حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی
یادیں
(چالیسویں قسط)
چونکہ تکملہ فتح الملہم کے کام کے لئے قدم قدم پر کتابیں دیکھنے کی ضرورت پڑتی تھی ، اور پہلے سے یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ کس وقت کس کتاب کی ضرورت پڑے گی ، اس لئے میں نے صبح سے دوپہرتک اسباق پڑھانے اور فتویٰ کا کام کرنے کے بعدظہر کی نماز پڑھکر دو گھنٹے یومیہ اس کام کے لئے دارالعلوم کے کتب خانے میں جانا شروع کردیا ۔ اُس وقت دارالعلوم کا کتب خانہ اُس بوسیدہ عمارت کے ایک تاریک سے کمرے میں واقع تھا جسے ہم پرانا بنگلہ کہتے تھے ۔کتابیں لکڑی کی بے ہنگم الماریوں میں ٹھونس ٹھونس کر رکھی ہوئی تھیں ، اورناظم کتب خانہ حضرت مولانا عبد الحفی صاحب رحمۃاللہ علیہ کی ایک چھوٹی سی فرشی نشست کے سوابیٹھنے کی کوئی باقاعدہ جگہ نہیں تھی ۔ میں نے علم حدیث کی الماریوں کے درمیان زبردستی کرکے فرش پر ایک ایسی جگہ بنائی کہ میں ایک تپائی سامنے رکھ کرننگے فرش پر بیٹھ سکوں ۔تپائی پر کتابیں اور میرے مسودے کا رجسٹر ہوتا ، اور میں زمین پر بیٹھ کر مطالعہ بھی کرتا، اور لکھتا بھی جاتا ۔
اگرچہ الحمد للہ گھر میں زمین پر بچھانے کے لئے گدّے تکیے سب موجود تھے ، لیکن اسے میری حماقت ہی کہا جاسکتاہے کہ مجھے خیال ہی نہیں آیا کہ وہ لاکر اس جگہ کو کچھ آرام دہ بنالوں ۔لیکن اللہ تعالیٰ حضرت مولانا عبد الحفی صاحب پر اپنی رحمتیں نازل فرمائیں ،وہ اُس وقت ناظم کتب خانہ تھے ۔انہوں نے مجھے ننگے فرش پر کام کرتے دیکھا، تو ایک پرانی سی دری میرے نیچے بچھادی جس سے فرش کی سختی میں کمی آگئی۔سامنے ایک بوسیدہ سی تپائی رکھی رہتی تھی جس کی سطح پر عمر رسیدگی کی وجہ سے جگہ جگہ جھریاں اور شکنیں پڑگئی تھیں۔ کتابوں کا ایک ڈھیر میں اُس پر رکھ لیتا تھا ۔اُس کے باوجود باربار دوسری کتابوں کی ضرورت پڑتی رہتی تھی، جو میں بکثرت توخود ہی الماریوں میں سے اُٹھا لاتا ، اور بوقت ضرورت مولانا عبد الحفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے مدد لیتا، اوروہ خوشی خوشی میری ضرورت کی کتاب مجھے مہیّا فرمادیا کرتے تھے۔
وہ کچھ ایسا زمانہ تھا کہ نہ زیادہ سفر پیش آتے تھے ، نہ لوگوں سے زیادہ جان پہچان تھی ، اس لئے ظہر کے بعد کے یہ دو گھنٹے بڑے سکون کے ساتھ اپنا یہ محبوب کام کرنے میں صرف ہوتے تھے ، اگر اس وقت کوئی ملنے بھی آگیا ، تو اُسی سادہ سی نشست پر اُس سے ملا قات بھی ہوجاتی تھی۔ادھر میں نے اپنے ذہن میں یہ طے کررکھا تھا کہ میں یہ کام اپنے فائدے اور اپنے علم میں اضافے کے لئے کررہاہوں ، اس لئے مجھے کوئی جلدی نہیں تھی ۔جبتک متعلقہ مباحث پر مجھے اطمینان نہ ہوجاتا ، میں آگے نہیں بڑھتا تھا۔اس لئے کام کی رفتار کچھ زیادہ تیز نہیں تھی۔اُس وقت میرا دارالعلوم کے سوا کسی اور ادارے سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں تھا ، او ردارالعلوم میں تدریس ،کچھ فتویٰ کی خدمت ، ماہنامہ البلاغ کی ادارت اورتکملہ فتح الملہم کی تالیف کے سوا میراکوئی اور کام نہیں تھا۔اسی دوران البلاغ کا اداریہ یا کسی وقتی ضرورت کے تحت کوئی مضمون لکھنے کا سلسلہ بھی جاری رہتا تھا۔ملک میں سیاسی طوفان آتے جاتے رہے، مگرمیں اپنے ان کاموں میں مگن رہا۔ اُس وقت یہ اندازہ نہیں تھا کہ سکون وسرور کا یہ زمانہ زیادہ لمبا نہیں ہے ، اور عنقریب مصروفیات کے متواتر سیلاب آنے والے ہیں ۔
جنوبی افریقہ کا پہلا سفر
ابھی تکملہ فتح الملہم کی تالیف کتاب العتاق تک پہنچی تھی ، کہ چودھویں صدی کے اختتام پر مجھے اور بڑے بھائی حضرت مولانا محمد رفیع صاحب عثمانی مد ظلہم کو جنوبی افریقہ سے دعوت موصول ہوئی ۔ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو جنوبی افریقہ کے دورے پر جن حضرات نے مدعو کیا تھا ، ان میں سے جناب عبدالحی وراچھیہ ، جو حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے جاں نثار مرید تھے ، وفات پاچکے تھے ،ا لبتہ ان کے رفیق جناب احمد لہر صاحب مرحوم حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے تعلق کا پورا حق ادا کرتے تھے ۔ انہوں نے ہم دونوں بھائیوں کو جنوبی افریقہ کے تبلیغی دورے کی دعوت دی ۔چنانچہ ہم ذوالحجہ ۱۴۰۰ھ مطابق نومبر ۱۹۷۹ء میں اس سفر پرروانہ ہوئے ، اور ہم نے تقریباً ایک مہینہ جنوبی افریقہ میں گذارا ، اور عمرہ ادا کرنے کی بھی توفیق ہوئی۔اس سفر کا کچھ حال میں نے "البلاغ” میں لکھا جو "جہان دیدہ”میں بھی شامل ہے ۔
اس سفر سے واپس ہوکر تکملۂ فتح الملہم کی تالیف کتاب البیوع سے شروع کی ۔بعد میں مصروفیات اور سفروں کی وجہ سے (جن کی کچھ تفصیل آگے آنے والی ہے) یہ کام کئی کئی مہینے بند رہا۔دارالعلوم کا مذکورہ بالا کتب خانہ بہت تنگ وتاریک تھا ، اور اُس میں نہ مزید کتابوں کی گنجائش تھی ، نہ طلباء اور اساتذہ کے بیٹھ کر مطالعہ کرنے کے لئے کوئی مناسب جگہ۔کتب خانے کا جو نقشہ جناب کرنل صاحب مرحوم نے تیار فرمایا ، اُس کی لاگت کا تخمینہ اُس وقت شایداٹھارہ لاکھ کا تھا ، لیکن اس مد میں بمشکل چند ہزار روپے موجود تھے ۔حضرت والد صاحب ؒنے کتب خانے کے لئے ایک جگہ مخصوص فرماکر اللہ تعالیٰ کے نام پر اُس کی تعمیر شروع فرمادی ، اور یہ فرمایا کہ جتنی رقم کااللہ تعالیٰ انتظام فرمادیں ، اُسی کے حساب سے تعمیر کرلی جائے۔چنانچہ حضرت والد صاحبؒ کی حیات میں تھوڑی تھوڑی کرکے عمارت کی بنیادیں بھری گئی تھیں کہ حضرت والد صاحبؒ کی وفات کا سانحہ پیش آگیا۔ اُس وقت بھی اس مدمیں چند ہزارروپے موجود تھے ، چنانچہ اسی کے مطابق تعمیر کی جاتی رہی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا کرم ہے کہ رفتہ رفتہ یہ تعمیر ہوتی گئی ۔ میرے بڑے بھائی حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب مدظلہم کو اللہ تعالیٰ نے تعمیر کا خاص سلیقہ اور ذوق عطا فرمایا ہے جو دارالعلوم کی تعمیرات میں پوری طرح جلوہ گر ہے ۔مجھے تعمیرات کے کام سے کوئی خاص مناسبت نہیں ہے ، البتہ اس میں اپنا حصہ ڈالنے کے لئے میں فجر کے بعد زیر تعمیر حصے میں ایک چکر لگاتا، اور اپنی مختصرسی تسبیحات کا معمول پورا کیا کرتا تھا ۔ الحمد للہ یہ تعمیر مکمل ہوئی، تومیری خواہش تھی کہ اس میں کتابوں کی درجہ بندی اور ترتیب وتنسیق ایسی ہو کہ اُس کی مدد سے مطلوبہ کتاب نکالنا آسان ہو۔ جدید کتب خانوں میں کتابوں کی ترتیب کے لئے عام طورسے وہ نظام جاری تھاجو ڈی وی سسٹم کہلاتا ہے ۔ میں نے اُس کا جائزہ لیا ، تو اندازہ ہوا کہ اسلامی علوم کے لئے اس کی درجہ بندی اور نمبروں کا نظام بہت نا کافی ہے ۔لہٰذا میں نے کافی محنت اور وقت لگاکراُس میں اسلامی علوم کی ضرورت کے لحاظ سے تبدیلیاں کیں ، اور اس سلسلے میں لائبریری سائنس کے بعض ماہرین سے بھی مشورہ کیا ، یہاں تک کہ ایک ایسا نظم تیار ہوگیا جو میری نظر میں اسلامی علوم کے کتب خانے کے لئے مناسب تھا۔مولانا عبد الحفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ وفات پاچکے تھے، ان کے بعد دارالعلوم کے فاضل مولانا ابوطاہر ارکانی سلمہ کو ہم نے لائبریری سائنس کی تربیت دلوائی ، اور انہیں ناظم کتب خانہ مقرر کردیا ۔ الحمدللہ انہوں نے کتابوں کی نئی درجہ بندی کے مطابق محنت سے کام کیا۔
نیا کتب خانہ تیار ہونے سے مجھے تکملہ فتح الملہم کے کام میں بھی آسانی ہوگئی۔ اب میری نشست اس نئے کتب خانے میں مقرر ہوگئی ، اوربیٹھنے کا بھی مناسب انتظام ہوگیا، اور کتابیں رکھنے کا بھی ۔میں نے یہاں بیٹھ کر کام کرنے کے لئے وقت بھی تبدیل کرلیا ، اوربعد ظہر کے بجائے صبح کے دو گھنٹے اس کام کے لئے مخصوص کرلئے ۔
اس سلسلے میں ایک واقعہ خاص طورپر قابل ذکر ہے۔ صبح کے جو دو گھنٹے میں نے اس کام کے لئے مقرر کئے تھے، دل یوں چاہتا تھا کہ اس میں کسی مداخلت کے بغیر میں یکسوئی سے کام کرتا رہوں۔لیکن بکثرت ایسا ہوتا تھا کہ میں نے کتابوں کا مطالعہ کرکے کسی مسئلے میں ایک ذہن بنایا، اور ذہن کو مجتمع کرکے قلم اٹھایا کہ اتنے میں کوئی صاحب سلام کرکے میرے پاس آکر بیٹھ گئے، اور اپنی بات شروع کردی۔مجھے اس صورتِ حال سے بڑی کوفت ہوتی تھی کہ اس سے خیالات کا سارا سلسلہ ٹوٹ جاتا تھا۔جب اس قسم کے واقعات زیادہ ہوگئے، اور اس سے کام میں رکاوٹ پیدا ہونے لگی، تو میں نے اپنے شیخ حضرت عارفی قدس سرہ سے اپنی اس الجھن کا ذکر کیا۔ حضرتؒ نے فرمایا: ” یہ جو تم مسلم شریف کی شرح لکھ رہے ہو، یہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے لکھ رہے ہو، یا اپنا شوق پورا کرنے کے لئے؟ اگر اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہے تو وہ ہر حالت میں وقت کا تقاضا پورا کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ جب تک تم لکھ پڑھ رہے تھے، اُس وقت تک اللہ تعالیٰ کی رضا اسی لکھنے پڑھنے میں تھی، اور جب کوئی مہمان آگیا تو اُس وقت کا تقاضا یہ ہے کہ اُس کا اکرام کیا جائے۔ اب ان شاء اللہ تعالیٰ رضائے الہی ان کی طرف متوجہ ہونے اوران کی بات سننے میں ہوگی، اس لئے تمہارا کیا نقصان ہے؟ پہلے بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کا کام کررہے تھے، اب بھی اللہ تعالیٰ کی رضا ہی کا کام کررہے ہو، البتہ اگر آنے والے صاحب اگر ضرورت سے زیادہ بیٹھ کر وقت ضائع کرنے لگیں، تو مناسب طریقے سے معذرت کرسکتے ہو۔حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی یہ بات دل میں ایسی گھر کرگئی کہ اس نے علم ومعرفت کا ایک دروازہ کھول دیا، اور اس کے بعد الحمد للہ یہ تشویش بڑی حد تک رفع ہوگئی۔
تکملہ فتح الملہم کی تالیف کے دوران ہی مجھے اسلامی نظریاتی کونسل اور پھر وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ میں کام کرنے کا موقع ملا،(جس کی تفصیل آگے آنی والی ہے) اوراس کے لئے مجھے بار بار اسلام آباد میں لمبے لمبے عرصے تک قیام کرنا پڑا، تکملہ کا کام میں کبھی کبھی ساتھ ضرور رکھتا، لیکن فرائض منصبی کی وجہ سے اُس پر کام کرنے کی نوبت کم ہی آتی تھی۔ اس کے علاوہ یہی وہ زمانہ تھا کہ غیر سودی بینکاری کے سلسلے میں میری جدو جہد اپنے شباب پر تھی جس کے لئے متواتر اندرونی اور بیرونی سفروں کا طویل سلسلہ قائم تھا۔نیز میں مجمع الفقہ الاسلامی جدہ کا نائب صدر بن چکا تھا، اور اس کے لئے مستقل مقالات لکھنے پڑتے تھے۔
بہر حال!سفر پیش آتے رہے ، وقتی تالیفی مصروفیات کا سلسلہ بھی جاری رہا جس کی وجہ سے تکملہ کے کام میں بڑے بڑے وقفے آتے رہے ، لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم تھا کہ اُس نے اس ذرۂ ناچیز کو اس کی تکمیل کی توفیق عطا فرمائی ۔
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا، میں نے اصلاً یہ کام ایک طالب علم کی حیثیت میں اپنے فائدے کے لئے شروع کیا تھا کہ مجھے احادیث کا صحیح مطلب سمجھ میں آئے، اور ان سے متعلق مباحث سے واقفیت حاصل ہو، اس لئے میں نے تالیف کی رفتار تیز کرنے پر کبھی زور نہیں دیا۔میری کوشش ہوتی تھی کہ جو حدیث زیر مطالعہ ہے، اس کے دوسرے طُرق جس کسی بھی کتاب میں میسر آجائیں، اور جس طریق سے حدیث کا مفہوم یا اس کا پس منظر سمجھنے میں مدد ملتی ہو، میں شرح میں اُسے ضرور ذکر کروں۔ اس معاملے میں مجھے سب سے زیادہ مدد حاقظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہما کی شروح بخاری سے ملی۔میری کوشش یہ ہوتی تھی کہ جو طرق انہوں نے ذکر فرمائے ہیں، میں اُن پر کچھ اضافہ کرسکوں، اس لئے متن حدیث کی بہت سی کتابوں میں وہ حدیث نکالتا تھا ، لیکن واقعہ یہ ہے کہ بہت کم مواقع ایسے آئے جن میں میں ان بزرگوں کے بیان کئے ہوئے طرق اور شواہد پر کچھ اضافہ کیا جاسکے۔ جس وقت میں یہ کام کررہا تھا، اُس وقت نہ کمپیوٹرکا رواج ہواتھا، نہ مکتبہ شاملہ اور جوامع الکلم جیسے پروگرام وجود میں آئے تھے، لیکن احادیث کی تلاش میں آسانی کے لئے "المعجم المفہرس”، "تحفۃ الأشراف” "جامع الاصول” اور "مجمع الزوائد” اور زوائد کی دوسری کتابیں موجود تھیں ، لیکن ان بزرگوں پر حیرت ہوتی ہے کہ انہوں نے اُس دور میں کس طرح ساری کتابیں براہ راست چھانی ہیں جب نہ مطبوعہ نسخے تھے، نہ جدید انداز کی فہرستیں تھیں ۔
میں نے اپنی استطاعت کی حد تک حنفی فقہ کے وہ دلائل الحمد للہ پورے اعتماد اور استقصاء سے ذکر کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن یہ نکتہ بفضلہ تعالیٰ کبھی اوجھل نہیں ہوا کہ یہ اجتہادی اختلاف ہے، کوئی حق وباطل کی جنگ نہیں ہے جس میں کسی ایک فریق کو جتوانے کا ہر حربہ آزمایا جائے، اور احادیث کی دور ازکار تاویلوں پر اصرار کیا جائے۔ حضرت والد صاحب قدس سرہ کا یہ جملہ میں نے حضرت مولانا مفتی سیاح الدین صاحبؒ سے سُنا تھا کہ "خود حنفی بنو ، تو بنو، لیکن حدیث کو حنفی بنانے کی کوشش نہ کرو۔”چنانچہ جہاں حنفی مسلک کی توجیہ میری سمجھ میں نہیں آئی، وہاں اپنی ناسمجھی کا کھل کر اعتراف کیا۔
یہ بھی قضاء الہی کا فیصلہ تھا کہ صحیح مسلم کا جو حصہ مجھے شرح لکھنے کے لئے ملا، وہ زیادہ تر عائلی، معاشی، معاشرتی، اخلاقی اور سیاسی معاملات پر مشتمل ہے، اور بکثرت شروح حدیث ان ابواب پر پہنچ کر اختصار پسند ہوجاتی ہیں۔دوسری طرف یہی وہ ابواب ہیں جن میں عصرجدید نے نت نئے مسائل پیدا کردئیے ہیں۔میں نے کو شش کی کہ ان مسائل سے راہ فرار اختیار کرنے کے بجائے ان کی جتنی تحقیق ووضاحت اپنی بساط کی حد تک ممکن ہو، اُسے کتاب کا حصہ بناؤں۔ اس لئے کتاب میں بہت سے وہ مسائل زیر بحث آگئے ہیں جن سے پچھلی شروح حدیث خالی ہیں۔
اس تالیف کے دوران بلا مبالغہ سینکڑوں کتابوں کے مطالعے کی نوبت آئی، اور شروح حدیث بھی تقریباً تمام نظر سے گذریں، لیکن جس روز میں نے تکملہ کی آخری سطور لکھیں ، تو یہ احساس دامنگیر تھا کہ حضرت والد صاحبؒ حیات ہوتے ، تو آج ان کی خدمت میں مسودہ پیش کرکے دعائیں لیتا ، لیکن الحمد للہ میرے اساتذہ اور بڑے بھائی موجود تھے۔ میں سب سے پہلے کتب خانے سے اترکر اپنے محسن استاذ حضرت مولانا سحبان محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس لے گیا ۔ انہوں نے ڈھیر ساری دعائیں دیں ، پھر اپنے بڑے بھائی حضرت مولانامفتی محمد رفیع عثمانی صاحب مدظلہم کو خوشخبری سنائی ، ان کی دعائیں ملیں ۔اُس وقت میرے سب سے بڑے بھائی جناب محمد رضی عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ حیات تھے۔ انہوں نے تکمیل کی خبر سُنی ، تو مجھے پانچ سو روپے انعام دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ انعام حضرت والد صاحبؒ کی طرف سے ہے۔مجھے اس انعام کی لذت آج تک یاد ہے ۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری کی تکمیل پر ایک دعوت کی تھی جس میں علمائے عصرمدعو تھے۔میری خواہش تھی کہ میں بھی اس خوشی کے موقع پر اپنے اساتذۂ کرام اور دوسرے علماء کی دعوت کروں ، اورحضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب اور دارالعلوم کے دوسرے اساتذہ کی خواہش تھی کہ تکملہ کی تکمیل کے موقع پر دارالعلوم میں ایک جلسہ کیا جائے ، چنانچہ مختصر پیمانے پر دعوت بھی ہوئی، اور میرے انتہائی محسن استاذ گرامی حضرت مولانا سحبان محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے زیر صدارت دارالعلوم میں ایک تعارفی جلسہ بھی ہوا، اور محبت کرنے والوں کی دعائیں بھی نصیب ہوئیں ۔فالحمد للہ تعالی حمداً کثیراً طیّباً مبارکاًفیہ مبارکا علیہ کما یحبّ ربّنا ویرضی۔
جب کتاب چھپنے کا مرحلہ آیا تواللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے تکملہ فتح الملہم چھہ جلدوں میں مکمل ہوا۔شروع میں میں نے ذہن میں تکملہ کا نام "فتح المنعم”سوچا تھا، لیکن تردد تھا کہ یہ نیا نام رکھوں یا صرف "تکملہ فتح الملہم” کہوں۔ حضرت شیخ عبدالفتاح ابو غدّہ رحمہ اللہ تعالیٰ سے مشورہ کیا تو انہوں نے فرمایا چھوٹے ہونے کا تقاضا یہی ہے کہ اپنے کام کو ایک نئے نام سے مستقل حیثیت دینے کے بجائے اصل مصنف حضرت شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ ہی کا رکھا ہوا نام باقی رکھو، اور اپنے کام کو اسی کا ایک تکملہ قرار دیکر ایک بڑے کے ساتھ نتھی ہوجاؤ۔مستقل بالذات ہونے سے کسی بزرگ کا تابع قرار پانا ہی چھوٹے کااعزاز ہے۔اور یہی وہ بات تھی جس کا مفہوم میں نے حضرت والد صاحبؒ سے نہ جانے کتنی بار حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے سُنا تھا۔ چنانچہ اس پر شرح صدر ہوگیا کہ اس کا کوئی مستقل نام رکھنے کے بجائے اسے "تکملۃ فتح الملہم” ہی کا نام دیا جائے۔اس موقع پر میں نے ضروری سمجھا کہ اصل "فتح الملہم” کو پہلے اور "تکملہ”کو اس کی آخری جلدوں کے طورپر شائع کیا جائے۔”فتح الملہم”کو شائع کرتے ہوئے مجھے یہ خیال آیا کہ میں نے تکملہ میں تمام حدیثوں پر اپنے نمبر لگائے ہیں، جبکہ اصل فتح الملہم میں نمبر نہیں ہیں۔ دوسرے تکملہ میں بندے نے ہر حدیث کی کم ازکم امہات ستہ اور مجمع الزوائد کی حدتک تخریج کااہتمام کیا تھا جو شروع میں میں خود کرتا رہا، اوربعد میں مولانا عبداللہ میمن صاحب اور مولانا ابوطاہر صاحبان نے اس کی تکمیل کی۔اصل فتح الملہم میں تخریج کااہتمام نہیں تھا۔اب دونوں حصوں میں یکسانیت پیدا کرنے کے لئے اسی انداز پر نمبر ڈالنے اور مختصر تخریج کا کام میں نے دارالعلوم کے ایک ہونہار فاضل استاذ مولانا نورالبشر صاحب کو سونپا(جواب ماشاء اللہ معہد عثمان بن عفانؓ کے نام سے ایک معیاری ادارہ چلا رہے ہیں)
انہوں نے ماشاء اللہ یہ کام بڑی محبت اور محنت سے سرانجام دیا، نیز میرے بڑے بھائی مفتی ٔ اعظم حضرت مولانا مفتی محمد رفیع صاحب نے صحیح مسلم کا سالہا سال درس دیا ہے، اس دوران انہوں نے متفرق مقامات پر قلم سے کچھ حواشی لکھے تھے۔ وہ حواشی بھی انہوں نے اصل میں شامل فرمادئیے۔ اور اس کی تکمیل کے بعد "فتح الملہم مع تکملہ”بارہ جلدوں میں مکتبہ دارالعلوم سے شائع ہواجن میں سے چھ جلدیں حضرت شیخ الاسلام قدس سرہ کی اصل شرح ہے، اورباقی چھ جلدیں اس عاجز کی لکھی ہوئی ہیں۔
حضرت شیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو جب معلوم ہوا، تو حضرتؒ بہت خوش ہوئے، اور میری ہمت افزائی کے لئے اس پر ایک مفصل تقریظ تحریر فرمائی۔ان کے علاوہ مصر کے مشہور عالم شیخ یوسف القرضاوی مد ظلہ، تونس کے مفتی شیخ مختار السلامی رحمہ اللہ تعالی اور شیخ وہبہ زحیلی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی اس پر جاندار تقریظات لکھیں۔ میں نے اپنے محبوب بزرگ حضرت مولانا سید ابوالحسن ندوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے ایک خط میں اس پر کچھ لکھنے کی درخواست کی جس کے جواب میں پہلے تو انہوں نے یہ فرماکر معذرت کی کہ علم حدیث میرا میدان نہیں ہے۔ لیکن کچھ ہی دن کے بعد ایک خط میں فرمایا کہ چونکہ میں اوجزالمسالک اور بذل المجہود پر مقدمے لکھ چکا ہوں، اس لئے صحیح مسلم کی شرح پر بھی لکھنے کا داعیہ پیدا ہوگیا ہے۔ پھر میرے استحقاق سے کہیں زیادہ تقریظ تحریر فرمائی۔
میری خواہش تھی کہ یہ مکمل کتاب کسی عرب ملک میں شائع ہو۔ متعدد عرب علماء جو میرے اچھے دوست تھے، انہیں معلوم تھا کہ میں یہ شرح لکھ رہا ہوں۔ خاص طورپر علامہ شیخ وہبہ زحیلی رحمۃ اللہ علیہ جن کی معرکۃ الآراء کتاب "الفقہ الإسلامی وادلتہ” نے عالمگیر شہرت حاصل کی ہے، وہ مجھ سے وقتاً فوقتاً پوچھتے رہتے تھے کہ کام کہاں تک پہنچا؟ جب میں نے انہیں بتایاکہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے کام مکمل ہوگیا ہے، تو وہ بڑے خوش ہوئے، اور مجمع الفقہ الاسلامی کے ایک اجتماع میں جو جدہ میں منعقد ہورہا تھا، وہ شیخ محمد علی دولہ دمشقی رحمۃ اللہ علیہ کو میرے پاس لائے، اور بتایا کہ یہ دمشق کے مشہور ناشر ادارے "دارالقلم” کے مالک ہیں، اور بڑے علم دوست آدمی ہیں۔ یہ فتح الملہم کو اپنے ادارے سے شائع کرنا چاہتے ہیں۔ میں ان کی علم دوستی سے بہت متأثر ہوا، اور ان سے وعدہ کرلیا کہ ان شاء اللہ تعالی اگلی ملاقات میں فتح الملہم کا مسودہ لیکر آؤںگا، اور آپ کو طباعت کے لئے دوںگا۔چنانچہ ایسا ہی ہوا، لیکن میں نے جو مسودہ ان کے حوالے کیا، وہ کمپوزنگ اور دستی تحریروں کا مجموعہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس کی ترتیب وتہذیب پر ہمیں کافی کام کرنا پڑے گا۔ چنانچہ انہوں نے دمشق کے ایک مصحح عالم کو وہ مسودہ حوالے کیا (جہاں تک یاد ہے، ان کا نام شیخ علی تھا) انہوں نے اس مسودے پر بہت محنت کی، میں نے اپنے مراجع کے حوالے متن کے ساتھ ساتھ دئیے تھے۔ انہوں نے انہیں حواشی پر منتقل کیا، اور کہیں کہیں کسی حوالے کا اضافہ کیا۔اس کام کی وجہ سے دارالقلم والے نسخے کی اشاعت میں کئی سال لگ گئے۔لیکن جب وہ شائع ہوا، تو اس نے کتاب کو چار چاند لگا دئیے، اور اس کی وجہ سے اس کے قارئین کا حلقہ بر صغیر سے نکل کر عرب ممالک تک پہنچ گیا۔
الحمد للہ تعالیٰ بر صغیر میں مسلم شریف پڑھانے والے اساتذہ نے بطور خاص اُسے مطالعے میں رکھ کر بندے کی ہمت افزائی فرمائی، اور بر صغیر کے باہر سے بھی پسندیدگی کے تأثرات موصول ہوئے۔ کچھ عرصے کے بعد ملائیشیا کی ایک پردہ نشین خاتون محترمہ زنیدہ بنت محمد مرزوقی نے ای میل کے ذریعے مجھے مطلع کیا کہ وہ تکملہ فتح الملہم کے منہج فقہی پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ رہی ہیں۔انہوں نے خط وکتابت کے ذریعے مجھ سے رابطہ بھی رکھا، اور ملائیشیا کے ایک سفر کے موقع پر انہوں نے وہ مقالہ مجھے دیکر بتایا کہ انہیں اس پر ملائیشیا اسلامک یونی ورسٹی کی طرف سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری مل گئی ہے۔ ان کے مقالے کا نام ہے:” الشیخ محمد تقی العثمانی، منہجہ وأفکارہ فی شرح أحادیث المعاملات المالیّۃ فی کتابہ” تکملۃ فتح الملہم بشرح صحیح الإمام مسلم.”مقالہ عربی زبان میں ہے، اورچارسو صفحات پر مشتمل ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ انہوں نے بہت دقت نظر سے کتاب کا جائزہ لیا ہے، اور اس کا ایک ایک حرف پڑھکر مختلف جہتوں سے اس پر تبصرہ کیا ہے جو بذات خود ایک عالمانہ کام ہے۔ جزاہا اللہ تعالیٰ خیر الجزاء ۔
اس کے بعد حال ہی میں پنجاب یونی ورسٹی کے شعبہ اسلامیات میں ایک ہونہار طالبہ محترمہ ظلّ ہما نے ڈاکٹر محمد سعد صدیقی کی نگرانی میں فتح الملہم اور اس کے تکملے پر اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا ہے جس کا عنوان ہے:” تکملہ فتح الملہم-منہج کا تحلیلی جائزہ”اوریہ ۸۳۳ صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ بھی بڑا قابل قدر مقالہ ہے جو اردو میں لکھا گیا ہے، اور اس میں تکملہ کے خصوصی امتیازات پر پورے شرح وبسط سے گفتگو کی گئی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے کتاب کافی مقبول ہوئی، اور مختلف حلقوں سے معلوم ہوتا رہتا ہے کہ وہ علمی شخصیتوں کے مطالعے میں رہتی ہے۔ لیکن اصل دعا یہ ہے کہ اُس بارگاہ میں قبول ہوجائے جہاں کی قبولیت ہی اصل قبولیت ہے۔
جاری ہے ….
(ماہنامہ البلاغ :شعبان المعظم ۱۴۴۲ھ)