fatawa-usmani-2

پنشن کی رقم پر زکوٰۃ کا حکم

سوال:- میں ایک ملازم پیشہ شخص ہوں حال ہی میں اپنے محکمہ سے ریٹائرڈ ہوا ہوں، ریٹائرمنٹ پر مجھے حکومت کی طرف سے ۳۶۰۵۱روپے ملے میں نے وہ رقم گھر میں غیرمحفوظ سمجھ کر بینک میں جمع کرادی، میرا اپنا مکان نہیں ہے اور بسر آمدنی بھی اتنی نہیں ہے کہ خرچ پورا ہوسکے، تنگ دستی سے وقت بسر کرتا ہوں، یہ رقم میرے پاس آئے ہوئے صرف دو دن ہو ئے تھے کہ بینک والوں نے اس سے ۵۰/۹۰۲زکوٰۃ کے کاٹ لئے، شرعاً مجھ پر زکوٰۃ واجب ہے؟
جواب:- جس شخص کے پاس اپنی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کا نقد روپیہ یا زیور یا تجارتی سامان ہو اس کو صاحبِ نصاب کہتے ہیں، جو شخص سال بھر صاحبِ نصاب رہا ہو یا سال کے شروع اور آخر میں صاحبِ نصاب ہو اس پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے، جو شخص سال کے شروع میں صاحبِ نصاب ہو اگر سال کے دوران اس کے پاس کچھ نئی رقم اس نصاب کے علاوہ آجائے تو اس نئی رقم کی زکوٰۃ بھی سابقہ نصاب کے ساتھ ادا کرنی لازم ہوتی ہے، مذکورہ صورت میں آپ اس رقم کے آنے سے کم از کم ایک سال پہلے صاحبِ نصاب تھے یا نہیں، اگر صاحب نصاب تھے تو بینک میں جو زکوٰۃ وضع کی گئی وہ درست ہوگئی(۱) اور اگر مہینہ رمضان ۱۴۰۰ ھ کو آپ صاحبِ نصاب نہیں تھے اوراس رقم کے آنے کے بعد صاحبِ نصاب بنے تو پھر اس رقم سے زکوٰۃ وضع کرنا جائز نہیں، اب آپ درخواست دے کر اس رقم کی واپسی کا مطالبہ کرسکتے ہیں اور حکام پر واجب ہے کہ وہ یہ رقم واپس کریں۔

واﷲ سبحانہ اعلم
۲۹؍۱۰؍۱۴۰۱ھ
(فتویٰ نمبر ۱۶۳۴/۳۲ج)


(۱) وفی بدائع الصنائع کتاب الزکوٰۃ فصل وأما صفۃ الواجب فی أموال التجارۃ ج:۲ ص:۲۲ (ایچ ایم سعید) لأن الواجب الأصلی عندہما ہو ربع عشر العین، وانما لہ ولایۃ النقل الی القیمۃ یوم الأداء فیعتبر قیمتہا یوم الادائ، والصحیح ان ہذا مذہب جمیع اصحابنا ۔۔۔۔ الخ، نیز دیکھئے ص:۵۰ کا حاشیہ نمبر۲۔