خطاب: حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم
ضبط وترتیب : مولوی شفیق الرحمن ، فاضل جامعہ دارالعلوم کراچی

اسلامی معاشرے کے تقاضے

۲۳؍جمادی الاولیٰ ۱۴۴۲ ھ مطابق ۸؍ جنوری ۲۰۲۱ ء جمعہ کے روز نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے جامع مسجد دارالعلوم کراچی میں جمعہ کے کے اجتماع سے خطاب فرمایا جس میںحضرت والا مدظلہم نے اسلامی معاشرے کے تقاضے بہت ہی اہمیت کے ساتھ بیان فرمائے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان تقاضوں پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین۔ افادئہ عام کے لئے یہ بصیرت افروز خطاب ہدیۂ قارئین ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ادارہ)

الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی سیدنا ومولنا محمد،وخاتم النبیین وإمام المرسلین وعلی الہ وأصحابہ أجمعین، وعلی کل من تبعہم بإحسان إلی یوم الدین، أما بعد!

محترم بھائیو ،دوستو، بزرگو!السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج حضرت صدر صاحب(حضرت مولانامفتی محمدرفیع عثمانی صاحب )دامت برکاتہم کی طبیعت ناساز ہے،ان کے لیے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو صحتِ کاملہ عاجلہ مستمرہ عطا فرمائے۔آمین ۔انہوں نے حکم دیا کہ آج میں آپ حضرات کے سامنے کچھ گزارات پیش کروں۔پچھلے جمعہ کے بیان میں حضرت دامت برکاتہم نے ایک حدیث بیان فرمائی تھی اور اس کی کچھ تشریح فرمائی تھی۔آج اسی کے متعلق کچھ گزارشات آپ حضرات کی خدمت میں مزید عرض کرتا ہوں۔حدیث ِ مبارکہ یہ تھی :

المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِہِ وَیَدِہِ، (صحیح البخاری ۱/ ۶)

مسلمان درحقیقت وہ شخص ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں یعنی اس کے ذریعہ کسی دوسرے کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث ِ مبارکہ میں مسلمان کی تعریف بیان فرمائی ہے کہ صحیح معنیٰ میں وہ شخص مسلمان ہے جو ساری زندگی اس طرح گزارے کہ اس کی ذات سے کسی کو بھی کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے۔
دین صرف عبادات کا نام نہیں ہے
اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں جس دین کا پابند بنایاہے وہ صرف عبادات میں منحصر نہیں ہے کہ صرف نماز ،روزہ اور حج ادا کرلیا۔بے شک یہ بڑی عظیم عبادتیں ہیں ، ان کا اہتمام ارکانِ اسلام میں سے ہے اور اسلام کا ستون ہیں،لیکن دین ان میں منحصر نہیں ہے۔
دین کے پانچ شعبے اور ان کی تفصیل
دین کے پانچ شعبے ہیں اور ان پانچوں شعبوں پر عمل کر کے ہی انسان صحیح معنیٰ میں مسلمان بن سکتا ہے:
۱) عقائد ۲)عبادات۳)معاملات۴)معاشرت ۵) اخلاق۔دین کے سارے احکام ان پانچ شعبوں میں بٹے ہوئے ہیں ،یہ درست نہیں ہے کہ آدمی ان میں سے کسی ایک شعبہ کو اختیار کرے اور باقی کو چھوڑ دے ۔کیونکہ قرآن ِکریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

( یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِی السِّلْمِ کَافَّۃً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ إِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُبِینٌ) (البقرۃ: ۲۰۸)

اے ایمان والو!اسلام میں داخل ہوجاؤ پورے کے پورے۔یعنی جہاں بھی تم ہو تمہارا رویہ اسلامی احکام کے مطابق ہونا چاہیے۔
پہلاشعبہ ،عقائد:عقیدہ درست ہو۔یہ عقیدۂ توحید سب سے مقدم اورسب سے زیادہ اہم عقیدہ ہے۔ عقیدہ میں ہم یہ تو کہہ دیتے ہیں کہ الحمد للہ ہم سب مسلمان ہیں،ہم سب ایمان رکھتے ہیں کہ للہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور ہر روز اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں سورۃ الفاتحہ پڑھتے ہوئے ہم یہ اقرار کرتے ہیں ایاک نعبد وایاک نستعین کہ اے اللہ!ہم آپ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور آپ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔لیکن اس میں بھی بعض اوقات کوتاہی ہوتی ہے کہ زبان سے تولا الہ الا اللہ کہتے ہیں لیکن لوگوں کے اندر یہ وبا پھیل چکی ہے کہ بعض اوقات مدد مانگنے کے لیے اور اپنی حاجات طلب کرنے کے لیے اولیاء اللہ کی قبروں پہ جاتے ہیں اور ان سے مدد مانگتے ہیں کہ ” اے فلاں مجھے اولاد دے ،میرے رزق میں اضافہ کردے وغیرہ”۔حالانکہ اولاد دینا اوررزق دینا صرف اللہ جل جلالہ ہی کی خاص صفت ہے،اس میں کسی اور کو شریک ٹھہرانا، اللہ بچائے، انسان کو شرک تک لے جاتا ہے۔تو عقائدکادرست ہونا ضروری ہے ۔
دوسرا شعبہ،عبادات:اسی طرح عبادات درست ہوں ۔عبادات میں پانچوں عبادتوں کو صحیح طریقہ سے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ادا کیا جائے۔
دیانتدار تاجر کی فضیلت اور بددیانت تاجر کے متعلق وعید
تیسرا شعبہ،معاملات:دین کاتیسراشعبہ معاملات ہے یعنی خریدو فروخت کے معاملات ،روزی کمانے کے معاملات مثلاًتجارت،ملازمت ،مزدوری ،زراعت،کاشتکاری، اسی طرح انسان جتنے بھی معاملات کرتا ہے وہ شریعت کے دائرے میں ہوں او ر شریعت کے مطابق ہوں۔ اگرکوئی تجارت کر رہا ہے تواس کو سچا ہونا چاہیے۔ جھوٹ نہ بولے ،کوئی عیب نہ چھپائے۔کوئی عیب دار چیز بیچنا چاہتا ہے تو اب لوگوں کو اس کا عیب نہیں بتاتا۔رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کے متعلق سخت وعید بیان فرمائی کہ کوئی آدمی عیب دار چیز فروخت کرے اور خریدار کو اس کے عیب کے متعلق نہ بتائے ،یہ سخت گناہ ہے ۔رسول ِ کریم سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الْأَمِینُ معَ النبِّیِینَ والصِّدِّیقینَ والشہداء ِ . رَوَاہُ التِّرْمِذِیّ

سچا اور امانت دار تاجرآخرت میں انبیاء ،صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا ۔ سچے اور امانتدار تاجر کا اتنا بڑا درجہ بیان فرمایا ۔جبکہ دوسری طرف ارشاد فرمایا:

التُّجَّارُ یُحْشَرُونَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فُجَّارًا إِلَّا مَنِ اتَّقَی وَبَرَّ وَصَدَقَ.رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَابْن مَاجَہ (مشکاۃ المصابیح(۸۵۱/ ۲)

سارے تاجر قیامت کے دن فاسق اور فاجروں کے ساتھ جمع کیے جائیں گے سوائے اس تاجر کے جو اللہ سے ڈرے اور نیکی کا معاملہ کرے اور سچائی سے کام لے۔اب اگرکوئی تاجر دھوکہ دے رہا ہے،غلط بیانی کر رہا ہے ،ملاوٹ کر رہا ہے تو یہ ان تجار میں داخل ہے جن کے بارے میں فرمایا "یحشرون فجارًا”وہ آخرت میں فجار کے طور پر اٹھائے جائیں گے ۔اس لیے معاملات میں یہ جاننا ضروری ہے کہ کونسا معاملہ حرام ہے کونسا ناجائز ہے ۔آجکل جو تجارت کے معاملات چل رہے ہیں، ان میں بہت سے حرام معاملات جاری ہیں ۔سود لینا دینا ،رشوت لینا دینا،یہ سب انسان کی کمائی کو حرام کردیتے ہیں اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاانسان کے جسم کا وہ گوشت جو حرام کھانے کی وجہ سے پیدا ہواہو،وہ جہنم کا ایندھن ہوگا۔ اگر جھوٹ اور دھوکہ سے کوئی پیسہ کمایا یا رشوت دے کر کوئی پیسہ کمایا اوراس سے جسم کی جو نشوونما ہوئی ہے اوراس سے جسم میں جو بڑھوتری آئی ہے وہ جہنم کا ایندھن ہوگی، ـالعیاذ باللہ ـاتنے سخت احکام ہیں ۔لیکن لوگوں کو معلوم ہی نہیں ہے کہ کونسا معاملہ حرام ہے کونسا حلال ہے۔تاجر کے ذمہ فرض ہے کہ وہ تجارت کے اسلامی احکام کو جانے اور اس بات کا علم حاصل کرے کہ کونسا معاملہ حلا ل ہے اور کونسا حرام ہے۔
معاشرہ میں رہن سہن کے احکام کسی کے لئے تکلیف کا باعث نہ بنیں
چوتھاشعبہ،معاشرت:معاشرت کے معنیٰ یہ ہیں کہ انسان ایک دوسرے کے ساتھ رہتا ہے، زندگی گزارتا ہے،شوہر بیوی کے ساتھ زندگی گزارتا ہے،بیوی شوہر کے ساتھ زندگی گزارتی ہے اور اسی طرح بھائی بہن، باپ بیٹے ،دوست دوست ،بلکہ وہ اجنبی لوگ بھی جن کے ساتھ کبھی انسان کو واسطہ پیش آجائے جیسے سفر میں ہیں توہمسفر،ان سب کے ساتھ معاشرت کس طرح ہو ؟؟ہرایک ساتھ کس طرح زندگی گزاریں ؟ہرایک کے ساتھ کس طرح رہیں؟۔ اس کا بنیادی اصول اور سب سے بنیادی بات اس حدیث شریف میں بیان فرمائی گئی ہے جو آج آپ حضرات کو سنائی گئی ۔وہ یہ کہ یہ دیکھو کہ میری ذات سے کسی کو ادنیٰ تکلیف بھی نہ پہنچے۔چاہے وہ جسمانی تکلیف ہو جیسے کسی کو آپ نے بلاوجہ ماردیا، کوئی زخم لگادیا یہ جسمانی تکلیف ہے ۔یا ذہنی اور نفسیاتی تکلیف ہویعنی جو انسان کو شرمندہ کردے یا انسان کو بری محسوس ہو۔العیاذ باللہ ـمثلاًکسی کو گالی دے دی ۔رسول کریم سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :

سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُہُ کُفْرٌ.مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ(مشکاۃ المصابیح) (۱۳۵۶/ ۳)

کسی مسلمان کو گالی دینا فسوق ہے یعنی اس کے ذریعہ انسان فاسق ہوجاتا ہے۔کسی بُرے سے بُرے انسان کو بھی گالی نہ دو ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو فسوق قرار دیا ہے اور کسی مسلمان کے ساتھ قتال کرنا یعنی لڑائی کرنے کو کفر فرمایا ہے۔لہٰذا کسی کوادنیٰ تکلیف بھی نہ پہنچے ،جسمانی قسم کی تکلیف پہنچانا بھی حرام او ر کوئی ایسی تکلیف جس سے انسان کو بُرا لگے ،جیسے کسی کی غیبت کردی ،کسی پر بہتان لگادیا ،اور بلاتحقیق کے کسی پرالزام دھر دیا یہ بھی حرام ہے۔اور ـاللہ بچائے ـیہ ایسا حرام ہے جو صرف توبہ سے معاف نہیں ہوگا جب تک وہ شخص معاف نہ کرے جس کے اوپر بہتان لگایا گیا ہے۔
دو آدمی تیسرے آدمی کو چھوڑ کر ایک دوسرے کے ساتھ سرگوشی نہ کریں
شریعت نے تو دوسروں کو تکلیف سے بچانے کے لیے یہاں تک رعایت فرمائی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

لَا یَتَنَاجَی اثْنَانِ دُونَ الثَّالِثِ، فَإِنَّ ذَلِکَ یُحْزِنُہُ( سنن الترمذی )

یعنی اگر تین آدمی ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے ہیں اوران میں سے دو آدمی الگ ہوکر چپکے چپکے باتیں کریں اور ایک آدمی تنہا بیٹھا رہے اس سے منع فرمایا کہ جب تین آدمی بیٹھے ہیں تو دو آدمی بیٹھ کر کوئی بھی بات کررہے ہوں چاہے بات اچھی ہی کر رہے ہوں ،لیکن چونکہ سرگوشی کر رہے ہیں اورکسی کو اکیلا کردینااس کے لیے ایک نفسیاتی تکلیف کا باعث ہے کہ اس کو یہ تکلیف ہوگی کہ مجھے اکیلا چھوڑدیا اور خود آپس میں یہ باتیں کر رہے ہیں ،ہوسکتا ہے میرے خلاف باتیں کر رہے ہوں ،میرے خلاف سازش ہورہی ہو،اس کے ذہن میں یہ شبہات آسکتے ہیں اوراس کو اس سے اپنی بے عزتی محسوس ہوسکتی ہے ،شرمندگی ہوسکتی ہے ۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی منع فرمایا ۔اتنی باریک بینی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو تکلیف میں مبتلا کرنے سے منع فرمایا ہے۔نفسیاتی تکلیف بھی اس میں داخل ہے ،کسی کا مذاق اڑانا جس سے وہ اپنی توہین محسوس کرے،جس سے وہ یہ سمجھے کہ انہوں نے میرا مذاق اڑاکر مجھے ذلیل کیا ہے۔یہ ایذاء مسلم ہے جوکہ گناہِ کبیرہ ہے۔
مذاق کرنا سنت ہے اور مذاق اڑانا ناجائز ہے
یہ سمجھ لیجیے کہ مذاق کرنا اور بات ہے، مذاق اڑانا اور بات ہے۔مذاق کرنا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے۔ایسا مذاق جو دوستوں اور عزیزوں میں ہوتا ہے، جس سے کسی کو تکلیف نہیں پہنچتی، جیسے بے تکلف دوست ہیں آپس میں مذاق کر رہے ہیں اس کو منع نہیں فرمایا کیونکہ اس سے کسی کو تکلیف نہیں ہورہی،بلکہ بعض اوقات بے تکلف دوست آپس میں مذاق کرتے ہیں تو اس سے دوسروں کو خوشی ہوتی ہے،دل بہلتا ہے۔ایسا مذاق کرنا خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض اوقات اپنے صحابہ کرام سے مذاق بھی فرمایا ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق فرمانا
ایک صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے ،عرض کیا مجھے ایک اونٹ دیدیجیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم مجھ سے اونٹ مانگ رہے ہو میں تم کو اونٹنی کا بچہ دیدیتا ہوں۔کہنے لگے کہ نہیں مجھے تو اونٹ چاہیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا کے بندے جو اونٹ ہوگا وہ بھی تو کسی نہ کسی اونٹنی کا بچہ ہی ہوگا۔اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اتنا صاف ستھرا مذاق فرمایا کہ مذاق بھی ہوگیا اوراس میں کوئی غلط بات بھی نہیں ہوئی اور اس صحابی کو کوئی تکلیف بھی نہیں پہنچی۔
ایک بوڑھی خاتون آئیں ،عرض کیا یا رسول اللہ دعاکردیجیے اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں داخل کردے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی بوڑھی جنت میں نہیں جائے گی ۔وہ خاتون پریشان ہونے لگیں ،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی فرمایا کہ کوئی بوڑھی جنت میں نہیں جائے گی یعنی بوڑھے ہونے کی حالت میں نہیں جائے گی بلکہ جوان ہوکر جائے گی۔اب یہ اس قدر صاف ستھر ا مذاق ہے ور اس سے کسی کو کوئی تکلیف بھی نہیں پہنچ رہی، کسی کو اپنی توہین بھی محسوس نہیں ہورہی ۔یہ مذاق کرنا ہے جو نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
لیکن مذاق اڑانا یعنی ایسے الفاظ کسی کے لیے استعمال کرنا،ایسا انداز اختیارکرناکہ جس سے وہ بے چارہ اپنی ذلت محسوس کرے،اپنی بے عزتی محسو س کرے، یہ مذاق اڑانا ہے، جو حرام ہے۔کیونکہ اس سے دوسرے کو تکلیف پہنچ رہی ہے۔افسوس ہے کہ آجکل ہمارے معاشرے کے اندر ان احکام کو دین کا حصہ ہی نہیں سمجھا جارہا۔بڑے بڑے قائدانِ قوم،بڑے بڑے لیڈر جب آپس میں گفتگو کرتے ہیں ،ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہیں ،تو اس میں مذاق اڑانے کا انداز ہوتا ہے ۔ایسے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں کہ جن سے دوسرے کو تکلیف ہو۔اور ہمارا سوشل میڈیا تو بہتانوں سے، جھوٹ سے، الزامات سے،دوسرے کی توہین کرنے اوردوسرے کی تذلیل کرنے سے بھرا ہوا ہے۔ جو جتناگہرا مذاق اڑائے اتنا ہی اس کو بڑاہنر اور بڑا فن سمجھا جاتا ہے۔سمجھا جاتا ہے کہ اس نے دوسرے کی ہوا نکالدی،اس نے دوسرے کا تیا پانچا کردیا ۔حالانکہ یہ سب کچھ حرام ہے اور اس حرام سے ہمارا معاشرہ بھر چکاہے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرت کا جواصول بتایا وہ یہ ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان سے یا ہاتھ سے کسی مسلمان کو تکلیف نہ پہنچے ۔
حضراتِ فقہاء کرام رحمہم اللہ نے فرمایا کہ اس حدیث ِ مباکہ میں زبان اور ہاتھ کا ذکر اس لیے فرمایا کہ عام طور پر تکلیفیں اسی سے پہنچتی ہیں ۔یا زبان سے پہنچتی ہیں یا ہاتھ سے پہنچتی ہیں۔اس واسطے زبان اور ہاتھ کا ذکر فرمادیا ۔لیکن کسی بھی طرح تکلیف پہنچانا جائز نہیں ہے۔چاہے وہ زبان سے نہ ہو، ہاتھ سے نہ ہو،لیکن کسی اور طریقہ سے ہو مثلاًکسی کی اس طرح نقل اتارناکہ جس سے وہ اپنی توہین محسوس کرے ،اس میں اگرچہ زبان بھی استعمال نہیں ہورہی اور ہاتھ بھی استعمال نہیں ہورہالیکن چونکہ دوسرے کو تکلیف پہنچ رہی ہے اس لیے ایسا کرنا بھی ناجائز اور حرام ہے۔
غیر مسلم کو تکلیف پہنچانا
اس حدیثِ مبارکہ میں یہ فرمایا کہ اس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ غیر مسلم کے ساتھ یہ سارے کام جائزہیں۔کوئی غیر مسلم ہے تو اس کو آپ گالی بھی دو ،اس کو ناحق تکلیف پہنچادو،اس کو ناحق بُرا کہہ دو،یہ برتاؤ جس طرح مسلمان کے ساتھ جائز نہیں ہے اسی طرح کافر کے ساتھ بھی جائز نہیں ہے جو ہمارے ساتھ امن سے رہتا ہو۔ایک کفار تو وہ ہوتے ہیں جو ہمارے ساتھ برسرِجنگ ہیں جنہوں نے ہمارے ساتھ جنگ ٹھانی ہوئی ہے ان کا حکم اور ہے، لیکن وہ غیر مسلم جو ہمارے معاشرے میں رہتے ہیں ،ہمارے درمیان رہتے ہیں ،چاہے ہندو ہوں ، عیسائی ہوں یا یہودی ہوں،لیکن ہمارے درمیان امن کے ساتھ رہتے ہیں تو ان کا بھی حکم یہی ہے کہ ان کو بھی ناحق تکلیف پہنچانا بالکل ناجائز ہے۔
یہ بڑا اہم اور بنیادی اصول ہے جو نبی کریم سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا،جب کسی کے ساتھ کوئی معاملہ کرو ،جب کسی کے ساتھ رہنے سہنے کی نوبت آئے تویہ سوچتے رہو کہ میری زبان سے، میرے ہاتھ سے،میرے طرزِ عمل سے کسی کو ادنیٰ سی بھی تکلیف نہ پہنچے،اگر تکلیف پہنچ گئی تو نامہ ٔاعمال میں گناہِ کبیرہ کا اضافہ ہوگیا،اور ایسے گناہِ کبیرہ کا اضافہ ہوگیا جو صرف توبہ سے بھی معاف نہیں ہوگاجب تک کہ وہ صاحبِ حق معاف نہ کرے۔اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہم سب کو اس اصول پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ – جمادی الثانیہ 1442 ھ)