حضرت مولانا مفتی محمدتقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
تحریک تجدد کا پس منظر
اور اس کی فکری بنیادیں
(تیسری قسط)
مغربی تجدّد کا پہلادور
عالم اسلام میں مندرجہ بالا حالات کا پہلا مظاہرہ ترکی میں ہوا، جب وہاں ترکوں کی سیاسی کمزوری کے بعد مغربی تہذیب خم ٹھونک کر اسلام کے مقابلے پر آئی ، تو بہت سے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے اسے آگے بڑھ کر لبّیک کہا، اور اسلام میں تحریف وترمیم کا دروازہ کھول دِیا، لیکن ان لوگوں میں سب سے زیادہ نمایاں شخصیت جس نے ترکی کے فکری دھارے کو موڑا ، ضیاء گوک الپؔ (۱۸۷۵ء ۱۹۲۴ء) کی شخصیت تھی، ضیاء گوک الپؔ ترکی میں بلکہ پورے عالم اسلام میں مغربی تجدّد کا پہلا سرگرم علمبردار تھا، یہ شخص ۱۸۷۵ء میں دیاربکر میں پیدا ہوا، اور دیار بکر کے سیکنڈری اسکول میں پڑھنا شروع کیا، اسکول کا ہیڈماسٹر آزاد خیال اور حریت پسندی(Liberalism) کے خیالات رکھتاتھا، کچھ عرصے کے بعد ایک یونانی استاذ کے اثر سے اس کے ذہن میں عقیدے اور عقل کی کشمکش شروع ہوئی ، اس نے اسلامی فلسفے اور تصوف سے شفاء حاصل کرنا چاہا، مگر بقول اس کے اس میں اسے کامیابی نہ ہوئی، اور وہ ارتیابیّت میں گرفتار ہوگیا ، اس کے بعد سے اُ نے مختلف انجمنوں، اخباروں، رسالوں اور مضامین کے ذریعے مغربی تہذیب کو قبول کرنے کی دعوت دی، وہ کہتا تھا کہ درحقیقت مغربی تہذیب ہماری اپنی تہذیب ہے، اور اس کے نشو ونما میں ترکوں اور مسلمانوں کا خاص حصہ رہا ہے، اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ ہم اسے اختیار نہ کریں، چنانچہ وہ اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے:
’’مغربی تہذیب درحقیقت بحرروم کی تہذیب کا پھیلاؤ(Continuation)ہے، اس تہذیب کے بانی سماری، سیتھی، فینقی، رعاۃ ترکی نسل سے تعلق رکھتے تھے، تاریخ میں قدیم زمانوں سے پہلے ایک طورانی دور کا وجود ملتا ہے، اس لئے کہ وسطِ ایشیا کے قدیم باشندے ہمارے اجداد تھے، اس کے عرصے بعد مسلمان ترکوں نے اس تہذیب کو ترقی دی اوراس کو یورپ تک پہنچایا، اس بنیاد پر ہم مغربی تہذیب کا جزو ہیں، اور ہمارا اس میں حصہ ہے۔(۱)
مغربی تہذیب کا اختیار کرنا کیوں ضروری ہے؟ اس سے کیا انقلاب رونما ہوگا؟ اور ترکی کے جسد مردہ میں اس سے کس طرح جان پڑجائے گی؟ اس کا جواب دیتے ہوئے وہ لکھتا ہے:
’’جب کوئی قوم اپنے نشووارتقاء کا ایک بڑا فاصلہ طے کرچکتی ہے، تو اپنی تہذیب کا تبدیل کرنا ضروری سمجھتی ہے، جب ترک خانہ بدوش قبائل کی حیثیت سے وسط ایشیا میں تھے تو اس وقت وہ مشرق بعید کی تہذیب کے اثر میں تھے جب سلطنت عثمانی کے عہد میں آئے تو باز نطینی دائرہ اثر میں داخل رہے، اور جبکہ وہ عوامی دور حکومت کی طرف منتقل ہورہے ہیں، انہوں نے مغربی تہذیب کو قبول کرنے کا مصمّم ارادہ کرلیا ہے‘‘۔(۲)
یہاں سوال پیدا ہوا کہ ترکی تو مسلمان ہے، اور مغربی تہذیب کی بیشمار چیزیں اسلام سے متصادم ہیں، پھر ترکی کس طرح اس تہذیب کو قبول کرسکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں اس نے جو نظریہ پیش کیا، وہ ’’مغربی تجدّد‘‘کا پہلا نظریہ ہے، یعنی یہ کہ ’’اسلام‘‘ اور ’’تہذیب‘‘ دو بالکل جدا چیزیں ہیں، مذہب کا تعلّق صرف چند عقائد وعبادات اور رسموں سے ہے، اسلامی زندگی کے دوسرے مسائل اسلام کے دائرے سے باہر ہیں، ان میں ہر شخص اپنا پسندیدہ طرز اختیار کرسکتا ہے، اور اسی چیز سے اسلام منع نہیں کرتا، اگر ایک انسان اسلامی عقائد اور عبادات کا پابند ہے تو وہ پکا مسلمان ہے خواہ زندگی کے دوسرے مسائل میں وہ مغربی تہذیب کا پابند ہو یا مشرقی تہذیب کا، چنانچہ وہ لکھتا ہے:
’’جب واقعہ یہ ہے کہ مذہب صرف ان مقدس اداروں ، عقائداور مراسم کے مجموعے کا نام ہے تو وہ ادارے جو مذہبی تقدس نہیں رکھتے ( مثلاً سائنسی افکار ، صنعتی آلات واوزار، جمالیاتی معیار) ایک علیحدہ نظام کی تشکیل کرتے ہیں جو مذہب کے دائرے سے خارج ہوتا ہے، ایجابی علوم جیسے ریاضیات ، طبعیات، علم الحیات ، نفسیات ، عمرانیات، صنعتی طریقے اور فنون لطیفہ کا مذاہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، چنانچہ کسی تہذیب کا بھی مذہب سے انتساب درست نہیں ہے، نہ مسیحی تہذیب کا کوئی وجود ہے ، نہ اسلامی تہذیب کا ، ٹھیک جس طرح سے مغربی تہذیب کو مسیحی تہذیب کہنا صحیح نہیں، اسی طرح مشرقی تہذیب کو اسلامی تہذیب کہنا بھی درست نہیں‘‘۔(۳)
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ کس طرح مغربی تہذیب کو اختیار کرنے کے شوق میں اسلام کو صرف چند رسموں کا مجموعہ قرار دیدیا گیا؟ اور اس بات سے یکسر قطع نظر کرلی گئی کہ اسلام دوسرے مذاہب سے بالکل مختلف ہے، اسے مسیحیت پر قیاس کرنا حقائق کو جھٹلانا ہے، اس کا اپنا ایک مستقل نظام حیات ہے، اس نے صرف عبادتیں ہی دنیا کو نہیں سکھائیں، بلکہ اس کے قانون وشریعت کا تین چوتھائی حصہ معاملات اور زندگی کے عام مسائل سمجھانے میں صرف ہوا ہے۔
بہر کیف! ضیاء گوک الپؔ کے یہ افکار تھے ، جو اس زمانے کے ہر حریت پسند نوجوان کی دلی آواز بن گئے، انہی افکار سے متأثر ہوکر مصطفیٰ کمال پاشا نے وہ ہولناک انقلاب ترکی میں برپا کیا جس کی تلخ یاد آج بھی ایک حساس مسلمان کے دِل میں ایک طوفان بپا کردیتی ہے، پھر چونکہ مصطفیٰ کمال پاشا اپنے اس انقلاب میں اپنی شدید آمریّت کی بناء پر کامیاب ہوگیا تھا، اور اس نے مذہبی طبقوں کو کچل کر اس کشمکش کا خاتمہ کردیا تھا جو عرصے سے آزاد خیال اور مذہبی طبقوں میں جاری تھی، اور جس کی بناء پر ترکی کا استحکام خطرے میں پڑگیا تھا، اس لئے اس کی نام نہاد اصلاحات کے بعد واقعۃً ترکی کو مادّی طور پر ترقی ہوئی ، اور مملکت ایک درجے میں مستحکم ہوگئی۔
ان وجوہ کی بناء پر مصطفیٰ کمال پاشا تمام عالم اسلام کے آزاد خیال طبقے کے لئے ایک قابل تقلید نمونہ بن گیا، اسلامی ممالک کے برسراقتدار طبقے اور سیاسی لیڈروں میں ہمیں کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جس نے اتنی محدود اور سطحی صلاحیت اور اخلاقی پستی کے باوجود لوگوں کے دِل ودماغ پر حکومت کی ہو، اور انہیں اپنی شخصیت سے اس قدر متأثر کیا ہو کہ جتنا کمال اتاترک نے کیا۔
اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس نے ترکی کو اجنبی اقتدار سے اس وقت بچایا تھا ، جبکہ ترکی موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا تھا، اس وقت کے عام مسلمان پوری دنیا میں عزت وآزادی کے حصول کے لئے بے چین تھے، اس لئے ان کی نگاہوں میں ہر وہ شخص ایک محبوب ہیرو بن جاتا تھا جو کسی اسلامی ملک کو مستحکم کرنے کا بیڑا اٹھائے، خواہ اس کے لئے اس نے ملک کو اس کی اخلاقی ومذہبی روح کے اعتبار سے دیوالیہ ہی کیوں نہ کردیا ہو،
ان اسباب کی بناء پر ترکی پورے عالم اسلام کے لئے ایک مثالی حکومت بن گئی، اور اسلامی دنیا میں ہرجگہ وہی نعرے دہرائے جانے لگے جو ترکی میں ضیا گوک الپؔ، ضیاپاشا، احمد مدحت آفندی، اور مصطفیٰ کمال لگاچکے تھے۔
ضیاء گوک الپؔ نے مذہب کو تہذیب سے جدا کرنے کا نظریہ پیش کیا تھا، یہی نظریہ عربی ممالک میں شیخ علی عبدالرزاق نے اپنی کتاب ’’الاسلام وأصول الحکم‘‘ میں پیش کیا، اور اسی نظریہ کو لے کر ہندوستان میں مولوی چراغ علی آگے بڑھے، جس کی تفصیل ہم عنقریب عرض کریں گے۔
اور ہر آزاد خیال شخص انہیں دہرانے لگا، یہاں تک کہ ایک ترک مضمون نگار نے لکھا کہ :
’’ہم ایک ترکی اسلام تشکیل دینا چاہتے ہیں، جو خالص ہمارا ہوگا، جو ہماری نئی سوسائٹی سے پوری طرح ہم آہنگ اور اس میں اچھی طرح مدغم ہوسکے‘‘۔(۴)
جاری ہے ۔۔۔۔۔
(۱)Western Civilisation Turkish Nationalism and بحوالہ ’’اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش از مولانا ابوالحسن علی ص۴۴‘‘
(۲) ایضا ص: ۲۷۱، بحوالہ مذکور۔
(۳) ایضا ص: ۲۷۱و ص: ۲۷۲، بحوالہ مذکور۔
(۴) Islam in Modern History by Prof. Smith p.193
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
(ماہنامہ البلاغ : ربیع الثانی ۱۴۴۶ھ)