حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی

یادیں

(پینتالیسویں قسط)

حضرت شیخ عبدالفتاح رحمۃ اللہ علیہ نے جس چاؤ کے ساتھ مجھے ریاض بلانے کی کوشش کی تھی، میری معذرت سے مجھے اندیشہ تھا کہ کہیں حضرتؒ کے دل میں اُس کی وجہ سے کوئی غبار نہ رہ گیا ہو، لیکن پاکستان سے ریاض پہنچنے کے بعد ان کا جو گرامی نامہ آیا، وہ پہلے کی طرح، بلکہ اُس سے بھی زیادہ محبت سے بھرا ہوا تھا۔ دل چاہ رہا ہے کہ وہ گرامی نامہ بھی یہاں پورا نقل کروں:

بسم اللہ الرحمن الرحیم
إلی الأخوین الحبیبین فضیلۃ الشیخ محمد رفیع وفضیلۃ الشیخ محمد تقی حفظہما المولی ورعاہما وأکرمہما بعونہ وإمدادہ وفضلہ وإسعادہ.
من أخیہما: عبد الفتاح أبو غدۃ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
وبعد فأحمد اللہ تعالی إلیکم، وأرجو أن تکونوا أنتم وسائر الأہل الکرام بخیر من اللہ ونعمۃ.
فارقتکم وقلبی عندکم مرہون، والروح لدیکم موثوق، فقد لقیت فی رحابکم الأخوۃ والإیناس، والإفادۃ والإکرام، فکنتم کما قیل:
ولا عیب فیہم غیر أن نزیلہم یعاب بنسیان الأحبۃ والوطن
وقد کان واللہ ذلک، فلم أ کن یخطر ببالی أحد من الأہل کبیرہم أو صغیرہم، وکأننی فی منزلی وبین أسرتی وأولادی، یغمرنی ہذا الجوّ الکریم المشبع بالحب والإخائ، والمکان المقصور عن صنوف الإیذائ، فللّٰہ دَرّکم، وللہ أنتم، ورحم اللہ سیّدنا الوالد سماحۃ المفتی الشّیخ محمد شفیع، فقد کان ظلہ علیّ وارفاً فی حیاتہ، وبعد انتقالہ إلی دار الرضوان إن شاء اللہ تعالی.
وأذکر التّاریخ أنّہ أوّل شیخ من کبار الأفاضل علماء دیار باکستان والہند، حَظِیت بخدمتہ ودخلت فی قلبی محبّتُہ، فقد کان رحمہ اللہ تعالی أُنسَ العقل والقلب والرّوح جمیعاً، وکان لدیّ من الشّوق والتّوق إلی سادتی علماء الہند وباکستان ما اللہُ بہ علیم، وذلک لکثرۃ ما تذوّقتُ من آثارہم وسُعِدت بأفکارہم، فکان ذلک کما قیل:
أتانی ہواہا قبل أن أعرف الہوی فصادف قلباً خالیاً فتمکّنا
وکما قیل أیضا:>
مناسبۃُ الأرواح بینی وبینہا وإلاّ فأین التُّرک من ساکنی نجدِ؟
فالحمد للہ الّذی أکرمنی بخدمتہ والتشرّف بصحبتہ أوّل ما شرّف الشام ودیارہا، فکان ذلک من النّعمۃ المسوقۃ إلی شائقیہا، وإن کانوا غیرَ مستحِقّیہا، وإذ اختارہ اللہ تعالی إلی جوارہ فی مقعد الصّدق عندہ إن شاء اللہ، فقد سُعدت بأنجالہ وآلہ وفی طلیعتہا الأخَوان الہُمامان أنتم، فالحمد للہ علی سعۃ الدَّوحۃ الفاضلۃ، وبقاء ظلّہا الوارف العارف فیکم، وزادکم اللہ من فضلہ وعونہ، وحقّق فیکم الآمال والمقاصد، کما کان یحبّ سماحۃ مولانا الوالد، نور اللہ مرقدہ، وتقبل منہ صالح عملہ، آمین. وتحیاتی للسادۃ الأساتذۃ والطلبۃ الّذین سعدت بہم جمیعا.
وإنّنی أکتب لکم ہذہ الکلمات قبل دخولی فی غمرات الأعمال المترقّبۃ لی، وأجدّد لفضیلتکم شکری وتحیاتی، وللأنجال والأسرۃ الکریمۃ کذلک، وأستودعکم اللہ إلی لقاء قریب حبیب بإذن اللہ، والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.
الریاض الأحد ۲ / من ذی القعدۃ ۱۳۹۹ہ أخوکم المفتقر إلی دعواتکم عبد الفتاح أبو غدۃ
عنوانی: الریاض- کلیۃ أصول الدین أو الریاض ص.ب ۳۵۵۳

ہم دونوں بھائیوں کے نام سلام ودعا اواور حمد وصلوۃ کے بعد تحریر فرمایا:
”میں آپ لوگوں سے اس حالت میں رخصت ہوا کہ میرا دل آپ کے پاس رہن رکھا ہوا تھا، اور روح آپ کے پاس بندھی ہوئی تھی، کیونکہ آپ کے ماحول میں مجھے اخوت، انسیت، نفع رسانی اور اعزازحاصل ہوا، اور میرے لئے آپ ایسے ہی ثابت ہوئے جیسا کسی عربی شاعر نے کہا ہے کہ:” ان میں اس کے سوا کوئی عیب نہیں کہ ان کے مہمان پر یہ الزام لگتا ہے کہ وہ اپنے احباب اور اپنے وطن کو بھول جاتاہے” واقعہ یہ ہے کہ میرے ساتھ ایسا ہی ہوا، کیونکہ آپ کے پاس رہتے ہوئے اپنے چھوٹے بڑے گھر والوں میں سے کسی کا کوئی خیال بھی نہیں آتا تھا، اور مجھے ایسا لگتا تھا جیسے میں اپنے گھر میں اپنے خاندان اور اپنی اولاد کے درمیان ہوں۔مجھ پر وہ کریمانہ فضا چھائی رہتی تھی جو محبت اور اخوت سے لبریز اور ہر طرح کی تکلیف سے مبرا تھی۔لہٰذا آپ کی تعریف اللہ ہی کی طرف سے ہے، اور آپ اللہ ہی کے ہیں۔اور اللہ تعالیٰ ہمارے سید والداور شیخ حضرت مفتی محمد شفیع پر رحمتیں نازل فرمائیں،کہ ان کا سایہ مجھ پر ا ن کی زندگی میں بھی لہلہاتا رہا، اور جب وہ انشاء اللہ تعالیٰ دار رضوان میں منتقل ہوگئے، اُسکے بعد بھی درازہے۔
اور مجھے یہ تاریخ یاد ہے کہ پاکستان کے اکابر اور افضل ترین علماء میں وہ پہلے شیخ تھے جن کی خدمت کا شرف مجھے حاصل ہوا، اور جن کی محبت میرے دل میں سما گئی۔کیونکہ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائیں، وہ بیک وقت عقل، دل اور روح تینوں کے انس کا سبب تھے۔ اور میرے دل میں اپنے بزرگوں یعنی ہندوپاکستان کے علماء (سے ملنے) کا جو اشتیاق اور خصوصی ذوق تھا، اُسے اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں،کیونکہ میں نے ان کے مآثر کی جو لذت حاصل کی تھی، اورا ن کے افکار سے جو سعادت حاصل ہوئی تھی، اُس کا یہی تقاضا تھا۔اور یہ معاملہ ایسا ہی تھا جیسے کسی شاعر نے کہا ہے کہ: ”مجھے اُن کی محبت نے اُس وقت آلیا تھا جب میں جانتا بھی نہ تھا کہ محبت کیا ہوتی ہے؟ چنانچہ اُس محبت نے دل کو خالی پایا، تو اُس میں جم کر جابیٹھی۔”اور جیسے کسی اور شاعر نے کہا ہے کہ:” میرے اور اُن کی روحوں کے درمیان پہلے ہی سے مناسبت تھی، ورنہ ایک تُرکی کا باشندہ کہاں؟ اور نجد کے رہنے والے کہاں؟”
لہٰذا میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ جب انہوں (حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ)نے سب سے پہلے شام اور اُس کے ملک کو اپنی آمد کا شرف بخشا، تو وہ ایک ایسی نعمت تھی جو اپنے شائقین کے پاس ان کے استحقاق کے بغیر خود پہنچ گئی تھی، اور جب اللہ تعالیٰ نے (ان شاء اللہ) انہیں اپنے مقعد صدق کے جوار کے لئے منتخب فرمالیا، تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کے صاحبزادوں اور خاندان کے ہاتھوں سعادت عطا فرمائی۔اور ان میں سب سے ممتاز آپ دونوں فاضل اور مکرم بھائی ہیں۔پس اللہ تعالیٰ ہی کا شکر ہے کہ فضیلت سے بھرا ہوا یہ گھنا درخت اتنا وسیع ہے کہ اُس کے گمبھیر سائے آپ کے درمیان موجود ہیں۔اللہ تعالیٰ آپ کے لئے اپنے خاص فضل اور مددمیں مزید اضافہ فرمائیں، اور آپ کے ذریعے وہ امیدیں اور وہ مقاصد پورے ہوں جو حضرت مولانا نوراللہ مرقدہ پسند فرماتے تھے، اور ان کے اعمال صالحہ کو قبول فرمائیں، اور وہ اساتذہ اور طلبہ جن سے ملنے کی مسرت مجھے حاصل ہوئی، ان سب کو میرا سلام!”
۱۳۹۹ ھ کا حج
اسی سال اسلامی نظریاتی کونسل کو حضرت شیخ عبدالعزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے یہ دعوت موصول ہوئی کہ وہ اپنے ادارے ”ہیئۃ التوعیۃ الاسلامیۃ” کی طرف سے کونسل کے کچھ ارکان کو اپنی مہمانی میں حج کرانا چاہتے ہیں۔ در حقیقت یہ ان کی طرف سے کونسل کے کام پر خوشنودی کا اظہار تھا، اور ہم سب کے لئے سعادت کا عظیم موقع۔ چنانچہ کونسل کے ارکان نے اس کا خیر مقدم کیا، اور جسٹس افضل چیمہ، جسٹس صلاح الدین، مولانا مفتی سیاح الدین صاحب ؒ، کونسل کے سیکریٹری جناب مظفر اشرف صاحب اور میں ذوالحجہ کے آغاز میں ایک ساتھ حج کے سفر پر روانہ ہوگئے۔میری اہلیہ نے اُس وقت تک اپنا فرض حج نہیں کیا تھا، اس لئے میں نے انہیں بھی اپنے خرچ پر اپنے ساتھ لے لیا، اور جسٹس افضل چیمہ اور جسٹس صلاح الدین نے بھی اپنی بیگمات کو ساتھ لیا، اور اس طرح آٹھ افراد کا یہ قافلہ تیار ہوگیا۔
یہ سفر چونکہ حضرت شیخ عبدالعزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ کی دعوت پر ہورہا تھا، اس لئے استقبال اور رہائش وغیرہ کاانتظام انہی کی طرف سے ہونا تھا۔ لیکن جب ہم جدہ ائیرپورٹ پر اترے، تو وہاں استقبال کے لئے کوئی موجود نہیں تھا۔ ٹیلی فون پر بھی اُس وقت میزبانوں سے رابطہ نہ ہوسکا۔(بعد میںپتہ چلا کہ پرواز کے تعین میں انہیں کوئی غلط فہمی ہوگئی تھی) رات کا وقت تھا، اور خواتین کے ساتھ اُس وقت آٹھ افراد کے قیام کاانتظام بہت مشکل معلوم ہورہا تھا۔ آخر کار مظفراشرف صاحب نے تجویز پیش کی کہ ان کے ایک دوست کا گھر حی البلد کی عمارۃ الملکہ کے قریب ہے۔ آج کی رات کسی طرح ان کے گھر پر گذار لی جائے۔ چنانچہ ہم سب ائیر پورٹ سے وہاں پہنچے۔
ان کے دوست کا گھر دسویں منزل پر تھا، اور لفٹ نہیں تھی۔ میرے ساتھ ایک سوٹ کیس تھا جس میں نادانی سے پاکستانی کھانوں کے بہت سے ڈبے بنواکر رکھ لئے تھے جس کی وجہ سے وہ بہت بھاری ہوگیا تھا۔ اُسے احرام کی حالت میں پرانے طرز کی اونچی اونچی سیڑھیوں سے دسویں منزل تک چڑھانے کا مجاہدہ آج بھی یاد ہے۔ بہر کیف! جیسے تیسے رات وہاں گذاری، اور صبح کے وقت مکہ مکرمہ کے میزبانوں کو فون کیا، تو انہوں نے غلط فہمی پر معذرت کی، اور بتایا کہ وہ ایک بڑی ویگن جدہ بھیج رہے ہیں، تاکہ سب کو مکہ مکرمہ لایا جاسکے۔ آخر کار! ویگن آگئی، اور اُس کے ذریعے ہم نے مکہ مکرمہ پہنچ کر عمرہ ادا کیا۔ اُس وقت رابطۂ عالم اسلامی کا مہمان خانہ منیٰ میں بن چکا تھا، عمرے کے بعد ہمیں وہاں ٹھہرایا گیا۔ایک رات وہاں رہنے کے بعد ہم سب کی خواہش یہ ہوئی کہ حرم کے قریب قیام ہو۔
اگلی صبح جب حضرت شیخ عبدالعزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات ہوئی، تو انہوں نے بڑی شفقت سے اسلامی نظریاتی کونسل کے کام پر خوشی کا اظہار فرمایا، اور پھر خود ہی یہ فرمایا کہ آپ کا قیام ہم حرم کے قریب کررہے ہیں۔ چنانچہ اس کے بعد ہم سب کو حرم کے باب العمرہ کی سمت میں ایک قریبی ہوٹل فندق الانصار میں منتقل کردیا گیا جہاں حج کے اختتام تک ہمارا قیام رہا۔ میرے بڑے بھائی جناب محمد رضی عثمانی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب مد ظلہم بھی اُس سال اپنے اہل خانہ کے ساتھ حج کے لئے تشریف لائے ہوئے تھے، اور مدرسہ صولتیہ میں مقیم تھے۔ اس طرح حج میں ان سب حضرات کی بڑی یادگار رفاقت نصیب ہوئی۔
اسی سفر میں حضرت شیخ عبدالعزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ نے اُس وقت کے نمایاں علماء سے ہماری ملاقاتوں کا نظم بھی رکھا ہوا تھا، چنانچہ اُس وقت کے مفتی حضرت شیخ عبد الملک رحمۃ اللہ علیہ اور موجودہ امام حرم شیخ صالح بن عبداللہ بن حُمید کے والد شیخ عبداللہ بن حُمید رحمۃ اللہ علیہ اور متعدد قاضی حضرات سے بھی ملاقاتیں رہیں، اور ان سب نے پاکستان کے لئے اپنے گرم جوش جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہماری بڑی امیدیں پاکستان، اس کی موجودہ حکومت اور اسلامی نظریاتی کونسل سے وابستہ ہیں۔ کئی حضرات نے یہ بھی پوچھا کہ آپ کونسل کے کام میں کونسے مراجع سے استفادہ کرتے ہیں، اور جب ان کی تفصیل بیان کی گئی تو انہوں نے اطمینان اور خوشی کااظہار فرمایا۔
یہ ۱۳۹۹؁ھ کا حج تھا۔ ہم تو محرم شروع ہونے سے پہلے واپس آچکے تھے، لیکن بھائی صاحبان نے ۱۴۰۰ ؁ھ کا آغاز مکہ مکرمہ میں کیا، اوران کے وہاں رہتے ہوئے جہیمان اور اس کے ساتھیوں کے حرم پر قبضے کا افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ میری بڑی بھابی اُس وقت حرم کے اندر تھیں، اور بڑی مشکل سے باہر آسکیں۔
قطر کانفرنس
حج سے واپسی کے بعد میں اور جسٹس افضل چیمہ صاحب محرم ۱۴۰۰ ھ (مطابق نومبر۱۹۷۹ء)میں قطر کی وزارت اوقاف کی دعوت پر ایک عالمی سیرت کانفرنس میں شرکت کے لئے دوحہ گئے، اور جب حرم کا یہ واقعہ پیش آیا، اُس وقت ہم قطر میں تھے۔ اس سفر کا مختصر حال میرے سفرناموں کے مجموعے ” جہان دیدہ ” میں شائع ہوچکا ہے۔
والدہ صاحبہؒ کا انتقال
اسی سال میرے لئے یہ عظیم حادثہ پیش آیا کہ میری والدہ صاحبہ رحمۃ اللہ علیہا جو عرصۂ دراز سے صاحب فراش تھیں، وفات پاگئیں۔یوں تو ہربچہ اپنی ماں کا لاڈلا ہوتا ہے، لیکن میں بچپن کے حالات میں لکھ چکا ہوں کہ میرے ساتھ میری والدہ صاحبہ ؒ کا لاڈ پیار کچھ زیادہ ہی تھا، گیارہ بارہ سال کی عمر میں بھی میں کھانا انہی کے ہاتھ سے کھایا کرتا تھا۔ اپنی طویل بیماری میں بھی وہ میرے لئے سراپا شفقت ومحبت تھیں۔سالہا سال سے وہ پیٹ کی بیماری میں مبتلا تھیں، اور حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد ان کی تکلیفوں میں اور اضافہ ہوگیا تھا۔ کئی بار ہسپتال میں بھی داخل رہیں، اور آخرکار ۲۳رجب ۱۴۰۱ ھ مطابق ۲۸ مئی ۱۹۸۱ء کو اپنے وقت معہود کو پہنچ گئیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ” نقوش رفتگاں” میں قدرے تفصیل سے ان کے بارے میں لکھ چکا ہوں۔اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقامات سے نوازیں۔ان کے جانے کے بعد سر سے وہ چھاؤں اُٹھ گئی جو ہر مشکل میں سہارا دیا کرتی تھی، اور جن کی دعاؤں کے بدولت اللہ تعالیٰ نے ہر مرحلے میں اپنے فضل وکرم سے نوازاہے۔
ان کی وفات کے کچھ ہی عرصے کے بعد میری ایک نو زائیدہ بچی جس کا نام ہم نے جویریہ رکھا تھا، یرقان کے مرض میں رخصت ہوگئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
وفاقی شرعی عدالت کی رکنیت
اسلامی نظریاتی کونسل میں میری رکنیت کے پہلے دور میں ایک مسئلہ یہ زیر بحث آیا تھا کہ دستور میں اسلامی قوانین کے نفاذ کے لئے عملی طریقہ یہ طے کیا گیا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل سفارشات مرتب کرکے پارلیمنٹ میں پیش کرے، اورپارلیمنٹ اُن کے بارے میں حتمی فیصلہ کرے۔ اس طرح اسلامی نظریاتی کونسل دستور کے تحت محض ایک سفارشی ادارہ ہے، اُسے قوانین تبدیل کرنے کا بذات خود کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔چنانچہ صدر ضیاء الحق صاحب کی حکومت سے پہلے اُس کی سفارشات کو کبھی کوئی عملی اہمیت نہیں دی گئی، بلکہ اُس کی سفارشات پار لیمنٹ میں پیش تک نہیں ہوئیں۔ اس طرح اسلامی قوانین کانفاذ کہنے کوسات سال، اور عملی طورسے غیر معین مدت تک ملتوی ہوکر رہگیا ہے۔
اس وجہ سے ہم نے کونسل کی طرف سے ایک دستوری ترمیم پر فی الجملہ اتفاق کیا تھا جس کے ذریعے اعلیٰ عدالتوں کو یہ اختیار دیا جائے کہ اُن میں جب یہ سوال آئے کہ کوئی قانون قرآن وسنت کے مطابق ہے یا نہیں،تو وہ اُس پر علماء اور ماہرین قانون کے دلائل سننے کے بعد اگر اس نتیجے پر پہنچیں کہ وہ قانون قرآن وسنت کے خلاف ہے، تو وہ اُسے کالعدم قرار دیدیں۔اس طرح اسلامی قوانین کی طرف دو طرف سے پیش قدمی شروع ہوجائیگی۔ ہماری رائے میں یہ دستوری ترمیم نہایت مناسب تھی، اور۳۳ علماء کرام نے ناظم الدین کمیٹی کی رپورٹ میں جو ترمیمات ۱۹۵۳ء میں تجویز کی تھیں، اُن میں بھی یہ کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ میں اس غرض سے ایک مستقل بنچ قائم کی جائے، البتہ ان ترمیمات میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس بنچ میں اسلامی شریعت کے ماہر علماء کو بھی بطور جج مقر ر کیا جائے، چنانچہ اُس موقع پر ہم نے یہی تجویز پیش کی۔اور اُس پر اُس وقت کافی عرصے غور ہوا، اور اُس کے کئی مسودے تیار کئے گئے۔ ہمارا موقف یہ تھا کہ کسی قانون کے قرآن وسنت کے موافق یا مخالف ہونے کا فیصلہ مکمل طورسے اُن جج حضرات پر چھوڑنا خطرناک ہوگا جنہوں نے قرآن وسنت کے علوم کی کوئی تعلیم وتربیت حاصل نہیں کی۔اس پر کونسل میں کافی طویل بحثیں ہوتی رہیں، اور آخر کار جو تجویز مرتب ہوئی، اُس میں ہماری اس تجویز کو ایک اختلافی نوٹ کے طورپر شامل کیا گیا۔
کونسل کی نئی تشکیل کے بعد اس ترمیم پر اس طرح عمل ہوا کہ دستور میں ترمیم کرکے فیڈرل شریعت کورٹ (وفاقی شریعت عدالت) کے نام سے ایک نئی عدالت قائم کی گئی جس کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ کسی بھی شہری کی در خواست پر کسی مروجہ قانون کو شریعت کے خلاف قرار دیکر اُسے ایک معین تاریخ سے بے اثر قرار دے سکتی ہے۔ اس عدالت کی تشکیل میں علماء کی شمولیت کا کوئی ذکر نہیں تھا۔البتہ مشیر عدالت کے طورپر علماء بھی پیش ہوسکتے تھے۔ اس عدالت کے لئے ججوں کے تعین میں بھی اسلام سے کسی طرح کے لگاؤ کا کوئی اہتمام نہیں تھا۔نتیجہ یہ ہوا کہ جب اس نے کام کرنا شروع کیا تو اُس کی طرف سے عجیب وغریب فیصلے سامنے آنے لگے، اورمؤرخہ ۲۱ مارچ ۱۹۸۱ء کواس نے حدود آرڈی ننس کے اُس حصے کو قرآن وسنت کے خلاف قرار دیدیا جس میں زانی ٔمحصن کے لئے رجم کی سزا مقرر کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ ایک جج صاحب نے شراب کی حرمت کو بھی مشکوک بنانے کی کوشش کی۔
یہ فیصلے سامنے آئے، تو ملک بھر میں اس کے خلاف شدید رد عمل ہوا، اور یہ مطالبہ زور پکڑ گیا کہ اس عدالت میں قرآن وسنت کا صحیح علم رکھنے والے علماء کو جج مقرر کیا جائے۔ اخباری بیانات، مضامین اور جلسوں میں یہ مطالبہ تسلسل کے ساتھ جاری رہا۔ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا مفتی زین العابدین صاحب اور حضرت مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف صاحب (رحمۃ اللہ علیہما) کو جزائے خیر عطا فرمائیں کہ انہوں نے اس معاملے میں تمام مکاتب فکر کے ۴۵ علماء کا اجتماع منعقد کیا، اور اُن کے حکم سے میں نے ایک مدلل یادداشت تیارکی جو راولپنڈی میں ۴۵ علماء کے سامنے پیش کی گئی، اور معمولی ترمیمات کے بعد اُس پر سب نے دستخط کئے۔
ان دونوں بزرگوں کا یہ طریقہ تھا کہ ملک کے دینی مسائل میں وہ صدر مملکت جناب محمد ضیاء الحق صاحب سے ملتے رہتے تھے، اور وہ ان کی مخلصانہ آراء کو بڑی اہمیت دیا کرتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے صدر مرحوم سے ان ۴۵ علماء کی ملاقات کا وقت لیا۔ میں بھی اُن میں شامل تھا۔ یہ یادداشت جس میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ فیڈرل شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ میں علماء کو بطور جج مقرر کیا جائے، صدر صاحب کو پیش کی گئی۔طویل گفتگو کے بعد صدر صاحب ؒ نے اس مطالبے کو تسلیم کیا، لیکن انہوں نے حاضر ین سے کہا کہ آپ اُن علماء کے نام متفقہ طورپر پیش کریں جنہیں فیڈرل شریعت کورٹ میں جج بنایا جاسکے، اور اس طرح انہی ۴۵ علماء پر یہ ذمہ داری ڈال دی کہ وہ ان علماء کے نام تجویز کریں۔
صدر محمد ضیاء الحق صاحب مرحوم کی یہ شریفانہ عادت تھی کہ وہ اپنے ملاقاتیوں کو کار تک پہنچانے کے لئے آیا کرتے تھے۔ چنانچہ اُس وقت بھی اجلاس کے اختتام پر جب وہ ہمیں کار تک پہنچانے کے لئے آئے تو مجھے الگ لے جاکر کہا کہ میں آپ کو ایک نئی ذمہ داری سونپنے والا ہوں، اُس کے لئے تیار رہیں۔ یہ کہکر انہوں نے مجھے کچھ کہنے کا موقع نہیں دیا، اور دوسرے حضرات کو رخصت کرنے میں مصروف ہوگئے۔ اگرچہ انہوں نے ”ذمہ داری ” کی کوئی تفصیل نہیں بتائی تھی، لیکن مجھے اندازہ یہ ہوا کہ شاید وہ مجھے عدالت میں بھیجنے پر غور کرر ہے ہیں۔چونکہ ناموں کے انتخاب کی ذمہ داری انہوں نے ان ۴۵ علماء پر ڈال دی تھی، اس لئے مذکورہ دونوں بزرگوں نے راولپنڈی ہی میں دوبارہ اجتماع منعقد کرنے کا فیصلہ کرلیا۔لیکن میں نے اُس اجتماع میں شرکت سے کسی طرح معذرت کرلی، اور اپنی طرف سے علماء وقت میں سے چند اُن حضرات کے نام تجویز کرکے اجتماع میں بھیج دئیے جن کے بارے میں میرا اندازہ تھا کہ وہ علمی قابلیت کے ساتھ انگریزی سے بھی واقف ہیں۔ ان میں مولانا عبدالقدوس قاسمی صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) فاضل دیوبند اور بریلوی مکتب فکرکے جناب مفتی شجاعت علی قادری صاحب ؒکے نام مجھے یادہیں۔یہ نام حضرت مفتی زین العابدین صاحب ؒ اور حضرت حکیم عبدالرحیم اشرف صاحبؒ کے حوالے کرکے میں کراچی واپس آگیا۔مجھے اندیشہ تھا کہ صدر صاحب اور ان علماء کی طرف سے شاید مجھ سے یہ اصرار کیا جائے کہ میں عدالت میں جج بننا قبول کرلوں، لیکن میرے لئے اپنی نااہلی کے احساس کے ساتھ یہ شدید رکاوٹ تھی کہ میں دارالعلوم کو چھوڑ نہیں سکتا تھا، اور عدالت میں تقرر کے بعد مجھے لازماً اسلام آبا د میں قیام کرنا ہوتا، دوسرے مجھے یہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ میں واقعی وہاں کوئی خدمت انجام دے سکوںگا۔راولپنڈی میں علماء کا جو اجتماع ہورہا تھا، اُس کے بارے میں بھی میں نے کراچی پہنچ کر کچھ معلومات حاصل نہیں کیں کہ اُس میں کن کے نام تجویز ہوئے۔ اس واقعے کو کئی دن گذر گئے، تو اچانک ریڈیو اور ٹی وی پر یہ خبر نشر ہوئی کہ فیڈرل شریعت کورٹ کی تشکیل نو کی گئی ہے، اور اُس میں دستوری ترمیم کے ذریعے تین علماء ججوں کو شامل کرلیا گیا ہے۔ ان میں ایک نام میرا تھا، ایک جناب پیر کرم شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا، اور تیسرا جناب ملک غلام علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا، جو مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب ؒ کے معاون خصوصی تھے، اور جن کے ساتھ ”خلافت وملوکیت” کے موضو ع پر میرا قلمی مباحثہ ہوا تھا۔میں یہ خبر سُن کر سخت شش وپنج میں پڑ گیا۔صدر صاحب مرحوم سے فون کے ذریعے مختلف مسائل پر گفتگو ہوتی رہتی تھی، کبھی کبھی وہ خود بھی فون کرلیا کرتے تھے۔ لیکن اس موقع پر انہوں نے اعلان سے پہلے مجھ سے کوئی رابطہ بھی نہیں کیا تھا،میں اپنے اعذار اوپر عرض کرچکا ہوں، ان کی وجہ سے میرے لئے اس پیشکش کو قبول کرنا سخت مشکل ہوگیا، اور میرا ارادہ ہوا کہ میں صدر صاحب کو فون کرکے اُن سے معذرت کرلوں، دوسری طرف مجھے یہ بھی احساس تھا کہ بڑی کوشش کے بعد ایک اچھی صورت پیدا ہوئی ہے، اُس سے بالکل الگ ہوبیٹھنے سے کہیں اصل مقصد ہی فوت نہ ہوجائے۔میں اسی شش وپنج کی حالت میں تھا کہ حضرت مفتی زین العابدین صاحب ؒ اور حضرت حکیم عبدالرحیم اشرف صاحبؒ دونوں بزرگ دارالعلوم تشریف لائے، اور انہوں نے بتایا کہ راولپنڈی کے اجتماع نے باتفاق رائے تمہارا نام تجویز کرکے بھیجا ہے، اور اسی کی بنا پر صدر صاحب نے یہ اعلان کردیا ہے۔ اب تمہیں اس کام کو نبھانا ہی ہوگا۔ میں نے اپنے مذکورہ اعذار پیش کئے تو انہوں نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک تمہارا اس منصب کو قبول کرنا تم پر فرض ہے، اور اگر عذر کروگے، تو پھر اسلامی قانون کے مطالبے سے دست بردار ہو جاؤ۔
ان بزرگوں کے بذات خودتشریف لانے سے یوں بھی میں شرمندہ تھا، اوران کے ارشاد میں وزن بھی تھا، چنانچہ میں نے اپنے شیخ حضرت عارفی قدس سرہ کو ساری صورت حال بتائی۔ حضرتؒ نے ایک ایسا مشورہ دیا جس سے دل کو بڑا اطمینان نصیب ہوا۔ حضرتؒ نے فرمایا کہ شعبان کی چھٹیوں کا زمانہ آرہا ہے جس میں دارالعلوم کی تعلیم ختم ہو جائیگی، اُس کے بعد شوال کے آخر تک دارالعلوم میں تدریس کی چھٹی رہے گی۔اس وقت تمہارا اس منصب کو قبول کرنے سے انکار مناسب نہیں ہے۔لہٰذا فی الحال دو مہینے کے ارادے سے چلے جاؤ، اور اس دوران کو شش کرو کہ کسی اورمناسب عالم کے تقرر پر حکومت کو راضی کرسکو۔ چنانچہ میں نے اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر اسلام آباد جانے کاارادہ کرلیا، اور مئی ۱۹۸۱ء میں وہاں پہنچ کرحضرت پیر کرم شاہ صاحب اور جناب ملک غلام علی صاحب کے ساتھ فیڈرل شریعت کورٹ کے رکن کی حیثیت سے حلف اٹھالیا۔اُس وقت میری عمر ۳۶ سال تھی، اور شاید اعلیٰ عدلیہ میں میں سب سے کم عمر جج تھا۔

جاری ہے ….

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ :محرم الحرام ۱۴۴۳ھ
)