fatawa-usmani-2

۱:- تعزیہ کے بوسے کو حجرِ اسود کے بوسے پر قیاس کرنا
۲:- مختلف مقامات میں قمری تقویم مختلف ہونے کی بناء پر لیلۃ القدر ہر مقام پر اپنے مطلع کے لحاظ سے ہوتی ہے

سوال:- ابھی ابھی لکھنؤ سے آئے ہوئے ایک شیعہ عالم جناب ڈاکٹر کلبِ صادق صاحب کا خطاب سننے کا اتفاق ہوا، دورانِ خطاب انہوں نے تعزیہ، علَم، مزار اور اسی طرح دیگر مراسم کے جواز کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ:-
نماز اگر چہاردیواری والے کعبہ کی سمت منہ کرکے پڑھی جائے تو یہ بھی غیرخدا کی تعظیم ہوگئی؟ حجرِ اسود کو اگر بوسہ دیا جائے، قرآن مجید کی تعظیم و توقیر ہو تو یہ بھی عینِ خدا نہیں ہیں، مگر ان کا ادب و احترام، بوسہ و تعظیم عین عبادت اور دین کا حصہ ہے، صرف اس لئے کہ ان کی نسبت خدا کے ساتھ ہے۔ اسی طرح اگر تعزیہ، علَم، ضریح اور اسی قبیل کی دُوسری چیزوں کا ادب و احترام کیا جاتا ہے تو یہ بھی اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اور ان کے تعلق سے کیا جاتا ہے، تو پھر یہ شرک اور گناہ کیونکر ہوسکتا ہے؟ یہ بھی عینِ دین ہے اور عبادت ہے۔
ان کی اس توجیہ نے دین میں ایک اِشکال پیدا کردیا ہے، اس سلسلے میں آپ رہنمائی فرمائیں۔
دُوسری گزارش لیلۃ القدر کے حوالے سے ہے۔ پاکستان میں قمری تقویم کی رُو سے لیلۃ القدر کی رات دُوسری ہوگی، سعودی عرب میں دُوسری ہوگی اور یورپ و امریکہ میں یہ رات مختلف ہوگی، تو کیا سال میں مختلف لیلۃ القدر ہوسکتی ہیں؟ اس حوالے سے بھی اپنا نقطۂ نظر بیان فرمائیں۔
جواب:-
محترمی و مکرمی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا خط ملا، لفافے پر میرا پتہ اور نام تھا، لیکن اندر خط جاوید الغامدی صاحب کے نام تھا، شاید آپ نے سوال دونوں کو بھیجا اور خطوط بدل گئے۔
بہرصورت! جواب درج ذیل ہے:-
تعزیہ، علَم اور ضریح کو بیت اللہ اور حجرِ اسود پر قیاس کرنا اس لئے بداہۃً غلط ہے کہ بیت اللہ کی طرف رُخ کرنے اور حجرِ اسود کی تقبیل کا حکم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحۃً عطا فرمایا ہے، یہی وجہ ہے کہ کعبہ کے کسی اور پتھر کو چومنا جائز نہیں۔ تعزیہ، علَم اور ضریح کے بارے میں کون سی نص ہے؟
بالفاظِ دیگر نماز میں رُخ کرنا یا بوسہ دینا اور کوئی تعظیمی عمل جو عبادت کے مشابہ ہو، انجام دینا اصلاً غیراللہ کے لئے حرام ہے، البتہ جہاں نصوص سے کسی غیراللہ کے لئے ثابت ہو، صرف اسی حد تک اجازت ہوگی۔ جہاں نص نہیں وہاں اصل حرمت کا حکم لوٹ آئے گا۔
لیلۃ القدر کی فضیلت ہر مقام پر اس کے اپنے مطلع کے لحاظ سے حاصل ہوتی ہے، لہٰذا الگ الگ راتوں میں اس فضیلت کا حصول ممکن ہے۔(۱)

واللہ اعلم
احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ
۲۰؍رمضان المبارک ۱۴۱۹ھ
(فتویٰ نمبر ۳۱/۳۴۶)

——————————
(۱) تفصیل کے لئے دیکھئے امداد الفتاویٰ ج:۶ ص:۱۲۹ (طبع مکتبہ دارالعلوم کراچی)، و تفسیر معارف القرآن ج:۸ ص:۷۹۴ (سورۃ القدر)۔