جشنِ میلاد النبی ﷺ کی شرعی حیثیت
سوال:- کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ ایک جمعہ، مسجد میں یہ اعلان کردیا جائے کہ فلاں تاریخ کو جلسہ جشنِ عید میلاد ہوگا، اور بعد میں ایک آدمی کے کہنے پر فلاں مولوی اس مسجد میں تقریر کرنے نہ آئے، کیونکہ وہ میرے ساتھ ناراض ہے، پھر چند آدمی اس کا ساتھ دے کر جلسہ ملتوی کردینے کا اعلان کردیں، باقی عوام کا خیال نہ رکھیں۔ شریعت کی رُو سے مسئلہ حل کرکے ارسال کریں، والسلام۔
جواب:- جشنِ عید میلا کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے،(۳) البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکرِ مبارک اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کو سننے اور سنانے کے لئے کوئی مجلس کسی خاص دن یا تاریخ کی قید کے بغیر منعقد کی جائے تو دُرست ہے، بشرطیکہ اس کا مقصد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکرِ مبارک سے برکت حاصل کرنا اور سیرتِ طیبہ پر عمل کا جذبہ پیدا کرنا ہو، نام و نمود مقصود نہ ہو۔ صورتِ مسئولہ میں اگر محفل اسی غرض کے لئے منعقد کی گئی تھی تو ٹھیک تھی، لیکن اگر کسی مصلحت سے اسے ملتوی کردیا گیا تو اس میں بھی کوئی شرعی قباحت نہیں، مثلاً: یہ کہ کوئی عالم سیرت بیان کرنے کے لئے موجود نہ ہو یا کسی فتنے فساد کا اندیشہ ہو۔ ہاں! اگر کسی عذر کے بغیر جلسہ ملتوی کردیا گیا تو اس میں حاضرین کو خواہ مخواہ تکلیف پہنچانے کا گناہ ہوگا۔
واللہ اعلم
۱۳؍۶؍۱۴۰۰ھ
(فتویٰ نمبر ۳۱/۷۳۶ ج)