حضرت مولانا مفتی محمدتقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم

توہینِ قرآن ورسالت کے شرمناک مظاہرے

حمدوستائش اس ذات کے لئے ہے جس نے اس کارخانۂ عالم کو وجود بخشا
اور
درود و سلام اس کے آخری پیغمبرپر جنہوں نے دنیا میں حق کا بول بالا کیا

مختلف یورپی ممالک وقفے وقفے سے اپنے سینے میں چھپی ہوئی غیط وغضب اور بغض وعناد کی آگ کو توہینِ قرآن یا توہینِ رسالت کی گھناؤنی حرکتوں سے ٹھنڈا کرتے رہتے ہیں ، کبھی اُس ذات اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاحیہ خاکے بناکر جس کی عزت وعظمت کے آگے مقدس ترین فرشتے بھی سربہ خم ہیں ، کبھی باقاعدہ فرانس کی حکومت شہر کی مرکزی شاہراہوں پر اس ذاتِ اقدس کے کارٹون بناکر اپنی شیطانی ہوس کو تسکین دینے کی کوشش کرتی ہے ، کبھی سویڈن ، ڈنمارک اور ناروے میں سرکاری سیکیورٹی کے حصار میں قرآن پاک کے نسخے جلاکر یہ لوگ اپنے دل کے پھپھولے پھوڑتے ہیں ، اور یہ سنگدل بے وقوف یہ نہیں جانتے کہ اس کتاب کی حفاظت کا ذمّہ اللہ تعالیٰ نے لیا ہے ، اور اگر وہ اپنے بغض ونفرت کی ساری طاقتوں کو جمع کرکے دنیا سے قرآن کریم کے مصاحف کو معاذ اللہ ختم بھی کردیں ۔ جو ان شاء اللہ یہ کبھی نہیں کرسکیں گے ۔تب بھی قرآن کریم وہ عظیم کتاب ہے کہ عالمِ اسلام کے چھوٹے چھوٹے دس بارہ سال کے بچے بھی اپنے حافظے سے ایک نقطہ یا شوشہ چھوڑے بغیر پورے کا پوار قرآن لکھوانے پر قادر ہیں ۔
اسلام سے اہلِ یورپ کا یہ بغض آج کا نہیں ، صدیوں پرانا ہے ، صلیبی جنگوں میں اپنی پٹائی انہیں اچھی طرح یا د ہے ، انہوں نے اس کا بدلہ لینے کے لئے پہلے عالم اسلام کے مختلف خطوں پر جنگلیوں اور وحشیوں کی طرح تسلط قائم کیا ، اور ان خطوں کے عوام کو اپنی اس سفاکی کا نشانہ بنایا جونمرود ، فرعون اور چنگیز خان کی وحشت و بربریت کو پیچھے چھوڑ گئی تھی ۔ عالم اسلام میں استعماری حملوں کی انسانیت سوز داستانیں تاریخ کے اوراق پر بکھری پڑی ہیں ، لیکن جب ان ملکوں کی دولت کو لوٹ کر انہوں نے اپنے ملکوں میں اپنے عشرت کدے آباد کرلئے تو اس وقت انہوں نے جمہوریت ، تہذیب اور تمدن کا راگ الاپنا شروع کردیا ۔ اور پُرامن بقائے باہمی، امنِ عالم اور انسانی حقوق کے نعرے ایجاد کئے اور دنیا پر یہ رعب جمانے کی کوشش کی کہ ہم تمام انسانوں کے بنیادی حقوق کے محافظ ہیں ۔ وہ پوری دنیا کو یہ سبق دیتے رہے کہ ہم کسی مذہب کے نہ صرف خلاف نہیں بلکہ ہر مذہب کا احترم کرتے ہیں ۔
لیکن اسلام کے ساتھ جو بغض ان کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے ، اب وہ انہیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتا ، اپنی تمام تر ظاہری سنجیدگی کے باوجود وہ” آزادی ٔ اظہار رائے” کا سہارا لیکر مسلمانوں کے دلوں کو زخمی کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے ۔
شروع شروع میں اس قسم کی حرکتیں انفرادی نوعیت کی تھیں ، لیکن اب باقاعدہ سرکاری سطح پر یہ اقدامات کئے جارہے ہیں ، اس کے لئے سرکاری تحفظ کا پورا انتظام کرکے اسے ایک تقریب کی شکل دی جاتی ہے ، تاکہ ایک ارب سے زائد مسلمانوں کو چڑا نے کے لئے ا یک تماشہ لگاکر دنیا بھر کو دکھایا جائے ۔

________________________

یہ اشتعال انگیز کارروائیاں اس قابل نہ تھیں کہ ان پر کوئی علمی بحث کی جائے ، لیکن جب حکومتِ پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ میں ایسی کاررائیوں کے خلاف مذمت کی قرارداد پیش کی گئی ، تو بیشتر ملکوں نے اس کے حق میں ووٹ دیا ، لیکن جن چند ملکوں نے ووٹ نہیں دیا ، ان میں اخباری اطلاعات کے مطابق امریکہ بھی شامل تھا اور ووٹ نہ دینے کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ یہ مذمتی قرارداد "آزادی ٔ اظہار رائے”کے خلاف ہے ۔
لیکن کیا دنیا کے کسی بھی ملک میں "آزادی ٔ اظہار رائے”اتنی بے لگام ہے کہ وہ دوسروں کی توہین ، گالی گلوچ اور ان کے بنیادی انسانی حقوق کو مجروح کرے ؟ "آزادی ٔ اظہار رائے”کے عنوان پر انٹرنیٹ کے بیشمار مضامین ، قوانین اور عدالتوں کے فیصلے اس بات پر موجود ہیں کہ "آزادی ٔ اظہار رائے” کے نام پر اشتعال انگیزی ، توہین ، فحاشی ، دھمکیوں وغیرہ کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ خود امریکہ کے قوانین میں بھی اس قسم کی قیود موجود ہیں ، امریکی قانون کی تشریح کرتے ہوئے برٹانیکا میں کہاگیا ہے کہ :

The right to freedom of expression is limited to an extent that expressions cannot be in respect of propaganda for war, provocation of imminent violence, or hate speech based on race, ethnicity, gender or religion that incites the causing of harm.
(https://www.britannica.com)

"آزادی ٔ اظہار رائے پر یہ پابندی عائد ہے کہ وہ جنگ کے پروپیگنڈے ، ناگزیر تشدد کے جذبات ابھارنے اور رنگ ونسل ، جنس یا مذہب کے خلاف ایسی نفرت انگیزی پر مشتمل نہ ہو جس سے (دوسروں کو) نقصان پہنچے "۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انسانی حقوق کے نام پر جواصول وضع کئے گئے ہیں ، ان کی تشریح ہر طاقت ور اپنی من مانی خواہشات کے مطابق کرتا ہے ، اور اس کی نظر میں ایک ارب سے زائد مسلمان اس لائق نہیں ہیں کہ ان کے خلاف یا ان کے جذبات مجروح کرنے کے لئے کسی شخص پر کوئی پابندی عائد کی جائے ۔

اگر مسلمان اتحاد کی قوت سے لیس ہوتے ، توان گھناؤنی حرکتوں کا جواب کچھ اور ہوتا ۔ لیکن ہم اپنی شامتِ اعمال کی وجہ سے اتنے بے بس اور کمزور ہوچکے ہیں کہ ان اشتعال انگیز حرکتوں کا کم سے کم جواب دینے کے بھی قابل نہیں رہے ۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں ان گستاخیوں کے خلاف بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے ضرور ہوتے ہیں، لیکن کیا مسلمان کی غیرتِ ایمانی اس بات کو گوارا کرسکتی ہے کہ جو حکومتیں توہینِ قرآن اور توہینِ رسالت کرنے والوں کو نشانِ عبرت بنانے کے بجائے ان کی سرپرستی کررہی ہیں ، کوئی مسلمان ان سے دوستانہ تعلق قائم رکھے ، ہمارا سفیر ان کے ملک میں رہ کر یہ ایمان سوز نظارے دیکھے ۔ اور ان کا سفیر ہمارے ملک میں آکر آزادی ٔ رائے کے نام پر ان گستاخیوں کا دفاع کرے ؟لیکن ہماری بیشتر حکومتیں یہ ذلت سہہ رہی ہیں اور اس پوزیشن میں بھی نہیں کہ ان سے تجارتی تعلقات ختم کرلیں ۔
ظاہر ہے کہ ان واقعات کو آنکھوں سے دیکھ کر ہر مسلمان بے چین ہے ، اس کے لئے اجتماعات ، احتجاج اور قراردادیں ہر جگہ پیش کی گئی ہیں ، لیکن مسلمان ملکوں کی غیرت کا کم از کم تقاضا یہ ہے کہ وہ متحد ہوکر عالمی اداروں کے ذریعے اس قسم کی حرکتوں کو بین الاقوامی قانون کے تحت ممنوع قراردلوائیں ۔
ہمارے ملک میں متعدد گروپ اپنی اپنی جگہ کچھ کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ، ایسے متعدد گروپس نے مجھ سے بھی اس سلسلے میں رابطہ کیا ہے کہ وہ اس موضوع پر کوئی کانفرنس منعقد کرنا چاہتے ہیں ۔ لیکن بندہ نے انہیں یہی مشورہ دیا ہے کہ وہ پہلے عالمی قوانین کے ماہر حضرات سے رابطہ کرکے ایک ایسی تجویز کا قانونی مسودہ تیارکریں جو اس قسم کی حرکتوں پر پابندی لگاسکے ، اس کے بعد او آئی سی اور مسلمان ممالک کی حکومتوں سے رابطہ کریں کہ وہ متحد ہوکر ایسی قانون سازی کروائیں ۔
پوری دنیا میں مسلمان ممالک اپنی تعداد ، اپنے وسائل ، اپنی دولت اور اپنے اثرورسوخ کا صحیح استعمال کریں تو قرآن کریم اور حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ان گستاخیوں کا سدِّباب اتنا مشکل نہیں ، اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطافرمائیں ۔ آمین۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ربیع الاول ۱۴۴۵ھ)

">