بیان: حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
حضرت مولانا ظفر احمد عثمانیؒ
ابھی حضرت مولانا محمد ادیس صاحب کاندھلوی رحمتہ اللہ علیہ کے سانحہ وفات کا زخم تازہ ہی تھا کہ آج حضرت مولانا ظفر احمد صاحب عثمانیؒ کے حادثہء ارتحال نے دلوں پر بجلی گرادی۔ آج کسی اور موضوع پر ادار یہ لکھنے کا ارادہ تھا، لیکن اس المنا ک خبر نے دل دماغ کو ہر دوسرے موضوع کے لئے بند کردیا۔
بر صغیر کے جن اہل علم واخلاص نے اس خطے کو ایمان و یقین اور دین کے علم صحیح سے جگمگا یا تھا اب وہ ایک ایک کرکے رخصت ہورہے ہیں، اور ہر جانے والا اپنے پیچھے ایسا مہیب خلا چھوڑ کر جارہا ہے جس کے پرُ ہونے کی کوئی امید نظر نہیں آئی۔ جہاں تک علم کے حروف ونقوش،کتابی معلومات اور فنی تحقیقات کا تعلق ہے ان کے شناوروں کی اب بھی زیادہ کمی نہیں، اور شاید آئندہ بھی نہ ہو۔ لیکن دین کا وہ ٹھیٹھ مزاج ومذاق اور تقویٰ وطہارت،سادگی وقناعت اور تواضع وللہیت کا وہ البیلاانداز جو کتابوں سے نہیں، بلکہ صرف اور صرف بزرگوں کی صحبت سے حاصل ہوتا ہے،اب مسلسل سمٹ رہا ہے اور اب اس خسارے کی تلانی کا کوئی راستہ نظر نہیںآتا۔
دیوبند،سہانپور اور تھانہ بھون کو اللہ تعالیٰ نے اس صدی میـں ان نورانی شخصیتوں کا مرکز بنایا تھا جنہوں نے اپنے علم وفضل،جہدد عمل، ورع وتقویٰ، سادگی وانکسار اور خثیت و انابت میں قرونِ اولیٰ کی یاد تازہ کردی تھی۔ انہوں نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ دین اور اس کے احکام کی اتنی جزُرسی اور احتیاط کے ساتھ پابندی اس چودھویں صدی میں بھی ممکن ہے، اور قرونِ اولیٰ مثالیں آج بھی زندہ کی جاسکتی ہیں۔
لیکن اب علم ودین کے ان مراکز سے فیض پانے والے رفتہ رفتہ کوچ کررہے ہیں اور کرب انگیز بات یہ ہے کہ جو دولت انہوں نے دیوبند، سہار نپور اور تھانہ بھون کے اکابر سے حاصل کی تھی وہ بھی انہی کے ساتھ رخصت ہورہی ہے۔ ان حضرات کے علم وفضل کے مداح اب بھی بہت ہوں گے، ان کے کارناموں سے علمی استفادہ بھی بند نہیں ہوگا لیکن ٹھیٹھ مزاج ومذاق اور اصلاح وعمل کی وہ دولت جو صرف انہی حضرات سے حاصل ہوسکتی تھی اسے حاصل کرنے والے نہ صرف کالعدم ہیںبلکہ اس کی طرف توجہ اور اس کی اہمیت کا احساس بھی مفقود ہے۔
شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد صاحب عثمانیؒ،حضرت علامہ سید سلیمان ندوی ؒ، حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنیؒ حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب ؒ، حضرت مولانا عبدالقادر صاحب رائے پوری ؒ، حضرت مولانا عبدالغنی صاحب پھول پوری ؒ، حضرت مولانا خیر محمد صاحب جالندھریؒ، حضرت مولانا بدر عالم صاحب میرٹھی ؒ، حضرت مولانا وصی اللہ صاحب الٰہ آبادی ؒ، حضرت مولانا محمد رسول خاں صاحب ہزارویؒ، حضرت مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلویؒ یہ سب حضرات وہ ہیں جن کے علم یا سیاست خوشہ چین تو کافی ملیں گے، لیکن ایسے افراد ڈھونڈے سے بھی ملنے مشکل ہیں جہنوں نے ان کے عملی کمالات کو جذب کیا ہو۔
حضرت مولانا ظفر احمد صاحب عثمانی رحمتہ اللہ علیہ اسی مقدس قافلے کے ایک رکن تھے آج وہ بھی ہم سے رخصت ہوئے۔ [ایت ]
حضرت مولانا ظفر احمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ کے بھانجے تھے، اور حضرت تھانویؒ نے بیٹے کی طرح ان کی تربیت کی تھی۔ انہوں نے دینی تعلیم کانپور اور مظاہر العلوم سہارنپور میں حاصل کی تھی جہاں انہیں حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپور رحمتہ اللہ علیہ کی طویل صحبت نصیب ہوئی۔ بعد میں انہوں نے متفرق اوقات میں مظاہر العلوم کے استاذِحدیث، خانقاہ تھانہ بھون کے مفتی اور مصنف اور مدرسہ عالیہ کے شیخ الحدیث کے حیثیت میں سالہا سال علمی اور تدریسی خدمات انجام دیں۔
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمتہ اللہ علیہ ہی کے حکم سے اور انہی کی سرپرستی میں انہوں نے ــــاعلاء السنن تالیف کی جو علم حدیث میں اس صدی کا شاید سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ یہ کتاب اٹھارہ ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے اور اس کے دو مبسوط مقدمے انھاء السکن اور انجاء الوطن اس کے علاوہ ہیں اس کتاب میں تمام فقہی ابواب سے متعلق احادیث نبویّہ کو جمع کرکے ان کی بے نظیر شرح لکھی گئی ہے جس نے اپنی تحقیق، وسعت معلومات اور وقّت نظر کے لحاظ سے پورے عالم اسلام سے اپنا لوہا منوایا ہے۔ افسوس ہے کہ اب اس کتاب کی ابتدائی جلدیں نایاب ہوچکی ہیں۔ اور جوحصے دستیاب ہیں ان کی بھی کتابت و طباعت شایان شان نہیں ہے۔ اب اس کتاب کے دوبارہ شائع ہونے کے امکانات نظر آرہے ہیں۔ اللہ تعالی اس کے اسباب مہیا فرمادیں۔
علم تفسیر میں حضرت مولانا ظفر احمد صاحبؒ کا بڑا کارنامہ احکام القرآن ہے۔ یہ کتاب بھی حکیم الامت حضرت تھانویؒ کے ایماء پر چار حضرات نے لکھنی شروع کی تھی۔
پہلی دو جلدیں جو سورہ فاتحہ سے سورہ نساء تک کی تفسیر پر مشتمل ہیں، حضرت مولانا ظفر احمد صاحبؒ کی لکھی ہیں۔ اور آخری جلد حضرت مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلویؒ نے۔ یہ حصے اگر چہ طبع ہوچکے ہیں،مگر ان کی کتابت وطباعت بھی انتہائی ناقص ہے اور سورہ نساء سے سورہ شعراء تک کا حصہ ابھی ناتمام ہے۔ پچھلے دنوں جب حضرت مولانا ظفر احمد صاحب عثمانیؒدارلعلوم تشریف لائے تو انہوں نے ذکر فرمایا تھا کہ میں سورہ نساء سے احکام القرآن کی تالیف کاآغاز کرچکا ہوں۔ خدا جانے یہ مسودہ کہاں تک پہنچ سکا ہوگا ؟ ؎۲
علم فقہ میں حضرت موصوفؒ کی عظیم یادگار ان کے فتاوی کا مجموعہ ’’امدادالاحکام‘‘ ہے۔ جب حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ نے فتوی لکھنا چھوڑدیا تھا تو خانقاہ تھانہ بھون میں آنے والے تمام سوالات کا جواب حضرت مولانا ظفر احمد صاحبؒ ہی
؎۱ اس کتاب کا ایک مقدمہ انھا السکن کراچی میں بھی طبع ہوچکا ہے اور اسی کو شام کے محقق عالم شیخ عبدالفتاح ابو غدہ مد ظلہم نے ـــــــــــــــــــــــــ قواعد فی علوم الحدیث کے نام سے اپنی گراں قدر تعلیقات کے ساتھ شائع کردیا ہے۔ دوسرا مقدمہ انجاء الوطن بھی ان کے پاس زیر طبع ہے ادھر اعلاء السنن کی جلد اول پر حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مد ظلم کی فرمائش کے مطابق مصنف علیہ الرحمتہ نے حال ہی میں نظرثانی کی ہے اس کے مسودہ پر آج کل راقم الحروف دتحقیق وتعلیق کررہا ہے اور انشاء اللہ یہ جلد ہی عنقریب ٹائپ کی عمدہ طباعت کے ساتھ دارالعلوم کراچی دارا لتصنیف سے شائع ہوجائے گی اللہ تعالی باقی جلدوں کی اشاعت کابھی انتظام فرمادے۔ آمین (م ت ع )
یہ کتاب عربی ٹائپ پر ادارۃ القرآن کراچی سے شائع ہوگئی ہے جس کے ۱۲ حصّے ۱۳ مجلّدات پر مشتمل ہیں۔ ناشر
بحمداللہ یہ بھی عربی ٹائپ پر ادارۃ القرآن سے ۵ جلدوں پر مشتمل چھپ چکا ہے۔ ناشر لکھا کرتے تھے۔ اس طرح ان کے لکھے ہوئے فتاوی کا ایک ضخیم مجموعہ تیار ہوگیا،جس کا انتخاب فرما کر حضرت تھانویؒ نے ہی اسکا کام ’’امداد الاحکام‘‘تجویز فرمایا تھا جسے امدادالفتاعی کا تتمہ کہنا چاہیے۔ اس کا مسودہ سات ضخیم رجسٹروں میں ہے ابتک یہ گرانقدر مجموعہ شائع نہیں ہوسکا تھا، اب حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مد ظلم کی نگرانی اور سر پرستی میں یہ کتاب دارالعلوم سے شائع ہورہی ہے، پہلی جلد کی کتابت مکمل ہوچکی ہے، اور امید ہے کہ وہ انشاء اللہ جلد یہ منظر عام پر آجائے گی۔ ؎۱
یہ علم تفسیر، علم حدیث اور علم فقہ میں حضرت مولاناؒ کے صرف تین نمایاں ترین کارناموں کا مختصر تعارف تھا۔ اس کے علاوہ بھی حضرت موصوفؒ نے مختلف دینی موضوعات پر عربی اور اردو میں وسیوں کتابیں یا مقالات لکھے ہیں لیکن اگر صرف مذکورہ بالا تین کاموں ہی کو دیکھا جائے تو بلاشبہ وہ ایسے کام ہیں جو آج کے دور میں بڑی بڑی اکیڈمیاں سالہا سال کی محنت اور لاکھوں روپے کے خرچ سے بھی انجام نہیں دے پاتیں۔ حضرت مولانا ؒ نے یہ سارے کام تن تنہا انجام دئیے۔
علمی خدمات کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا ظفر احمد صاحبؒ کی سیاسی اور اجتماعی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے ایماء پر انہوں نے قیام پاکستان کی تحریک میں سرگرم حصہ لیا۔ حضرت تھانویؒ نے قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم کے پا س مختلف علماء کے جو تبلیغی وفود بھیجے ان میں وہ بھی شامل تھے۔ شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی قدس اللہ سرہ نے قیام پاکستان کی جدوجہد کے لئے جو جماعت جمیعتہ علماء اسلام کے نام سے قائم فرمائی تھی ایک عرصہ تک وہ اس کے نائب صدر رہے اور ہندوستان کے طول و عرض میں پاکستان کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کیا۔ سلمٹ کے عوام سے پاکستان میں شمولیت کیئے جو ریفرنڈم کرایا گیا، اس میں پاکستان کی کامیابی بڑی حد تک وہ حضرات کے مرہون منت ہے ایک حضرت مولانا ظفر احمد صاحب عثمانیؒ اور دوسرے حضرت مولانا محمد سہول صاحب عثمانیؒ۔
مولانا کی انہی خدمات کا اثر تھا کہ جب پاکستان بنا اور اس سر زمین پر پہلی پارکستان کا بحمداللہ اس کی ۲ جلدیں بہترین کتابت پرمکتبہ دارالعلوم کراچی سے شائع ہوگئی ہیں۔ ناشر پرچم لہرانے کا وقت آیا تو قائد اعظم کی نگاہ انتخاب دو حضرات پر پڑی ایک شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد صاحب عثمانیؒ جنہوں نے مغربی پاکستان میں یہ جھنڈا لہرایا اور اس دوسرے حضرت مولانا ظفر احمد صاحب عثمانیؒ جن کے ہاتھوں سے مشرقی پاکستان میں یہ پرچم بلند ہوا۔
قیام پاکستان کے بعد اگر چہ انتخابی سیاست سے موصوف کا کوئی تعلق نہیں رہا، لیکن جب کبھی مسلمانوں کو کوئی اجتماعی ضرورت پیش آئی رتو مولانا ؒ ان لوگوں میں سر فہرست تھے جن کی طرف سب کی نگاہیں باتفاقی اٹھتی تھیں۔
عبادت و تقوی میں مولاناؒ نے حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوریؒ اور حکیم الامت حضرت تھانوی قدس اللہ سرہ جیسے حضرات کی صحبت اٹھائی تھی، ان کی عملی زندگی میں اس صحبت کا اثر نمایاں تھا۔ ہم جیسے طفلان مکتب نے انہیں ضعف اور کبرِ سنی کی حالت ہی میں دیکھا۔ لیکن اس عمر میں بھی ان کی ہمت وعزیمت اور ان کا جذبہ و حوصلہ ہم جوانوں کے لئے قابل رشک تھا۔ آخر وقت تک دارالعلوم اسلامیہ ٹنڈوالہ یا ر میں صحیح بخاری کا درس دیتے رہے اور پچاسی سال کی عمر میں ضعف وامراض کے ساتھ بھی نہ صرف پانچویں وقت کی نمازیں مسجد میں با جماعت ادا کرتے بلکہ ظہر و عصر کی نمازوں میں امامت بھی خود فرماتے تھے۔ احقر کو مشرقی پاکستان کے ایک دورے میں آپ کی رفاقت میسر ہوئی۔ ضعف و علالت کے باوجود عبادات کا اہتمام اور وعظ و تذکیر کا جذبہ ہر دم جوان معلوم ہوتا تھا۔
آخری بار دارالعلوم تشریف لائے تو اساتذہ دارالعلوم نے ان سے اجازت حدیث لی، اس وقت کمزوری کا یہ عالم تھا کہ موٹر میں بیٹھنے کے لئے بھی وہ آدمیوں کے سارے کی ضرورت تھی لیکن اسی مجلس میں’’ احکام القرآن‘‘ کی تکمیل کے لئے تضیفی کام شروع کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا اور کہا کہ جب مجھے مرض اور کمزوری کا زیادہ احساس ہونے لگتا ہے تو میں صحیح بخاری کا درس شروع کر دیتا ہوں اور اللہ تعالی اس کی برکت سے صحت و قوت عطا فرمادیتے ہیں۔
آخر وقت تک ڈاک کے جواب میں پابندی حیرت انگیز تھی، کبھی یاد نہیں ہے کہ والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مد ظلم نے یا احقر نے کوئی عریضہ لکھا ہے اور تیسرے چوتھے روز جواب نہ آگیا ہو۔
اعلاء السنن کی پہلی جلد’’ احیاء السنن ‘‘کے نا م سے چھپی تھی اور اس میں ایک ضرورت کی بناء پر ا’’لا ستر ک الحسن ‘‘کے نام سے ایک ضمیمہ کا اضافی کیا گیا تھا۔ ان مختلف ناموں اور سوال و جواب کے انداز کی بناء پر علماء کی بالمخصوص عالم عرب کے اہل علم کو بڑی الجھن پیش آتی تھی۔ احقر کے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مد ظلم نے خواہش ظاہر فرمائی کہ یہ جلد ایک مسلسل کتاب کی صورت اختیار کرے اور اس کا نام بھی’’ احیاء السنن‘‘ بجائے ’’اعلاء السنن ‘‘ہی ہوجائے تو اچھا ہو۔ یہ کا م کس قدر الجھا ہوا اور دیدہ ریزی کا طالب تھا اسکا اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جنہوں نے یہ کتاب دیکھی ہے لیکن حضرت مولانا عثمانیؒ نے اس پیرانہ سالی میں یہ پیچیدہ کام بھی مکمل فرمادیا۔ اب یہ کتاب دارالعلوم کے دارا تصنیف سے ٹائپ پر شائع ہونے والی ہے۔ تمنا تھی کہ یہ حضرت موصوف کی حیات ہی میں منظر عام پر آجائے لیکن تقدیر میں ہر کام ایک وقت مقرر ہے
حضرت مولاناؒ کے ساتھ موجودہ صدی کی ایک تاریخ رخصت ہوگئی وہ ان مقدس ہستیوں میں سے تھے جن کا صرف وجود بھی نہ جانے کتنے فتنوں کے لئے آڑبنا رہتا ہے۔ ان کی وفات پورے عالم اسلام کا سانحہ ہے اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے انہیں جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ہمیں ان کے فیوض سے مستفید ہونے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
(ماہنامہ البلاغ – )