حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی
یادیں
(چوونویں قسط)
سود سے نجات کیلئے تحریری اور عملی کوششیں
میں بچپن سے حضرت والد صاحب قدس سرہ کودیکھتا تھا کہ وہ بینکوں کے سودی نظام سے نہ صرف متنفر اور بیزار تھے، بلکہ اس کو سود سے پاک کرنے کے لئے کوشاں بھی رہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے چودھری محمد علی صاحب مرحوم سے جو اس وقت وزیر خزانہ تھے، (اور بعد میں وزیر اعظم بھی رہے) کئی ملاقاتیں کیں،جس پر انہوں نے ایک رپورٹ بھی تیار کی تھی، یہ رپورٹ انہوں نے انگریزی میں لکھی تھی، اور میں نے بچپن میں حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے کاغذات میں دیکھی تھی، بعد میں مجھے تلاش کے باوجود نہیں ملی۔ پھرایک مرتبہ، جب میں نے دارالعلوم میں پڑھانے کا آغاز ہی کیا تھا، اُس وقت کے آڈیٹر جنرل جناب یعقوب شاہ صاحب مرحوم نے اس مسئلے کے بارے میں رابطہ کیا‘ اور اپنے اشکالات پیش کئے۔ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے جوابات دئیے‘ اور مزید گفتگو کے لئے انہیں میرے حوالے کردیا۔اپریل ۱۹۶۳ ء میں میری اُن سے ملاقاتیں بھی ہوئیں، اورخط وکتابت بھی ہوتی رہی۔اس موقع پر جب مجھے سود سے متعلق قرآن وحدیث کے ارشادات کچھ تفصیل کے ساتھ پڑھنے کا موقع ملا، تو مجھے یہ اندازہ ہوا کہ قرآن وسنت میں شرک کے بعد کسی بھی گناہ کے لئے اتنے سنگین الفاظ استعمال نہیں کئے گئے جتنے سود کے خلاف استعمال فرمائے گئے ہیں۔ اس سے بڑی وعید اور کیا ہوگی کہ جو شخص سود کو نہ چھوڑے، اس کے خلاف اللہ تعالیٰ نے اپنے اور اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف سے اعلان جنگ فرما دیا ہے، اور حدیث میں سود کھانے کو، اللہ تعالیٰ محفوظ رکھیں، ماں کے ساتھ زنا سے بھی بدتر جرم قرار دیا گیا ہے۔دوسری طرف عملی دنیا میں جو منظر نظر آتا ہے، وہ یہ کہ معیشت کا سارا نظام سودپر چل رہا ہے۔ اس صورت حال سے دل میں ایک بے چینی سی پیدا ہوئی، لیکن ایک نو عمر طالب علم کے پاس اس نظام کو بدلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔
دوسری طرف یعقوب شاہ صاحب کے ساتھ ملاقاتوں اور خط وکتابت سے یہ اندازہ ہوا کہ جدید تعلیم یافتہ طبقے میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ موجودہ بینکوں میں جو سود رائج ہے، وہ اُس ربا کی تعریف میں نہیں آتا جسے قرآن کریم نے حرام قرار دیا تھا۔اس موضوع پر کئی لوگوں نے کتابیں بھی لکھی ہیں جن میں سے ایک کتاب جعفرشاہ صاحب پھلواروی کی کتاب ”کمرشل انٹرسٹ کی شرعی حیثیت ”اور بعض دوسرے مقالات میری نظر سے گذرے جن میں بینکوں کے سود کو حلال قرار دیا گیاتھا۔ان کے جواب میں اُس وقت دو ہی کتابیں منظر عام پر آئی تھیں، ایک مولانا مودودی مرحوم کی کتاب ”سود” اور دوسری حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ”مسئلہ سود”۔میں نے اس موضوع پر موافق اور مخالف دونوں قسم کی کتابوں کا مطالعہ کیا، اور ضرورت محسوس ہوئی کہ خاص طورپر تجارتی سود کی حقیقت واضح کی جائے۔چنانچہ میں نے خاص ”تجارتی سود” کے موضوع پر ایک مقالہ لکھا‘اور حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اُسے اپنی کتاب کے دوسرے حصے کے طورپر شامل فرمالیا۔یہ مقالہ میں نے تقریباً بیس سال کی عمر میں لکھا تھا۔
بعد میں اردو اکیڈمی کے زیر انتظام ” انسا ئیکلو پیڈیا آف اسلام ” کا ایک منصوبہ شروع ہوا جس کے نگراں ڈاکٹر سید عبداللہ صاحب مرحوم تھے۔اس منصوبے کے تحت انگریزی انسا ئیکلو پیڈیا آف اسلام کا نہ صرف ترجمہ کیا جارہا تھا، بلکہ اس میں مستشرقین نے اسلامی موضوعات پر جو غلط فہمیاں پھیلائی تھیں، انہیں دور کرنے کا کام بھی پیش نظر تھا، اس لئے متعدد موضوعات پر نئے مقالے لکھوائے جار ہے تھے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ صاحب مرحوم نے حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے درخواست کی کہ ”ربا” کے موضوع پر مقالہ آپ تحریر فرمائیں۔ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے یہ کام میرے حوالے کردیا، اور میں نے دیکھا کہ مستشرقین اور ان کے ہم نواؤں نے سود کی تعریف وغیرہ کے سلسلے میں بڑی غلط فہمیاں پیدا کی ہیں، چنانچہ میں نے اس مفصل مقالے میں انہیں دور کرنے کی کوشش کی، اور یہ مقالہ اب ”اردو انسا ئیکلو پیڈیا آف اسلام ” کا حصہ ہے۔ (بعدمیں ڈاکٹر سید عبداللہ صاحب مرحوم نے مجھ سے اور بھی کئی مقالے لکھوائے، ”طلاق” اور ”کافر” کے زیر عنوان مقالے میرے ہی لکھے ہوئے ہیں)۔
پھرجب صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) میں حضرت مولانا مفتی محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ وزیر اعلیٰ بنے، تو ایک امکان نظر آیا کہ شاید وہ حکومتی سطح پر اس سلسلے میں کچھ آغاز کرسکیں، اس لئے میں نے ان سے درخواست کی کہ وہ کم ازکم اپنے صوبے کی حد تک کوئی غیر سودی بینک قائم فرمادیں، لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے، اور انہیں موقع ہی نہ مل سکا۔
۱۹۷۷ ء میں جب اسلامی نظریاتی کونسل کی تجدید ہوئی، اور حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ میں بھی اس کا رکن بنا، تو کاموں کی جو ترجیحات پہلے ہی اجلاس میں طے ہوئی تھیں، ان میں ”غیر سودی بینکاری ” کے موضوع پر ایک مفصل رپورٹ تیارکرنا بھی شامل تھا۔اس غرض کے لئے کونسل نے علماء اور ماہرین اقتصادیات کا ایک پینل بنایا جس کے سربراہ ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب مرحوم سابق ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک تھے۔ پینل نے وہ رپورٹ مختصر عرصے میں تیار کرکے کونسل میں پیش کی،اور کونسل نے فقہی طورپر اس کا جائزہ لیکر اس میں کچھ ترمیمات تجویز کیں، اور اس طرح وہ رپورٹ حکومت کو بھیج دی گئی، جو اس موضوع پر پہلی مفصل رپورٹ تھی، اور صدر محمدضیاء الحق صاحب مرحوم نے اس پر عمل کرنے کا حکم بھی جاری کردیا، لیکن افسوس ہے کہ اس کے عملی اطلاق کے وقت بیورو کریٹس نے اس کا حلیہ بری طرح بگاڑدیا،جس پر احتجاج کرتے ہوئے میں نے کئی مضامین بھی لکھے، اخباری بیانات بھی دئیے، اور براہ راست صدر ضیاء الحق صاحب مرحوم کو بھی اس کی غلطیوں پر متنبہ کیا۔ اس احتجاج کے نتیجے میں حکومت نے گورنر اسٹیٹ بینک کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا، میں اس کا بھی رکن رہا۔
چونکہ اس معاملے میں متعدد فقہی مسائل قابل غور تھے، اوراس وقت ایک مرتبہ پھر حکومتی سطح پرغیر سودی نظام کو قائم کرنے کے کچھ آثار پیدا ہوئے تھے، اس لئے میری درخواست پر ”مجلس تحقیق مسائل حاضرہ” کا اجلاس بلایا گیا، اور اس میں مندرجۂ ذیل حضرات نے شرکت فرمائی:
حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب ؒ، حضرت مولانا مفتی عبدالشکور ترمذی صاحبؒ، حضرت مولانا مفتی محمد وجیہ صاحب ؒ، حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالواحد صاحب۔
اس مجلس کی روداد حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ”احسن الفتاویٰ” میں شائع فرمائی ہے۔اس مجلس کی قرار دادوں کے مطابق عمل کے لئے متعدد کوششیں ہوئیں، لیکن بدلتے ہوئے حکام نے ان کو سرد خانے ہی میں ڈالے رکھا، اور حکومتی سطح پر کوئی کوشش پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکی۔
غالباً۱۹۸۶ ء کی بات ہے کہ ایک روز میں اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ اچانک رابطۂ عالم اسلامی کے سیکریٹری جنرل جناب عبداللہ عمر نصیف کے چچا زاد بھائی جناب نبیل نصیف صاحب مجھ سے ملنے کے لئے تشریف لائے۔ انہوں نے بتایا کہ شہزادہ محمد بن سعود نے ”مصرف فیصل الاسلامی” کے نام سے ایک غیر سودی بینک کی بنیاد ڈالی ہے جس کا مرکز بحرین میں ہے، اور نبیل نصیف صاحب اس کے انتظامی سربراہ ہیں۔ بینک کی شرعی نگرانی کے لئے ایک ”ہیئۃ الرقابۃ الشرعیۃ”(شریعہ سپروائزری بورڈ) قائم کی گئی ہے جس کے سربراہ شیخ یوسف القرضاوی ہیں، اور سعودی عرب کے شیخ عبداللہ بن منیع اور بحرین کے ایک اورعالم اس کے ارکان ہیں۔ نبیل نصیف صاحب نے مجھے بتایا کہ وہ شیخ یوسف قرضاوی اور شہزادہ محمد بن سعود کی طرف سے یہ پیغام لیکر آئے ہیں کہ میں بھی اس شریعہ بورڈ کی رکنیت قبول کرلوں۔اس بینک کی ایک شاخ پاکستان میں بھی قائم کی جا رہی ہے، اور اس کے امور آپ کی ہدایات کے مطابق انجام دئیے جائیں گے۔
اس پیشکش سے ایک طرف تو امید کی ایک کرن دل میں پیدا ہوئی کہ سالہا سال سے جو خواہش دل میں ہے کہ کم ازکم ایک ادارہ ایسا وجود میں آجائے جو سود سے پاک ہو، اس کے پورے ہونے کے کچھ آثار ظاہر ہورہے ہیں، دوسری طرف مجھے اس کام کی مشکلات کا بھی کچھ اندازہ تھا، اور یہ باور کرنا مشکل ہورہا تھا کہ میں اس کام کو ٹھیک ٹھیک انجام دے سکوںگا۔آخر کار ضروری سوچ بچار اور مشورے کے بعد میں نے یہ پیشکش اس خیال سے قبول کرلی کہ کم ازکم اپنی بساط کی حد تک کوشش کرنے کا تو موقع ملے گا۔
اس طرح مجمع الفقہ الاسلامی کے بعد یہ دوسرا بین الاقوامی ادارہ تھا جس میں مجھے شرکت کا موقع ملا۔ اس ادارے کی رکنیت کے بعداس کے اجلاس میں شرکت کے لئے میں پہلی بار۳۰؍ مارچ ۱۹۸۷ ء (مطابق تقریباً ۲۹؍ رجب ۱۴۰۷ ھ کو بحرین گیا۔مجھے اُس وقت اندازہ نہیں تھا کہ یہ بینک کن بنیادوں پر کام کررہا ہے۔اسلامی نظریاتی کونسل کے کام کے دوران مجھے غیر سودی بینکاری کے بارے میں یہ اندازہ ہو چکا تھا کہ اس کے لئے مختلف طریقے اختیار کئے جاسکتے ہیں۔ فنی تفصیلات میں جائے بغیراس کا مثالی طریقہ یہ تھا کہ بینک عوام سے مضاربت کے اصول پر رقمیں وصول کرے، اور آگے تاجروں کو بھی مضاربت کی بنیادپر سرمایہ فراہم کرے۔دوسرا طریقہ یہ تھا کہ عوام سے تو رقوم مضاربت کی بنیاد ہی پر لی جائیں، لیکن جہاں آگے مضاربت کرنا مشکل ہو، وہاں مرابحہ، اجارہ یا بیع سلم وغیرہ کی بنیادپر کاروبار کیا جائے۔ یہ دوسرا طریقہ ایسا ہے کہ اگر اسے تمام فقہی شرائط کے ساتھ استعمال کیا جائے، تو اس کے ذریعے سود کی حرمت سے بچنے کا ایک جائز راستہ ضرور مل جاتا ہے۔ میں نے فیصل بینک کے طریق کار کا جائزہ لیا، تو اس میں اسی دوسرے راستے پر اکتفاء کیا گیا تھا،یعنی اس کے کاروبار کا بڑا حصہ مرابحہ مؤجلہ کی بنیادپر قائم تھا، لیکن چونکہ مرابحہ کی بنیادپر بھی سرمایہ کاری کے مواقع اتنے نہیں تھے جتنا سرمایہ عام لوگوں نے بینک کو مضاربت کی بنیاد پر دیا ہوا تھا، اس لئے اس سرمائے کے نفع بخش استعمال کے لئے انہیں بڑی بھاری رقمیں کرنسیوں کے ایسے کاروبار میں لگانی پڑ رہی تھیں جن کی شرعی حیثیت میں اشکال تھا۔ میں نے پہلے ہی اجلاس میں یہ بھی عرض کیا کہ مرابحہ کو ٹھیک ٹھیک انجام دینے کے لئے شریعہ بورڈ نے جو شرائط مقرر کررکھی ہیں، اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ان پر ٹھیک ٹھیک عمل ہورہا ہے یا نہیں؟ چنانچہ شیخ یوسف قرضاوی صاحب نے ان باتوں کا جائزہ لینا میرے ہی سپرد کردیا، اور یہ طے ہوا کہ میں آئندہ اجلاس سے کچھ پہلے آکر پورے طریق کار کا جائزہ لوں، اور جہاں کہیں نقص نظر آئے، اس کی رپورٹ بورڈ کو پیش کروں۔ اس پر یہ پہلا اجلاس برخاست ہوگیا۔
شریعہ بورڈ کے اجلاس کے بعد رات کو عشاء کے بعد بحرین کی مشہور مسجد جامع ابو بکر میں شیخ یوسف قرضاوی صاحب کی تقریر کااعلان ہوچکا تھا۔ شیخ قرضاوی نے مجھ سے کہا کہ تم بھی ساتھ چلو۔چنانچہ میں بھی ان کے ساتھ چلا گیا۔ جب جلسہ شروع ہوا، تو مسجد میں ایک بڑا مجمع موجود تھا۔ شیخ قرضاوی نے اچانک مجھ سے کہا کہ پہلے تم تقریر کرو، میں نے ہر چند عذر کیا کہ سارا مجمع آپ کی تقریر سننے کے لئے جمع ہوا ہے، اس موقع پر مجھ جیسے عجمی کی تقریر بے وقت کی راگنی ہوگی، مگر شیخ نہ مانے، اور بالآخر مجھے ان کی فرمائش ماننی پڑی۔ کسی عرب ملک کے جلسۂ عام میں عربی تقریر کرنے کا میرا پہلا موقع تھا۔ اللہ تعالیٰ سے دل دل میں دعا کی، اور اپنے بزرگوں کی کچھ باتیں اپنی بساط کے مطابق عرض کیں، اور یہ دیکھ کر تعجب بھی ہوا اور خوشی بھی کہ لوگوں نے انہیں توجہ کے ساتھ سنا۔اس کے بعد شیخ یوسف قرضاوی کا خطاب ہوا۔ ان کی خطابت کے بارے میں کوئی تعریفی کلمہ کہنا تو تحصیل حاصل ہے، لیکن سچی بات یہ ہے کہ انہوں نے تقویٰ کے موضوع پر بڑی کام کی باتیں کہیں جن سے خود مجھے بہت فائدہ ہوا۔جزاہ اللہ تعالیٰ خیر الجزائ۔
یہ میرا بحرین آنے کا پہلا موقع تھا، چنانچہ اگلے دن میٹنگ کے علاوہ بحرین کی سیاحت اور کچھ کتب خانوں کی سیر میں وقت گذرا، اور بحرین میں مقیم پاکستانی حضرات سے خطاب کا بھی موقع ملا۔ اسی رات میری واپسی تھی۔
اس موقع پر ایک عجیب واقعہ پیش آیا جو مجھے بھولتا نہیں ہے۔واپسی کے لئے میری یاد کے مطابق پروازکا وقت رات دس بجے تھا، اوراس کے مطابق مجھے رات آٹھ بجے تک ائیر پورٹ پہنچ جانا چاہئے تھا۔ چنانچہ اسی حساب سے میں ٹھیک آٹھ بجے ائیر پورٹ پہنچ گیا، لیکن جب میں بورڈنگ کارڈ لینے کے لئے کاؤنٹر پر پہنچا، تو متعلقہ افسر مجھے حیرت سے دیکھنے لگا، اور بولا کہ آپ کا جہاز تو روانہ ہوچکا ہے۔ میں نے کہا کہ اسے تو دس بجے روانہ ہونا تھا، تو اس نے بتایا کہ نہیں! اس کا وقت آٹھ بجے تھا، پھر اس نے میرا ٹکٹ مجھے دکھایا جس پر روانگی کا وقت 20 بجے لکھا ہوا تھا، میں اس وقت تک غیر ملکی سفروں کا زیادہ عادی نہیں تھا، اور نہ جانے کیوںمیں نے اس کا مطلب دس بجے رات سمجھ کر سارا پروگرام بنایا، حالانکہ اس کا مطلب آٹھ بجے تھا۔ ٹکٹ پر غور کیا تو میرے پاؤں تلے کی زمین نکل گئی،اور اپنی حماقت کا احساس ہوا کہ میں نے بیس بجے کا مطلب دھیان سے سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ میں نے کاؤنٹر کے افسر سے پوچھا کہ کیا آج کی رات میں کوئی اور پرواز کراچی کے لئے موجود ہے؟ اس نے بتایا کہ ایک پرواز رات گئے کہیں اور ہوتی ہوئی کراچی جارہی ہے، لیکن اس میں کوئی سیٹ مہیا نہیں ہے۔
مجھے پہنچانے والے مجھے ائیر پورٹ پہنچاکر جا چکے تھے، ہوٹل کا کمرہ میں خالی کرچکا تھا، موبائل فونوں کا زمانہ نہیں آیا تھا کہ کسی سے رابطہ کرسکتا۔ٹیلی فون بوتھ سے فون کرنے کے لئے بحرینی سکے بھی موجود نہیں تھے،اور میرے پاس صرف فیصل بینک کے دفتر کا نمبر تھا،جو رات کے وقت بند ہوچکا تھا، اس لئے اگر کسی کی خوشامد کرکے فون کرنا بھی چاہوں، تو اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ غرض آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔اگر کسی طرح ٹیکسی کرکے واپس ہوٹل چلا بھی جاؤں، تو اتنے پیسے پاس نہیں تھے کہ ایک رات کا کرایہ ادا کرسکوں۔
ایسی بے بسی کی حالت میں اللہ تعالیٰ سے رجوع کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا، اس لئے خوب جی لگاکر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ مجھے اس مشکل سے نکال دیجئے۔اس وقت بحرین کا ائیر پورٹ پرانے طرز کا تھا، اور اس میں بیٹھنے کی سہولیات بھی نہیں تھیں۔ چنانچہ میں ائیر پورٹ ہی کے ایک کونے میں کھڑا دعا کرتا رہا۔ اچانک طیران الخلیج (گلف ائیر)کا ایک نوجوان عرب کارندہ میرے پاس آیا، اور اُس نے مجھ سے پوچھا کہ: ”شیخ! آپ کچھ پریشان معلوم ہوتے ہیں، کیا بات ہے؟ ” میں نے جواب میں اُسے اپنی ساری رام کہانی سنادی، اُس نے کہا کہ: آپ مجھے اپنا ٹکٹ اور پاسپورٹ دیجئے، اور یہیں کھڑے رہئے، میں آپ کی مشکل دور کرنے کی پوری کوشش کرتا ہوں۔ مجھے شک ہوا کہ اپنا ٹکٹ اور پاسپورٹ اس کے حوالے کرنے کے بعد تو میں بالکل ہی بے دست وپا ہوجاؤںگا، نہ جانے وہ لیکر کہاں جائے، اور میں اسے ڈھونڈتا پھروں۔اس پر مجھے مقامات حریری کا یہ جملہ یاد آیا کہ: أ نُحرم ویحک القنص والحبالۃ، والقبس والذّبالۃ؟ (کیا ہم شکار کے ساتھ جال سے بھی محروم ہوجائیں؟ اور روشنی کے ساتھ چراغ کی بتی سے بھی؟)
اس لئے میں نے اُس سے پوچھا کہ آپ مجھے کیسے جانتے ہیں؟ اُس نے میرے چہرے سے میرے دل کا شک پڑھ لیا، اور بولا: ”شیخ! کل رات آپ نے جامع ابوبکر میں تقریر کی تھی نا؟” میں نے کہا ”جی ہاں ” کہنے لگا کہ میں گلف ائیر میں ملازم ہوں۔ کل میں عشاء کے بعد جامع ابو بکر میں موجود تھا، اورمیں نے آپ کی تقریر سنی تھی، اب آپ کو یہاں دیکھ کر پہچان گیا۔یہ کہہ کر اس نے مجھے ایک جگہ کرسی پر بٹھایا، اور کہا کہ آپ فکر نہ کریں، ان شاء اللہ تعالیٰ آپ کو اگلی پرواز میں سیٹ دلانے کی پوری کوشش کروں گا، ورنہ آپ میرے مہمان ہیں۔ اس بے بسی کے عالم میں یہ نوجوان میرے لئے ایک غیبی فرشتہ ثابت ہوا، اور تھوڑی سی دیر میں اُس نے اگلی پرواز کا بورڈنگ کارڈ لاکرمیرے ہاتھ میں تھمادیا، اور جہاز روانہ ہونے تک میری خاطر مدارات کرتا رہا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے اس خطاکار بندے کی جس طرح غیب سے دست گیری فرمائی، آج بھی اس کی یاد آتی ہے، تو رُواں رُواں شکر سے لبریز ہوجاتا ہے۔اول تو اسی رات میں گلف ائیر کی دوسری پرواز مل جانا آج تک میرے لئے معمّہ ہے، اس لئے کہ میں نے اس کے بعد بیسیوں مرتبہ گلف ائیر سے بحرین کا سفر کیا ہے،اور سالہا سال کا تجربہ یہ ہے کہ بحرین سے کراچی کی دن بھر میں صرف ایک پرواز ہوتی ہے، اب کچھ عرصے سے کبھی کبھی دو پروازیں ہوجاتی ہیں، لیکن ان کے درمیان بارہ گھنٹوں سے زیادہ فاصلہ ہوتا ہے،ایسا اُس دن کے علاوہ کبھی نہیں ہوا کہ تین چار گھنٹے کے فرق سے کراچی کی دو پروازیں ہوں۔ لیکن اس روز دو پروازوں کااتنے مختصر وقفے سے کراچی جانا ایک غیبی انتظام ہی کہا جاسکتا ہے۔ پھر اب تو بحرین میں میرے جاننے والے بہت ہیں، لیکن اُس وقت دو چار افراد کے سوا مجھے کوئی نہیں جانتا تھا۔ گلف ائیر میں کسی واقف کار کے موجود ہونے کا تصور ہی نہیں تھا۔ جامع ابوبکر میں شیخ یوسف قرضاوی کی موجودگی میں میرا تقریر کرنا بھی ایک انہونی سی بات تھی ۔ اس تقریر میں گلف ائیر کے کسی کارندے کی موجودگی بھی ایک خدا ساز سامان تھا، پھر اس کارندے کا اُس وقت ڈیوٹی پر ہونا، اور مجھے پہچان کر مجھ سے خصوصی ہمدردی کااظہار اور سیٹ کنفرم کرادینا بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کے خاص فضل وکرم کے سوااور کیا تھا؟ والحمدکلہ للہ سبحانہ ۔
ایک بے خدا شخص اس قسم کے واقعات کو محض اتفاق یا زیادہ سے زیادہ حسن اتفاق قرار دیکر گذر جاتا ہے، لیکن جس شخص کا یہ ایمان ہو کہ اس کائنات کا کوئی کام اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کے بغیر نہیں ہوسکتا، اس کے نزدیک اس کائنات میں ”اتفاق” نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔جن واقعات کے تسلسل میں بظاہر کوئی جوڑ نظر نہیں آتا، وہ بھی اَن دیکھی حکمتوں کی ایسی زنجیر میں جُڑے ہوئے ہیں جن میں سے اکثر کا باہمی ربط ہمارے تصور اور ادراک سے باہر ہوتا ہے، اس لئے ہم انہیں انمل بے جوڑ سمجھ کر گذر جاتے ہیں، اور کسی کسی واقعے میں کوئی جوڑ نظر آجاتا ہے، تو اُسے ”اتفاق ” کہہ دیتے ہیں۔ لیکن قرآن کریم فرماتا ہے:
وَعِنْدَہُ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہَا إِلَّا ہُوَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَۃٍ اِلَّا یَعْلَمُہَا وَلَا حَبَّۃٍ فِی ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا یَابِسٍ إِلَّا فِی کِتَابٍ مُبِینٍ (الأنعام:۵۹)
"اور غیب کی ساری چابیاں اسی کے پاس ہیں جنہیں اُس کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور اسی کو علم ہے کہ خشکی اور سمندر میں کیا ہے، اور کوئی پتہ ایسا نہیں گرتا جس کا اُسے پتہ نہ ہو،نہ زمین کی اندھیریوں میں کو ئی دانہ، یا کوئی خشک یا تر چیز ایسی نہیں جو ایک کھلی کتاب میں درج نہ ہو۔”
مذکورہ بالا واقعہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے جس میں بظاہر بے جوڑ باتیں اس طرح مربوط ہوئیں کہ ان سے ایک خطاکار بندے پراللہ تعالیٰ کی رحمت کا ظہور ہوا۔ کوئی کہنے والا اگر یہ کہے کہ مجھے جہاز کے وقت کے بارے میں مغالطے کا شکار ہی کیوں کیا گیا؟ شروع ہی سے ہر کام صحیح وقت پر کیوں نہ ہوا؟ لیکن میں اس واقعے پرغور کرتا ہوں، تو اس سے اتنے سبق مجھے حاصل ہوئے جوجہاز کے صحیح وقت پر پہنچنے سے کبھی حاصل نہ ہوتے۔
۲؍ شعبان ۱۴۰۷ ھ اور یکم اپریل ۱۹۸۷ ء کوکراچی پہنچنے کے دو ہی دن بعد مجھے جنوبی افریقہ اور سعودی عرب کاطویل سفر درپیش تھا۔ چنانچہ اپنے دوست جناب شعیب عمر صاحب کی دعوت پر میں ۶؍ شعبان مطابق ۵؍ اپریل کو اپنی اہلیہ اور چھوٹی بچی کے ساتھ نیروبی روانہ ہوا، اور پہلی بار نیروبی میں سخت گرمی سے واسطہ پڑا۔رات وہاں گذارکر اگلے دن براہ جوہانسبرگ ڈربن کے لئے روانہ ہوا، جہاں۶؍ شعبان سے ۱۸؍ شعبان تک قیام رہا جس میں مختلف مقامات پر خطابات ہوئے، مسلمان ڈاکٹروں کی ایک تنظیم سے طبی مسائل پر گفتگو ہوئی،اور بہت سے مقامی مسائل پر اجتماعات ہوئے۔ پھر ۱۹؍ شعبان کو نیروبی اور وہاں سے ۲۰؍ شعبان کو جدہ کے ذریعے مکہ مکرمہ حاضری ہوئی، اوررمضان المبارک کے شروع ہونے تک وہیں قیام رہا۔
البتہ بیچ میں ایک دن اسلامی ترقیاتی بینک اور عالمی ادارۂ اقتصادیات اسلامی اسلام آباد کے تعاون سے جدہ میں ایک مذاکرہ ہوا جس کا موضوع ”انڈیکسیشن” تھا، یعنی کیا قرضوں یا دیون کی ادائیگی کو قیمتوں کے اشاریے سے وابستہ کرکے افراط زر کا نقصان پورا کیا جاسکتا ہے۔ مذاکرے کاایک اجلاس میری صدارت میں بھی ہوا، اور میں نے اس تصور کی مخالفت میں دلائل دئیے، اور پھر اس تصور کو مذاکرے کے شرکاء نے تقریباً باتفاق رد کردیا۔بعد میں اس پرمیں نے ایک مفصل مقالہ بھی لکھا جو ”احکام الاوراق النقدیۃ” کے نام سے مجمع الفقہ الاسلامی میں بھی پیش کیا گیا، اور الگ بھی شائع ہوا، اور اب وہ میری کتاب ” بحوث فی قضایا فقہیۃ معاصرۃ ” کی پہلی جلد میں موجود ہے۔
رمضان سے کچھ پہلے میرے دونوں بیٹے مولوی عمران اشرف اور مولوی حسان اشرف سلمہما بھی جو اس وقت کمسن تھے، اپنی خالہ اور خالو کے ساتھ مکہ مکرمہ آگئے تھے، اور میں نے ارادہ کیا تھا کہ میں اپنی مختصر سی فیملی کے ساتھ رمضان المبارک حرمین شریفین میں گذاروں۔ چنانچہ ۲ رمضان سے ۱۰؍ رمضان تک ہمارا قیام مدینہ منورہ کی رباط بخارا میں رہا، اور۱۰؍ رمضان کو ہم مکہ مکرمہ آگئے۔وہاں ۱۴؍ رمضان سے ۲۲؍ رمضان تک قیام رہا جس کے دوران دوسری بارفیصل اسلامی بینک کے شریعہ بورڈ کی دو روزہ میٹنگ میں بھی شرکت ہوئی۔ اور پھر ۲۴؍ رمضان المبارک کو کراچی واپسی ہوئی۔
فیصل بینک سے تعلق کے زمانے میں پاکستان کے سابق وزیر اطلاعات جناب معظم علی صاحب مرحوم کے شہزادہ محمد بن فیصل مرحوم سے بڑے اچھے تعلقات تھے۔وہ میرے فیصل بینک سے وابستگی کے دوران لندن منتقل ہوچکے تھے۔ ان کو خیال ہوا کہ انگلینڈ میں مسلمانوں کے لئے حلال سرمایہ کاری کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس لئے انہوں نے ”امہ فائنانس فنڈ” کے نام سے ایک ادارہ لندن میں قائم کرنے کاارادہ کیا جس کے ذریعے مسلمان ایسی تجارتی کمپنیوں میں رقمیں لگاسکیں جن کا کاروبار شرعاً حلال ہو۔ اس لئے انہوں نے مجھ سے رابطہ کیا کہ وہ اس کاایک مختصر شریعہ بورڈ بنانا چاہتے ہیں، تاکہ وہ حلال کمپنیوں کاایک معیار اور ان کا تعین کرے، پھر لوگ فنڈ میں پیسے لگائیں، اور ان کمپنیوں میں حصے لے کر منافع فنڈ کے ارکان میں تقسیم کرے۔ انہوں نے مجھ سے فرمائش کی کہ میں عرب دنیا کے کسی عالم کو اپنے ساتھ ملاکر ”امّہ فائنانس ”کے لئے شرعی مشیر کے طور پر کام کروں۔ میں نے اپنے مصری دوست ڈاکٹر حسن الشافعی کا نام تجویز کیا، جو ایک عرصے تک اسلام آباد اسلامک یونی ورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے تھے۔ چنانچہ ہم دونوں نے معظم صاحب مرحوم کی دعوت پر ۳؍جولائی ۱۹۸۷ ء کولندن کا سفر کیا۔ یہ میرا لندن کا دوسرا سفرتھا۔کنگسٹن پیلس کے ہوٹل مونٹے کارلو میں قیام ہوا، اور معظم صاحب کے دفتر میں جو ہوٹل کے قریب ہی تھا،ہماری میٹنگ ہوئی، اور فنڈ کے ابتدائی خد وخال طے کرکے انہیں دئیے گئے، اور ان سے کہا گیا کہ وہ اس معیار کے مطابق کمپنیوں کی تفصیلات ہمیں بھیجیں، تاکہ ہم ان کا جائزہ لیکر طے کریں کہ کن میں سرمایہ کاری جائز ہوسکتی ہے۔ چنانچہ بعد میں انہوں نے ایک طویل فہرست بھیجی جن میں سے ایک بڑی تعداد کا ہم نے انتخاب کرلیا، لیکن بعد میں انہیں فنڈ کو آگے بڑھانے میں کماحقہ تعاون نہیں ملا، اس لئے یہ فنڈ آگے نہ چل سکا۔
لندن کے اس سفر میں برطانیہ کے مشہور عالم مولانا یعقوب اسماعیل منشی صاحب زید مجدہم،جو ڈیوزبری میں رہتے تھے،مجھ سے ملنے کے لئے لندن تشریف لائے، اور فرمائش کی کہ ایک دن میں ان کے ساتھ ڈیوز بری جاؤں، چنانچہ وہ اپنی گاڑی میں مجھے ڈیوزبری لے گئے، اپنے علمی کاموں کا تعارف کرایا، اور ڈیوز بری کے تبلیغی مرکز بھی جانا ہوا، اور وہاں خطاب بھی ہوا،اور حافظ پٹیل صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات ہوئی جو اس مرکز کے امیر تھے، اور ان کی مخلصانہ جدو جہد نے ڈیوزبر ی کے مرکز کو کہاں سے کہاں پہنچادیا۔اس کے بعد دارالعلوم بری میں بھی حاضری ہوئی،پھر مولانا کی خواہش ہوئی کہ نینی ٹن میں میرا ایک بیان ہو، چنانچہ وہاں بھی جانا ہوا، اور مسلمانوں کی کوششیں دیکھ کر خوشی بھی ہوئی۔
جنیوا میں سعودی ائیر لائنز کے جنرل مینیجرجناب فضل ربی صاحب سے میری کئی ملاقاتیں مختلف جگہوں پر ہوئی تھیں،اور میں ان کے دینی جذبے کا معترف تھا، انہوں نے میرے لندن آنے کی خبر سنی، تو ان کی فرمائش ہوئی کہ لندن سے واپسی پر میں دودن جنیوا میں قیام کروں۔چنانچہ میں نے ان کی فرمائش کی تکمیل کرتے ہوے۸؍اور ۹؍جولائی ۱۹۸۷ ء کے دودن جنیوا میں گذارے۔سوئٹزر لینڈ کے حسین مناظر کاایک تصور بچپن سے قائم تھا،اور میرے میزبان نے شہر اور اس کے مضافات اور خاص طورپر وہاں کے ایک پہاڑ جارا کی سیر بھی کرائی جو ۴۰۰۰ فیٹ بلند تھا،لیکن حیرت ہی رہی کہ ان مناظر میں کون سی ایسی خاص بات ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے قدرتی حسن کے لئے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ بعدمیں علم بھی ہوا، اور تجربہ بھی کہ ملک کااصل حسن دوسرے علاقوں، مثلاً زیورخ سے شروع ہوتا ہے جس میں اُس وقت جانے کااتفاق نہیں ہوا۔ (بعد میں کئی بار جانا ہوا) پھرجنیوا سے فرینکفرٹ ہوتے ہوئے میں ۱۱؍ جولائی کی رات کو وطن واپس پہنچا۔
جاری ہے ….
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
(ماہنامہ البلاغ :شوال المکرم ۱۴۴۳ھ)