fatawa-usmani-2

دِین میں سیاست و اِقتدار کی حیثیت

اور شرعی مقام اور دِین کا اصل مقصد

سوال:- فضائل مآب حضرتِ اقدس مولانا مفتی محمد تقی عثمانی زید مجدہٗ
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
اُمید ہے کہ مزاجِ گرامی بخیر ہوں گے، ناچیز مادرِ علمی دارالعلوم دیوبند سے فاضلیت کے علاوہ شعبۂ اِفتاء سے فراغت حاصل کرکے عرصے سے وادیٔ کشمیر کی مشہور شخصیت علامہ کشمیریؒ کے ننھیال رودھوان کپواڑہ میں ایک مدرسے میں تدریس و اِفتاء کا کام انجام دے رہا ہے۔
میں اور میرے دُوسرے رُفقاء جو الحمدللہ دارالعلوم دیوبند سے ہی فراغت حاصل کرچکے ہیں، تدریس و اِفتاء کے علاوہ مختلف مصنّفین کی کتابوں کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں، الحمدللہ آپ کی تمام وہ کتابیں شوق و محبت سے پڑھی ہیں جو ہندوستان میں شائع ہوئی ہیں، اور اس کی وجہ سے بربناء محبت دست بوسی ہی نہیں بلکہ قدم بوسی کو دِل چاہتا ہے۔ عرصے سے خط لکھنے کا ارادہ تھا لیکن ’’عرفت ربّی بفسخ العزائم‘‘ کا بار بار تجربہ ہوا، پھر سالِ گزشتہ حضرت تھانویؒ پر سیمینار کے سلسلے میں جناب کی دیوبند تشریف آوری کا چرچا ہوا، لیکن عین وقت پر جناب کے پروگرام کے ملتوی ہونے کی اطلاع ملی، اس لئے ملاقات بھی نہ ہوسکی۔ دِل تو بہت کچھ لکھنے کو چاہ رہا ہے، لیکن طولِ کلام کو بے ادبی پر محمول کرتے ہوئے مختصراً اپنا مدّعا عرض کر رہا ہوں، اُمید ہے کہ حضرتِ والا اپنے بے حد قیمتی وقت کا خون کرکے جواب باصواب بلکہ وقت کے تقاضے کے مطابق پوری کتاب لکھ کر سرگرداں لوگوں کی تشویش اور پریشانی کو دُور فرمائیں۔
واقعہ یہ ہے کہ اس وقت اُمت میں دو بڑے قلم کار صاحبِ طرز اِنشاء پرداز کی فکر عوام و خواص میں دو مستقل متضاد ذہن بنائے ہوئے ہے، ایک صاحب نے دِین کی تعبیر میں مقصود کو تقاضا، اور تقاضے کو مقصود بناکر دِین کو اس انسان کی طرح جس کے پیر اُوپر اور سر نیچا ہو، عوام الناس کے سامنے پیش کیا، اور ایک اچھی خاصی بھیڑ اس نظریے پر جم گئی ہے۔ پھر اسی فکر کے ایک فعال شخص نے اس کے رَدّ میں ایک الگ اور مستقل فکر کی بنیاد ڈالی اور اپنے گمان کے مطابق وہ مقصود اور تقاضے کو اپنے اپنے مقام پر رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں، اور الحمدللہ دونوں حضرات کے لٹریچر کو کافی غور و خوض سے پڑھتے رہتے ہیں۔ جہاں تک اوّل الذکر فکر کا تعلق ہے، اس کے متعلق ہمارے اکابر مرحومین اور موجودحضرات نے بہت کچھ لکھا ہے، لیکن اصل فکر کے تعلق سے صرف دو حضرات، مولانا منظور نعمانی اور مولانا سیّد ابوالحسن ندوی، نے لکھا ہے۔ اپنے اکابر کی، اس رَدّ میں جتنی کتابیں زیرِ مطالعہ ہیں، اس سے اندازہ ہوا کہ وہ ثانی الذکر کی تعبیر سے متفق ہیں بلکہ ثانی الذکر کی ’’تعبیر کی غلطی‘‘ کا ذہن ہی ہمارے ناقص خیال کے مطابق ان میں کام کر رہا ہے، یہ بات الگ ہے کہ ثانی الذکر کے دیگر معاملات مسائل وغیرہ میں ہمارے اکابر کا ان سے اختلاف ہے، لیکن دِین کی تعبیر کی حد تک ہمارے اکابر ان سے متفق نظر آرہے جیسا کہ جناب کی تصنیفِ لطیف تکملۃ فتح الملہم کی یہ عبارت بھی اس پر دال ہے: ’’ولٰـکن بعض المسلمین الذین قاموا بالردّ علی العلمانیۃ فی عصرنا قد أفرطوا فی ذٰلک الخ‘‘۔ (تکملۃ فتح الملہم ج:۳ ص:۲۷۰)
لیکن معاملہ حل طلب یہ ہے کہ ثانی الذکر نے اپنی فکر کو اپنی کتاب ’’تعبیر کی غلطی‘‘ یا ’’الرسالہ‘‘ وغیرہ میں جس مدلل انداز میں پیش کیا ہے، کیا اُسے مکمل صحیح اور دُرست فکر قرار دیا جاسکتا ہے یا اِفراط میں مبتلا شخص کو دیکھ کر خود یہ صاحب تفریط میں مبتلا ہوگئے ہیں؟ ہم اپنے مطالعے کی حد تک اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایک ان میں سے اگر اِفراط کا شکار ہے تو دُوسرا یقینا تفریط میں مبتلا ہے، لیکن پریشان ُکن معاملہ یہ ہے کہ ان دو فکروں کے درمیان راہِ اِعتدال گم ہے جو تلاشِ بسیار کے باوجود نظر نہیں آرہا ہے، کافی کتابوں کا مطالعہ کیا لیکن تشنہ لبی باقی ہے، اور آخرکار تسکینِ خاطر کے لئے جناب کی خدمت میں باہم مشورے سے یہ رُقعہ ارسال کیا جارہا ہے۔
حال ہی میں ایک کتاب ’’دِین کا متوازی تصوّرِ عبادت اور خلافت کی جامعیت‘‘ مصنفہ ڈاکٹر محسن عثمانی ندوی زید مجدہٗ بہت آب و تاب خاص طور پر اپنے اکابر کی تقریظ اور تاثرات کے ساتھ شائع ہوئی تھی، بہت شوق سے اس کو منگایا، بے تابی سے اس کو پڑھا، لیکن راہِ اِعتدال تاہنوز گم ہے۔ بہت سے اہلِ علم سے گفتگو ہوئی، باہمی مذاکرہ بھی ہوتا رہتا ہے، لیکن اُلجھن اپنی جگہ باقی ہے۔
ممکن ہے کہ ہم اپنا مدعا واضح کرنے میں ان مختصر اَلفاظ میں اچھی طرح کامیاب نہ ہوئے ہوں، لیکن جناب جیسے صاحبِ علم سے اُمید قوی ہے کہ مدعا سمجھ گئے ہوں گے، مکرّر عرض ہے کہ ثانی الذکر کے دُوسرے دعاوِی سے اگرچہ اختلاف ہے، لیکن دِین کی ان کی بیان کردہ تعبیر سے ہمارا بلکہ اسلام کا کہاں تک اختلاف ہے؟ اور کہاں تک اتفاق؟ اور ان دو نظریوں کے درمیان راہِ اِعتدال کیا ہے؟ اس کی وضاحت ہم جناب کی ذاتِ اقدس سے جناب کے حکمت ریز قلم سے ہی چاہتے ہیں۔
اطلاعاً عرض ہے کہ یہ دو فکر اور ان کی ردّ و تصدیق میں جتنی کتابیں شائع ہوکر ہمارے علم میں آچکی ہیں، ان کا مطالعہ ہم کرچکے ہیں لیکن تشفی نہیں ہوئی۔ جناب کو معلوم ہی ہوگا کہ ان دو مختلف متضاد فکروں کا اثر عوام میں کہاں تک پہنچ چکا ہے اور اِعتدال کی راہ کی اگر آج نشاندہی ہوسکی تو آگے شاید کسی ایک کو غلبہ حاصل ہوگا جیسا کہ ثانی الذکر کے اِمکانات ہیں تو پھر یہ غالب نظریہ اپنی تمام خوبیوں اور خرابیوں کے ساتھ چھا جائے گا اور راہِ اِعتدال پر پھر ایسے دبیز پردے پڑیں گے، ان کے ہٹانے والے کو (جو یقینا خدا کی طرف سے آئے گا) کافی مشکلات کا سامنا ہوگا۔

فقط والسلام
مظفر حسین القاسمی
خادم التدریس والافتاء
دارالعلوم رودھوان، کپواڑہ کشمیر

جواب:- مکرمی جناب مولانا مظفر حسین قاسمی صاحب زید مجدہم
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
آپ کا گرامی نامہ ملا، سفروں کی وجہ سے جو تاخیر ہوئی اس پر معذرت خواہ ہوں۔ میں نے وحیدالدین خان صاحب کی کتاب ’’تعبیر کی غلطی‘‘ پوری نہیں پڑھی، البتہ حضرت مولانا علی میاں مدظلہم کی کتاب پوری پڑھی ہے، اور احقر کی رائے میں صحیح صورتِ حال وہ ہے جو احقر نے اپنی کتاب ’’حکیم الاُمتؒ کے سیاسی افکار‘‘ میں بیان کی ہے، اور اس کا خلاصہ تکملۂ فتح الملہم میں بھی آیا ہے۔ یعنی سیاست و اِقتدار، دِین کا اصل مقصد نہیں(۱) بلکہ مقصد کے حصول کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے، اور دِین کے اِجتماعی اَحکام کی تنفیذ کے لئے اس کی اہمیت بھی ناقابلِ انکار ہے، مگر دِین کے اصل مطمحِ نظر ہونے کی حیثیت سے نہیں، بلکہ ایک ذریعہ اور دِین کا ایک اہم شعبہ ہونے کی حیثیت سے۔ یہی راہِ اِعتدال ہے جو قرآن و سنت کے متعلقہ اَحکام سے واضح ہوتی ہے، اگر کوئی شخص اس کو مقصدِ دِین سمجھے تو وہ غلوّ کا شکار ہے، اور اگر کوئی اس کی تردید میں اس کے دِین کا حصہ ہونے ہی سے انکار کردے تو یہ بھی غلط اور دُوسری جانب کا غلوّ ہے۔ والسلام

واللہ سبحانہ اعلم
۴؍۱؍۱۴۲۰ھ
(فتویٰ نمبر ۴۸/۳۵۷)

——————————
(۱) وفی سورۃ الذّاریات : ’’وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ‘‘۔
وفی تفسیر القرطبی ج:۱۷ ص:۵۰ (طبع مکتبہ حقانیہ) ۔۔۔۔۔وقال علی رضی اﷲ عنہ أی وما خلقت الجن والانس اِلَّا لاٰمرھم بالعبادۃ واعتمد الزّجاج علیٰ ھٰذا الـقـول ویدلّ عـلـیہ قـولـہ تـعـالیٰ ’’وَمَـآ اُمِرُوْا اِلَّا لِیَعْبُدُوْا اِلٰـھًا وَّاحِدًا‘‘ (التوبۃ:۳۱) ۔۔۔۔۔۔ الَّا لیعرفونی الثعلبی، وھٰذا قول حسن لأنّہ لو لم یخلقھم لما عرف وجودہ وتوحیدہٗ ۔۔۔۔۔۔ والعبادۃ الطاعۃ والتعبد التنسّک فمعنٰی (لِیَعْبُدُوْنِ) لیذلوا ویخضعوا ویعبدوا۔
وفی تفسیر الکشاف ج:۴ ص:۴۰۸ (طبع قدیمی کتب خانہ) (وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ ۔۔۔۔ الآیۃ) أی وما خلقت الجن والانس الَّا لأجل العبادۃ ولم أرد من جمیعھم اِلَّا ایاھا۔
وفی تفسیر ابن کثیر ج:۴ ص:۲۳۸ (طبع قدیمی کتب خانہ) (وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ) أی انّما خلقتھم لامرھم بعبادتی لا لاحتیاجی الیھم ۔۔۔۔۔الخ۔
وفی التفسیر المنیر ج:۱۴ ص:۵۱ (طبع مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ) أی ما خلقت الثقلین الانس والجنّ الَّا للعبادۃ ولمعرفتی لا لاحتیاجی الیھم ۔۔۔۔۔۔الخ۔