یادیں (گیارہویں قسط)
حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی
یادیں
(گیارہویں قسط )
شعرو ادب سے مناسبت کا آغاز
حضرت مولانا سحبان محمود صاحب، قدس سرہ ،نے ان اسباق کی تعلیم کے ساتھ شعروادب کا ذوق بھی اُسی زمانے سے میری گھٹی میں ڈال دیاتھا۔ حضرتؒ بذات خود بہترین شعر کہتے تھے ، اور درس کے دوران اپنے پسندیدہ اشعارنہ صرف سناتے، بلکہ ا ن کی ادبی لطافتوں پر اس طرح بات کرتے کہ شعر کا صحیح مطلب سمجھ میں آتا ،اور اُس کا لطف محسوس ہوتا تھا۔پھر ایک موقع پر انہوں نے یہ سلسلہ بھی شروع کیا کہ ایک مصرع طرح دیدیتے، اور ہم سے کہتے کہ اس پر شعر کہو۔چنانچہ ہم اپنی بساط کے مطابق ُتک بندی کرکے حضرتؒ کو دکھاتے ، اور وہ اُس کی اصلاح فرماتے۔
دوسری طرف میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ ہمارے گھر کا ماحول بھی شعروادب کا ماحول تھا ۔حضرت والد صاحب، قدس سرہ، صرف اردو ہی میں نہیں ، عربی اور فارسی میں بھی شعر کہتے تھے ، ہمارے سب سے بڑے بھائی حضرت زکی کیفی صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، تو باقاعدہ شاعر تھے، اور اُن کی وجہ سے گھر میں بڑے بڑے شعراء کی آمدو رفت بھی رہتی تھی۔ہماری بہنوں کو بھی شعروشاعری کا خاص ذوق تھا، اور جناب محمد ولی رازی صاحب بھی شعر کہتے تھے۔ اس لئے گھر میں ہماری دلچسپی اور تفریح کا سامان یہ تھا کہ جب سارے بہن بھائی جمع ہوتے تو کبھی بیت بازی شروع ہوجاتی ،کبھی کسی نے کوئی اچھی نظم یا غزل کہیں دیکھی یا سُنی ہوتی تو وہ دوسروں کو سُناتا، اور سب اُس سے لطف اندوز ہوتے ۔ کبھی کوئی ادبی مضمون سب مل کر پڑھتے ، اور کبھی چھوٹی آپا ہم سب کو حفیظ جالندھری کا شاہنامہ اسلام سُنایا کرتیں جسے ہم بڑے ذوق وشوق سے سنتے تھے۔
اس سارے پس منظر میں بچپن ہی سے مجھے شعر وادب کا شوق ہوگیا تھا، اور میری عمر ابھی نو سال ہی کی تھی کہ مجھے بہت سی نظمیں اور غزلیں زبانی یاد ہوگئی تھیں۔اُس زمانے میں بچوں کا ایک رسالہ” ساتھی” کے نام سے نکلا کرتا تھا۔میرے بڑے بھائی جناب محمد رضی صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، نے وہ رسالہ میرے نام جاری کروادیا تھا ، اور اُسے پاکر میں خوشی سے پھولا نہ سماتا تھا۔ہر مہینے مجھے اُس کاانتظار رہتا، اورمہینے کے شروع میں ڈاکیہ کاانتظار اُسی کی وجہ سے رہا کرتا تھا۔اور جب وہ آجاتا، تو جب تک میں اُسے اول سے آخر تک پڑھ نہ لیتا، چین نہیں آتا تھا ۔اُسی سے میرے دل میں یہ شوق پیدا ہوا کہ میں بھی کچھ لکھوں۔ میری وہ بہن جنہیں ہم چھوٹی آپا کہتے تھے، اس کام میں میری خاص ہمت افزائی کرتیں۔اُس زمانے کے رسالوں میں قلمی دوستی کاایک سلسلہ ہوا کرتا تھا۔بچے اپنے نام اور پتے رسالوں میں شائع کراتے ، اوردوسرے بچوں کو دعوت دیتے کہ اُن سے خط وکتابت کے ذریعے دوستی کریں۔جب اُس رسالے میں قلمی دوستی کا سلسلہ شروع ہوا ، تو میری بہن نے مجھے مشورہ دیا کہ میں ان میں سے کسی کو خط لکھناشروع کروں ۔اس سے مجھے لکھنے کی مشق ہوگی۔ چنانچہ میں نے اُن ناموں پر نظر ڈالی جو قلمی دوستی چاہتے تھے۔ ان ناموں میں مجھے جو نام سب سے زیادہ پسند آیا ،وہ "مجاہد” تھا ۔ پتہ دیکھنے سے معلوم ہوا کہ وہ افریقہ کے شہر نیروبی میں رہتے ہیں جواُس وقت ٹانگا نیکا کا دارالحکومت تھا ۔(بعد میں ٹانگا نیکا کا نام کینیا ہوگیا)۔میں نے صرف” مجاہد” کے لفظ سے محبت کی بناپر قلمی دوستی کے لئے انہی کو منتخب کیا، اور ایک اُلٹا سیدھا خط لکھ کر چھوٹی آپا کو دکھا یا۔ انہوں نے اُس میں اصلاح کرکے اُسے ایک قاعدے کا خط بنادیا، اور میں نے وہ ڈاک کے سپرد کردیا،اور اُس کا جواب بھی آگیا۔کچھ دنوں تک یہ قلمی دوستی جاری رہی ۔ اپنے اس اَن دیکھے دوست کو ابتدائی طورپر میں خط لکھتا ، اور چھوٹی آپا اُ س پر نظر ثانی کرکے اُس میں ادبی چاشنی پیدا کردیتیں، اور اس طرح رفتہ رفتہ مجھے بھی لکھنے کا کچھ سلیقہ آنے لگا۔
اُسی زمانے میں روزنامہ "جنگ” میں مراسلات کے کالموں میں لوگ کسی نہ کسی موضوع پر کوئی نہ کوئی بحث چھیڑ دیا کرتے تھے ، اور اُس موضوع پر دونوں طرف سے مراسلے شائع ہوتے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ یہ فضول سی بحث چھڑگئی کہ عورت شاعر ہوسکتی ہے یا نہیں؟ چھوٹی آپا نے مجھ سے کہا کہ تم بھی ایک مراسلہ لکھدو۔میں نے حکم کی تعمیل میں ایک مراسلہ لکھا اور وہ” جنگ "میں "صنف نازک اور شاعری "کے عنوان سے شائع ہوا۔ یہ میری پہلی تحریر تھی جو کہیں شائع ہوئی ۔ اس کے بعد ایک مرتبہ یہ بحث چھڑی کہ پاکستان کے کرنسی نوٹوں پر قائد اعظم کی تصویر ہونی چاہئے یا نہیں ؟ میں نے "نوٹوں پر تصویر "کے عنوان سے مراسلہ لکھا جس میں یہ موقف اختیار کیا کہ تصویر جائز نہیں ہے ، اور اس سے شخصیت پرستی کی بنیاد پڑتی ہے ، اس لئے ہمارے نوٹوں پر کوئی تصویر نہیں ہونی چاہئے ۔نیز ایک مرتبہ یہ بحث چھڑی کہ ملک میں مخلوط تعلیم ہونی چاہئے یا نہیں ۔ اس موقع پر بھی میں نے مخلوط تعلیم کے خلاف دلائل پر مشتمل ایک مراسلہ لکھا۔ یہ تمام مراسلے” جنگ” میں شائع ہوتے رہے، اور ان سب میں میری چھوٹی آپا کی نہ صرف پشت پناہی، بلکہ اصلاح وترمیم بھی شامل ہوتی تھی۔اور اس طرح اگر میں یہ کہوں تو شاید غلط نہیں ہوگا کہ میری قلمی کاوشوں کی بنیاد اُنہی کی تعلیم وتربیت اور ہمت افزائی کا نتیجہ تھی۔ میری عمر اُس وقت دس سال تھی۔ جب ان کی شادی ۲۷؍فروری ۱۹۵۳ء لاہورمیں مقیم جناب شفقت علی صاحب مرحوم سے ہوئی۔اتفاق سے جس دن ان کا نکاح تھا ، اُس دن ملک بھر میں تحریک ختم نبوت اپنے شباب پر پہنچی ہوئی تھی ، اور آرام باغ میں اُس روز ایک عظیم الشان جلسہ منعقد ہورہا تھا جس سے حضرت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری، رحمۃ اللہ علیہ، خطاب کررہے تھے ، اور ملک کے اکابر علماء کی گرفتاریاں جاری تھیں ۔حضرت والد ماجد، رحمۃاللہ علیہ، کی گرفتاری کی بھی خبر گرم تھی، اور یہ پتہ نہیں تھا کہ وہ اپنی بیٹی کے نکاح میں شریک ہوسکیں گے یا نہیں ، لیکن آخر کار اللہ تعالیٰ نے انہیں محفوظ رکھا ، اور نکاح بخیر وخوبی انجام پاگیا۔
اور مجھے یاد ہے کہ جب چھوٹی آپا گھر سے رخصت ہوئیں ،تو میں ہفتوں اُنہیں یاد کرکے روتا رہا۔ وہ سال میں ایک مرتبہ کراچی آیا کرتیں تووہ دن میرے لئے عید کے دن ہوتے تھے۔ چنانچہ میں نے کافی عرصے کے بعد ان کے بارے میں اپنے جذبات کااظہار ایک نظم میں کیا جس میں کہا تھا:
چھوٹی آپا! مری اس نظم کا عنواں تم ہو
تم ہو اس بزم کی تزیین کا ساماں تم ہو
حضرتِ وا لدِ ما جد کی نگا ہوں کاسر ور
والدہ کے رُخِ پُر نور کی افشاں تم ہو
تم سے بہنوں کے دلوں میں ہے طرب نغمہ سرا
بھائیوں کے لئے ہر در د کا درماں تم ہو
مہرو الفت کے جہاں پھول مہکتے ہیں سدا
ہاں وہ گلشن،وہ گلستاں، وہ خیاباں تم ہو
جس جگہ شور ہے انسانوں کی ا فزونی کا
اُس جہاں میں بھی جو ملتا نہیں انسا ں، تم ہو
بے رخی اور لگاوٹ کےان اندھیا روں میں
روشنی جس سے ہے ،وہ شمعِ فروزاں، تم ہو
تم سے ہے میری نظر میں رُخِ ہستی پہ نکھار
جس سے ہے بزمِ محبت میں چراغاں، تم ہو
تم سے چونک اُٹھتی ہیں ارمانوں کی نورس کلیاں
عید کاچاند ہو تم ، صبح ِ بہاراں تم ہو !
لوریوں میں بھی مجھے درس دئیے ہیں تم نے
ہاں مری بہن ، مری دوست، مری ماں تم ہو !
جب میں نے یہ نظم ان کی کراچی آمد کے موقع پر انہیں سنائی تو لاہور واپس جاکر اُنہوں نے اس کے جواب میں اسی بحر اور قافیے میں مجھے یوں جواب دیا:
چھوٹے بھائی! مری اس نظم کاعنواں تم ہو
آنکھ کا نور ہو، تسکینِ د ل وجاں تم ہو
تم سے میکے کی فضاؤں میں ہے ا ک کیف ِ نشاط
کیا چمن زار ہے وہ جس کی بہاراں تم ہو!
آنکھ کا نور ہو،والد کے جگر کی ر احت،
والدہ کے لئے تسکین کا ساماں تم ہو!
بھائی کے خونِ شجاعت میں حرارت تم سے
اور بہنوں کا مچلتا ہوا ارماں تم ہو
سب سے چھوٹے ہو، تمہیں پیار ہے سب کا حاصل
ہے دلوں پر بھی حکومت، وہ سلیماں تم ہو
دیکھ کر تم کو مرے دور ہوں سب رنج و محن
بھول جاؤں جسے پاکر غمِ دوراں تم ہو!
ہیں مرے گلشنِ ہستی میں بہاریں تم سے
کِشتِ دل جس سے ہے سیراب وہ باراں تم ہو
تم سے کھلتے ہیں یہ ارمانوں کے نورس غنچے
جس میں یہ پھول مہکتے ہیں ، وہ داماں تم ہو
دل ہے یاعلم کے انوار کا آ ئینہ ہے !
درس دیتاہو جو پیہم، وہ دبستاں تم ہو
جہل والحاد کے بڑھتے ہوے اندھیاروں میں
روشنی جس سے ہے وہ شمعِ فروزاں تم ہو
الغرض حمد اُسی ذات کی زیبا ہے مجھے
جس کا انعام ہو تم، رحمت ِ یزداں تم ہو
میری عمرجب بارہ سال پوری ہوئی ، تو شوال ۱۳۷۴ ھ سے دارالعلوم میں ہمارا نیا تعلیمی سال شروع ہورہا تھا ۔اس سال (یعنی ۱۳۷۴ ھ و ۱۳۷۵ ھ)میں بھی شرح جامی ، مقامات حریری ، کنزالدقائق، اصول الشاشی، شرح جامی ،قطبی، شرح تہذیب اور البلا غۃ الواضحۃ ، تمام کتابیں حضرت مولانا سحبان محمود صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، ہی کے پاس رہیں ، اور ہم ان کے ناقابل فراموش انداز تدریس سے مستفید ہوتے رہے ۔حضرت ،رحمۃ اللہ علیہ، کے بارے میں میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ ان کو اس زمانے میں شعروادب سے بڑی دلچسپی تھی ، اور وہ خود اعلیٰ پائے کے شعر کہتے تھے ۔شرح جامی جیسی کتاب میں بھی وہ اپنے اس ذوق سے رنگ بھر تے رہتے تھے ۔ اس سال جب ہم نے” البلاغۃ الواضحۃ” ان سے پڑھی تو ان کے اس ذوق نے اُس کا لطف دوبالا کردیا ۔ خود ” البلاغۃ الواضحۃ” بہترین ادبی شہ پاروں سے بھری ہوئی ہے۔اُس پر حضرت ؒفصاحت وبلاغت کے مسائل کی مثالیں اردو شاعری کے حوالوں سے بھی دیتے ، جس کی وجہ سے پورا درس گل وگلزار ہوجاتا تھا ۔ مثلاً مجھے یاد ہے کہ "تعقید معنوی ” کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے مومن کا یہ شعر سنایا تھا :
خیال ِخواب راحت ہے علاج اس بدگمانی کا
وہ ظالم قبر میں مومن مرا شانہ ہلاتا ہے
حضرت نے فرمایا کہ دراصل اس شعر کے پہلے مصرعے میں” علاج اس بد گمانی کا؟” جملہ استفہامیہ ہے، اور جب تک اس پر علامت استفہام نہ لگائی جائے ، یا سوالیہ لہجے میں اُس کو نہ پڑھا جائے ، اُس کا مطلب سمجھ میں نہیں آتا۔ غرض اس طرح ہم نے ان کے ادبی ذوق سے خوب خوب استفادہ کیا ۔
شام کو ہم گھر آتے، تو مغرب تک برنس گارڈن یا پولو گراؤنڈ میں کچھ تفریح کرنے کے بعد اپنے اسباق کی تیاری اور مطالعہ میں مصروف رہتے ۔اور پھر ہمارے گھر میں بہن بھائیوں کااجتماع ہوتا جس میں اکثر بیت بازی کا مقابلہ ہوا کرتا تھا، اور اس مقابلے کے شوق میں مجھے زیادہ سے زیادہ شعر یادکرنے کا شوق ہوا۔اسی زمانے میں حفیظ جالندھری کاشاہنا مۂ اسلام گھر میں آیا تو ہم سب چھوٹی آپاکے اردگرد بیٹھ جاتے، اور وہ ہمیں ایک رواں دواں ترنم کے ساتھ شاہنامہ سنایا کرتیں جس کی آواز آج بھی کانوں میں گونجتی ہے ۔ مجھے شاہنامے سے اتنا لگاؤ ہو گیا تھا کہ اُس کے صفحے کے صفحے زبانی یاد ہوگئے تھے ، اور سچی بات یہ ہے کہ غزوۂ بدر، غزوۂ احد اور غزوۂ احزاب کے تفصیلی واقعات میں نے کتابوں میں بعد میں پڑھے،لیکن سب سے پہلے شاہنامے ہی کے ذریعے معلوم ہوئے تھے ۔
اس کے علاوہ کبھی کوئی اچھی دینی یا ادبی کتاب لے آتا ، تو سب اجتماعی طورپر اُس کے مطالعے سے لطف اندوز ہوتے تھے ۔کبھی مولانا مناظر احسن گیلانی ،رحمۃ اﷲعلیہ، کی ” النبی الخاتم ﷺ ” پڑھی جارہی ہے، کبھی مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کی "غبار خاطر”، کبھی حضرت مولانا اصغر حسین صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، کی "خواب شیریں”اور کبھی پطرس بخاری مرحوم کے مزاحیہ مضامین۔ غرض بہن بھائیوں کی یہ مجلس بڑی رنگارنگ ہوتی تھی ۔ اور اگر کبھی حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، کو فر صت ملتی ، تو پھر ہمیں کسی اور مشغلے کی ضرورت نہیں تھی ۔ ان کے ساتھ جووقت بھی ملتا، وہ بڑا شگفتہ اور پُربہار ہوتا۔ حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، ہم میں گھل مل جاتے ، اورکبھی ہمیں اپنے بزرگوں کے واقعات سناتے ، کبھی تاریخ اسلام کے واقعات ، کبھی اپنی روزمرہ کی ان مصروفیات سے باخبر فرماتے جو ہمار ی سمجھ کے دائرے میں آسکتی ہوں ۔
اُس وقت ریڈیو پاکستان سے بھی بعض اوقات بڑے مفید پروگرام ہوا کرتے تھے ۔صبح کا آغازقاری زاہر قاسمی صاحب مرحوم کی تلاوت اوراس کے بعد حضرت مولانا احتشام الحق صاحب تھانوی، رحمۃ اﷲعلیہ، کے مسلسل درس قرآن سے ہوتا تھا، اور جمعہ کے دن اُس وقت کے ریڈیو پاکستان کے ڈائرکٹر ذوالفقار علی بخاری صاحب مرحوم کی درخواست پر حضرت والد صاحب ،رحمۃ اللہ علیہ، کا "معارف القرآن” کا درس ہوتا تھا ۔ اُس کے بعد کے پروگراموں میں بھی اُس طرح کی بے ہودگی کم ہوتی تھی جیسی آجکل ریڈیو ٹی وی میں دکھائی دیتی ہے۔ پروگراموں میں ادبی عنصر اچھا خاصا ہوتا تھا، اور دلچسپ اور معلوماتی سلسلے جاری رہتے تھے۔ "چیستاں” کا کھیل جس میں معلومات عامہ کا مقابلہ ہوتا تھا، ہم نے ریڈیو ہی سے سیکھا تھا ۔ اسی ریڈیوپر ہر ہفتے طرحی مشاعرہ ہوا کرتا تھا، جس میں ملک کے نامور شعراء حصہ لیتے تھے ۔حفیظ جالندھری، ادیب سہارن پوری، حمایت علی شاعر، شاعر لکھنوی ،ماہر القادری ، رئیس امروہوی ، قمر جلالوی، ارم لکھنوی، تقریباً ہر ہفتے اس طرحی مشاعرے میں اپنا تازہ کلام سُناتے ، اور ہم سب بہن بھائی اُسے بڑے شوق سے سنتے تھے۔کبھی ہندوستان سے بھی شعراء آئے ہوئے ہوتے تو انہیں بھی مدعو کیا جاتا ۔چنانچہ جناب جگر مرادآبادی ، شکیل بدایونی، اور جگن ناتھ آزاد کو بھی ہم نے پہلی بار اسی مشاعرے میں سنا تھا ۔
اب خیال آتا ہے کہ اُس وقت ہمارے تفریحی مشغلے بھی علمی اور ادبی نوعیت کے ہوتے تھے جن سے معلومات بھی بڑھتی تھیں ، اور علمی اور ادبی ذوق بھی پروان چڑھتا تھا۔انہی مجلسوں کی بدولت مجھے کتابوں کا شوق پیدا ہوا۔
جاری ہے ….
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
</section