خطاب : حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم
ضبط وترتیب: جنید اشفاق اٹکی

تنزانیہ میں تبلیغی جماعت کے مرکز میں
حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم
کا فکر انگیز خطاب

(شروع کا تمہیدی حصہ تقریباً ایک منٹ کا،فی الوقت دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے ضبط نہ ہوسکا تاہم اصل گفتگو جہاں سےشروع ہورہی ہے وہ حصہ پیش خدمت ہے۔ جنید)

(میرے بھائیو دوستوبزرگو!)دین کا کام اس طرح نہیں ہوتا کہ پہلے اس کے بہت بڑے منصوبے بنائے جائیں اور اس کے نقشے تیار کیے جائیں ، اس کا بجٹ منظور کرایا جائے اس کی feasibility report تیار کی جائے ۔ دین کا کام ایک آدمی سے شروع ہو جاتا ہے۔ اور یہ بات خود نبی کریم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ طیبہ سے ثابت کر دی۔ جب آپ اس دنیا میں تشریف لائے تو تن تنہا تھے ، کوئی ساتھی نہیں، کوئی مددگار نہیں ، کوئی جماعت نہیں ، کوئی منصوبہ نہیں ، کوئی پلان نہیں ، کوئی وسائل نہیں ، اور اتنی بڑی ذمہ داری اللہ جلّ جلالہ نے غارِ حرا میں آپ کے سپرد فرما دی اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ
کیا معنی ؟ کہ اب آپ کا کام کیا ہے ؟؟ دنیا کے سامنے حق کا پیغام پڑھ کر سنانا! کن وسائل کے ذریعے سنانا ہے ؟ کیا آپ اس کے لیے کوئی مدرسہ بنائیں گے؟ کوئی مرکز تعمیر کریں گے؟ کوئی درسگاہ بنائیں گے؟ کوئی جماعت بنائیں گے ، کوئی انجمن بنائیں گے؟ وہ انجمن صدر ، سیکٹری ،ناظم اور خازن وغیرہ پر مشتمل ہو گی؟ نہیں!! ایک ہی واسطہ ہے ، اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ
یعنی یہ کام جو ہم آپ کے سپرد کر رہے ہیں ، پڑھو، دنیا کے سامنے ! اب کیا پڑھو؟ یہ بھی نہیں ! عربی زبان میں جب مفعول موجود نہیں ہوتا ، فعل آ رہا ہے ، مفعول نہیں آ رہا تو اس کا مطلب ہے سب کچھ پڑھاؤ۔ سب کچھ پڑھو۔ عقیدہ پڑھو ، عبادات پڑھو ، اخلاق پڑھو ، معاشرت پڑھو، دنیا میں زندگی گزارنے کا طریقہ پڑھو۔ یہ سب پڑھ کر سناؤ ساری دنیا کو۔ اور اپنے اس پڑھے ہوئے کلام کی طرف لوگوں کو بلاو۔ اس کا ذریعہ کیا ہو گا؟ کوئی پلان نہیں ، کوئی منصوبہ نہیں ،کوئی بجٹ نہیں ، کچھ نہیں!! صرف ایک بجٹ ہے۔ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ اپنے اس پروردگار کے نام پر یہ کام کرو جس نے تمہیں پیدا کیا۔
سرکار دو جہاں رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم آیا اقرأ ، پڑھو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب فرشتے نے یہ پیغام پہنچایا تو آپ نے پہلے ہی فرمایا : ما أنا بقاری میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں ، میں نے ساری زندگی پڑھنا نہیں سیکھا ، نہ پڑھنا جانتا ہوں نہ لکھنا جانتا ہوں ، تو آپ مجھے کیسے یہ بتا رہے ہیں کہ تم پڑھو! یہ سوال کیا سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے! اس کا ایک جواب یہ ہو سکتا تھا دنیا کے حساب سے کہ اگر پہلے خود نہیں پڑھا تو پڑھنا سیکھو ، کسی مدرسے میں جا کر داخلہ لو ، پڑھنا سیکھو ،پھر پڑھو لیکن اللہ جل جلالہ نے جس فرشتے کو آپ کے پاس بھیجا تھا ، اس نے یہ نہیں کہا کہ اس طرح پڑھو ، بلکہ آپ کے سینہ مبارک کو اپنے سینے سےلگا کر دبایا اور پھر کہا اقرأ پڑھو ، کیا مطلب؟ کہ آپ کو پڑھنے کے لیے اور لوگوں کے سامنے پڑھ کر سنانے کے لیے کسی سکول میں ، کسی مدرسے میں ، کسی درسگاہ میں تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کے سینہ اقدس میں براہ راست مضمون ڈالے جائیں گے ، جو مدرسے میں حاصل نہیں ہو سکتے۔ ایک مرتبہ دبایا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ما أنا بقاری دوبارہ دبایا پھر فرمایا ما أنا بقاری تیسری بار دبایا ، تیسری بار دبانے کے بعد سینہِ اقدس پر سارے علوم اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے وارد کر دیے گئے۔ اور پھر آگے آیات آئیں۔

اقرأ باسم ربک الذی خلق ، خلق الانسان من علق ، اقرأ و ربک الاکرم ، الذی علم بالقلم، علم الانسان مالم یعلم۔

بتا دیا کہ دنیا کے اندر بیشک ہم نے علم حاصل کرنے کا ذریعہ قلم کو بنایا ہے ، قلم سے لوگ لکھتے ہیں پھر پڑھنے والے اس کو پڑھتے ہیں ، پڑھانے والے اس کو پڑھاتے ہیں ، پھر جا کر علم حاصل ہوتا ہے۔ لیکن
علم الانسان ما لم یعلم
ایک علم وہ ہوتا ہے جو انسان کو باری تعالیٰ براہ راست عطا فرماتے ہیں ، وہ علم جو اس کو حاصل نہیں تھا ، تو آپ کے پاس ہم نے فرشتہ بھیجا ہے جو آپ کے سینہ اطہر کو دبا کر ساری دنیا کے اولین و آخرین کے علوم آپ کے سینہ اقدس میں جمع کر دے گا۔ جب سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کی ، نبی بننے کی عظیم ذمہ داری ڈالی گئی ، اس کا بوجھ اتنا ہوا کہ جاڑا چڑھ گیا ، یہ سارا کام اس طرح سپرد کیا گیا سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو!! تن تنہا ، یہ نہیں کہا کہ آپ کوئی جماعت بنا لینا ، اس کا ایک صدر بنا لینا ، اس کا ایک سیکٹری بنا لینا ، اس کا ایک خازن بنا لینا ، اس کا ایک بجٹ متعین کر لینا ، کچھ نہیں !! بس ہمارے حکم کی تعمیل میں پڑھتے جاو! ہمارے حکم کی تعمیل میں دعوت دیتے جاو! اور سب سے پہلے آپ آغاز کرو اپنے خاندان والوں سے !
وانذر عشیرتک الاقربین
اپنے قریب ترین خاندان والوں کو سب سے پہلے جا کر دعوت دو۔ ایمان کی ، توحید کی!
اللہ جل جلالہ جب دین کا کام شروع کراتے ہیں تو پہلے سے منصوبے نہیں بنتے ، پہلے سے تنظیمیں نہیں بنتیں ، پہلے سے بجٹ منظور نہیں ہوتے ، پہلے سے feasibility تیار نہیں ہوتی ، بلکہ اللہ کا کوئی بندہ ہوتا ہے ، اللہ اس کے اوپر القاء فرما دیتے ہیں کہ تم یہ کام کرو اور وہ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اور کرنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ خود لوگ اس کے پاس کھینچ کھینچ کر لاتے ہیں ۔

میں تو تنہا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

آج آپ دیکھتے ہو کہ الحمد للہ دارالعلوم دیوبند کا فیض دنیا کے مشرق و مغرب میں پھیلا ہوا ہے۔ مجھے اللہ تبارک و تعالیٰ نے دنیا بہت دکھائی ، دنیا کے چھ کے چھ براعظم میں نے دیکھے ہیں ، اور دور دراز دنیا کے علاقوں میں بھی جانا ہوا ، اتفاق سے تنزانیہ پہلی بار آیا ہوں ، ورنہ ساری دنیا میں نے دیکھی ہوئی ہے۔ جہاں کہیں گیا ہوں تو وہاں دارالعلوم دیوبند کا براہ راست یا بلواسطہ فیض آنکھوں سے نظر آتا ہے۔ ایک مرتبہ میں انڈونیشیا میں تھا ، لوگ مجھے پہاڑ کی چوٹی پرلے گئے ، عام بستی سے بہت دور ! وہاں مجھے مغرب کی نماز کا وقت پیش آیا تو میں نے ساتھی سے کہا کہ بھئی کوئی مسجد؟ نماز پڑھنا چاہتے ہیں۔ مسجد میں جا کر نماز پڑھی ، نماز پڑھنے کے بعد امام صاحب آئے ، ان سے ملاقات ہوئی کہ بھئی آپ کہاں سے ہیں ؟ کہا جی! میں دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوں۔ اس چھوٹی سی مسجد میں ، پہاڑ کی ایک مسجد میں بھی ، وہ دین کا دِیا ، چراغ روشن کیے ہوئے ہیں۔
یہ کیسے ہوا ؟ یہ اس طرح ہوا؟ ایسا نہیں ہوا تھا کہ دارالعلوم دیوبند کو حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمھما اللہ نے ایک نقشہ بنایا ہو ، ایک پلاٹ خریدا ہو ، اور پلاٹ کے اندر نقشہ بنایا ہو اور اس میں یہ بتایا ہو کہ یہ امیر ہو گا ، یہ صدر ہو گا ، یہ سیکٹری ہو گا بلکہ وہ دو آدمی تھے ۔ ایک استاد ایک شاگرد ۔ استاد مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اور شاگرد ملا محمود دونوں انار کے درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ استاد نے پڑھانا شروع کر دیا ، طالب علم نے پڑھنا شروع کر دیا ، اور یہاں سے آغاز ہوا ۔ کوئی منصوبہ نہیں ، کوئی پلان نہیں ، کوئی دستور نہیں ، کوئی تنظیم نہیں ، وہیں شروع ہو گیا۔لیکن

؎ لوگ کچھ ملتے گئے اور کارواں بنتا گیا

اسی طرح دارالعلوم دیوبند کا قیام عمل میں آیا، لیکن بعد میں اس مدرسے کی عمارت بھی بنی ، اس کا نظام بھی بنا ، اس کا دستور بھی بنا ، اس کا مہتمم بھی ہوا ، نائب مہتمم بھی ہوا۔ ناظم بھی ہوا ، سب کچھ ہوا۔ لیکن مقصود کیا تھا ؟ مقصود صرف اِقْرَأْ تھا۔ یہ سب چیزیں جو تھیں ، یہ ثانوی درجے کی تھیں ، یہ مقصود نہیں ، تنظیم مقصود نہیں ، جماعت مقصود نہیں ، صدر، سیکٹری مقصود نہیں ، امیر مامور مقصود نہیں ، مقصود کیا ہے ؟؟ علم !! اس کے لیے دارالعلوم دیوبند کام کرتا چلا گیا۔ بعد میں کچھ گڑبڑ ایسی ہوئی کہ وہ علم جو مقصود تھا اس کے بجائے یہ جو تنظیم تھی ، اس میں کچھ جھگڑے پیدا ہو گئے ، تنظیم پہ جھگڑے ہو گئے ، علم میں جھگڑا نہیں ہوا ، تنظیم میں ہو گیا ، نتیجہ کیا ہوا ؟ تنظیمیں تو دو ہو گئیں ، ایک دارالعلوم دیوبند قدیم ، ایک دارالعلوم دیوبند وقف ۔ لیکنإقرأ وہاں بھی ہو رہا ہے ، إقرأ یہاں بھی ہو رہا ہے۔ پڑھایا وہاں بھی جا رہا ہے ، یہاں بھی جا رہا ہے۔ دونوں کام چل رہے ہیں۔ لڑائی جھگڑے کی کوئی بات نہیں ، شروع میں ہوا ، غلطی ہوئی ، لڑائی جھگڑا نہیں ہونا چاہیے تھا ، لیکن مقصود کیا تھا؟ تنظیم تھی ؟ مہتمم ہونا تھا؟ صدر مدرس ہونا تھا ؟ نہیں !! مقصود علم تھا ، اِقْرَأْ تھا ۔ وہ إقرأ وہاں بھی ہو رہا ہے ، وہ اِقْرَأْ یہاں بھی ہو رہا ہے۔ مقصود حاصل ہے۔اب اگر ہم سے کوئی پوچھتا ہے کہ بھئی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کہاں جاؤں ؟ وہ اگر کہے کہ میں دارالعلوم دیوبند قدیم میں جانا چاہتا ہوں ، دوسرا کہتا ہے کہ میں دارالعلوم وقف میں جانا چاہتا ہوں ، میں نے کہا سبحان اللہ ! جہاں جانا چاہو ، چلے جاؤ ، اِقْرَأْوہاں بھی ہو رہا ہے اِقْرَأْیہاں بھی ہو رہا ہے۔ لہٰذا جہاں چاہو چلے جاؤ اور بس یہ نہ سمجھو کہ جو وہاں ہے وہ میرا دشمن ہے ، اور جو یہاں ہے وہ میرا دوست ہے بلکہ وہ بھی طالب علم یہ بھی طالب علم ، وہ بھی معلم یہ بھی معلم ، وہ بھی دین کا درس دے رہا ہے ، یہ بھی دین کا درس دے رہا ہے ، اصل مقصود میں دونوں متحد ہیں ، لہذا کوئی کسی کو اپنا دشمن نہ سمجھے ، کوئی اپنے آپ کو کسی کا مخالف نہ سمجھے۔اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم سے تبلیغی جماعت نے ساری دنیا کے اندر اپنا فیض پھیلایا ہوا ہے ، اور وہاں کا عالم بھی یہ ہے کہ میں ساری دنیا میں گھوما ہوں ، ساری دنیا کی سیریں کی ہیں ، لیکن عوام الناس میں اتنا فائدہ تبلیغی جماعت کے ذریعے پہنچایا ، کوئی دوسری جماعت اس کا عشر عشیر بھی پیدا نہیں کر سکی ، دسواں حصہ بھی پیدا نہیں کر سکی ، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس میں برکت دی، لیکن کیسے ؟ کیا پہلے حضرت مولانا محمد الیاس رحمۃاللہ علیہ نے کوئی تنظیم قائم کی تھی ؟ کیا کوئی امیر بنایا تھا ؟ کوئی شوری بنائی تھی ؟ کوئی منصوبہ بنایا تھا ؟ کوئی مرکز کی تعمیر کی تھی ؟ کوئی پلاٹ خریدا تھا؟ اس اللہ کے بندے کے دل میں اللہ نے اگ پیدا کر دی ۔ وہ مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے سینے کی آگ! جو دل میں پیدا کر دی کہ مجھے مسلمانوں کو دین کی طرف لانا ہے۔ اکیلا آدمی !! اس وقت اکیلے ہی تھے ، کیا پہلے سے کوئی منصوبہ بنایا تھا؟ پہلے سے کوئی کمیٹی قائم کی تھی؟ ، پہلے سے کوئی رپورٹ بنائی تھی؟ پہلے سے کوئی بجٹ بنایا تھا ؟ اکیلا انسان!! مولانا محمد الیاس رحمۃ اللہ علیہ ، جس کے سینے میں آگ بھری ہوئی تھی۔ دین کی آگ!! امتِ مسلمہ کی فلاح و بہبود کی آگ! اس نے کھڑا کر دیا میوات میں جا کے۔ کوئی جماعت بنائے بغیر ،

میں تو تنہا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ کچھ ملتے گئے اور کارواں بنتا گیا

اصل مقصود دعوت تھا ، اصل مقصود اپنی اصلاح تھی ، اصل مقصود دین کی طرف جانا تھا۔دین کی طرف بلانا تھا ، اس مقصود کو لے کر کھڑے ہو گئے ، اس فکر میں نہیں پڑے کہ پہلے سے کوئی کمیٹی بنائیں ، پہلے سے کوئی مجلس بنائیں ،پہلے سے کوئی شوری بنائیں ، پہلے سے امیر متعین کریں ، کچھ بھی نہیں!! کام شروع کر دیا۔ کام میں چونکہ اخلاص تھا ، للہیت تھی ، سوائے اللہ کے کوئی اور مقصود نہیں تھا ، شہرت مقصود نہیں تھی ، نام و نمود مقصود نہیں تھا۔ یہ نہیں تھا کہ میرا نام ہو جائے ساری دنیا میں ، ساری دنیا میرے قصیدے پڑھا کرے ، میری تعریفیں کیا کرے ، یہ نہیں تھا !! کیا تھا؟؟ دل میں تھا کہ اللہ کے سامنے میں جا کر جواب دہ ہو سکوں کہ یاللہ آپ کے دین کو بچانے کے لیے جو میرے بس میں تھا میں نے کر دیا۔ یہ تھا مقصود یا کوئی اور تھا؟؟؟ یہ مقصود تھا ! کوئی جماعت مقصود تھی؟؟ کوئی انجمن ؟؟ کوئی تنظیم ؟؟ کوئی سیاست؟ کوئی سیکٹری؟ کوئی بجٹ؟ کچھ نہیں!! اکیلے کھڑے ہو گئے۔ لیکن عملا ہوتا یہ ہے کہ پھر بعد میں امیر بھی بنا دیے جاتے ہیں ، سیکٹری بھی ہو جاتے ہیں ، شوری بھی بن جاتی ہے۔ لیکن وہ مقصود نہیں ، تنظیم مقصود نہیں ہے ، جیسے میں نے آپ کو بتایا کہ صحابہ کرامؓ کو جمع کر لیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ، کوئی تنظیم قائم نہیں فرمائی ، دارالعلوم دیوبند شروع ہو گیا استاد شاگرد سے ، کوئی باقاعدہ تنظیم نہیں بنی، مقصود اصلی حاصل ہے ۔
بسا اوقات ہوتا کیا ہے کہ خرابی جہاں سے پیدا ہوتی ہے وہ یہاں سے ہوتی ہے کہ تنظیم کو مقصد بنا لیا جائے ، مقصد تھا کام!! اللہ کا دین!! اللہ کی رضا!! اخلاص کے ساتھ ، مقصد وہ تھا ، بعد میں تنظیم مقصد بن گئی ، جو میری تنظیم کا ہے وہ میرا ہے ، جو میری تنظیم سے باہر ہے وہ میرا نہیں ہے۔ یہ فتنہ پیدا ہو گیا۔ اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس فتنے نے مسلمان مسلمان کو لڑا دیا ،نوبت قتل و غارت گری تک پہنچ گئی ، مار پیٹ تک نوبت آ گئی۔ بنگلہ دیش میں جو واقعہ پیش آیا۔اس کو سن کر انسان خون کے آنسو روتا ہے۔ حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ ، اگر آج حیات ہوتے تو خون کے آنسو روتے ، اس واقعے کے اوپر جو پیش آیا۔ نہ ان کو امارت کی خواہش تھی، نہ ان کو شہرت کی خواہش تھی ، نہ ان کو کسی اور تنظیم کی خواہش تھی ، اگر تنظیم بٹ گئی ، بٹنے دو!! ہم نے کوشش کی شروع میں کہ یہ بٹوارا نہ ہو۔ لیکن افسوس ہے کہ ایسا نہیں ہو سکا۔ بٹوارا ہو گیا ، اب بتاؤ تنظیم مقصود ہے یا کام مقصود ہے ؟ بتاؤ !! کام مقصود ہے یا کسی خاص جماعت کے ساتھ ہونا مقصود ہے؟ اگر کام مقصود ہے تو خدا کے لیے تفریق مٹاؤ!! جو کوئی اللہ کا نام لے ، جو کوئی اللہ کے دین کی طرف دعوت دے ، اس کو خوش آمدید کہو ! اس کو اپنا سمجھو ! اس کے ساتھ محبت کا معاملہ کرو ! اس کے ساتھ دشمنی مت رکھو! کیا اس بنا پر لڑو گے؟؟ حکم تو إقرا کا ہے ، کیا پڑھو ؟ دین پڑھو ! کوئی فضائل اعمال پڑھتا ہے وہ پڑھے ، کوئی منتخب احادیث پڑھتا ہے وہ پڑھے ، وہ بھی إقرا یہ بھی إقرا ۔ اگر تھوڑا سا طریقے میں فرق ہے ، اس کو گوارا کر لو۔
مسلمانوں کے درمیان تفریق وہ چیز ہے جو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی بھر کبھی گوارا نہیں کی۔اگر کوئی شخص مجھ سے دین سیکھنا چاہتا ہے ، میں یہ چاہوں کہ یہ مجھ سے سیکھے ، دوسرے کے پاس نہ جائے ، یہ مولانا عارف بھائی کے پاس دو چار آدمی آتے ہیں دین سیکھنے کے لیے ، میں یہ چاہوں ، کہ ان کو یہاں سے ہٹاو ، اس کو میرے پاس بھیجو ۔ یہ بتاؤ! اخلاص ہو گا؟؟ یا ریا کاری ہو گی؟ اگر دین سیکھنے کے لیے ایک آدمی آ رہا ہے اور ایک جماعت کے ذریعے دین سیکھ رہا ہے ، تو اس سے آپ کوکیوں دشمنی ہو؟؟ اگر آپ کے ذریعے یہ ہوتا ہے تو وہ بھی آپ کا کام کر رہا ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں حضرات تابعین فرماتے ہیں کہ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس ہم جاتے تھے مسئلہ پوچھنے کے لیے ، تو کہتے تھے کہ بھئی وہ فلاں بڑا عالم ہے ، اس سے پوچھو، وہاں جاتے تھے تو وہ کہتے تھے وہ فلاں بڑا عالم ہے اس سے جا کر پوچھ لو۔ بعض اوقات گھوم پھر کر پھر پہلے آدمی کے پاس آتے تھے کہ وہ تو سب یہی کہ رہے ہیں کہ آپ بڑے عالم ہیں تو پھر ان کو مسئلہ بتاتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ یہ دین کو بتانے کی جو فضیلت ہے وہ میرے بھائی کو حاصل ہو جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ اس کا ثواب اس کو مل جائے۔ آج دنیا بن گئی ہے (Credit) کی ، (Credit)لینا ہے، سہرا کس کے سر بندھے؟ کس کا نام لیا جائے کہ اس نے بہت بڑا کارنامہ سر انجام دے دیا ؟ میں قسم سے کہتا ہوں کہ اگر مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات ہوتی کہ دنیا میں میرا نام ہو جائے کہ اس نے دنیا میں دعوت دین کا بیڑا اٹھایا تو ہرگز وہ دعوت شروع نہ کرتے ، ان کے دل میں صرف اخلاص تھا۔ صرف للہیت تھی ، صرف یہ کام تھا کہ اللہ تبارک و تعالی کے دین کو کوئی فائدہ پہنچ جائے ، آج ہم اس میں گلے پڑ گئے کہ جو ہماری پسندیدہ تنظیم ہے ، اس میں آتا ہے وہ میرا ہے، دوسری تنظیم میں جاتا ہے وہ میرا نہیں ہے ، وہ میرا دشمن ہے ،وہ میرا مخالف ہے۔ ضرورت پڑی تو اس سے لڑوں گا ۔ ہاتھا پائی بھی کروں گا ، لڑائی بھی کروں گا ، اگر ضرورت پڑی قتل بھی کر دوں گا۔ العیاذ باللہ یہاں تک نوبت پہنچ جائے تو خوب سمجھ لو کہ شیطان نے اپنا راستہ بنا لیا ہے۔ جب یہاں تک راستہ پہنچ جائے کہ مسلمان مسلمان کے خلاف قتل و قتال پر آمادہ ہو جائے ، سمجھ لو کہ شیطان نے اس کے اندر راستہ بنا لیا۔ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے۔ جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت حاصل تھی کہ وہ آپس میں قتل و قتال کے باوجود صحابی رہے ،کیونکہ نیتیں دونوں کی خالص تھیں ، لیکن ہمارے دور میں قتل و قتال مسلمان کے ساتھ ؟ ایک آدمی دوسرے پر پتھر اٹھائے ، دوسرے پر تلوار اٹھائے ، دوسرے پر گولی چلائے ، دوسرے کو دھکا دے ، دوسرے کو گرائے ، یہ سوائے شیطان کے اور کسی کا کام نہیں ہو سکتا۔
میرے بھائیو عزیزو! آج مجھے یہ بات کرنے کا آپ کے سامنے موقع مل گیا ، میرے علم میں کچھ بات لائی گئی کہ الحمد للہ اجتماع میں دونوں قسم کے حضرات موجود تھے ، یہ سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی کہ کوئی ایک ایسی جگہ ہوئی جہاں پر دونوں قسم کے حضرات جمع ہیں ، اللہ کے لیے جمع ہیں ، اللہ کے دین کے لیے جمع ہیں ، اللہ تعالٰی کے دین کی نصرت کے لیے جمع ہیں ، ان شاء اللہ اس پر برکتیں نازل ہوں گی ، رحمتیں نازل ہوں گی ۔ اپنے دلوں سے یہ کینہ نکالیے! اپنے دلوں سے یہ بغض ختم کیجیے ! یہ ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کا سلسلہ بند کیجیے! اور سمجھیے کہ چلو ہم الگ ہو گئے ہیں لیکن جو اصل مقصود ہے اس میں ہم متحد ہیں ، وہ ہے

اقرأ باسم ربک الذی خلق

میں نے آپ کا بہت سارا وقت کے لیا ، لیکن بس خلاصہ یہ ہے کہ اقرأ کو مضبوطی سے پکڑ لو ،اقرأ کو مضبوطی سے پکڑ لو۔ دین پڑھو ، دین پڑھاو ، دین پہنچاؤ ، لوگوں کو دین کے قریب لاؤ ، جو کوئی دوسرا دین کے قریب لا رہا ہے ، اسے اپنا بھائی سمجھو ، اسے اپنا حریف نہ سمجھو ، اخوت کے ساتھ ، محبت کے ساتھ ، پیار کے ساتھ زندگی گزارو !! حضرت مولانا محمد الیاس صاحب قدس اللہ تعالیٰ سرہ ، حضرت مولانا یوسف صاحب رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت مولانا انعام الحسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ ، ان سب کے انوار و برکات ہیں جو اب تک چل رہے ہیں ۔
لہٰذا ان کو خدا کے لیے ، آپس کی دشمنیوں ، عداوتوں ، لڑائیوں ،جھگڑوں سے برباد نہ کرنا۔جو اصل مقصود ہے وہ حاصل ہو جائے ، جو کوئی بھی دین کا کام کر رہا ہے اھلاً وسھلًا اس کو خوش آمدید کہو۔ اللہ تبارک وتعالی اپنے فضل و کرم سے ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے ۔

اللھم یا ارحم الراحمین

٭٭٭٭٭٭٭٭٭