fatawa-usmani-2

بغیر سترہ کے نمازی کے آگے سے گزرنے کی تفصیل

سوال:- نمازی کے سامنے سے گزرنے کی جیسا کہ حدیث شریف میں سخت ممانعت آئی ہے، حسبِ ذیل صورتوں میں گزرنے والے کے لئے کیا حکم ہے؟
الف:- اگر نمازی بحالتِ قیام یا قومہ سجدہ گاہ پر نظر کئے ہوئے ہے تو ضرورت مند کتنا فاصلہ چھوڑ کر گزرے؟
ب:- اگر اس کی نظر بحالتِ مذکورہ سجدہ گاہ سے آگے پڑ رہی ہو؟
ج:- اگر نمازی رُکوع یا سجدے میں ہے؟
د:- اس مسئلے میں چھوٹی اور بڑی مسجد کا الگ الگ کیا حکم ہے؟ اور کم از کم کتنی بڑی مسجد کو ’’مسجدِ کبیر‘‘ کہا جائے گا؟
جواب:- الف:- اگر مسجد چھوٹی سی ہے تو نمازی کے آگے سے بغیر سترہ کے بالکل نہیں گزرنا چا ہئے، اور اگر مسجد بڑی ہے یا
ب،ج:- کھلی جگہ میں نماز پڑھ رہا ہے تو اتنے آگے سے گزرنا جائز ہے کہ اگر نماز پڑھنے والا سجدے کی جگہ نظر رکھے تو اسے گزرنے والا نظر نہ آتا ہو، جو تقریباً سجدے کی جگہ سے دو گز کے فاصلے تک ہوتا ہے۔ رُکوع، سجدہ، قیام، قومہ سب کا ایک ہی حکم ہے۔ اور قیام کی حالت میں اگر نماز پڑھنے والا سجدے کی جگہ سے آگے دیکھ رہا ہو تب بھی گزرنے کے لئے فاصلہ اتنا ہی معتبر ہوگا جو اُوپر بیان کیا گیا۔ لما فی رد المحتار: ومقابلہ ما صححہ التمرتاشی وصاحب البدائع واختارہ فخر الاسلام ورجحہ فی النھایۃ والفتح أنہ قدر ما یقع بصرہ علی المار لو صلّی بخشوع أی رامیا ببصرہ الی موضع سجودہ۔ (شامی)۔(۱)
د:- تقریباً چالیس ہاتھ سے کم رقبے کی مسجد ’’چھوٹی‘‘ کہلائے گی، اور اس سے زائد بڑی۔ قال الشامیؒ: قولہ ومسجد صغیر ھو أقل من ستین ذراعًا، وقیل: من أربعین، وھو المختار کما أشار الیہ فی الجواھر۔ (قھستانی، شامی)۔(۲) واللہ سبحانہ اعلم

(۱، ۲) وفی الھندیۃ ج:۱ ص:۷۹ (طبع مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ) وان کان لا یمکن الفصل بین الحرفین الا بمشقۃ کالظا مع الضاد ۔۔۔۔ اختلف المشائخ، قال أکثرھم لا تفسد صلاتہ، ھٰکذا فی فتاویٰ قاضی خان وکثیر من المشائخ أفتوا بہ۔ نیز ضؔ کے مخرج سے متعلق تفصیل کے لئے مفتیٔ اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ کا رسالہ ’’رفع التضاد عن حکم الضاد‘‘ جواہر الفقہ ج:۱ ص:۳۲۵ ملاحظہ فرمائیں۔