fatawa-usmani-2

مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھنے کا حکم

سوال:- آدم جی نگر کی مکہ مسجد کو تعمیر ہوئے ۱۵ سال تقریباً ہوگئے، تب سے جنازے کی نماز مسجد کے میدان میں ہوا کرتی تھی، امام صاحب کی امامت کے آخری ایام میں محراب کے بیچ میں کھڑکی توڑ کر دروازہ بنادیا گیا اور محراب کے باہر چار فٹ اُونچا چبوترہ بنایا گیا، اب چبوترے پر جنازہ رکھ دیا جاتا ہے اور محراب کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے، جنازہ کی نماز مسجد میں پڑھی جاتی ہے، نئے امام صاحب نے جنازے کی نماز کا یہ طریقہ بند کردیا ہے اور پہلے کی طرح نماز کھلے میدان میں ہونے لگی ہے، مولانا مفتی محمد اسماعیل صاحب نے گجراتی کتاب میں جو فتویٰ کی کتاب ہے، لکھا ہے کہ جنازے کی نماز کسی حالت میں مسجد میں پڑھنا مذہبِ حنفی میں مکروہِ تحریمی ہے۔ اب کون سا طریقہ دُرست تھا؟ بہشتی گوہر میں مسئلہ کیا لکھا ہے؟ اور کہا جاتا ہے کہ حرمین میں مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھی جاتی ہے، آپ واضح فرمائیں کیا حکم ہے؟
جواب:- میّت کو محراب سے باہر رکھ کر اگر نمازِ جنازہ مسجد کے اندر پڑھی جائے تو راجح قول کے مطابق یہ صورت بھی مکروہ ہے، البتہ آس پاس نمازِ جنازہ پڑھنے کے لئے کوئی اور جگہ نہ ہو تو مجبوراً فقہاء نے اس کی اجازت دی ہے، لیکن چونکہ صورتِ مسئولہ میں مسجد کے ساتھ مسجد ہی کا کھلا میدان موجود ہے اس لئے جس مسجد کے بارے میں سوال ہے وہاں مسجد کے اندر بلاعذر نماز پڑھنا مکروہ ہے، نئے امام صاحب کا طریقہ دُرست ہے جو نمازِ جنازہ کھلے میدان میں پڑھاتے ہیں، ایسا ہی کرنا چاہئے، لما فی الدر المختار: واختلف فی الخارجۃ عن المسجد وحدہ أو مع بعض القوم والمختار الکراھۃ مطلقًا خلاصۃ ۔۔۔۔ وھو الموافق لاطلاق حدیث أبی داوٗد من صلّی علٰی میّت فی المسجد فلا صلٰوۃ لہ، (وقال الشامیؒ انما تکرہ فی المسجد بلا عذر فان کان فلا، شامی)۔(۱)
بہشتی گوہر،(۲) امداد الفتاو(۳)یٰ وغیرہ سب میں مسئلہ اسی طرح ہے، اور جب مسجد کے ساتھ کھلی جگہ موجود ہے تو مکروہِ تحریمی، مکروہِ تنزیہی کی بحث میں نہیں پڑنا چاہئے، باہر ہی نماز پڑھنی چاہئے۔ حرمین شریفین کے امام صاحب، مذہب میں حنبلی ہیں، اور حنبلی مذہب کے اندر مسجد میں نمازِ جنازہ جائز ہے۔(۴)

واللہ سبحانہ اعلم
۲۰؍۶؍۱۳۹۷ھ
(فتویٰ نمبر ۶۴۳/۲۸ ب)

(۱) الدر المختار مع رد المحتار ج:۲ ص:۲۲۵، ۲۲۶ (طبع سعید)۔
(۲) بہشتی گوہر ص:۹۴ مسئلہ نمبر۱۷ (طبع میر محمد کتب خانہ)۔
(۳) امداد الفتاویٰ ج:۱ ص:۵۳۳، ۵۳۴۔
(۴) وفی المغنی لابن قدامۃ مع الشرح الکبیر ج:۲ ص:۳۵۸ (طبع دار الکتاب العربی بیروت) ولا بأس بالصلٰوۃ علی المیّت فی المسجد اذا لم یخف تلویثہ ۔۔۔۔ الخ۔