fatawa-usmani-2

حسابات کی بنیاد پر قمری مہینوں کا تعین کرنا کیسا ہے؟

سوال:- ایک ضروری علمی سوال جو آپ کی خصوصی تو جہ کا مستحق ہے۔ زید کہتا ہے کہ عرب ممالک میں رؤیتِ ہلال نظری و بصری ضروری قرار نہیں دی جاتی بلکہ علمِ ہیئت و نجوم کی رُو سے جس دن قرانِ شمس و قمر ہوتا ہے یعنی ایک درجہ فلک پر شمس و قمر کا اجتماع ہوتا ہے اسی دن کو بشرطیکہ قران قبل دوپہر ہو، چاند کی پہلی شمار کی جاتی ہے، زید نے اس کی چھا ن بین کئی بار کی ہے ضروری خیال فرمائیں تو آپ بھی اس کی تحقیق فرمائیں۔
مثلاًآئندہ ماہ یعنی محرم کا چاند انگریزی تاریخ کی ۱۰/۱۱ نومبر قبل دوپہر قرانِ شمس و قمر ہے لہٰذا پہلی ذی الحجہ ۱۳۹۷ھ شمار ہوگی، حالانکہ رؤیت کا قانون یہ ہے کہ اجتماعِ شمس و قمر کم از کم بیس گھنٹے کے بعد چاند بصورتِ ہلال شفق غربی پر نظر آیا کرتا ہے کیونکہ اس وقت وہ سورج سے دس بارہ درجہ دور آگے نکل جاتا ہے اور تحت الشعاع نہ ہونے کے سبب نظر آجاتا ہے قبل ازیں وہ سورج کے تحت الشعاع ہوتا ہے اور نظر آنا اس کا ممکن نہیں ہوتا، اگر گرہن شمسی کا وقت بھی اجتماعِ شمس کا ہی ہوتا ہے ایسے وقت میں زمین پر سورج کی روشنی بوجہ اس کے کہ سورج کے سامنے چاند آجاتا ہے اہلِ زمین کو نہیں ملتی اور ہم اسے گہنایا ہوا دیکھتے ہیں، علمِ ہیئت میں اس کو نیا چاند کہتے ہیں یعنی اس کے بعد چاند سورج سے آگے نکلنا اور بڑا ہونا شروع ہوجاتا ہے حتیٰ کہ وقتِ گرہن سے کم و بیش ۲۴ گھنٹے بعد ہلال نظر آتا ہے اسی کو رُؤیتِ ہلال کہتے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ جب عرب ممالک میں رُؤیتِ ہلال کے بجائے نیا چاند بروئے علمِ ہیئت بنیاد قرار پایا تو کیا اس کی شرعاً گنجائش ہے؟
جواب:- سعودی عرب اور مصر کے بارے میں ہم کو تحقیق سے معلوم ہے کہ وہاں حسابات پر مدار نہیں بلکہ ہلال کی رُؤیت پر ہے اور یہی طریقہ شرعاً دُرست ہے، حسابات کی بناء پر قمری مہینوں کا تعین شرعاً دُرست نہیں، اس کی تفصیل مفتیٔ اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب قدس سرہٗ کے رسالہ ’’رُؤیتِ ہلال‘‘ میں درج ہے، اسے ملاحظہ فرمایا جائے۔ واﷲ سبحانہ اعلم
۱؍۱۰؍۱۳۹۹ھ
(فتویٰ نمبر ۱۶۸۸/۳۰د)