fatawa-usmani-2

زکوٰۃ میں قیمتِ خرید کا حساب ہے یا قیمتِ فروخت کا؟

سوال۱:- ہم اپنے حساب کتاب کی سہولت کے پیشِ نظر زکوٰۃ کا حساب ہر سال دسمبر کے مہینہ میں کرتے ہیں، لہٰذا اس وقت جو مال ہمارے پاس ہوتا ہے اس وقت مال کی قیمت بازار کے بھاؤ سے، قیمت خرید سے زیادہ ہوتی ہے اور کچھ کی کم، کیا ہم قیمت خرید کے حساب سے زکوٰۃ ادا کریں یا بازارکے بھاؤ کے حساب سے؟
جواب۱:- جس تاریخ میں زکوٰۃ کا سال پورا ہوتا ہے اس تاریخ میں مال کا جتنا اسٹاک موجود ہے اس کی قیمت اسی تاریخ کے بازار کے نرخ کے لحاظ سے لگائی جائے گی(۲)قیمتِ خرید کے لحاظ سے نہیں، البتہ زکوٰۃ کے لئے قمری مہینے کی کوئی تاریخ مقرّر کرنی ضروری ہے۔
سوال۲:- ہمارا ایک چھوٹا سا کارخانہ بھی ہے جس میں ہم کپڑا بناتے ہیں زکوٰۃ نکالتے وقت کارخانہ میں مندرجہ ذیل مال پڑے ہوتے ہیں ۱:-سوت، ۲:-خام کپڑا جو ہم نے بنایا ہے، ۳:-رنگین کپڑا جو خام کپڑے کو اپنے کارخانہ میں رنگا ہے، ۴:-تیار کپڑے کی گانٹھیں جو تیار پڑی ہوتی ہیںتاکہ جہاز سے باہر ملکوں کو روانہ کریں، ان پر زکوٰۃ کا کیا حکم ہے؟
جواب۲:- سوت، خام کپڑے، رنگین کپڑے اور تیار کپڑے میں سے ہر ایک پر زکوٰۃ واجب ہے اور ان میں سے ہر ایک چیز کی قیمت اس تاریخ کی بازاری قیمت کے لحاظ سے لگائی جائے گی، قیمت خرید کے اعتبار سے نہیں۔ (۱)
سوال۳:- کیا سوت پر زکوٰۃ قیمت خرید کے اعتبار سے ادا کریں یا وقت کی مارکیٹ قیمت پر۔ دوسرے۲ اور ۳ نمبر (یعنی خام کپڑا اور رنگین کپڑا) اس پر زکوٰۃ اپنی لاگت جو اس پر پڑی ہے اس پر ادا کریں یا اس قیمت پر جس پر ہم فروخت کریں گے؟ اس میں کچھ مال آرڈر کے ہوتے ہیں اورکچھ مال بغیر آرڈر کے تیار ویسے ہی ہوتے ہیں؟
جواب۳:- قیمت نہ لاگت کے لحاظ سے ہوگی نہ خوردہ نرخ کے لحاظ سے بلکہ یہ مال اگر آپ اس تاریخ میں اکٹھا فروخت کریں تو جتنی قیمتِ فروخت ہوسکتی ہو، وہ قیمت لگائی جائے گی۔(۲)
سوال۴:- تیسری بات یہ کہ ۴ نمبر (یعنی تیار کپڑے کی گانٹھوں) پر زکوٰۃ ہم اپنی لاگت پرادا کریں یا اس قیمت پر جس پر یہ مال جہاز پر روانہ ہوکر ہم کو گاہک سے رقم وصول ہوکر ملے گی، عموماً جہاز کے انتظار میں مال پڑا رہتا ہے؟
جواب۴:- اس کا جواب نمبر ۳ میں آچکا۔

واﷲ سبحانہ اعلم
۲۶؍۶؍۱۳۹۷ھ
(فتویٰ نمبر ۶۶۷/۲۸ب)