کرادیتا۔ اس وقت بہت سہولت ہوجاتی ہے‘‘۔
اس طرح بھائی جان اٹھارہ سال کی عمر تک حضرت حکیم الامت رحمتہ اللہ علیہ کی ہدایات اور عنایات سے فیضیاب ہوتے رہے۔ اسی دوران حضرت والد صاحب مدظلہم کو ایک مرتبہ ایک خط حضرت تھانویؒ کے پاس تھا نہ بھون بھیجنا تھا۔ والد صاحب چاہتے تھے۔ کہ یہ خط آج ہی حضرتؒ کو پہنچ جائے۔ اسھر سہار نپور سے تھانہ بھون جانے والی گاڑی میں سفر کا کوئی امکان نہیں رہاتھا۔ بھائی جان نے یہ خدمت اپنے ذمہ لی، دیوبند سے مظفر نگر اور مظفر نگر سے شاملی پہنچے، خیال تھا کہ شاملی سے تھانہ بھون جانے والی گاڑی مل جائے گی، مگر شاملی پہنچے توگاڑی نکل چکی تھی۔بھائی جان نے وہاں سے ایک سائیکل کرائے پر لی اور شاملی سے تھانہ بھون تک کا طویل راستہ اسی سائیکل پر طے کرکے مکتوب بروقت حضرتؒ کو پہنچادیا۔
حضرت تھانویؒ کے علاوہ دیوبند میں حضرت میاں صاحبؒ (حضرت مولانا سید اصغر حسین صاحبؒ ) بھی بھائی جان سے نہایت شفقت فرماتے تھے، اور بھائی جان کو انکی خدمت وصحبت کا بھی خوب خوب موقع ملا۔ انہیں بچپن ہی سے بزرگوں سے فیضیاب ہونے اور ان کی خدمت وصحبت سے فائدہ اٹھانے کا خاص ذوق تھا اور اس لحاظ سے انہیں یہ شعر کہنے کا واقعی حق پہنچتا تھا کہ      ؎

اس وقت سے میں تیرا پرستار حسن ہوں
دل کو مرے شعور محبت بھی جب نہ تھا

اور بزرگوں کی اسی صحبت کا اثر تھا کہ ان پر دین اور فہم دین کا ایک ایسا پختہ رنگ چڑھا ہوا محسوس ہوتا تھا جو کسی ماحول میں کبھی مغلوب یا مر عوب نہیں ہوا، وہ جس ماحول میں رہے ہمیشہ اچھا رنگ دوسروں پر چھوڑ کر آئے         ؎

رنگیں ہے ہم سے قصہ مہرو دفا کہ ہم
اپنی وفا کا رنگ ترے رخ پر مل گئے
(بھائی جان)

انہوں نے ابتدائی تعلیم دارالعلوم دیوبند میں شروع کی، اور فارسی وریاضی کی تکمیل کے بعد درس نظامی شروع کیا۔ مگر بعض حالات کی بناپر چوتھے سال کے بعد درس نظامی کی تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ اس کے با وجود بزرگوں کی صحبت اور وسیع مطالعہ نے ان کو علم و عمل کی وہ دولت نصیب فرمائی جو بسا اوقات اچھے اچھے فضلاء میں نظر نہیں آئی۔ مطالعہ کی وسعت کا عالم یہ تھا کہ دین و مذہب، شعر وادب اور تاریخ وسیاست کا کوئی موضوع ایسا نہ تھا جو انکے مطالعہ کی حدود سے خارج ہو۔ خاص طور سے بزرگان دیوبند کی کوئی کتاب کیا، چھوٹا سار سالہ بھی ایسا نہ ہوگا جو ان کی نظر سے نہ گزرا ہو۔ کتاب سے انہیں عشق تھا اور نئی کتاب کو دیکھ کر اسے پڑھے بغیر چھوڑ دینا ان کے لئے ممکن ہی نہ تھا۔ خاص طور سے تاریخ اور تصوف پر ان کا مطالعہ قابل رشک تھا۔ وہ بڑے بڑے اہل علم و فکر کی مجلس میں بیٹھتے اور محفل پر چھائے رہتے۔ بر صغیر کی دینی شخصیات اور ان کے ضروری حالات انہیں ازبر تھے، حضرت تھانویؒ کے مواعظ وملفوظات اور حضرت والد صاحب مد ظلہم کی تصانیف کا حتی الامکان حرف حرف پڑھنے کی کوشش کرتے تھے، ان کا حافظ لطائف وظرائف اور عجائب ونوادر کا خزانہ تھا اور تقریبََا ہر ملاقات میں ان کی زبان سے کچھ نئے واقعات یا علمی و ادبی فوائد سننے میں آتے تھے۔
شعر سخن کا بچپن ہی سے شوق تھا، ۱۹۴۵ء سے باقاعدہ شعر کہنے لگے تھے اور نومشقی کے اس دور میں بھی اس انداز کے شعر کہتے تھے         ؎

تیرے نثار، مشقِ ستم میں کمی نہ کر
اتنے تو داغ ہوں کہ گلستان کہیں جسے
آلامِ روزگار سے اکْتا گیا ہے دل
وہ درد دے کہ درد کا درماں کہیں جسے
ہم ہیں قتیل اِک بْتِ نازک خیال کے
آلامِ روزگار ذرا دیکھ بھال کے !

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظامِ عالم ہے یونہی قائم یہی ادائے فلک رہی ہے
جہاں پہ گل ہیں فنا پہ مائل، وہیں کلی بھی چٹک رہی ہے

اسی زمانے میں ایک غزل انہوں نے خواب میں کہی تھی جسکا ایک شعر سن لیجئے        ؎

اف تصور کی تیرے رعنائی
تجھ سے بھی کچھ سوا حسیں نکلا

جگر مراد آباد ی مرحوم سے بھائی جان کے بڑے اچھے تعلقات تھے، انہیں جب پہلی بار بھائی جان نے اپنی غزل کا یہ مطلع سنایا کہ          ؎

ہم ہیں قتیل اِک بْتِ نازک خیال کے
آلامِ روزگار ذرا دیکھ بھال کے

توجگر مرحوم چونک اٹھے، بڑی دادی، اور ساتھ ہی مشورہ دیا کہ مشقِ سخن ضرور جاری رکھیں اس کے بعد بھائی جان کے ذوقِ شعر گوئی نے بڑی ترقی کی، ملک کے تمام نامور شعراء ان کے غزلوں کے نہایت مداع تھے۔ وہ بلاشبہ اپنے فکر وفن کے لحاظ سے دور حاضر کے گنے چنے شعراء میں سے تھے۔ انہوں نے اردو شاعری کو بہت کچھ دیااور اس میدان میں پامال راہوں سے ہٹ کر نئے نئے راستے تلاش کئے۔ اس کے باوجود وہ عوامی مشاعروں میں شریک ہونے سے کتراتے تھے۔ ملک سے مشہور شعراء میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جس سے ان کے خوشگوار مراسم نہ ہوں اور جو ان کا قدرداں نہ ہو، لیکن دوستوں کے اصرار کے باوجود انہوں نے شاعروں میں بہت کم شرکت کی۔ البتہ شعرو سخن کی مخصوص نشستوں میں وہ بکثرت شریک ہوتے۔ بار ہا ہمیں بھی ساتھ لئے گئے لیکن ان مجالس میں نماز باجماعت کا ہمیشہ اہتمام کرتے۔ جمی ہوئی محفل کے عین درمیان جب نماز کا وقت آجاتا تو وہ اپنے چند ساتھیوں کو لیکر نماز ادا کرتے، اور جہاں منتظمین کی طرف سے اس میں کوتا ہی محسوس ہوتی وہاں جانا چھوڑ دیتے تھے۔ رفتہ رفتہ انہوں نے شعراء میں ایک ایسا حلقہ بنالیا تھا جو نظری اعتبار سے پکا مسلمان تھا اور شاعری میں مقصدیت کو پیش نظر رکھتا تھا۔
انہوں نے فارسی اور اردو شاعری کا انتہائی وسیع و عمیق مطالعہ کیا تھا، اوراس معاملے میں بھی وسعت مطالعہ میں ان کی ہمسری بہت کم لوگ کرتے تھے۔ فارسی باور اردو کے بلا مبالغہ ہزار با اشعار انہیں یاد تھے اور جب سنانے پر آتے تو گھنٹوں سناتے رہتے تھے۔ فارسی میں حافظ اور سعدی کے علاوہ نظیری اور عربی کے بڑے مداح تھے۔ اردو کے قدیم شعراء میں داغ، میر اور غالب سے اور زمائنہ ما بعد کے شعراء میں فانی، حسرت، اصغر اور جگر سے بہت متاثر تھے۔ اقبال کا کماحقہ، مطالعہ انہوں نے کافی بعد میں کیا۔ (اور شاید میرے اصرار کو بھی اس میںدخل ہو) چنانچہ آخری دنوں میں ان کی بہت تعریف کرنے لگے تھے۔
ان کی شاعری کا اصل میدان غزل تھا لیکن متعدد نظمیں بھی انہوں نے بڑے معر کے کی کہی ہیں، جن میں سے ’’دارالعلوم کراچی‘‘ پر ان کی نظم اس لحاظ سے ایک شاہکار ہے کہ اس قسم کی نظموں میں عموماََ شاعری کی لطافت باقی نہیں رہا کرتی لیکن یہ نظم شاعری کے لحاظ سے بھی بے نظیر ہے۔ اس کے علاوہ ۶۵ء اور ۷۰ء کے جہاد پاکستان کے موقع پر انہوں نے وسیوں دلولہ انگیز نظمیں کہی ہیں جن میں بعض البلاغ میں شائع بھی ہوچکی ہیں۔ ان کی تمنا تھی کہ اب ان کی شاعری نعت کے لئے مخصوص ہوجائے، انہوں نے کہا بھی تھا کہ       ؎

یہ ربِ محمد سے دعا ہے مری کیفی
ہو نعتِ محمد مرے اشعار کی دنیا

چنانچہ تقریباََ ڈیڑھ سال سے انہوں نے غزل کہنی چھوڑ دی تھی اور مسلسل نعتیں کہہ رہے تھے۔ ان میں سے متعدد نعتیں البلاغ میں شائع بھی ہو چکی ہیں۔ کچھ عرصہ سے انہوں نے روز نامہ وفاق لاہور میں حالات حاضرہ پر روزانہ ایک قطعہ لکھنا شروع کیا تھا جو اجتماعی، سیاسی اور معاشرتی مسائل میں ان کی گہری سوچ کا مظہرہوتا تھا۔
میں نے بارہا ان سے مجموعہ کلام مرتب کرکے شائع کرنے کی فرمائش کی مگر وہ ہر مرتبہ ٹال گئے، البتہ ان کی بیاض تقریبََا مرتب شکل میں محفوظ ہے جس کا عنوان انہوں نے خود ’’کیفیات‘‘ تجویز کررکھا ہے۔ اللہ نے توفیق دی تو انشاء اللہ اسے مرتب کرکے شائع کرانے کا ارادہ ہے۔
جیسا کہ پہلے لکھ چکا ہوں ان کا تجارتی کتب خانہ ’’ادارئہ اسلامیات‘‘ کتابوں کی دکان نہیں علم وادب کا ایک مرکز اور علم دفن کا ایک گہوار ہ تھا۔ ملک بھر کے علماء فضلاء، دانشور، ادباء، شعراء اور صحافی وہاں نظر آتے، باغ وبہار مجلسیں جمتیں۔۔۔۔۔۔ اور علم وادط کے پروانوں کا ایک میلہ سا لگا رہتا۔ بھائی جان لاہور بلکہ پنجاب میں حضرت والد صاحب مد ظلہم کے نمائندے کی حیثیت اختیار کرگئے تھے۔ ـحضرت والد صاحب مدظلہم کو ان اطراف میں کوئی کام پیش آتا تو انہیں سے فرماتے اور وہ انتہائی خوش اسلوبی سے انجام دیتے تھے۔ والد صاحب کے احباب اور متعلقین لاہور جاتے تو بھائی جان کے یہاں ٹھہرتے اور لوگوں کو کسی مسئلہ میں والد صاحب کی رائے معلوم کرنی ہوتی تو ’’ادارہ اسلامیات‘‘ کا رخ کرتے تھے۔ حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحبؒ اور حضرت مولانا محمد ادریس صاحب کا ندھلویؒ بھائی جان سے انتہائی شفقت و محبت فرماتے اور مئو خرالذ کر ایک زمانے میں دیر تک ارادہ اسلامیات میں بیٹھے رہتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں ذکاوت وذہانت، فہم وفراست، معاملات کی سمجھ بوجھ اور اس کے ساتھ ملکی وملّی مسائل کی خاص لگن عطافرمائی تھی اور اسی نتیجہ تھا ان کے یہاں دینی اور سیاسی رہنمائوں کے بکثرت اجتماعات ہوتے رہتے، اور خاص خاص اجتماعی تحریکات کے موقع پر نان کا مکان عوام وخواص کا مرجع بن جاتا تھا۔ ملک وملت کے مخلص رہنمائوں کو اپنے یہاں ٹھہراکر اور ان کی خدمت وضیافت کرکے انہیں نہایت مسرت ہوتی اور وہ کہا کرتے تھے کہ ہمیں ملک وملّت کے مسائل میں بھر پور عملی حصہ لینے کا موقع تو بہت کم ملتاہے اس لئے یہ خواہش رہتی ہے کہ ’’جو حضرات ملّت کی مخلصانہ خدمات انجام دے رہے ہیں ان کی کچھ خدمت کا موقع مل جائے ‘‘ اور پھر ظاہری خدمت کے علاوہ ان کے مشوروں میں پوری طرح شریک رہتے اور بہت سے مواقع پر اپنی عملی مداخلت سے مختلف الجھنیں دور کردیتے تھے۔
مختلف زمانوں میں کئی وزراء اور بہت سے اونچے سرکاری عہدہ داروں سے ان کے قریبی تعلقات رہے لیکن انہوںنے کبھی اپنی ذات کے لیے کوئی مادی منفعت حاصل نہیں کی، انہیں اس قسم کی موقع پرستی سے گھن آتا تھا اور اپنی خود داری کی بدولت انہوں نے کبھی ایسے مواقع سے فائدہ نہیں اٹھایا، جب کسی ناجائز کام کے ارتکاب کے بغیر انہیں کوئی فائدہ پہنچ سکتا تھا۔ بعض اوقات مختلف مسائل میں ان کی ذاتی رائے حکومت کے موافق ہوتی لیکن اس کا اظہار صرف اپوزیشن کے لوگوں کے سامنے کرتے تھے اور ایسے لوگ تونہ جانے کتنے ہون گے جنہیں ان کی ذات سے فائدہ پہنچا، مگر انہیں پتہ بھی نہ چل سکا کہ یہ فائدہ پہنچانے والا در اصل کون تھا؟
قدرت نے انہیں انتہائی فیاض طبیعت دی تھی، ان کی مہماں نوازی خاندان بھر میں ضرب المثل تھی۔ ایسے دن ان کی زندگی میں شاید بہت کم ہوں گے جب ان کی دستر خوان پر صرف بچے بیٹھے ہوں یا ان کے گھر میں کوئی مہمان مقیم نہ ہو۔ اس کے علاوہ نہ جانے کتنے افراد تھے جنکا انہوں نے باقاعدہ وظیفہ مقرر کیا ہواتھا جن میں سے بعض کا علم گھر والوں کو بھی وفات کے بعد ہوا۔ ان پر مالی اعتبار سے انتہائی سخت اور کٹھن اوقات بھی گزرے ہیں اور بعض اوقات یہ سلسلہ کافی دنوں تک دراز رہاہے، لیکن ان کی فیاضی، دریا ولی اور مہمان نوازی میں کبھی فرق نہیں آیا۔ خرچ کے معاملہ میں نہایت کشادہ ست تھے اور یہ جملہ بکثرت کہا کرتے تھے کہ ’’خدا بے حساب دیتاہے، میں حساب کیوں رکھوں؟‘‘ عزیز واقارب کے حقوق کی ادائیگی اور معاملات کی صفائی کا خاص ذوق انہوں نے حضرت والد صاحب مد ظلہم سے حاصل کیا تھا۔ دور پرے کے رشتہ داروں کے دکھ درد میںبھی شریک رہتے اور ان کے کام آنے کی کوشش کرتے تھے۔ وہ سنایا کرتے تھے کہ حضرت والد صاحب مدظلہم نے ایک مرتبہ مجھے کوئی چیز بازار سے لانے کا حکم دیا، میں نے وہ چیز لاکر دیدی لیکن آٹھ آنے بچ گئے تھے وہ والد صاحب کو نہ دئیے، حضرت والد صاحب نے کچھ انتظار کیا، اس کے بعد بلا کر حساب لیا اور پوچھا کہ ’’باقی آٹھ آنے کہاں ہیں؟‘‘ میں نے وہ آٹھ آنے والد صاحب کی دیدئے انہوں نے پہلے وصول فرمالئے، اس کے بعد مجھے واپس کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’میرا مقصد یہ سمجھانا تھا کہ آئندہ حساب ہمیشہ صاف رکھنے کی عادت ڈالو، اب حساب صاف ہوگیا، یہ پیسے اب تمہارے ہیں ‘‘ بھائی جان فرماتے تھے کہ اس کے بعد سے یہ سبق ایسا ذہن نشین ہوگیا کی جب تک معاملہ صاف نہ ہو طبیعت بے چین رہتی ہے۔
بھائی جان کی خوش مذاقی، خندہ پیشانی اور حسن اخلاق کا عالم یہ تھا کہ جو شخص ان سے ملاگرویدہ ہوگیا۔ وہ بچوں میں بچے، جوانوں میں جوان اور بوڑھوں میں بوڑھے تھے۔ ہنسی مذاق سے لیکر فکر وتدبیر کی باوقار مجلسوں تک ہر قسم کے ماحول میں وہ اپنے آپ کو اسی طرح پیش کرتے جیسے اسی محفل کے آدمی ہیں، اور ہر محفل میں انکی شمولیت سے آب ورنگ پیدا ہوجاتا      ؎

ہم ہیں کیفی ایک ابر و بہار
جس طرف گزرے، گْہر برساگئے

وہ غم اور تشویش کے دشمن تھے، غمزدہ سے غمزدہ ماحول کو اپنی ظرافت اور خوش طبعی سے گل و گلزار بنا دیتے تھے اور کسی فکر و غم کی بات کو زیادہ دیر تک موضوع گفتگو نہ رہنے دیتے، سخت سے سخت حالات میں بھی وہ مسکراتے رہتے اور دوستوں کا غم و فکر بٹانے کی کوشش کرتے، باوقار انداز میں ہنسنا ہنسانا ان کی وہ خصوصیت تھی جو ان کے تمام متعلقین میں مشہور معروف تھی اور آہ! اب یہ محسوس ہوتا ہے جیسے یہ شعرانہوں نے اپنے ہی لئے کہا تھا کہ     ؎

فرصت خندہ بسی تھی کتنی
پھول ہنسنے کے سوا کیا کرتے

خوش طبعی و ظرافت اور بھی بہت لوگوں میں ہوتی ہے لیکن بعض اوقات یہ صفت دین سے غفلت پیدا کر دیتی ہے، خاص طور سے ہنسی مذاق کو محفلوں میں شرعی حدود کی رعایت و حفاظت عموماََ مشکل ہوتی ہے لیکن یہ بھائی جان پر اللہ تعالیٰ کا کرم تھا کہ ایسی بے تکلف مجلسوں میں بھی ان کے قلب کو دین سے غافل نہیں پایا۔ غلطیاں کس انسان سے نہیں ہوتیں؟ لیکن اپنی غلطیوں پر ندامت اور تنبہ کے بعد فورََا توبہ واستغفار کی طرف رجوع وہ خصلیت ہے جو گناہوں کو بھی باعث رحمت بنا دیتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ دولت نصیب فرمائی تھی۔ انہوں نے کتنا پیارا شعر کہا ہے اوریہ محض قال نہیں ان کا حال تھا ؎

عجب کیا؟ شان رحمت ڈھانپ لے میرے گناہوں کو
خطا کی ہے، مگر تیری عطا کو دیکھ کر کی ہے

بزرگوں کی صحبت کی برکت سے انہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک خاص تعلق نصیب ہوا تھا وہ دعا مانگتے تو اس طرح مانگتے تھے کہ ان پر رشک آتا تھا، اللہ تعالیٰ کی ذات پر اتنا بھروسہ اور ایسا توکّل کم لوگوں میں ہوتا ہے وہ معمولی غور وفکر اور مشورے کے بعد بڑے بڑے فیصلے کرلیتے اور اللہ پر بھروسہ کرتے، ایسے مواقع پر ’’اللہ مالک ہے ‘‘اور انشاء اللہ اسی میں خیر ہوگی‘‘ ان کا تکیہ کلام تھا۔ تلاوت قرآن کا انہیں خاص ذوق تھا، رمضان المبارک میں ایک دن میں دس دس پاروں کی تلاوت کرلیتے تھے۔ روزانہ تلاوت، اوعیہ ماثورہ اور بعض دوسرے وظائف و اور ادکے پابند تھے، شب و روز کے مختلف معمولات میں مسنون دعائیں ورد زبان تھیں اور اپنے بزرگوں اور عزیزوں کو روزانہ کچھ نہ کچھ ایصال ثواب کا معمول تھا۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں بڑا خوش نصیب بنایاتھا۔ ان کے والدین، مشائح اور عزیزان سے ہمیشہ نہ صرف خوش بلکہ ان کے مداح رہے۔ وہ بزرگوں کے لاڈلے تھے اور ان سے سدا دعائیں لیتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں موت بھی اتنی خوش نصیبی کی عطا کی کہ بایدوشاید۔ اپنی عمر کے ٹھیک بیچوں بیچ انہوں نے پہلا حج کیا اور عمر کے بالکل آخر میں دوسرے حج سے سرفراز ہوئے، انشاء اللہ گناہوں سے پاک صاف ہوکر لوٹے، عاشورہ کے دن اور جمعہ کی رات میں آخرت کا سفر شروع کیا جمعہ کے متصل بعد نماز جنازہ اداکی گئی، اور عصر کے بعد سپرد خاک کئے گئے۔
ان کی وفات پر بڑے بڑے علماء، اولیاء اور صلحاء کو اشک ریزپایا۔ حرمین شریفین میں ان کے لئے قرآن کریم ختم ہوئے اور بعض حضرات نے ان کی طرف سے عمرے اداکئے۔ دور دراز کے دینی مدارس میں ان کے لئے ازخود ختم قرآن اور ایصال ثواب کیا گیا۔ آج ہی دارالعلوم دیوبند سے مولانا معراج الحق صاحب (نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند) کا مکتوب گرامی موصول ہوا ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ وہاں بھی ان کے لئے ختم قرآن کیاگیاہے۔ صرف اہل دیوبند ہی نہیں، مختلف مکاتب فکر کے دینی رسائل و جرائد نے ان پر ادارئیے لکھے اور ان کے حسن عمل کی شہادت دی۔ حضرت تھانویؒ کے خلفاء میں سے ایک صاحب کشف بزرگ نے وفات سے اگلے روز انہیں بیداری کی حالت میں دیکھا کہ بڑے خوش و خرم ہیں اور اس مفہوم کی کوئی بات کہہ رہے ہیں کہ میں بڑے آرام سے ہوں، لوگ کیوں پریشان ہیں؟
دارفانی سے کوچ کرنے کے بعد ایک بہت بڑی خوش نصیبی صالح اولاد ہوتی ہے۔ اللہ تعا لیٰ نے انہیں اس جہت سے بھی خوش نصیب بنایا ہے۔ ماشاء اللہ ان کے تین لڑکے اور تین لڑکیاں ہیں اور سب بحمداللہ صوم وصلوٰۃ کے پابنداور دینی ماحول کے پروردہ ہیں۔ بڑے لڑکے عزیزم مولوی محمود اشرف سلمہ، حافظ، قاری اور جامعہ اشرفیہ سے فارغ التحصیل عالم ہیں دارالعلوم کراچی میں ایک سال فتوی کی تربیت حاصل کرچکے ہیں اور اب تقریبََا ڈیڑھ سال سے مدینہ طیبہ کے جامعہ اسلامیہ میں زیر تعلیم تھے وہیں انہیں اس حادثے کی اطلاع ہوئی اور سب سے پہلے اپنے والدین کی طرف سے عمرہ کرکے پاکستان آئے ہیں۔ دوسرے لڑکے مسعود اشرف سلمہ انٹر کام کرچکے ہیں ماشاء اللہ سعید نوجوان ہیں اور اپنے والد دماجد کے صحیح معنی میـں دوست وبازو رہے ہیں۔ تیسرے لڑکے سعود اشرف سلمہ، میڑک کرنے کے بعد پہلے سال میـں زیر تعلیم ہیں۔ اور زہانت وفطانت میں اپنے والد کی یادگار ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے والد کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس وقت اس جاں گداز حادثے کی اطلاع ملی ہے، اس وقت حضرت والد صاحب مد ظلہم کی ٹانگوں میں اسقدر کرب کی تکلیف تھی کہ عمر بھر ایسی تکلیف یاد نہیں ہے، کروٹ لینا تو بڑی بات ہے، پائوں کو ذرا سا سر کانا دوسرے کی مدد کے بغیر ناممکن تھا۔ ادھر والدہ محترمہ مد ظلہا سات سال سے صاحب فراش ہیں، اس لئے ان دونوں کے لاہور پہنچنے کا تو کوئی سوال ہی نہ تھا۔ میں اور بڑے بھائی جناب مولانا محمدرفیع صاحب بھی وہاں نہ پہنچ سکے اس طرح ہم ان کی نماز اور تجہیزو تکفین میں بھی شامل نہیں ہوسکے۔ ہم نے ابھی تک ان کی آخری آرام گاہ تک بھی نہیں دیکھی اور جب یہاں کوئی قبر نظر آتی ہے تو متممّ بن نویرہ کے وہ اشعار یاد آتے ہیں جو اس نے اپنے بھائی مالک کے مرثیہ میں کہے تھے اور حقیقت یہ ہے کہ ان کا صحیح مطلب بھی پہلی بار ہی سمجھ میں آیا ہے ؎
ایت

اس صدمے۔ اور عظیم صدمے۔ نے البتہ ایک تنبہ ضرور پیدا کیا ہے اور وہ یہ کہ اس جیسے المناک موقع پر رنج وغم تو فطری چیز ہے، لیکن صدمے کی یہ شدت جو نا قابل برداشت ہونے لگتی ہے، ہماری ایک بہت بڑی بھول کا نتیجہ ہے۔ بھائی جان ہی نے کہا تھا کہ     ؎

یہ دنیا کھیل ہے اور کھیل بھی ہے چند لمحوں کا
نظر جو کچھ بھی آتا ہے اسے خوابِ گراں سمجھو

ہم اس سبق کو عقلی اور نظری طور پر تو مانتے رہے لیکن اس حقیقت کا ہر وقت استحضار ہم سے نہ ہوسکا۔ عملی طور پر یہاں رہتے ہوئے ہم بار بار یہ بات بھول جاتے ہیں کہ یہ ایک مسافر خانہ ہے منزل نہیں، یہاں جو ملتا ہے بچھڑنے کے لئے ملتا ہے۔ نہ یہاں کی ملاقات دائمی ہے نہ جدائی دائمی۔ نہ یہاں کی کوئی مسرت پائیدار ہے، نہ غم مستقبل۔ ناقابل تلانی صدمہ اور صبر نا آشنا اضطراب اس کو ہو جو اس دنیا ہی کو اپنا سب کچھ سمجھتاہو، جسے مرنے کے بعد کسی دوسری زندگی کا یقین نہ ہو، جس نے دنیوی زندگی کے بلبلوںپر امیدوں کے محل بنا رکھے ہوں۔ لیکن جس شخص کو اللہ کی ذات وصفات اس کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ پر ایمان ہو، جو آخرت کی ابدی زندگی پر یقین رکھتا ہو، جس کو اس بے ثبات دنیا کی حقیقت مستحضر ہو اس کے لئے دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا صدمہ ناقابل برداشت نہیں ہوسکتا۔ یہ بات قطعََا نا ممکن ہے کہ دو محبت کرنے والے ہمیشہ ایک ساتھ ہی دنیا سے رخصت ہوا کریں، ان میں سے کسی نہ کسی کو دوسرے کی جدائی کا صدمہ برداشت کرناہی پڑئیگا، لیکن اگر اللہ کے ساتھ تعلق مضبوط ہے، اگر آخرت پر ایمان مستحکم ہے اوراس کے بعد ایک ایسی ابدی زندگی آنے والی ہے جسکو فنا اور زوال نہیں۔ اصل ملاقات وہاں کی ملاقات ہے جس کے بعد کبھی جدائی نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا ان صدمات میں محو ہوجانے اور ہمہ وقت یادوں میں کھوئے رہنے سے بہتر یہ ہے کہ اس ملاقات کی تیاری کرو، اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق مضبوط کر لو تو تمام دنیوی تعلقات اعتدال پر بھی آجائیں، ان کی حقیقت بھی مستحضر ہوجائے، اور آخرت میں ان کے بقائے دوام کی ضمانت بھی مل جائے، اس دنیا میں اللہ سے لَو لگانے کے سوا سکون وعافیت کا کوئی راستہ نہیں۔ اور بھائی جان ہی کے بقول    ؎

وہ آشنا اگر ہے تو عالَم ہے آشنا
وہ آشنا نہیں، تو کوئی آشنا نہیں

میرے جذبات وواردات کی یہ بے ربط سی کہانی میرے انداز سے زیادہ طویل ہو گئی، اور اب اسے مختصر کرنے کی ازسر نو محنت اٹھانے کا دماغ نہیں۔ لہٰذا قارئین سے معذرت خواہ ہوں۔ لیکن آخر میں حضرت والد صاحب مد ظلہم کی ایک بات آپ تک پہنچا دینا اپنا فرض سمجھتا ہوں جسے اس پورے مضمون کا حاصل سمجھنا چاہئے اور جو آب زر سے لکھنا کیا؟ لوح دل پر نقش کرنے اور رکھنے کے لائق ہے۔
ظاہر ہے کہ بیٹے اور ایسے بیٹے کے حادثہ وفات کا صدمہ باپ سے زیادہ کس کو ہوگا؟ اور صدمہ بھی ایسے ضعف اور ایسی کرب انگیز علالت کے عالم میں کہ کروٹ لینا ایک پہاڑ تھا۔ لیکن شرعی حدود میں اظہار رنج وغم کے باوجود جس صبر وہمت سے انہوں نے یہ جانکاہ حادثہ برداشت کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ جسمانی اور روحانی اذیت کا یہ اجتماع عمر بھر کبھی پیش نہیں آیا تھا، لیکن اس پیکر تسلیم ورضانے اس عالم میں بھی ہم لوگوں کو جو سبق دیا ہے وہ بے مثال ہے۔ وہ اظہار غم والم سے زیادہ ہم سب کی تسلی کے لئے ایک عجیب و غریب مضمون بیان فرماتے رہے جو آخر میں انہوں نے مرحوم کے بچوں کے نام ایک مکتوب میں قلمبند بھی کرادیا۔ یہ مکتوب چونکہ بڑی قیمتی نصائح پر مشتمل ہے اس لئے بجنسہ نقل کر رہا ہوں، اللہ تعا لیٰ ہم سب کو ان حقائق کے ہمہ وقت استحضار کی توفیق عطافرمائیں آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور نظر، لخت جگر مولوی محمود، مسعود، سعود، حمیرا، زہرا، سمیرااور بہو صالحہ اللہ تعالیٰ تم سب کو بعافیت رکھے۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،

داغ ہی داغ نظر آتے ہیں
کس طرح قلب و جگر کو دیکھوں
نہ وہ محفل ہے نہ وہ پروانے
خاک اے شمع سحر کو دیکھوں

میرے عزیز ازجان بچو! آج حادثہ جانکاہ کو انیسواں دن ہے۔ ان ایام میں تم سب سے ملنے اور باتیں کرنے خط لکھنے ک کتنی تمنائیں دل میں گزرتی ہوں گی، اس کا اندازہ بھی مشکل ہے۔ مگر اس حادثہ اور اس سے پہلے پیش آنے والی بیماری نے کہ عمر بھر میں مجھے کبھی ایسی شدید بیماری پیش نہیں آئی، اس مجموعہ نے ایسا نیم جان مرْدہ کردیا کہ آج سے پہلے چند سطریں لکھنے کی بھی ہمت نہ ہوسکی۔ آج بمشکل قلم اٹھایا تو چل نہ سکا۔ اب بر خوردار مولوی امین اشرف کے قلم سے لکھوا رہا ہوں!
میرے عزیز بچو! یہ واقعہ جیسا کرب انگیز، حسرت ناک وجانکاہ ہے، اس کا اثر مرحوم ہوجانے والے نوجوان صالح کے ماں باپ، بچوں اور بیوی اور بھائی بہنوں پر درجہ بدرجہ جو کچھ ہونا تھا وہ ایک طبعی اور فطری امر ہے اور جب تک حدود سے تجا وزنہ ہو شرعََا مذموم بھی نہیں۔ لیکن یہ سب کرب انگیزی اور غم و صدمہ کا یک طرف اس بنیاد پر ہے کہ ہم واقعات کو الٹا پڑھتے ہیں اور یہاں سے شروع کرتے ہیںکہ ایک پچاس سالہ نوجوان جس کے ساتھ ایک ایک عزیز کی ہزاروں امیدیں وابستہ تھیں یکایک ہم سے رخصت ہوگیا۔ اس کا اثر ظاہر ہے کہ بے چینی اور شدید ترین صدمہ ہی ہوسکتا ہے۔
آئو ! اب واقعات کو ذراسیدھا پڑھو کہ صبرآئے، بلکہ شکر کا موقعہ ملے۔
ذرا سمجھو کہ ہر مومن کا عقیدہ ہے کہ ہر پیدا ہونے والے انسان کی عمر کی گھڑیاں اور سانس اس کے پیدا ہونے سے پہلے ہی اللہ کے دفتر میں لکھے ہوتے ہیں۔ جانے والا لخت جگرپچاس سال سترہ دن کی زندگی لے کر اس دنیا میں آیا تھا۔ زمین وآسماں اپنی جگہ سے ٹل سکتے تھے۔ قضاء وقدر کے اس فیصلے میں ایک منٹ، ایک سیکنڈ فرق نہیں آسکتا تھا۔ اس لئے یہ تو ہم سب کا ایمان ہونا چاہئے کہ یہ حادثہ یوں ہی ہونا تھا کہ جس طرح ہوا، لیکن اب ذرایہ سوچو کہ اس حادثہ جانکاہ کو ہم سب پر آسان کرنے کے لئے حق تعالیٰ جل شانہ نے کیسے کیسے انعامات فرمائے۔
سب سے پہلی بات تو یہ کہ الحمداللہ اپنی تمام ہی اولاد کو وہ اس حالت پر چھوڑ گئے جب کہ وہ کسی کے محتاج نہ تھے۔ وہ سب اپنے قدموں پر کھڑے ہونے کے قابل ہوچکے تھے۔ ذرا سوچو اگر معاملہ اس کے خلاف ہوتا تو یہی ایک مصیبت اور دس گئی بن جاتی۔
دوسری بات یہ دیکھو کہ مرحوم کو جس قدر گہرا تعلق اپنی بیوی اور اولاد سے تھا، ماں باپ اور بہن بھائیوں سے بھی اس سے کچھ کم نہ تھا۔ لاہور رہنے کی بنا پر ہم سے جدائی کے دو طرفہ تاثرات قدم قدم پر ظاہر ہوتے تھے، لیکن وہاں کے مشاغل اور ضروریات کی بنا پر مشکل سے سال بھر میںایک ہی مرتبہ وہ کراچی آسکتے تھے۔ اس سال جبکہ اللہ جل شانہ کو اس دنیا سے ان کی جدائی ہمیشہ کے لئے منظور ہوئی تو غیر شعوری طور پر چار مرتبہ ایسے حالات پیدا فرمادئیے کہ ان کو بار بار کراچی آنا پڑا اور ایک مرتبہ سب بچوں کے ساتھ آنے کا موقع بھی مل گیا۔ یہ کس کو معلوم تھا کہ یہ بار بار کی پیش آنے والی ملاقات اللہ تعالیٰ کے انعامات اور آئندہ پیش آنے والے صدمہ پر تسلّی کے سامان تھے۔
تیسری بات یہ دیکھو کہ سب سے بڑا ہو نہار بیٹا مولوی محمود سلمہ تین ماہ پہلے ان سے جدا ہوچکا تھا۔ جس سے ملنے کی اس حادثہ جانگاہ سے پہلے بظاہر کوئی امید نہ تھی۔ قدرت نے ٖغیبی سامان فرمادیا۔ امسا ل ان کے لئے حج کا سامان ہوگیا اورا س طرح وہ حج وزیارت کے فرائض اور حرمین شریفین کی برکات سے بھی بہرہ ور ہوئے۔ اور سعادت مند بیٹے کو بھی اٹھارہ دن ان کی مکمّل خدمت کا موقعہ مل گیا۔
پھر یہ بھی سوچو کہ عادتا حج وزیارت میں مہینہ ڈیڑھ مہینہ تو لگ ہی جاتا ہے۔ اللہ تعالے نے اس خوش نصیب بندے کو صرف اٹھارہ دنوں میں حج وزیارت کے تمام مراحل سے گزار کر ایسے وقت کراچی واپس پہنچا دیا جبکہ ان کی وفات میں صرف سترہ دن باقی تھے۔ اگر مواصلاتی نظام میںذرا بھی تاخیر ہوتی تو مرحوم اپنی بیوی بچوں، ماں، باپ، بہن بھائیوں سے جدا رہتے ہوئے بحالت غربت اس دنیا سے سفر کرتے۔ ذرایہ سوچو اس وقت ماں باپ اوراولاد بیوی پر کیا گزرتی۔ مگر اللہ تعا لیٰ نے ان کے تمام مراحلِ سفر کو آسان فرمایا اور پوری تندرستی کے ساتھ واپس والدین کے پاس کراچی اور پھر اہل عیال کے پاس لاہور خوش وخرم پہنچادیا۔ حج کی خوشی میں احباب کی دعوت بھی کرلی۔
اور ان تمام انعامات سے بڑھ کر سب سے بڑا انعام یہ کہ آخری عمر میں ان کو حج وزیارت سے مشرف فرما کر گناہوں سے پاک فرمادیا۔ اور پاک وصاف اپنی بارگاہ میں بلالیا۔
اب غور کرو۔ اگر جانے والے مرحوم کو سال بھر پہلے یہ قطعی اطلاع ہوجاتی کہ عاشورہ محرم ۱۳۹۵ھ ان کی عمر کا آخری دن ہے اور وہ خود اپنے مرنے کے سامان کرتے تو اس سے بہتر اور مرنے کا کیا سامان ہوتا۔ بس اسوقت مشکل سے یہ سطور ہی لکھوا سکا ہوں اور کچھ بولنے کی ہمت نہیں۔ اولسلام بندہ محمد شفیع عفااللہ عنہ۔ ۲۹۔محرم ۱۳۹۵ھ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ – جلد ۹شمارہ ۲)