کسی غیر کی بیوی سے نکاح کرنے کا حکم
سوال:- ایک آدمی نے اپنی چھوٹی لڑکی دُوسرے آدمی کے چھوٹے لڑکے کے ساتھ نکاح کرکے دے دی، اب ایک تیسرے مولوی صاحب نے خفیہ طور پر اپنے لئے نکاح پڑھوایا، اور اب وہ لڑکا لڑکی تیرہ اٹھارہ سال کے ہیں، اور مولوی صاحب نے اس لڑکی کو اپنے گھر میں رکھا ہے، اور لڑکا اپنی منکوحہ کو طلاق نہیں دیتا، اب سوال یہ ہے کہ مولوی صاحب کا نکاحِ ثانی صحیح ہوا یا غلط؟ اور نکاحِ اوّل صغر سنی کی وجہ سے لیکن دونوں کے ولیوں نے کروایا، صحیح ہوا یا نہیں؟
جواب:- پہلا نکاح صحیح ہوا، اور ثانی نکاح مولوی صاحب کا بالکل کالعدم ہے،(۱) اسے چاہئے کہ لڑکی فوراً شوہر کے پاس پہنچادے، اور جو شخص جان بوجھ کر دُوسرے کی بیوی کو اپنے پاس رکھے وہ فاسق ہے، لہٰذا مولوی صاحب کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ ہے جب تک علانیہ توبہ کا اعلان نہ کرے تب تک اس کو اِمام بنانا جائز نہیں۔
واللہ سبحانہ اعلم
الجواب صحیح
محمد عاشق الٰہی
احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ
۱۷؍۱۲؍۱۳۸۷ھ
(فتویٰ نمبر ۱۴۳۱/۱۸ الف)
——————————
(۱)فی التفسیر المظھری ج:۲ ص:۶۴ تحت قولہ تعالٰی: ’’والمحصنٰت من النسائ‘‘ عطف علٰی أمھاتکم یعنی حرمت علیکم المحصنٰت من النساء أی ذوات الأزواج لا یحل للغیر نکاحھن ما لم یمت زوجھا أو یطلقھا وتنقضی عدتھا من الوفاۃ أو الـطلاق۔ وفی الدر المختار ج:۳ ص:۲۸ أسباب التحریم أنواع، قرابۃ، مصاھرۃ، رضاع ۔۔۔۔ وتعلق حق الغیر بنکاح۔ وفی الھندیۃ کتاب النکاح الباب الثالث القسم السادس المحرّمات الّتی یتعلّق بھا حقّ الغیر ج:۱ ص:۲۸۰ (طبع ماجدیہ) لا یجوز للرجل أن یتزوج زوجۃ غیرہ وکذٰلک المعتدۃ۔