منگنی کی شرعی حیثیت اور کیا منگنی توڑنا جائز ہے؟
سوال:- عرض یہ ہے کہ میرے والدین نے پانچ سال قبل میری منگنی اپنے بہت قریب ترین رشتہ داروں میں کی، اور تین سال سے میں ملک سے باہر سعودی عرب میں تھا، اور اب میں ملک واپس آیا ہوں، اور شادی بھی تیار ہے، لیکن میرے والدین اب عین وقت پر شادی کے حق میں نہیں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اگر تم نے اس جگہ شادی کی تو، تو ہمارا بیٹا نہیں رہے گا، جبکہ میں نے منانے کی بہت کوشش کی، معزّزین نے بھی بہت سمجھایا ہے، لیکن وہ نہیں مانتے، آخر میں مجبور ہوگیا، اب شریعتِ مطہرہ کی طرف رُجوع کرتا ہوں، اس رشتہ ٹوٹنے پر دو بھائیوں سے قطع تعلق ہوجائے گا، یعنی میرے والدین اور سسرال میں، میرا خیال ہے کہ میں شادی کرلوں اور والدین کے حقوق بھی ادا کرتا رہوں، اور باقی بھائیوں کی زیادہ خدمت کی ہے اور کرتا رہوں گا، جبکہ والدین اس رشتے کے توڑنے پر زیادتی کر رہے ہیں، کوئی خاص شرعی وجہ بھی نہیں ہے کہ جس پر رشتہ چھوڑ دوں، اب آپ مجھے یہ بتائیے کہ میں کیا کروں؟
جواب:- منگنی نکاح کا وعدہ ہے،(۱) اور جب تک کوئی معقول عذر پیش نہ آئے، اس وعدے کو پورا کرنا دیانۃً ضروری ہے،(۲) البتہ اگر کوئی معقول عذر پیش آجائے تو منگنی توڑی بھی جاسکتی ہے، اب اگر آپ کے والدین کسی معقول عذر کی بناء پر منگنی ختم کرنا چاہتے ہیں، تو آپ اس پر ٹھنڈے دِل سے غور کریں، اگر والدین کی بات معقول معلوم ہو اور کوئی عذر سامنے آجائے، تو آپ ان کے کہنے پر عمل کرتے ہوئے منگنی ختم کرسکتے ہیں، لیکن اگر والدین کسی معقول عذر کے بغیر منگنی ختم کرنے پر اصرار کر رہے ہیں، تو آپ کے لئے اس معاملے میں ان کی اطاعت واجب نہیں ہے، ان کو حتی الامکان راضی کرنے کی کوشش کرتے رہیں، اور نکاح کرلیں، لیکن یہ فیصلہ کرنے سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھیں کہ عموماً والدین اپنی اولاد کی بھلائی ہی کی بات سوچتے ہیں، لہٰذا ان کی بات کو سرسری طور پر نظرانداز نہ کرنا چاہئے۔
واللہ سبحانہ اعلم
۱۰؍۴؍۱۴۰۸ھ
(فتویٰ نمبر ۶۹۵/۳۹ ج)
——————————
(۱)وفی الدر المختار کتاب النکاح ج:۳ ص:۱۲ (طبع سعید) وان للوعد فوعد، وفی الشامیۃ ص:۱۱ لو قال ھل أعطیتنیھا فقال أعطیت ان کان المجلس للوعد فوعد وان کان للعقد فنکاح۔
(۲) وفی صحیح البخاری کتاب الإیمان باب علامۃ المنافق ج:۱ ص:۱۰ (طبع قدیمی کتب خانہ) عن أبی ھریرۃ رضی اﷲ عنہ عن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم قال: اٰیۃ المنافق ثلاث، اذا حدث کذب واذا وعد أخلف واذا اؤتمن خان۔۔