fatawa-usmani-2

اجتہاد کی شرائط اور موجودہ دور میں کسی کو مجتہد قرار دینا

سوال:- پندرہ روزہ ’’قافلہ‘‘ میں ایک مضمون ’’دیوبندی بریلوی اختلاف کا پسِ منظر، اصلاحی تحریک (از صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی)‘‘ نظر سے گزرا۔ کچھ اُمور جو حضرت سیّد احمد بریلویؒ اور ان کے رفقاء کی طرف منسوب کئے گئے ہیں وہ صحیح اور غلط کا ملغوبہ محسوس ہوتے ہیں، اور ذہنی پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔ چونکہ یہ ناچیز دیوبند مسلک، تھانوی مشرب کا حامل ہے، اس لئے ان میں سے چند تحریروں کی نشاندہی کرکے حقیقتِ حال سے نقاب کشائی کا طالب ہے۔ اس مضمون کی یہ پہلی قسط رسالے میں شائع ہوئی ہے، لہٰذا مضمون ابھی جاری ہے، اس لئے مجھے اجازت دی جائے اس سوال اور آپ کے جواب کو بھی پندرہ روزہ ’’قافلہ‘‘ میں برائے اشاعت پیش کردوں تاکہ عامۃ المسلمین غلط فہمی سے غلط عقائد کو علمائے حق کی طرف منسوب سمجھ کر اہلِ حق سے مستفید ہونے سے محروم نہ رہیں بفضلہ تعالیٰ ان میں سے ایک بات یہ لکھی ہے کہ:-
’’اجتہاد‘‘ یہ ایک ایسا حق ہے جو ہر صاحبِ علم و بصیرت مسلمان کو حاصل ہے۔ یہ اجتہاد کسی خاص شخصیت اور خاص زمانے تک محدود نہیں بلکہ تاقیامت جاری رہے گا۔ وہابی تحریک کے ہم نوا اندھی تقلید کے حامیوں پر نکتہ چینی کرتے تھے، اس کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ وہ ائمہ اربعہ امامِ اعظمؒ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ، امام مالکؒ کا احترام نہیں کرتے تھے، اور ان کے اجتہاد پر انہیں اعتماد نہیں تھا، کیونکہ اصل وہابی تحریک کے مؤسسِ اوّل شیخ محمد بن عبدالوہاب خود حنبلی مسلک رکھتے تھے اور مقلد تھے۔
جواب:- ’’اجتہاد‘‘ کی حقیقت یہ ہے کہ وہ بے شک اس لحاظ سے کسی زمانے کے ساتھ خاص نہیں ہے کہ اس کے بعد کسی زمانے میں پایا جانا عقلاً ناممکن ہو بلکہ وہ ایک ملکہ ہے جس کے پائے جانے کے لئے علم کی کچھ خاص شرائط ہیں، جو اُصولِ فقہ کی کتابوں میں مفصل مذکور ہیں۔ یہ شرائط پہلے زمانوں میں بکثرت پائی جاتی تھیں، اب عام طور سے ان شرائط کا آدمی نہیں ملتا، اس لئے اس دور میں کسی کو مجتہدِ مطلق قرار نہیں دیا گیا، البتہ اجتہاد کی کچھ خاص اقسام مثلاً اجتہاد فی المسائل کے لئے شرائط نسبۃً نرم ہیں اور آخری زمانوں میں اس کے حامل علماء ہوتے ہیں۔ مسئلہ تفصیل طلب ہے، ضرورت ہو تو حکیم الاُمت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کا رسالہ ’’الاقتصاد فی التقلید والاجتھاد‘‘ اور احقر کا رسالہ ’’تقلید کی شرعی حیثیت‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔

واللہ اعلم
۱؍۱۰؍۱۳۹۹ھ
(فتویٰ نمبر ۳۰/۱۶۸۱ د)