fatawa-usmani-2

اِعتکافِ مسنون میں مسجد سے باہر نکلنا

سوال:- بخدمت حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب۔
رسالہ ’’اَحکامِ اِعتکاف‘‘ کے صفحہ نمبر۳۹ میں آپ نے معتکف کے غسل کے ذیل میں لکھا ہے کہ: ’’معتکف کو غسلِ جمعہ یا برائے ٹھنڈک مسجد سے باہر جانے کی اجازت نہیں، لیکن مسجد کے اندر ٹب میں یا مسجد کے کنارے پر غسل کرسکتا ہے۔‘‘ اس میں ایک بات وضاحت طلب رہ گئی ہے کہ مساجد کے غسل خانے جو کہ حدودِ مسجد سے باہر ہوتے ہیں، کیونکہ وہ تعینِ حدودِ مسجد کے وقت نماز کے لئے نہیں بلکہ غسل، استنجاء کے لئے بنائے جاتے ہیں، اور حدودِ مسجد وہی ہے جو تعینِ حدود کے وقت نماز کے لئے متعین کی جائے، جیسا کہ آپ نے ’’حدودِ مسجد کا مطلب‘‘ کے ذیل میں بحث کی ہے۔ اب مسئلہ باعثِ نزاع یہ ہے کہ مسجد کے غسل خانے جو اگرچہ حدودِ مسجد سے باہر ہوتے ہیں لیکن ملکیتِ مسجد اور احاطۂ مسجد میں شامل ہوتے ہیں، ان میں غسل برائے ٹھنڈک یا غسلِ جمعہ کی اجازت ہے یا نہیں؟ براہِ کرم اس کی وضاحت فرمائیں۔
جواب:- مکرمی و محترمی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ کا گرامی نامہ ملا، ’’اَحکامِ اِعتکاف‘‘ میں جو مسئلہ لکھا ہے، اس کا حاصل یہی ہے کہ مسجد کے ملحق غسل خانے جو مسجد میں نہیں ہوتے، لیکن مسجد کی ملکیت ہوتے ہیں، ان میں بھی غسلِ جمعہ یا ٹھنڈک کے لئے غسل کی خاطر جانا، اِعتکافِ مسنون میں جائز نہیں،(۱) لہٰذا جائز طریقے پر غسل کی صورت وہی ہے کہ مسجد میں ٹب رکھ کر اس میں غسل کریں یا مسجد کے کنارے پر اس طرح بیٹھیں کہ مستعمل پانی مسجد میں نہ گرے۔(۲)
جہاں تک اس مسئلے کی دلیل کا تعلق ہے، وہ ’’اَحکامِ اِعتکاف‘‘ کے ضمیمے میں لکھ دی گئی ہے،(۳) اس کا مطالعہ فرمالیں۔
واضح رہے کہ آج کل بعض علماء نے غسلِ جمعہ کے لئے مسجد سے نکلنے کو جائز قرار دیا ہے، لیکن اس کی کوئی اطمینان بخش دلیل احقر کو اب تک نہیں ملی۔ اور جو دلائل پیش کئے جاتے ہیں ان سے اطمینان نہیں ہوتا، اور فقہائے کرامؒ کے درمیان مشہور اور مُسلَّم مسئلہ وہی ہے جو احقر نے ’’اَحکامِ اِعتکاف‘‘ میں لکھا ہے۔ واﷲ سبحانہ اعلم
۲۷؍۸؍۱۴۰۵ھ
(فتویٰ نمبر ۱۴۷۶/۳۵د)