سال گرہ کی حقیقت

کسی نے خوب کہا کہ:

ہورہی ہے عمر مثل برف کم
چپکے چپکے رفتہ رفتہ دم بدم

جس طرح برف ہر لمحے پگھلتی رہتی ہے، اسی طرح انسان کی عمر ہرلمحے پگھل رہی ہے اور جا رہی ہے، جب عمر کا ایک سال گزر جاتا ہے تو لوگ سالگرہ مناتے ہیں، اور اس میں اس بات کی بڑی خوشی مناتے ہیں کہ ہماری عمر کا ایک سال پورا ہوگیا، اوراس میں موم بتیاں جلاتے ہیں، اور کیک کاٹتے ہیں اور خدا جانے کیا کیا خرافات کرتے ہیں، اس پر اکبرالہ آبادی مرحوم نے بڑا حکیمانہ شعر کہا ہے، وہ یہ کہ: " عقدہ" بھی عربی میں " گرہ" کو کہتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گرہ میں زندگی کے جو برس دیے تھے، اس میں ایک اور کم ہو گیا، ارے! یہ رونے کی بات ہے یا خوشی کی بات ہے! یہ تو افسوس کرنے کا موقع ہے کہ تیری زندگی کا ایک سال اور کم ہو گیا۔ میرے والد ماجد قدس اللہ سرہ نے اپنی عمر کے تیس سال گزرنے کے بعد ساری عمر اس پر عمل فرمایا کہ جب عمر کے کچھ سال گزر جاتے تو ایک مرثیہ کہا کرتے تھے، عام طور پر لوگوں کے مرنے کے بعد ان کا مرثیہ کہا جاتا ہے لیکن میرے والد صاحب اپنا مرثیہ خود کہا کرتے تھے اور اس کا نام رکھتے "مرثیہ عمر رفتہ " یعنی گزری ہوئی عمر کا مرثیہ، اگر اللہ تعالیٰ ہمیں فہم عطا فرمائیں تب یہ بات سمجھ میں آئے کہ واقعہ یہی ہے کہ جو وقت گزر گیا، وہ اب واپس آنے والا نہیں، اس لیے اس پر خوشی منانے کا موقع نہیں ہے، بلکہ آئندہ کی فکر کرنے کا موقع ہے کہ بقیہ زندگی کا وقت کس طریقے سے کام میں لگ جائے، خلاصہ یہ نکلا کہ اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے کو غنیمت سمجھو، اور اس کو اللہ کے ذکر اور اس کی اطاعت میں صرف کرنے کی کوشش کرو، غفلت، بے پروائی اور وقت کی فضول خرچی سے بچو، کسی نے خوب کہا ہے کہ:

یہ کہاں کا فسانہ سود وزیاں
جو گیا سو گیا، جو ملا سو ملا
کہو دل سے کہ فرصت عمر ہے کم
جو دلا تو خدا ہی کی یاد دلا
﴿اصلاحی خطبات، ج ۴،ص۲١۵،۲۲۹﴾