حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی
یادیں
(چوالیسویں قسط)
امریکہ کا پہلا سفر
۱۴؍جولائی ۱۹۷۸ء مطابق شعبان ۱۳۹۸ھ کو میرے پاس اسلامی نظریاتی کونسل کے سیکریٹری مظفر اشرف صاحب کا فون آیا کہ امریکہ میں ایک مسلمان تنظیم کی طرف سے ۲۰ ؍ جولائی کو ایک کنونشن منعقد ہورہا ہے، اور اُس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کے لئے صدر ضیاء الحق صاحب نے ایک تین رکنی وفد تشکیل دیا ہے جس میں آپ کے علاوہ جناب خالد اسحاق ایڈوکیٹ اور جناب ڈاکٹر تنزیل الرحمن صاحب شامل ہیں، اس لئے آپ امریکہ کے سفر کے لئے فوراً تیار ہوجائیں۔چنانچہ انہوں نے جلد سے جلدgratis (اعزازی) سرکاری پاسپورٹ بنوائے، اورچند ہی دن میں پی آئے کے طیارے سے سیٹ بک ہوگئی۔مجھے یہ شوق تھا کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے واپسی میں لندن،پھر قاہرہ اور آخر میں حجاز کا سفر بھی ساتھ ہوجائے، کیونکہ اس وقت کسی طویل پرواز پر راستے کے دوتین ملکوں میں ٹھہرنے کی اسی ٹکٹ میں کسی مزید ادائیگی کے بغیر گنجائش ہوا کرتی تھی۔چنانچہ ہم نے ٹکٹ اسی حساب سے بنوالیا۔ ہمارے خاندان، مدرسے اور ملنے جلنے والوں میں اب تک کسی نے مغربی دنیا کا سفر نہیں کیا تھا۔اپنے ماحول میں پہلی باراس طرف کا رُخ کرنے والا میں تھا، اس لئے مجھے یاد ہے کہ ۱۸ ؍جولائی کو جب ہم ائیر پورٹ پہنچے، تو ہمارے خاندان کے لوگوں کا ایک جم غفیر ائیر پورٹ پر مجھے رخصت کرنے کے لئے موجود تھا، تینوں بھائیوں کے علاوہ بھتیجے بھانجے، سسرالی رشتہ دار، دارالعلوم کے لوگ، سب جمع تھے۔ پی آئی ائے کی فرسٹ کلاس میں میری اور ڈاکٹرتنزیل الرحمن صاحب کی سیٹیں ایک ساتھ تھیں، خالد اسحق صاحب کو علیحدہ سفر کرنا تھا۔ہمارے جہاز کو پہلے دبئی، پھرقاہرہ،پھر فرینکفرٹ، پھرپیرس رکنا تھا، اور وہاں سے بحر اوقیانوس (اٹلانٹک) کو عبور کرکے نیویارک پہنچنا تھا۔ہم رات گئے، تقریباً ایک بجے سوار ہوئے، اور دبئی سے پرواز کرنے کے بعد ہم سورج کے ساتھ ساتھ مغرب میں سفر کرتے رہے، اس لئے اُس روز ہمارا دن معمول سے بہت زیادہ لمبا ہوگیا۔یورپ میں پہلی بار داخل ہوئے تو پہلی منزل فرینکفرٹ تھی، اُس وقت یہ شہر بادلوں کی لپیٹ میں تھا، اور مہین بادلوں سے جھلکتی ہوئی شہر کی خوبصورتی میرے لئے ایک نیا تجربہ تھی۔ ائیر پورٹ ہی اتناوسیع وعریض اور جدید سہولیا ت سے آراستہ تھا کہ ایسا ائیر پورٹ پہلے نہیں دیکھا تھا۔وہاں سے اُڑے، تو پیرس کا اورلی ائیر پورٹ اپنے روایتی حسن کے ساتھ دعوت نظارہ دے رہا تھا۔ عصر کی نماز ہم نے پیرس میں پڑھی، اُس کے بعد جہاز آٹھ گھنٹے مسلسل بحر اوقیانوس پر پرواز کرتا رہا، اور جب نیویارک کے کینیڈی ائیر پورٹ پر اترا، تو عصر کا وقت اُس وقت بھی تھوڑا سا باقی تھا، اور جہاز سے اترتے اور امیگریشن وغیرہ کے مراحل طے کرتے کرتے مغرب ہوگئی جو ہم نے ائیر پورٹ پر ہی اداکی۔ پاکستانی سفارت خانے کے نائب قونصل ہمارے استقبال کے لئے موجود تھے۔ کانفرنس ویسٹ ورجینیا کے دارالحکومت چارلسٹن میں ہونی تھی۔ ہم رات کے وقت نیویارک پہنچے تھے، اور اُس وقت شاید چارلسٹن کے لئے کوئی پرواز نہیں تھی، اس لئے سفارت خانے کی طرف سے لگارڈیا ائیر پورٹ کے سامنے ایک ہوٹل میں ہمارے لئے رات گذارنے کاانتظام کردیا گیا تھا۔یہ امریکہ میں ہماری پہلی رات تھی، اور ہمارے ملک کے لحاظ سے دن کا وقت۔اس لئے رات بھر کوشش کے باوجود نیند نہیں آئی۔صبح اٹھے تو ہوٹل سے باہر چہل قدمی کے لئے نکلے۔ سامنے ایک ہائی وے تھی جس پر کاریں تیزی سے دوڑتی ہوئی جارہی تھیں۔کچھ دیر کی چہل قدمی کے بعد ہوٹل کے ریسٹورنٹ میں ناشتے کے لئے بیٹھے تو ویٹر نے ایک بڑے سے مگ میں ہم سے پوچھے بغیر ہی کالی سی کافی انڈیل دی جوایک طرف ٹھنڈی پٹ تھی، اور دوسری طرف دودھ کے بغیر اور اتنی کڑوی کہ اُسے منہ میں لے کر نگلنا بھی مشکل ہوگیا، اور اگلنا بھی۔ معلوم ہوا کہ امریکی گورے ناشتے کا آغاز ہی اس سیاہ فام کافی سے کرتے ہیں، اس لئے ویٹر پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے۔ذائقے پر اس کافی کے بد ذائقہ اثرات سے کسی طرح جان چھڑاکر توس اور انڈا لیا، چائے لی، تو وہ بھی ٹھنڈی، اور پھیکی۔چینی کے پیکٹ تو بہت سے پڑے تھے، مگر ان میں مٹھاس بس واجبی ہی سی تھی۔
اُس وقت نیو یارک میں ہمارے جاننے والے بہت کم تھے۔ حضرت مولانا محمد متین خطیب صاحب ؒ کے صاحبزادے محمد امین صاحب جو میرے بچپن کے دوست تھے، ان کا فون نمبر میرے پاس تھا۔ انہیں فون کیا، تووہ آکر اپنے گھر لے گئے۔پھر اُسی دوپہر چارلسٹن کے لئے ہماری پرواز تھی۔عصر کے قریب ہم چارلسٹن پہنچے۔ وہ زمانہ ایسا تھا کہ امریکہ میں پاکستانی حضرات بہت کم تھے۔ خاص طورپر چارلسٹن میں ان کی تعداد بہت کم تھی۔ ہم جب چارلسٹن ائیر پورٹ پر اترے، تو کانفرنس کے منتظمین سے زیادہ ایک پاکستانی جوڑا ہماری خاطر مدارات میں زیادہ مصروف نظر آیا۔ ہم انہیں نہیں جانتے تھے، لیکن وہ اس طرح ہماری خاطر مدارات میں لگا ہوا تھا جیسے اس سے پرانا تعلق ہو۔پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ یہ دونوں میاں بیوی چارلسٹن کے کسی ہسپتال میں ڈاکٹر ہیں،(افسوس ہے کہ اب ان کا نام یاد نہیں آرہا) انہوں نے سُن لیا تھا کہ کانفرنس میں شرکت کے لئے پاکستان سے دو آدمی آ رہے ہیں، اور پاکستان سے محبت انہیں ائیر پورٹ کھینچ لائی۔ دراصل اُس وقت تک وہاں پاکستانی باشندے بہت کم تھے، اور جو تھے، انہیں پاکستانیوں کو دیکھنے اور ان سے ملاقات کا بڑا شوق ہوتا تھا۔ یہی شوق تھا جس نے انہیں مجبور کیا کہ وہ انجانے پاکستانیوں سے ملنے کے لئے ائیر پورٹ پر ان کا استقبال کریں۔ان کے اس جذبے کی بڑی قدر ہوئی، اور پھر انہوں نے چارلسٹن میں ہمارے قیام کے دوران ہمارا اس طرح خیال رکھا جیسے ہم ان کے گھر کے ایک فرد ہوں۔
ہمارا قیام ہالی ڈے ان ہوٹل میں تھا۔ہم وہاں پہنچے، تو سہ پہر کا وقت تھا۔تھوڑی دیر میں وہ ڈاکٹرصاحب دو بڑے سے تھیلے خشک میووں اور نمکیات سے بھرے ہوئے لاکر ہمارے پاس رکھ گئے کہ پاکستان سے آنے والوں کے دن اوررات کا نظام یہاں تبدیل ہوجاتا ہے، اس لئے ہوسکتا ہے کہ آپ کو بے وقت کھانے کی ضرورت ہو۔ ایسے موقع پر یہ چیزیں کام آئیں گی۔ہم تھکے ہوئے تھے، اس لئے کچھ دیر آرام کی غرض سے سوگئے۔دن اوررات کا نظام واقعی تبدیل ہوچکا تھا، اور اب جو آنکھ کھلی تو رات کے گیارہ بج رہے تھے۔مغرب قضا ہوگئی تھی، جلدی سے اٹھکر مغرب اور عشاء پڑھی۔اس کے بعد ریسٹورنٹ میں کھانے کے لئے پہنچے، تو وہ بند ہوچکا تھا۔ ایک ویٹر نے بتایا کہ ہوٹل کی اوپر کی بالکل آخری منزل پر ایک ریسٹورنٹ کھلا ہوگا، آپ وہاں جاسکتے ہیں۔ ہم وہاں پہنچے تو ریسٹورنٹ میں اندھیرا تھا، البتہ میزوں کے اوپر چھوٹی چھوٹی شمعیں جل رہی تھیں۔ہم ایک میز پر پہنچے، اور ویٹر یس کو مچھلی لانے کے لئے کہا، کیونکہ کوئی اور حلال غذا ملنے کی توقع نہیں تھی۔ ویٹریس نے آرڈر تو لے لیا، لیکن تھوڑی دیر بعد اُس نے آکر کہا کہ اگر آپ برا نہ مانیں، تو میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ یہ جگہ شاید آپ کے لئے موزوں نہیں ہے، آپ روم سروس کو آرڈر دیکر جو کھانا چاہیں، منگوالیں۔ اس کے کہنے سے اندازہ ہوا کہ یہ جگہ تھوڑی دیر میں ایک نائٹ کلب میں تبدیل ہونے والی ہے۔اور ہمارے چہرے کی داڑھیوں اور لباس سے ویٹریس نے اندازہ لگایا کہ ہم مسلمان ہیں، اور تھوڑی دیر میں جب نائٹ کلب کی کارروائی شروع ہوگی، تو پھر ہم یہاں بیٹھنا نہیں چاہیں گے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس مشکل سے بہ آسانی نکال دیا۔اور اسی موقع پر پہلی بار اپنی داڑھی اور پاکستانی لباس کی قدر معلوم ہوئی کہ اس کی وجہ سے ایک غیر مسلم خاتون کو بھی یہ احساس ہوگیا کہ جو مشغلہ تھوڑی دیر میں یہاں شروع ہونے والا ہے، وہ اس کے مناسب نہیں، اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک فتنے سے بچالیا۔ اس کے بعد کھانے کو دل ہی نہ چاہا، اور ڈاکٹر صاحب جو خشک میووں کے تھیلے دے گئے تھے، ان کی قدر ہوئی، اور ہم نے انہی پر اکتفا کیا۔
صبح کو فجر کے بعد میں چہل قدمی کے لئے ہوٹل سے باہر نکلا۔ہوٹل جس سڑک پر واقع تھا، اس کی دوسری طرف ایک دریا بہہ رہا تھا، اور اس کے دونوں جانب کا علاقہ بڑا سرسبز تھا، لیکن چہل قدمی کے دوران پوری فضا میں تیل کی بُو بسی ہوئی تھی جس نے سیر کا سارا لطف ختم کردیا تھا۔ معلوم ہوا کہ یہ ایک صنعتی شہر ہے، اور کارخانوں کی کثرت کی بنا پر یہاں فضا اس بو سے مکدر ہے۔ حیرت بھی ہوئی کہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں ماحول کی اس آلودگی کو کیسے برداشت کیا جارہا ہے۔
اس وقت امریکہ میں مسلمانوں کی کئی تنظیمیں بنی ہوئی تھیں، جو زیادہ تر عرب مسلمانوں نے بنائی تھیں، ان تنظیموں کا ایک وفاق ”فیڈریشن آف اسلامک ایسوسی ایشن ” کے نام سے بنا ہوا تھا جس کے سیکریٹری اسد صاحب ایک لبنانی مسلمان تھے۔ اور انہوں نے ہی صدر ضیاء الحق صاحب مرحوم سے یہ فرمائش کی تھی کہ ان کا سالانہ کنونشن جولائی میں ہورہا ہے،اس کے لئے پاکستان سے کچھ نمائندے بھیجے جائیں۔صدر صاحب مرحوم نے اس کے لئے ہم تینوں کو بھیجا تھا۔ہمارا خیال تھا کہ یہ ایک تربیتی قسم کا اجتماع ہوگا جس میں مسلمانوں اور ان کے بچوں کو دین کے بارے میں کچھ سکھایا جائے گا، اور ہمیں بھی اس میں کچھ حصہ لگانے کا موقع ملے گا، لیکن یہاں آکردیکھا تو یہ سوشل قسم کا کنونشن تھا، جس میں ایک مجلس ”امریکہ میں اسلام ” کے عنوان سے رکھی گئی تھی، اسی میں مجھے بھی تقریر کرنی تھی، اور انگریزی میں تقریر کرنے کا میرے لئے پہلا موقع تھا، اس لئے میں نے تقریر لکھ لی تھی، اور لکھی ہوئی تقریر ہی پڑھی، جس کا خلاصہ ترجمہ ”جہان دیدہ” میں شائع ہوگیا ہے۔تنزیل الرحمن صاحب اور خالد اسحاق صاحب نے فی البدیہہ تقریر کی۔ لیکن شام کو جب ڈنر میں پہنچے، تو وہاں یہ افسوسناک منظر نظر آیا کہ بہت سی مسلمان خواتین مغربی انداز کے نیم برہنہ لباس میں مردوں کے ساتھ مخلوط ہوکر بیٹھی تھیں، اور یہ اعلان ہورہا تھا کہ:” جو لوگ حلال کھانا چاہیں، وہ مچھلی پر اکتفا کریں ” جس کا مطلب یہ تھا کہ گوشت حلال نہیں تھا۔ماحول سراسر مغربی عریانی میں ڈوبا ہوا تھا۔ ایک عرب نوجوان نے لاؤڈ اسپیکر پر آکر خواتین کے اس لباس پر اعتراض کیا، تو ہال سے آوازیں بلند ہوئیں: ”Backwardness, Backwardness’’ (دقیانوسیت، دقیانوسیت) ہم تھوڑی دیر ایک کونے میں دبک کر بیٹھے، پھر جلد ہی وہاں سے سدھارنے میں عافیت سمجھی۔
اگلے دن قریبی دریا میں جہاز کے ذریعے سیر کا پروگرام تھا، اُس میں بھی دور دور اسلامیت کا کوئی شائبہ نظر نہیں آتا تھا۔ یہ صورت حال دیکھ کر ہم فیڈریشن کے صدر اسد صاحب سے ملے، اور ان سے عرض کیا کہ ہمیں اس قسم کا ماحول دیکھ کر بڑی سخت اذیت ہوئی ہے۔ اگر آپ ان لوگوں کو اس کنونشن میں اسلامی طرز زندگی سکھا نہیں سکتے، تو پھر اس کنونشن کا فائدہ کیا ہے؟ یہ سُن کر ان کی آنکھ پُرنم ہوگئی، اور انہوں نے کہا کہ جناب! ہم خود اس صورت حال سے پریشان ہیں۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ بیشتر اُن عرب خاندانوں کی اولاد ہیں جو سالہا سال پہلے معاش کی خاطر امریکہ میں آباد ہوئے، اور یہیں کا طرززندگی اپنالیا۔انہیں بچوں کی دینی تربیت کی بھی کوئی فکر نہیں تھی، اس لئے یہ سب امریکی ماحول میں بری طرح رنگے ہوئے ہیں، اور اب ہم فی الحال اسی بات کو غنیمت سمجھتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح یہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے اور سمجھتے رہیں، اس لئے ہم اس قسم کے اجتماعات میں ان پر سختی اس لئے نہیں کرتے کہ یہ کہیں مرتد نہ ہو جائیں۔یہ سُن کر ہمارے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔پھر ہم نے انہیں کچھ تجاویز بھی پیش کیں ، اور دل سے دعائیں نکلیں کہ اللہ تعالیٰ یہاں کے مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت فرمائیں۔میں نے امریکہ کے بعد کے بہت سے سفروں میں یہ عبرت انگیزواقعہ سُناکر اپنے بھائی بہنوں کو متنبہ کیا کہ آنے والی نسلوں کے ایمان کی حفاظت ان کا سب سے بڑا فریضہ ہے، اور اگر انہوں نے اس کی طرف توجہ نہ دی، تو اللہ تعالیٰ محفوظ رکھیں، انجام یہاں تک پہنچ سکتا ہے۔الحمد للہ، جوں جوں وہاں مسلمانوں کی تعداد بڑھی ہے، حالات خاصے تبدیل ہوئے ہیں، لیکن سچی بات ہے کہ اگر وہاں رہنے والے مسلمانوں کی اکثریت کو دیکھا جائے، تو اولاد کا مسئلہ اب بھی تشویش ناک ہے۔
چارلسٹن سے فارغ ہوکر ہم واشنگٹن گئے، جہاں سائنسی میوزیم خاص طورپر دلچسپی کا باعث بنا۔وہائٹ ہاؤس کی بھی سیر کی، اور اس کے بعدخالد اسحاق صاحب مرحوم واپس چلے گئے، اور میں نے ڈاکٹر تنزیل الرحمن صاحب کے ساتھ نیویارک میں اپنے ایک عزیز جناب ناظم صاحب کے گھر چنددن قیام کیا۔ نیویارک پہلی بار آنا ہوا تھا، اس لئے وہاں کے خاص خاص مقامات، مثلاً ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ اسی وقت دیکھی تھی۔ اُس وقت نیویارک میں مسجدیں بہت کم تھیں، اور حلال غذا حاصل کرنا کارے دارد تھا۔ چنانچہ صرف سبزیوں کا بنا ہوا پیزا پہلی بار وہیں کھانے کی نوبت آئی تھی۔
اس زمانے میں اگر ایک طویل سفر کے راستے میں مختلف ائیر لائنز کے ذریعے کئی جگہ قیام کیا جاتا، تو کرایہ تقریباً یکساں رہتا تھا۔چنانچہ نیویارک سے ہم نے پہلے لندن کا سفر کیا۔ وہاں بھی میرے ایک عزیز جناب انصاراللہ صاحب کے یہاں قیام ہوا۔ لندن کا بھی پہلا سفر تھا، اس لئے وہاں کے خاص خاص مقامات دیکھے، اور ریجنٹ پارک کی مسجد میں میرا خطاب بھی ہوا۔ وہاں بھی اُس وقت مساجد کی تعداد بہت کم تھی،بالہم کی مسجد بھی چھوٹی سی تھی۔
مجھے بچپن سے اسلامی ملکوں، بالخصوص مصر دیکھنے کا شوق تھا، چنانچہ ہم نے لندن سے ایتھوپیا ائیر لائنز کے ذریعے قاہرہ کا سفر کیا۔قاہرہ میں اُس وقت کوئی جاننے والا نہیں تھا۔چنانچہ ائیر پورٹ پر اترکر وہیں سے ایک درمیانے قسم کے ہوٹل میں بکنگ کرائی، جو قاہرہ کے علاقے دُقّی میں واقع تھا، جو دریائے نیل کے اُس پار جیزہ میں ہے۔ہمیں جامعۃ الازہر دیکھنے کا بھی شوق تھا، اور شیخ الازہر سے ملاقات کا بھی ، فون پر ان سے ملاقات کا وقت لیا تو انہوں نے اگلے دن صبح کا وقت دیا۔
شام خالی تھی، اور مجھے شہر کی سیر کے علاوہ وہاں سے احرام کی چادریں بھی خریدنی تھیں ۔ میں نے تنزیل الرحمن صاحب سے کہا کہ وہ میرے ساتھ چلیں، لیکن وہ تھکے ہوئے تھے، اور آرام کے موڈ میں تھے۔ چنانچہ میں نے ہوٹل سے کچھ رہنمائی لیکر ایک ٹیکسی لی، اور ڈرائیور سے کسی ایسے بازا ر چلنے کے لئے کہا جہاں سے احرام خریدا جاسکے۔چنانچہ اُس نے دریائے نیل کے پار ایک بازار میں لاکر اتار دیا۔ عربی تو میں اُس وقت بھی بول لیتا تھا، مگر مصر کی عامی زبان بالکل پلے نہیں پڑتی تھی۔ نہ جانے کس طرح ڈھونڈ ڈھونڈکر احرام کی چادریں دریافت ہوئیں۔ اب واپسی کے لئے ٹیکسی لوں، تو ڈرائیور کو پتہ سمجھانا بہت مشکل تھا۔ بہر حال! کسی طرح یہ مشکل حل ہوئی، اور واپسی میں ہوٹل کا راستہ میں خود بھول گیا۔ کسی دوسرے ملک میں کسی رہنما کے بغیر کیا مشکلات ہوتی ہیں، ان کا اندازہ اسی سفر میں ہوا۔آخر دعائیں کرکرکے رات کو نہ جانے کس طرح ہوٹل پہنچا۔
اگلے دن ہم جامعۃ الازہر گئے۔ اس وقت شیخ جادالحق رحمۃ اللہ علیہ شیخ الازہر تھے، وہ بڑی محبت وشفقت سے پیش آئے۔ میں نے علماء دیوبند کی حدیث کی خدمات کاذکر کیا،اورفتح الملہم پر اپنے کام کا تذکرہ آیا، تو انہوں نے فرمایا کہ ازہر کے ناظم شیخ حسینی مسند احمدؒ پر کام کررہے ہیں، آپ اُن سے ضرور ملیں۔ پھر انہوں نے ہی ان سے ملاقات کروائی۔شیخ حسینی ؒ بھی بڑی محبت سے پیش آئے، اور انہوں نے بتایا کہ وہ حدیث کے بارے میں ایک کانفرنس کرنا چاہتے ہیں۔ علماء دیوبند کی خدمات کے پیش نظر انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ جب وہ کانفرنس ہوگی، تو میں آپ کو دعوت دوں گا، آپ اُس میں علمائے ہند کی حدیثی خدمات پر مقالہ لکھیں۔ (چنانچہ بعد میں انہوں نے یہ دعوت مجھے بھیجی، اور میں نے مقالہ بھی لکھا، جو مقالات العثمانی میں شامل ہے، البتہ کانفرنس کسی وجہ سے ملتوی ہوگئی)۔
ازہر سے راہ ورسم کے نتیجے میں قاہرہ کے مختلف مقامات دیکھنے کے لئے کچھ رہنمائی بھی میسر آگئی۔جامع الازہر اور حیّ سیدنا حسین ؓ کے علاوہ فراعنہ کی لاشوں کے میوزیم اور دریائے نیل کے کنارے اسّی منزلہ برج القاہرہ نیا نیا بنا تھا، اُس کی بھی سیر کی۔ اُسی شام کو شعبان کی۲۹؍ تاریخ تھی۔ معلوم ہوا کہ علماء کی مجلس نے رمضان کا چاند نظر آنے کااعلان کردیا ہے۔اُسی وقت یہ بھی معلوم ہوا کہ مصر کے بارے میں جو افواہ تھی کہ وہاں رؤیت ہلال کے بجائے حساب پر فیصلہ کیا جاتا ہے، وہ بالکل غلط تھی۔ رات کے وقت ہماری سیٹ جدہ کے لئے بک تھی۔ اسی رات ہم روانہ ہوگئے، اور رات گئے مکہ مکرمہ پہنچ کر پہلا روزہ وہیں رکھا۔مدرسہ صولتیہ میں قیام ہوا۔اس وقت تک حرم مکی میں مطاف اور ترکی عمارت کے درمیان سنگریزوں والا صحن موجود تھا، اور تراویح مطاف کے اندر اندر ہی ہوجاتی تھی۔ الحمد للہ! رمضان کے چند دن مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ میں نصیب ہوئے۔ مدینہ طیبہ میں اُس وقت حرم کی دوسری سعودی توسیع نہیں ہوئی تھی، اور باب عمرؒ کے مشرقی جانب ایک متصل گلی میں حضرت مولانا عبدالقدوس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے زیر انتظام رباط بنگال قائم تھی۔اسی میں قیام ہوا۔اور پھر وہاں سے دوبارہ حرم مکی میں حاضری دیکر جدہ سے کراچی واپسی ہوئی۔اس سفر کا بہت مختصر تذکرہ میں نے البلاغ میں لکھا تھا، اور ”جہان دیدہ” میں ”یورپ اور امریکہ میں چند روز” کے عنوان سے شامل ہے۔
جامعۃ الامام محمد بن سعود سے تدریس کی پیشکش
شعبان ۱۳۹۹ ھ (جولائی ۱۹۷۹ ء ) میں مجھے اچانک ریاض کی جامعۃ الامام محمد بن سعود کے مدیر کی طرف سے ایک تار موصول ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ جامعہ کی طرف سے آپ کو استاذ مقرر کردیا گیا ہے، آپ اپنی منظوری سے مطلع کریں۔میں حیران تھا کہ میری کسی تحریک کے بغیر کس بنا پر یہ تقرر کیا گیا ہے۔ اب تو سعودی عرب کے علماء میں میرے جاننے والوں کی اچھی خاصی تعداد ہے، لیکن اُس وقت میں کم ازکم اُس ملک میں گمنام تھا۔ پھر خیال آیا کہ حضرت شیخ عبدالفتاح ابوغدہ(رحمۃ اللہ علیہ) اسی جامعہ کے کلیۃ أصول الدین میں استاذ ہیں، اور ایک دو ماہ قبل وہ یہاں تشریف لائے تھے۔ شاید ان کی تحریک پر مجھے یہ دعوت دی گئی ہوگی۔چنانچہ چند ہی دن میں حضرت موصوف ؒ کے دو گرامی نامے میرے نام آئے جن سے اس خیال کی تصدیق ہوگئی۔ایک مکتوب میں انہوں نے لکھا تھا کہ:
”أکتب لکم ہذہ الکلمۃ العجلی تحیۃ وصلۃ. قدّمتُ اسمکم الکریم للجامعۃ، وسیأتی إن شاء اللہ الطّلب إلیکم، وأرجو أن نسعد بکم فی الرّیاض لتکون ریاضا نفاحۃ بہجۃ.”
”میں یہ کلمات عجلت میں سلام ودعا پہنچانے کے لئے لکھ رہا ہوں۔ میں نے آپ کا نام جامعہ میں پیش کردیا ہے، اور ان شاء اللہ عنقریب آپ کے پاس ان کی طرف سے طلب آئے گی، اور مجھے امید ہے کہ ہمیں آپ سے ریاض میں سعادت حاصل ہوگی، تاکہ ریاض خوشبو اورخوشیوں سے مہک اُٹھے۔”
اس سلسلے میں حضرتؒ کا جو دوسرا قدرے تفصیلی مکتوب مجھے ملا، وہ اُن کی غایت شفقت کا عظیم مظہر ہے، وہ پورا نقل کرتا ہوں:
” بسم اللہ الرحمن الرحیم
إلی الأخ الحبیب المحب الحب ابن الحب فضیلۃ الشیخ العلامۃ المحدث الفقیہ مولانا محمد تقی کان اللہ لہ وبلّغہ أملہ، وأکرمنی بصالح دعواتہ آمین.
من أخیہ راجی دعواتہ عبد الفتاح أبو غدۃ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
وبعد: فأحمد اللہ تعالی إلیکم، وأرجو أن تکونوا وکلّ من معکم ویعزّ علیکم بخیر من اللہ ونعمۃ.
لعل البرقیّۃ الّتی أرسلت من قبل مدیر الجامعۃ بدعوتکم وصلت إلیکم فی حینہا، فإنّی منذ عدت إلی الریاض، قدّمت التقریر عن اختیار فضیلتکم لتکونوا فی أسرۃ التّدریس المختارۃ الممتازۃ فی الجامعۃ، ورحّب المدیر بذلک والحمد للہ، ثم أرسل برقیۃ بہذا کما وعدنی، والیوم قبل إرسال ہذہ التّحیّۃ إلیکم ذہبت إلی مدیر الجامعۃ، وسألتہ عن إرسال البرقیۃ للسفیر عندکم لإعطاء التأشیرۃ… فأجاب أن قد أُرسلت من أیام، فأرجو أن یکون تم ذلک بعون اللہ تعالی.
والدّراسۃ عندنا تبدأ من ۱/ ذی القعدۃ فی ہذا العام إن شاء اللہ ومعنی بدایتہا منہ أنّ المدرّسین یعودون إلی الجامعۃ فی ہذا الیوم أو الّذی یلیہ ۲/۱۱ / ۱۳۹۹ھ ویکون الاختبار الثانی للطلاب، ولعل الدراسۃ الفعلیۃ تبدأ حقیقۃ فی ۱۵؍ أو ۲۰؍ منہ، أذکر لکم ہذا لتنظموا عملکم وسفرکم من الآن، وحبّذا لو أخبرتمونی برسالۃ قریبۃ عن عزمکم للحضور بعون اللہ تعالی جزماً، لعلنا نوفّق باختیار مسکن لکم مناسب إذا علمت بہ، فإن اختیار المسکن مہم، وإذا کانت الجامعۃ تقدمہ لکم فأولی، ویعطون ۱۰؍ آلاف لتأثیث المسکن للقادم، ہذہ منحۃ غیر داخلۃ فی الراتب الشہری وتعویض المسکن، فإن تعویض المسکن ۱۷ / ألفاً لغیر الأستاذ، ولمرتبۃ الأستاذ ۲۰/ ألفاً، ولکن الأجرۃ الفعلیۃ قد تزید وقد تنقص بحسب المسکن سعۃ وضیقاً، فکم غرفۃ ترغبون وکم عدد الأسرۃ العزیزۃ بارک اللہ فیہا؟
وعلی کلّ حال لعلّی آخذ علم ذلک منکم مع الأخ الوارد إلینا بعد نحو عشرۃ أیام کما أخبرنی بذلک الأخ إلیاس، وختاماً تحیاتی لکم وللأخ الأعزّ فضیلۃ الشیخ محمد رفیع وإلی باقی الأحباب والأصحاب، وأستودعکم اللہ، إلی لقاء قریب حبیب بإذن اللہ، والسلام علیکم ورحمۃ اللہ.
الریاض ۲۳/۸ / ۱۳۹۹ھ أخوکم عبد الفتاح أبو غدۃ
ملاحظۃ: یوجد فی الریاض مدرسۃ للأولاد الباکستانیین خاصۃ بہم مأذون بہا من الدولۃ ہنا، فقد تحتاجون إلی معرفۃ ہذا. واللہ ولی التوفیق.
:خط کا ملخص ترجمہ یہ ہے
”سلام ودعا کے بعد
ریاض سے جامعہ کے مدیر کی طرف سے جو تار آپ کو بھیجا گیا ہے، شاید وہ بروقت پہنچ گیا ہوگا۔ میں نے ریاض واپس آنے کے بعد آپ کے بارے میں ایک مفصل تجویز جامعہ کے مدیر کو بھیجی تھی کہ آپ کو جامعہ کے منتخب اور ممتاز اساتذہ میں شامل کیا جائے۔ جامعہ کے مدیر نے الحمد للہ اس تجویز کا خیر مقدم کیا،اور اس کی بنا پر آپ کو تارروانہ کیا۔ آج ہی میں نے ان سے مل کر پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ تار بھی بھیج دیا گیا ہے، اور اُس کے ساتھ پاکستان کے سفیر کو آپ کے ویزا کا انتظام کرنے کے لئے بھی کہہ دیا ہے، اور امید ہے کہ یہ کام بھی ہوچکا ہوگا۔
اس سال ہمارے یہاں تعلیم یکم ذیقعدہ سے شروع ہونی ہے، یعنی اساتذہ اس تاریخ کو یا اس کے ایک دن بعدپہنچیں گے،اس کے بعد طلبہ کاامتحان ہوگا، اور عملی طورپر تعلیم بظاہر ۱۵ یا ۲۰ ذیقعدہ سے شروع ہوسکے گی۔یہ میں اس لئے بتارہاہوں، تاکہ آپ اپنے سفر کاانتظام اس کے حساب سے کرلیں۔کیا ہی اچھا ہو کہ آپ مجھے اپنے آنے کے حتمی ارادے سے مطلع کردیں، تاکہ میں آپ کے لئے مناسب مکان تلاش کرکے رکھوں، کیونکہ مکان کا معاملہ بڑااہم ہے۔اگر جامعہ نے خود مکان کا انتظام کردیا، تو بہتر ہے، اُس صورت میں وہ گھرکے فرنیچر اور دیگر سامان کے لئے دس ہزار ریال دیں گے۔یہ رقم ماہانہ تنخواہ اور گھر کے الاؤنس کے علاوہ ہوتی ہے۔ گھر کا الاؤنس استاذ کے علاوہ لوگوں کے لئے ۱۷ ہزارریال اور استاذ کے لئے ۲۰ ہزارریال ہوتا ہے۔ لیکن مکان کا کرایہ گھر کی نوعیت کے لحاظ سے کم یا زیادہ ہوسکتا ہے۔آپ کتنے کمروں کا مکان لینا چاہیں گے؟ اور آپ کے عزیز خاندان کے افراد کتنے ہوںگے؟
یہ ساری معلومات میں ان شاء اللہ ایک ساتھی کے ذریعے حاصل کرلوں گا جو عنقریب آپ کے پاس آنے والے ہیں،جیساکہ مولانا محمد الیاس نے مجھے بتایا ہے۔حضرت مولانا محمد رفیع صاحب کو سلام۔
”ایک ضروری بات یہ ہے کہ یہاں پاکستانی بچوں کی تعلیم کے لئے ایک الگ اسکول موجود ہے، جسے مملکت کی طرف سے اجازت بھی حاصل ہے۔یہ اس لئے ذکر کردیا کہ شاید آپ کو اس کی ضرورت ہو۔”
حضرت شیخ ؒ کا یہ خط ان کی جس غیر معمولی شفقت کا مظہر ہے، اُس کے احساس سے میں نہال ہوگیا۔اللہ تعالیٰ اُن پر اپنی رحمتوں کی بارش برسائے، اپنے ایک ناکارہ شاگرد کا اتنا خیال رکھنا اور اُس کی ایسی عزت افزائی اُنہی کا حصہ تھا۔لیکن اس گرامی نامے نے مجھے ایک عجیب کشمکش میں ڈال دیا۔حضرت والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ کی تربیت اور فیض صحبت کا یہ اثر تھا کہ ریاض کی جامعہ میں بحیثیت استاذ تقرر کے جو مادی فوائد تھے، الحمد للہ ان کی وجہ سے تو کوئی قابل ذکرکشش پیدا نہیں ہوئی، دوسری طرف دارالعلوم کی خدمت کو مستقل طورپر چھوڑنے کے لئے بھی دل آمادہ نہیں تھا، والدہ ماجدہ رحمہا اللہ تعالیٰ مسلسل بیمار چل رہی تھیں،اور اس حالت میں انہیں چھوڑکر جانا بھی دل پر شاق تھا۔نیز پاکستان میں اسلامی قوانین کے نفاذ کا جو آغاز ہو رہا تھا،اُس میں کسی بھی حیثیت سے شریک رہنا ضروری معلوم ہوتا تھا۔ البتہ میرے لئے کشش کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ حضرت شیخ عبدالفتاح ابو غدہ رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت سے استفادہ کا یہ بہترین موقع تھا۔ اس کے علاوہ عرب ماحول میں رہکر عربیت میں ترقی کی بھی امید تھی۔اس وجہ سے میں نے اس پہلو سے سوچنا شروع کیا کہ مستقل طورپر جانے کے بجائے فی الحال ایک سال کے لئے اس پیشکش کو قبول کرلوں، اس دوران الحمدللہ! حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب مدظلہم دارالعلوم اور والدہ صاحبہ مد ظلہا کی دیکھ بھال کے لئے تیار تھے، نیز ریاض میں رہتے ہوئے بھی اسلامی قوانین کی تدوین کے کام میں کسی نہ کسی طرح شامل رہ سکنے کی امید تھی۔چنانچہ اس پہلو سے میں نے استخارہ بھی شروع کیا، اور مشورہ بھی۔ میرے بڑے بھائیوں کی رائے یہ تھی کہ اس پیشکش پر عمل کرلیا جائے، لیکن جوں جوں استخارہ کرتا، طبیعت کی آمادگی میں کمی آجاتی۔ آخر میں نے اپنے شیخ حضرت عارفی قدس سرہ سے مشورہ کیا، اور اپنے سارے حالات بتائے۔ حضرتؒ نے تمام حالات سننے کے بعد مشورہ یہی دیا کہ معذرت کرلی جائے۔ حضرت شیخ عبدالفتاح ابو غدہ رحمۃ اللہ علیہ کی غیرمعمولی شفقتوں کی بنا پر میرے لئے معذرت کرنا بھی آسان نہیں تھا، اور سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ان سے معذرت کس منہ سے کس طرح کروں؟ لیکن اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ انہوں نے رمضان کے آخر میں مجھے خط لکھا کہ وہ عید کے متصل بعد کراچی تشریف لارہے ہیں۔اپنی تشریف آوری کے اسباب بتانے کے بعد انہوں نے لکھاتھا:
” ولعلی بہذہ المناسبۃ أدرک آخر العید عندکم، فأجمع فیہ بین عیدین لقائکم وعید الفطر السعید، ولقاء الأحباب الأنجاب لدیکم، ولعلکم تہیئتم للسفر إلینا علی أوائل ذی القعدۃ، لتکونوا فی أول العام الدراسی فی مقر عملکم المنتظر لکم، أعانکم اللہ ویسّر علیکم کل عسیر.”
الریاض الأربعاء ۲۱ / من رمضان المبارک ۱۳۹۹ہ أخوکم عبد الفتاح أبو غدۃ
”شایداس موقع پر عید کے آخری دن میں آپ کے پاس ہوں، اور اس طرح میرے لئے دو عیدیں جمع ہوجائیں۔ایک آپ اور دوسرے بھائیوں سے ملاقات کی عید، اور دوسری عیدالفطر۔شاید آپ اب تک اس بات کی تیاری کرچکے ہوںگے کہ ذیقعدہ کے اوائل میں سفر کرکے ہمارے پاس آجائیں، تاکہ تعلیمی سال کے شروع ہی میں آپ اپنے اُس مستقر میں پہنچ سکیں جو آپ کا منتظر ہے۔اللہ تعالیٰ اس کو آپ کے لئے آسان فرمادیں، اور ہرمشکل کو دورفرمادیں۔
چنانچہ حضرتؒ عید کے موقع پر دارالعلوم تشریف لائے، اور ہمارے یہاں کافی دن قیام فرمایا۔ اس موقع پر حضرتؒ سے اپنے ریاض منتقل ہونے کے بارے میں بات کرنے کاموقع ملا۔ حضرتؒ کی عنایتوں پر شکریہ ادا کرنے کے بعد جس کے لئے میرے پاس موزوں الفاظ بھی نہیں تھے، میں نے اپنے اعذار ذکر کئے، حضرتؒ نے پوری فراخ دلی کے ساتھ اُنہیں سُنا، اور خاص طورپر والدہ صاحبہ (رحمہا اللہ تعالیٰ کی علالت کا عذر سُنکر پورے انشراح کے ساتھ اُسے قبول فرمالیا، اور ساتھ ہی مجھے مشورہ دیا کہ میں مدیر جامعہ کو اپنا یہی عذر لکھ کر بھیج دوں، چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا، اور اُس کے بعد مدیر جامعہ کی طرف سے مجھے ایک تار ملا جس میں انہوں نے میرے عذر کو قبول کرتے ہوئے ساتھ ہی یہ بھی لکھا تھا کہ آپ کے لئے جامعہ کی طرف سے کھلی دعوت ہے کہ جب والدہ صاحبہ کو صحت ہو، اور آپ کے لئے آنا ممکن ہو، تو جامعہ آپ کا خیر مقدم کرے گی۔
جاری ہے ….
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
(ماہنامہ البلاغ :ذی الحجہ ۱۴۴۲ھ)