’’اجماع اور بابِ اجتہاد‘‘ نامی کتاب کا حکم، نیز اجماع کی حقیقت کیا ہے؟
سوال:- اسلام میں اجتہاد کا ’’دستوری ضابطہ‘‘ اور ائمۂ اربعہ کے اجتہاد کی ’’دستوری پوزیشن‘‘ محترم مفتی محمد شفیع صاحبؒ قرآنی آیت النساء (۴:۱۱۵) اور حدیث: ’’لا تجتمع ۔۔۔۔‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اجماع کا حق بحیثیت مجموعی ساری اُمتِ مسلمہ کو حاصل ہے نہ کہ اُمت کے کسی خاص طبقے یا گروہ کو۔
استدلال کے طور پر اس اَمر کو تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ خواہ مسئلہ زیرِ بحث کوئی بھی ہو، اگر اُمت کا سوادِ اعظم فقہاء کے اجماع کا مخالف ہو تو کوئی اجماع اصطلاحی معنوں میں پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا، لیکن یہ امکان ساری اسلامی تاریخ میں کبھی وقوع پذیر نہیں ہوا، بلکہ عملاً اس کا وقوع ناممکن بھی ہے، کیونکہ اجماع ایک اسلامی فن اور فقہی عمل ہے جس کے لئے اُمتِ مسلمہ کو ہمیشہ ان اہلِ علم پر اعتماد کرنا ہوگا جو اس شعبے میں ضروری قابلیت اور اختصاصی مہارت رکھتے ہیں۔
’’اجماع اور بابِ اجتہاد‘‘ (مصنف کمال فاروقی، ترجمہ مظہرالدین صدیقی صفحہ:۱۵) اس تفسیر کے تجزیے سے مندرجہ ذیل نتائج نکلتے ہیں:-
۱:- اُصولی طور پر اجماع کا حق تمام اُمتِ مسلمہ کو حاصل ہے، نہ کسی خاص طبقہ یا گروہ کو۔
۲:- لیکن چونکہ اجماع ایک فنی (Technical) اور فقہی عمل ہے، لہٰذا اس عمل کو مسلم معاشرے کا صرف فقہی اور عالم طبقہ ہی انجام دے سکتا ہے جو قرآن و سنت اور دیگر مآخذ سے فقہی اور قانونی تعبیرات اخذ کرنے کا ماہر ہے۔
۳:- چونکہ مسلم معاشرہ بحیثیت مجموعی نہ اس فن کا ماہر ہے، نہ یہ عمل انجام دے سکتا ہے، لہٰذا اُمتِ مسلمہ نے قانون سازی کا یہ حق و فرض طبقۂ علماء و فقہاء کو ’’تفویض‘‘ کردیا ہے۔
اس ’’طبقۂ ماہرین‘‘ کے انتخاب یا نامزدگی کا کوئی خصوصی طریقہ مسلم معاشرے میں متعین اور مروّج نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ خلافتِ راشدہ کے دور کے نظائر ایک مثال ضرور بن سکتے ہیں، لیکن حجت نہیں۔
۴:- لہٰذا طبقۂ علماء و فقہاء کی تعبیرات اور اجماع پر مسلم معاشرے کا اجماع ناگزیر (منطقی طور پر) اور واجب ہے۔
۵:- لیکن اس کے باوجود بھی اگر بالفرض اُمت کا سوادِ اعظم، فقہاء کے اجماع کا مخالف ہو تو کوئی اجماع اصطلاحی معنوں میں پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔
۶:- اسی طرح بالفرض اُمت کا سوادِ اعظم طبقۂ علماء و فقہاء کے برخلاف (یعنی علماء کے اجماع کے برخلاف) کسی تعبیر یا فیصلے پر متفق ہوجاتا ہے جسے علماء فقہاء کی تائید حاصل نہ ہو تو یہ اجماع بھی منعقد اور مکمل نہیں ہوگا، اور دونوں صورتوں میں نمبر۵ اور ۶ میں چونکہ اجماع منعقد یا مکمل نہیں ہوگا، لہٰذا حجت نہیں ہوگا۔
۷:- لہٰذا نمبر۵ اور ۶ کے تجزیے سے یہ ظاہر ہوا کہ طبقۂ علماء و فقہاء اور اُمتِ مسلمہ دونوں کو ’’قوّتِ تنفیذ‘‘ حاصل ہے، یعنی انہیں اپنے فیصلے کے نفاذ کا حق بھی حاصل ہونا ضروری ہے۔
(اگرچہ یہ حق صرف اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے جبکہ دونوں طبقے علماء اور سوادِ اعظم متفق ہوں)۔
اور دونوں طبقوں کی حیثیت مشاورتی کونسل کی ہرگز نہیں ہے جس کے فیصلے کو قبول یا مسترد کرنے کا اختیار ایک تیسرے اور حکمران طبقے کو حاصل ہو، جسے نہ اُمت نے منتخب کیا ہو، اور نہ نامزد کیا ہو، بلکہ صرف اس کے سیاسی غلبے کی وجہ سے مجبوراً قبول کیا ہو۔
۸:- لہٰذا قرآن و سنت کی دستوری تعبیر اور دستوری اجماع وہ ہوا جو اس وقت منعقد ہو جبکہ:-
۱:- اُمتِ مسلمہ کا منتخب یا نامزد طبقۂ علماء و فقہاء موجود ہو جس کی تعبیر اور رائے کو اُمت کی تائید سے قوّتِ نافذہ بھی حاصل ہو (جیسی کہ موجودہ لیجسلیٹو کو حاصل ہوتی ہے)۔
۲:- اُمتِ مسلمہ کو طبقۂ علماء و فقہاء کے اجماع کو قبول یا مسترد کرنے اور قبول کرنے کی صورت میں اس قبول شدہ اجماع کو نافذ کرنے کی قوّت بھی حاصل ہو۔
۳:- یعنی کسی حکمران کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنی یا کسی فردِ واحد کی (خواہ وہ امام ہی کیوں نہ ہو) یا کسی گروہِ فقہ کی رائے اور تعبیر کو اُمت کی مرضی کے خلاف اس پر نافذ کردے۔
۴:- لہٰذا دستوری اجماع وہی ہوگا جس میں مندرجہ بالا دونوں شرائط (نمبر۱، ۲) پائی جائیں، جس کی بہترین مثال خلافتِ راشدہ کے دور کے فیصلوں اور تعبیرات کی ہیں جن میں مندرجہ بالا دونوں شرائط پائی جاتی ہیں، اب ایک ایسے دور میں (مثلاً بنی اُمیہ اور بنی عباس کا دور اور پاکستان کا موجودہ دور بھی اس سے مختلف نہیں) جبکہ:-
الف ۱:- اُمت کی مرضی کے خلاف اور اسلام کے سیاسی نظام کے قطعی طور پر خلاف، محض غلبہ اور طاقت کی بناء پر ایک فرد، خاندان یا جماعت، ملک کے سیاسی نظام پر مکمل طور پر مسلط ہوچکی ہو۔ (یہاں مستفتی نے ایک حاشیہ بھی تحریر کیا ہے جو نیچے ملاحظہ فرمائیں۔ محمد زبیر عفی عنہ)۔(۱)
۲:- طبقۂ فقہاء و علماء موجود ہی نہ ہو یا اگر موجود ہو بھی تو:-
۱:- امامت کا منتخب شدہ یا نامزد شدہ نہ ہو۔
۲:- اگر اپنی علمی حیثیت اور سیرت و کردار کی بناء پر اُمت میں ایک مقام بھی رکھتا ہو تب بھی اس کے فیصلوں اور تعبیرات کو نفاذ کی قوّت حاصل نہ ہو۔
۳:- یا حکمران جماعت و خاندان کی حیثیت زیادہ ہو اور اس کی حیثیت صرف مشاورتی کونسل کی ہو، جس کے فیصلوں اور تعبیرات کو قبول اور مسترد کرنے کا اختیار حکمران، فرد یا خاندان کو حاصل ہو۔
۳:- اور اُمتِ مسلمہ کو کسی فیصلے یا اجماع کے قبول و مسترد کرنے اور نافذ کرنے کی قوّت حاصل نہ ہو۔
ب:- مندرجہ بالا صورت میں علماء و فقہاء کی ایک جماعت (جس کی علمی حیثیت اور سیرت و کردار کی بلندی مُسلَّم ہونے کے باوجود اُمت کے، غیرمنتخب شدہ یا غیر نامزد شدہ ہے) یا فردِ واحد، ذاتی طور پر اجتہاد کرتا ہے اور اس کے اجتہاد پر سوادِ اعظم یا سوادِ اعظم کا مختصر گروہ جمع ہوجاتا ہے۔
ج:- تو کیا یہ اجماع، اسلام کے سیاسی نظام کے دستوری ضابطے کے لحاظ سے (جس کی مثال خلافت علیٰ منہاج النبوۃ یعنی خلافتِ راشدہ ہے) دستوری ہے؟ (یعنی اس میں نکتہ نمبر۸ کی دونوں شرائط نمبر۱ و ۲ پائی جاتی ہیں؟)
د:- اگر یہ دستوری نہیں تو اس کی حیثیت عبوری ہے، اور جب اسلام کا سیاسی نظام خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کی بنیاد پر قائم ہوگا (جس میں وہ دونوں شرائط پائی جاتی ہیں جو نکتہ نمبر۸ میں بیان ہوئے ہیں) تو اس تعبیر اور اجتہاد کو اُمتِ مسلمہ اور طبقۂ علماء و فقہاء باضابطہ طور پر اختیار کرے گا تو ان کی حیثیت دستوری لحاظ سے مُسلَّم ہوجائے گی۔ ان شاء اللہ
ر:- لیکن اگر نکات الف، ب، ج، د، اور نکتہ نمبر۸ کے تمام نکات غلط ہیں یا اسلام کے سیاسی نظام کے لئے ضروری نہیں ہیں تو:-
۱:- گویا اسلام میں اجماع اور اجتہاد کا کوئی دستوری ضابطہ متعین نہیں ہے، اور
۲:- ہر وہ اجتہاد، اجماع حاصل کرلیتا ہے جس پر اُمت کا کوئی گروہ جمع ہوجائے۔
۳:- اجماع اور اجتہاد کے لئے علماء فقہاء اور اُمت کی قوّتِ تنفیذ ضروری نہیں ہے۔
۴:- مسلم معاشرے میں اجماع اور اجتہاد کی تاریخ اور قرآن و سنت کی فقہی تعبیرات کی تاریخ یہ ہے کہ ہر اجتہاد اور تعبیر علماء و فقہاء کا ذاتی اجتہاد ہے، جس پر بعد میں اُمت کا ایک گروہ یا طبقہ جمع ہوجاتا ہے۔ کیا مندرجہ بالا تجزیہ دُرست ہے؟
جواب:- السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
سب سے پہلے تو میں اس مکتوب کے جواب پر تأخیر کے لئے آپ سے تہِ دِل سے معذرت خواہ ہوں، لیکن میں جن مصروفیات میں ہمہ وقت گرفتار رہتا ہوں اگر آپ انہیں بچشمِ خود دیکھتے تو یقینا معذور قرار دیتے۔
آپ نے جو سوالات اُٹھائے ہیں وہ تشریح کے لئے کافی تفصیل چاہتے ہیں، تاہم چند نکات عرض کرتا ہوں، خدا کرے کہ وہ آپ کے کسی کام آسکیں۔
۱:- ’’اجماع اور بابِ اجتہاد‘‘ نامی کتاب جو کمال فاروقی صاحب کی تصنیف ہے، کوئی معتبر کتاب نہیں ہے، اور اس کتاب میں احقر کے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا نقطۂ نظر بیان کرنے میں بھی احتیاط سے کام نہیں لیا گیا، لہٰذا حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کوئی بات نقل کرنے کے لئے اس کا حوالہ مستند نہیں ہے۔
۲:- ’’اجماع‘‘ کے بارے میں اکثر مستند فقہاء کا موقف یہ ہے کہ وہ صرف ’’کسی زمانے کے تمام اہلِ اجتہاد علماء کے کسی شرعی مسئلے پر متفق ہوجانے‘‘ کو کہتے ہیں، یعنی اجماع دراصل صرف اہلِ اجتہاد علماء کے اتفاق کا نام ہے، عوام کا اختلاف و اتفاق اس میں معتبر نہیں، چنانچہ صدرالشریعہؒ اور علامہ تفتازانی ؒلکھتے ہیں:-
وفی الاصطلاح اتفاق المجتھدین من أمۃ محمد علیہ الصلٰوۃ والسلام فی عصر علٰی حکم شرعی ۔۔۔۔ وقید بالمجتھدین، اذ لا عبرۃ باتفاق العوام۔ (ملاحظہ ہو: التلویح مع التوضیح ج:۲ ص:۴۱ طبع مصر)۔(۳) ’’اجماع اصطلاحی طور پر اُمتِ محمدیہ علیٰ صاحبہا السلام کے مجتہدین کے کسی ایک زمانے میں کسی شرعی حکم پر متفق ہوجانے کا نام ہے۔ اور اس تعریف میں مجتہدین کی قید اس لئے لگائی گئی ہے کہ عوام کے متفق ہوجانے کا کوئی اعتبار نہیں۔‘‘
البتہ جن حضرات نے اجماع کی تعریف میں ’’اہلِ اجتہاد‘‘ کی قید نہیں لگائی جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ عام مسلمانوں کی رائے بھی اجماع میں مؤثر ہے، سو درحقیقت اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام کا فریضہ بھی یہ ہے کہ وہ مجتہدینِ اُمت کی پیروی کریں، اور عملاً ہوتا بھی یہ ہے کہ جب مجتہدین کا کسی مسئلے پر اتفاق ہوجاتا ہے تو وہ انہی کے قول پر عمل کرتے ہیں۔ چنانچہ تاریخِ اسلام میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ عام مسلمانوں نے مجتہدینِ اُمت کے کسی فیصلے سے اختلاف کیا ہو، لہٰذا جب مجتہدین کسی مسئلے پر اتفاق کرتے ہیں تو اُمت کے تمام افراد کا اتفاق خودبخود ہی ہوجاتا ہے۔ لہٰذا عملی اعتبار سے اسے ’’تمام مسلمانوں کا اجماع‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ غیر اہلِ اجتہاد کو مجتہدین کے اجماع کے خلاف کوئی راستہ اختیار کرنے کا حق حاصل ہے۔
۳:- ’’مجتہدینِ اُمت‘‘ کی تعیین تاریخِ اسلام میں کبھی بھی یہاں تک کہ خلافتِ راشدہ کے دور میں بھی ’’انتخاب‘‘ اور ’’نامزدگی‘‘ کے مروّجہ طریقوں سے نہیں ہوئی، بلکہ قبولیتِ عام سے اس کا فیصلہ ہوا ہے، جس طرح قدیم زمانے میں طبیب کے طبیب ہونے کے لئے کسی انتخاب یا نامزدگی کی ضرورت نہ تھی بلکہ قبولِ عام کی بنیاد پر اس کا فیصلہ ہوتا تھا، اسی طرح کسی کے مجتہد ہونے کا فیصلہ بھی اسی بنیاد پر کیا جاتا تھا اور اس میں کوئی عملی دُشواری نہ تھی۔ چنانچہ اگر کسی مسئلے میں کسی بھی عالم کا کوئی اختلاف نہیں تب تو اجماع کا تحقّق ثابت ہوگیا، اور اگر کسی کا اختلاف ہے تو صرف اس کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا ہوتا تھا کہ یہ شخص اَہلِ اجتہاد ہے یا نہیں؟ اور دُوسرے مجتہدین کی اکثریت کا فیصلہ اس بارے میں کافی تھا۔
مندرجہ بالا نکات ذہن میں آجائیں تو اس سے آپ کے بیشتر سوالات کا جواب خودبخود نکل آتا ہے، کیونکہ وہ اس تصوّر پر مبنی ہیں کہ اہلِ اجتہاد کے اجماع کے خلاف عام مسلمانوں کی رائے بھی مؤثر اور معتبر ہے، جس کی تردید نکتہ نمبر۲ میں احقر کرچکا ہے۔ ان تین نکات کی بنیاد پر اگر کوئی خلش باقی ہو تو وہ دوبارہ لکھ کر معلوم فرمالیں۔
واللہ سبحانہ اعلم
۱۷؍۶؍۱۳۹۷ھ
(فتویٰ نمبر ۲۸/۴۵۶ ب)
——————————
(۱) عزیز الفتاویٰ ص:۱۲۲، جیسا کہ امام مالکؒ نے خلیفہ منصور کی اس رائے کو مسترد کردیا تھا کہ تمام عالمِ اسلام کو امام کی کتاب پر جمع کردیا جائے، کیونکہ ظاہر ہے کہ یہ جمع کرنا خلیفہ کی سیاسی قوّت کی بناء پر ہوتا جو اُمت کے حق میں قبول و مسترد کو سلب کرتا ہوتا جسے امامؒ نے پسند نہیں کیا۔ امام صاحبؒ نے علماء و فقہاء کی ایک جماعت کے تعاون سے اور دیگر ائمہ نے انفرادی اجتہاد سے قرآن و سنت کی جو فقہی تعبیرات اور فیصلے کئے ہیں ان کی پوزیشن یہی ہے کہ یہ ایک جماعت کا یا فردِ واحد کا ذاتی اجتہاد ہے، اُمت کے منتخب شدہ یا نامزد شدہ طبقۂ علماء کا اجتہاد نہیں اس پر پوری اُمتِ مسلمہ نے بلکہ اُمت کے ایک بڑے گروپ اہلِ سنت والجماعت نے بلکہ اہلِ سنت کے مختصر گروہوں نے اجماع کیا ہے، اس سلسلے میں اہلِ سنت میں حنفی اکثریت میں ہیں اور مالکی، شافعی، حنبلی اقلیت میں۔
(۲) واضح رہے کہ یہاں سوال غلط یا صحیح اجتہاد کا قطعی نہیں ہے، دستوری و غیردستوری کا ہے۔ یہ اجتہادات و تعبیرات قرآن و سنت اور دیگر اُصولِ فقہیہ کے عین مطابق اور بالکل صحیح ہیں، اور اگر اسلام کا سیاسی نظام قائم ہوتا تب بھی اسی اجتہاد اور اسی تعبیر کو اُمت اسی طرح قبول کرتی جس طرح اب ہے، لیکن کسی چیز کا صحیح یا غلط ہونا اور چیز ہے، اور دستوری و غیردستوری ہونا دُوسری چیز۔ یہاں بھی سوال دستوری و غیردستوری کا ہے۔
(۳) توضیح تلویح ص:۴۹۴ (طبع نور محمد کتب خانہ کراچی)۔