حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی

یادیں

(پچاسویں قسط)

مرزائی مقدمے کے سلسلے میں کیپ ٹاؤن کا دوسرا سفر
کیپ ٹاؤن کے جس مقدمے کا میں نے ذکر کیا، اس میں عدالت نے حکم امتناعی واپس لے کر مسلمانوں کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا۔اس کے بعد مرزائی صاحبان نے سپریم کورٹ میں اصل مقدمہ دائر کردیا۔وہاں کے عدالتی طریق کار کے مطابق دعویٰ، اورجواب دعویٰ وغیرہ داخل کرنے میں دوسال لگ گئے۔اور آخر کار مقدمے کی پہلی سماعت کے لئے یکم نومبر ۱۹۸۴ ؁ء کی تاریخ مقرر ہوئی۔اور کیپ ٹاؤن کے مسلمانوں نے دوبارہ اس وفد کو دعوت دی جو پہلے حکم امتناعی کے فیصلے کے وقت ۱۹۸۲ ؁ ء میں جاچکا تھا۔ اس مرتبہ ہمارے ساتھ ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری اور ڈاکٹر محمود احمد غازی (رحمۃ اللہ علیہما)اور جناب ریاض الحسن گیلانی ایڈوکیٹ بھی ہمارے ساتھ تھے، اور ۲۵؍ اکتوبر ۱۹۸۴ ؁ء کو ہم دوبارہ کیپ ٹاؤن روانہ ہوئے۔لیکن اس مرتبہ عدالت میں صرف ابتدائی قانونی نکات پر بحث ہوئی، جس کے بعد ان نکات پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔ کیپ ٹاؤن سے واپسی پرمیں سعودی عرب حاضر ہوا، حرمین شریفین کی حاضری بفضلہ تعالیٰ نصیب ہوئی، اور اسی موقع پر مجمع الفقہ الاسلامی (اسلامک فقہ اکیڈمی)کے پہلے اجلاس میں شرکت ہوئی جس کا مفصل تذکرہ ان شاء اللہ تعالیٰ آگے آئے گا۔سعودی عرب کے بعد وہیں سے عراق کا سفر ہوا۔ ان تمام اسفار کا مفصل تذکرہ میری کتاب ”جہان دیدہ” میں ”وادی دجلہ وفرات” کے عنوان سے موجود ہے۔
مقدمے کے سلسلے میں تیسرا سفر
اس کے بعد جب ۱۹۸۷ ؁ ء میں مقدمہ شروع ہوا، تو تیسری بار ہمیں کیپ ٹاؤن جانا ہوا،اور وہاں طویل قیام ہوا۔اس موقع پر حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ بھی ہمارے ساتھ تھے۔ عدالت میں مسلمانوں کی طرف سے بیانات داخل کرنے تھے۔اس کے لئے وفد کے انگریزی داں شرکاء پر مختلف موضوعات تقسیم کردئیے گئے۔چنانچہ کچھ موضوعات پرپروفیسر خورشید احمد صاحب اور ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب نے بڑے مفصل مقالات لکھے ، اور دو مقالے میں نے انگریزی میں لکھے۔ ایک مرزائیوں کے لاہوری گروپ کے بارے میں، اور دوسرا صوفیاء کرام کی ان عبارتوں کے بارے میں جن کے ذریعے مرزائی مغالطے دیتے ہیں۔ یہ دونوں مقالے ابھی تک چھپے نہیں ہیں، لیکن میرے انگریزی مقالات ومضامین کا جو مجموعہ میرے رفیق کار مولانا شاکرجکھورا سلمہ نے مرتب کیا ہے، اس میں زیر طبع ہیں۔ان مقالات میں مرزائیوں کی جن کتابوں کے حوالے دئیے جاتے تھے، عدالت کے لئے ان کی اصل کتابوں کے فوٹو اسٹیٹ ساتھ لگانے پڑتے تھے، اس کام کے لئے حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ بڑی تن دہی سے مصروف رہتے تھے۔یہ ذوالحجہ ۱۴۰۷ ؁ ھ کا زمانہ تھا۔اس کام میں ہم سب صبح وشام لگے ہوئے تھے، یہاں تک کہ عید الاضحیٰ کا وقت قریب آگیا، اور کام ابھی باقی تھا۔ میرے دوست جناب شعیب عمر صاحب نے ڈربن سے مجھے فون کیا کہ عیدالاضحیٰ کے موقع پر میں ایک دن کے لئے ڈربن آجاؤں، چنانچہ میں عید سے ایک دن پہلے ڈربن چلا گیا، عید الاضحیٰ کی نماز وہاں پڑھائی، اور عید کا دن ان کے پاس گذارکر واپس کیپ ٹاؤن آیا، اور اس کے بعد اپنا کام مکمل کرکے وطن واپسی ہوئی ۔
حضرت شیخ محمد یاسین الفادانی ؒ سے اجازت حدیث
مجھ پراللہ تبارک وتعالیٰ کا خاص فضل وکرم یہ رہا کہ سال میں کئی کئی مرتبہ حرمین شریفین کی حاضری نصیب ہوتی رہی۔ ۱۴۰۵ ؁ ھ کے غالباً جمادی الثانیہ (تقریباً مارچ ۱۹۸۵ ؁ ء ) کا مہینہ تھا جب مکہ مکرمہ حاضری کے موقع پر مدرسہ صولتیہ کے ناظم اعلیٰ حضرت مولانا محمد شمیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے مکہ مکرمہ کے ایک بزرگ حضرت شیخ محمد یاسین الفادانی رحمۃ اللہ علیہ کا پتہ بتلایا۔ ان کے آباء واجداد تو انڈونیشیا کے تھے، لیکن وہ خود مکہ مکرمہ ہی میں ( ۱۳۳۵ ؁ ھ میں)پیدا ہوئے، اور وہیں پلے بڑھے، اور مدرسہ صولتیہ ہی میں علم حاصل کیا، اس کے علاوہ حرمین شریفین کے بڑے بڑے علماء کرام سے انہوں نے مختلف علوم پڑھے ہیں۔ ان کو خاص ذوق یہ تھا کہ دنیا کے مختلف علاقوں سے جو علماء کرام حرمین شریفین حاضر ہوتے، ان کی خدمت میں جاکر ان سے حدیث کی اجازت حاصل کرتے تھے۔اس طرح ان کے پاس اسانید حدیث کا، اور خاص طورپر احادیث مسلسلہ کا اتنا بڑا ذخیرہ ہے کہ شاید ایسا ذخیرہ کسی اور کے پاس نہ ہو۔مختلف علوم پر ان کی ساٹھ سے زیادہ تالیفات بھی ہیں جن میں سنن ابی داود اور بلوغ المرام کی شرح بھی داخل ہیں۔
مجھے ان کی خدمت میں حاضری کا شوق پیدا ہوا، تو مولانا شمیم صاحب ؒ نے رہنمائی کے لئے ایک صاحب کو میرے ساتھ بھیج دیا۔وہ مکہ مکرمہ کے محلے ”عُتیبیہ” میں رہتے تھے۔ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا، تو انہوں نے انتہائی شفقت کا معاملہ فرمایا، اور نہ صرف اپنی تمام مرویات کی اجازت دی، بلکہ متعدد احادیث مسلسلہ متعلقہ تسلسل کے ساتھ سُنائیں۔
احادیث مسلسلہ محدثین کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا ایک بے نظیر مظہر ہے۔ اور وہ یہ کہ نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم نے اگر کوئی ارشاد کسی خاص کیفیت کے ساتھ فرمایا تھا، تو صحابی نے اپنے شاگرد کو بھی اسی کیفیت کے ساتھ وہ حدیث سُنائی، پھر ان کے شاگرد نے بھی اپنے شاگرد کو اسی کیفیت کے ساتھ سُنائی، اور پھر یہ سلسلہ اسی طرح ہم تک پہنچا کہ ہر استاذ اپنے شاگرد کو وہ حدیث اسی کیفیت کے تسلسل کے ساتھ سُناتا رہا۔
چنانچہ حضرت شیخ فادانی رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے سب سے پہلے حدیث مسلسل بالاولیۃ سُنائی جسے حدیث الرحمۃ بھی کہا جاتا ہے، اور مجھے یہ حدیث حضرت شیخ حسن المشاط رحمہ اللہ تعالی (متوفی۱۳۹۹ ؁ ھ ) سے بھی حاصل تھی جس کا تذکرہ میں ۱۹۶۳ ؁ ء کے عمرے کے تذکرے میں کرچکا ہوں۔ اس کے بعدجہاں تک مجھے یاد ہے، دو مختلف نشستوں میں انہوں نے مندرجۂ ذیل احادیث مسلسلہ مجھے تسلسل کے ساتھ عطا فرمائیں:
۱۔۔مسلسل بالمحبۃ جو حضرت معاذبن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے ان سے فرمایا: ”إنی أحبک، فقل: أللّہم أعنّی علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک.” (میں تم سے محبت کرتا ہوں، چنانچہ تم یہ کہا کرو کہ یا اللہ! مجھے اپنے ذکر اور شکر اور اچھی طرح عبادت کرنے کے لئے میری مدد فرمائیے۔) پھر حضرت معاذؓ نے اپنے شاگرد کو یہی جملہ کہکر یہ حدیث سنائی، اور پھر ہر استاذ نے اپنے شاگرد سے یہی جملہ کہا، اور حضرت شیخ فادانی ؒ نے بھی مجھ سے یہ جملہ کہکر مجھے حدیث سنائی۔
۲۔۔مسلسل بالمصافحۃ جس میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے شاگرد ابو ہرمز کو یہ حدیث سنائی کہ : ”صافحت بکفی ہذا کفّ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم، فما مسستُ خزّاً ولاحریراً ألین من کفّ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم.” (میں نے اپنے اس ہاتھ سے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کے ہاتھ پر مصافحہ کیا۔ تو میں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے زیادہ کسی ریشم کو چھوکر نرم نہیں پایا۔” اس پر ابو ہرمز ؒ نے حضرت انسؓ سے کہا: ”صافحنی بالکفّ الّتی صافحت بہا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم.” (جس ہاتھ سے آپ نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم سے مصافحہ کیا تھا، اسی ہاتھ سے مجھ سے بھی مصافحہ کیجئے) اس پر حضرت انسؓ نے ابو ہرمز سے مصافحہ کیا، پھر ان سے لے کر ہم تک ہر راوی نے اپنے استاذ سے یہی درخواست کی، اور انہوں نے اپنے شاگرد سے مصافحہ کیا، اور کہا: ”السلام علیکم ” چنانچہ حضرت فادانی ؒ نے جب مجھے حدیث سنائی، تو میں نے بھی ان سے اسی طرح مصافحے کی درخواست کی، اور انہوں نے مجھ سے مصافحہ فرمایا، اور کہا: ”السلام علیکم ”
۳۔۔مسلسل بالمشابکۃ۔اس روایت میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے ایک جملہ ارشاد فرماتے ہوئے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں ڈالی تھیں ۔ بعد میں ہر استاذ نے جب اپنے شاگرد کو یہ روایت سنائی، تو اس کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں ڈالیں۔ چنانچہ حضرت فادانی ؒ نے بھی میری انگلیوں میں اپنی انگلیاں ڈال کر مجھے یہ حدیث سنائی۔
۴۔۔ مسلسل بالضیافۃ علی الا سودین۔ اس میں مروی ہے کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کھجور اور پانی سے تواضع کی،اورکسی کی میزبانی کی فضیلت میں ایک طویل جملہ ارشاد فرمایا۔ بعد میں ہر استاذ نے کھجور اور پانی سے اپنے شاگرد کی تواضع کرکے وہ حدیث سنائی۔ حضرت فادانی ؒ نے بھی مجھے کھجور کھلاکر أور پانی پلاکر یہ حدیث سُنائی۔لیکن یہ حدیث انتہا درجے کی ضعیف حدیث ہے، یہاں تک کہ بعض محدثین نے اسے موضوع قرار دیا ہے، اس کے باوجود تسلسل کے ساتھ محدثین اسے روایت کرتے آئے ہیں۔
۵۔۔مسلسل بقراء ۃ سورۃ الصف۔ یہ حدیث حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم صحابۂ کرام ؓ کی ایک جماعت کے ساتھ بیٹھے ہوئے یہ باتیں کررہے تھے کہ اگر ہمیں یہ پتہ چل جائے کہ کون سا عمل اللہ تعالیٰ کے قرب کا زیادہ ذریعہ ہے ، تو ہم وہ عمل کریں۔ اس پر سورئہ صف نازل ہوئی، اور حضور اقدس صلّی اللہ علیہ وسلّم نے ہمیں پوری سورئہ صف پڑھکر سنائی۔پھر عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے شاگرد کو اور انہوں نے اپنے شاگرد کو پوری سورئہ صف پڑھکر سنائی۔اسی طرح یہ تسلسل ہم تک چلا آیا۔ چنانچہ حضرت فادانی ؒ نے مجھے بھی پوری سورئہ صف پڑھکر یہ حدیث مجھے سُنائی۔
۶۔۔مسلسل بالقبض علی اللحیۃ۔ یہ حدیث حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم نے ایک حدیث کے بعد اپنی ریش مبارک پکڑکر یہ جملہ ارشاد فرمایا تھا کہ ”آمنتُ بالقدر خیرہ وشرّہ، حلوّہ ومرّہ.”پھر ہر راوی نے اپنے شاگرد کو یہ حدیث اپنی داڑھی پکڑکر ہی سُنائی۔ حضرت فادانی ؒ نے بھی حدیث سناکر یہ جملہ اپنی داڑھی پکڑکر ارشاد فرمایا۔البتہ اس کی سند میں ضعف ہے۔
۷۔۔مسلسل بالعدّ فی الید ۔ اس روایت میں ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کے دست مبارک کی پانچ انگلیاں یکے بعد دیگرے گننے کے انداز میں پکڑکر آپ کو درود شریف کے پانچ صیغے بتائے،پھر آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے اسی طرح یہ صیغے حضرت علیؓ کو اور پھر ہر راوی نے اپنے شاگرد کو اسی طرح سکھائے۔چنانچہ حضرت فادانی ؒ نے میری انگلیوں پر درود شریف کے یہ صیغے گن کر سُنائے۔
۸۔۔مسلسل بوضع الید علی الرأس۔ یہ حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ ”تم میں سے کسی کو(صرف) اُس کا عمل جہنم سے نجات اور جنت میں داخل نہیں کراسکے گا، جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت شامل حال نہ ہو۔”صحابۂ کرام ؓ نے پوچھا: ”یا رسول اللہ! کیا آپ کو بھی؟” آپ نے ارشاد فرمایا: ”مجھے بھی، جب تک اللہ تعالیٰ کی رحمت مجھے ڈھانپ نہ لے ” اور یہ فرماتے ہوئے آپ نے اپنا دست مبارک اپنے سر ِ مبارک پر رکھا۔پھر ہر راوی نے یہ حدیث سُناتے ہوئے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھا۔ چنانچہ حضرت فادانی ؒ نے بھی اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھ کر یہ حدیث مجھے سنائی۔یہ اصل حدیث صحیح مسلم میں موجود ہے، اور ابن عون کی روایت میں سر کی طرف اشارہ کرنے کا ذکر بھی موجود ہے، لیکن سرپر ہاتھ رکھنے کا تسلسل دوسری سند سے ہے۔
۹۔۔مسلسل بالسؤال عن الاسم۔اس روایت میں مذکور ہے کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کا نام، نسب، کنیت، شہر اور رہنے کی جگہ پوچھی، انہوں نے بتائی، تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ: ”اے انس! دوست زیادہ بناؤ، کیونکہ تم ایک دوسرے کے شفیع بنوگے۔” پھر ہر راوی نے اپنے شاگرد سے یہی سوالات کئے، اور یہ حدیث سنائی۔ یہ حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہے۔
۱۰۔۔مسلسل بمناولۃ السبحۃ: یہ ایک روایت ہے جس میں ہم سے لے کرحضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ تک ہر استاذ نے اپنے ہاتھ میں تسبیح پکڑی ہوئی تھی، اور وہ اپنے شاگرد کو بھی پکڑائی۔اس میں یہ مروی ہے کہ عمر المکی صاحب ؒ نے حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ میں تسبیح دیکھی، تو ان سے پوچھا کہ: ”اے میرے استاذ! آپ اپنی عظمت شان اور بہترین عبادت کے باوجود اب بھی تسبیح لئے ہوئے ہیں؟ اس پر حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ”ہذاالشّیء کنا استعملناہ فی البدایات، ما کنّا نترکہ فی النّہایات، أنا أحبّ أن أذکر اللہ بقلبی ویدی ولسانی.” (ہم اس چیز کو شروع میں استعمال کیا کرتے تھے، اور اب آخر میں اسے چھوڑتے نہیں ہیں۔ مجھے یہ پسند ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کاذکر دل سے بھی کروں، ہاتھ سے بھی، اور زبان سے بھی)
حضرت فادانی ؒ نے اس روایت کی اجازت مجھے اپنے ہاتھ میں تسبیح لیکر اور مجھے پکڑاکر عطا فرمائی۔البتہ اس روایت مسلسلہ کی سند ضعیف ہے۔
۱۱۔۔مسلسل بتقریب الجبن والجوز۔ اس روایت میں مذکور ہے کہ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلّم کے پاس آئے، تو آپ کو پنیر اور اخروٹ کھاتے ہوئے پایا، اور پوچھا یارسول اللہ! پنیر اور اخروٹ؟ آپ نے فرمایا: پنیر بیماری ہے، اور اخروٹ بیماری ہے، پھر یہ دونوں جمع ہوجائیں، تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے دوا بن جاتے ہیں ” اس کے بعد ہر استاذ نے اپنے شاگرد کے سامنے پنیر اور اخروٹ پیش کرکے اسے یہ روایت سنائی۔ حضرت فادانی ؒ نے بھی مجھے اسی طرح یہ روایت سُنائی۔ البتہ اس روایت کی سند بھی ضعیف ہے، بلکہ ابن جوزی ؒ نے اسے موضوع قرار دیا ہے، لیکن علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ موضوع ہونے کی کوئی قابل اعتماددلیل نہیں ہے، البتہ یہ روایت منکَر ضرورہے۔
۱۲۔۔ مسلسل بالتلقیم: اس روایت میں مذکور ہے کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لقمہ بناکر کھلایا۔پھر انہوں نے حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کو،پھران سے لیکر ہم تک ہر استاذ نے اپنے شاگرد کو لقمہ بناکر کھلایا۔ البتہ اس روایت کی سند بھی ضعیف ہے۔
۱۳۔۔ مسلسل بالرؤیۃ: اس روایت میں مذکور ہے کہ ایک شخص حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پاس آیا، اور کہا: ” اے ابو عبدالرحمن! کیا آپ نے اپنی ان آنکھوں سے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کو دیکھا ہے؟ انہوں نے فرمایا: ”جی ہاں” اس نے پوچھا: ”کیا آپ نے ان سے اپنی اس زبان سے بات کی ہے؟” انہوں نے فرمایا: ”جی ہاں!”پھر پوچھا: ”کیا آپ نے اپنے ان ہاتھوں سے آپ سے بیعت کی ہے؟ ” فرمایا: ”جی ہاں!” تو اس شخص نے کہا: ”خوشخبری ہے آپ کیلئے اے ابو عبد الرحمن!”
اس پر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں ایک ایسی بات نہ بتاؤں جو میں نے آپ (صلّی اللہ علیہ وسلّم) سے سُنی ہے؟ میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوے سُنا ہے کہ:” ((طوبی لمن رآنی وآمن بی. طوبی لمن لم یَرَنی وآمن بی)) ثلاثاً ((فمن رآنی أو رأی من رآنی إلی یوم القیامۃ دخل الجنّۃ.))
یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ان مسلسلات کی جو سند تسلسل کے ساتھ آئی ہے، وہ مسلسل بقرائۃ الصف کے علاوہ اکثر روایتوں میں ضعیف ہے، اور ان میں سے کچھ احادیث ایسی ہیں جن کی سند بغیر تسلسل کے قابل استدلال ہے، اور بعض ایسی ہیں کہ بغیر تسلسل کے بھی ضعیف ہیں۔ اس کے باوجود تسلسل کی برکات حاصل کرنے کے لئے بڑے بڑے محدثین نے انہیں تسلسل کے ساتھ اپنے مشائخ سے حاصل کرنے کا اہتمام کیا ہے جس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ جس حدیث کی سند میں ضعیف راوی آجائیں ان سے کوئی شرعی حکم تو نکالا نہیں جاسکتا، لیکن روایت کے ضعف کے معنیٰ یہ ہوتے ہیں کہ اس کی سند میں کوئی راوی کمزور ہے، لیکن یہ تو ضروری نہیں ہے کہ کمزور راوی نے ہمیشہ غلط ہی روایت کی ہو، اس لئے اس میں فی الجملہ یہ احتمال باقی رہتا ہے کہ کمزور راوی نے شاید یہاں صحیح بات نقل کی ہو۔ اس احتمال کی وجہ سے کوئی شرعی حکم تو ثابت نہیں ہوسکتا، لیکن ایک عاشق کے لئے یہ احتمال بھی اپنی محبت کے اظہار کے لئے کافی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے بہت سے لوگوں کا یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ ان کے پاس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا موئے مبارک موجود ہے۔اکثر وبیشتر اس کی کوئی سند نہیں ہوتی، لیکن احتمال ضرور ہوتا ہے کہ شاید واقعی رسول حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی نسبت درست ہو، اس احتمال کی وجہ سے کوئی اس کی زیارت کرے تو یہ محبت کا تقاضا کسی طرح مذموم نہیں۔ یہی حال احادیث مسلسلہ کا بھی ہے۔
ان مسلسلات کے علاوہ حضرت فادانی ؒ نے مجھے اپنی تمام مرویات کی اجازت دی، بلکہ مجھے یہ اعزاز بخشا کہ اپنا ثَبَت(۱) میرے نام سے منسوب فرمایا جو ” الفیض الرحمانی بإجازۃ فضیلۃ الشیخ محمّد تقی العثمانی” کے نام سے شائع ہوا، اور اس کے پانچ سو نسخے مجھے ارسال فرمائے۔ اس ثبت کے شروع میں حضرتؒ نے تحریر فرمایا:
”وممن أعتنی بعد ما اقتنی حضرۃ الشیخ الأجلّ الأبرّ الفائق فی کلّ فنّ علی أقرانہ والسامی فی أندیۃ الخیر علی أخدانہ محمد تقی العثمانی ابن شیخنا العالم العلامۃ الجلیل سماحۃ المفتی النبیل سیدی الشیخ محمد شفیع الدیوبندی، فحضر إلی منزلی بمحلّۃ العتیبیۃ بمکۃ المکرّمۃ المحروسۃ المحمیّۃ، ولما تشرّفت بطلعتہ البہیّۃ، وسرّتنی أخلاقہ المرضیۃ، طلب منّی الإجازۃ مع سماع بعض المسلسلات المتّصلۃ إلی خیر البریّۃ صلی اللہ علیہ وسلم وزادہ فضلاً وشرفاً لدیہ، ولما علمت أنّ ذلک ناشء منہ عن حسن ظنّ وسلامۃِ طویّۃ، لم یسعنی إلا إجابتہ بہذہ الأمنیّۃ، فأجبت طلبہ وحقّقت أرَبہ نزولاً علی حسن ظنّہ وتشبّہاً بمشایخی الأعلام.
فتشبّہوا إن لم تکونوا مثلہم إنّ التشبّہ بالکرام فلاح. فأسمعتہ جملۃً صالحۃ من المسلسلات المتداوَلۃ، منہا حدیثُ الأوّلیّۃ، والمسلسلُ بالمحبۃ، والعدِّ علی الأصابع، وأضفتہ علی الأسودین الماء والتمر، وناولتُہ السُّبحۃَ وصافحتہ، وشابکتہ وأسقیتہ وقرّبت إلیہ الجُبُنّ والجوز، ولقّمتہ، وقبضت علی لحیتی وقلت: ”آمنت بالقدر خیرہ وشرہ، حلوہ ومرّہ”، وأسمعتہ المسلسل بالرؤیۃ إلی غیر ذلک، کما فعل معی ذلک کلَّہ جمعٌ من مشایخی.
ثمّ أجزت العلامۃ تقی العثمانی المومئی إلیہ إجازۃً خاصّۃً بما تلقّاہ منّی سماعاً أو عرضاً، وأجزتہ إجازۃ مطلقۃ تامّۃ بما حَصَلَتْ لی روایتُہ وثَبَتَتْ عنّی درایتُہ من منقول ومعقول وفروع وأصول وبسائر مصنَّفاتی من شروح وحواشی وتقریرات ومعاجم وأثبات ومشیخات، ثمّ کتبت ہذہ الإجازۃ لہ وسمّیتہا:
((الفیض الرحمانی بإجازۃ الشیخ محمد تقی العثمانی))
مسلسل بیوم عاشوراء کا عجیب واقعہ
حضرت شیخ محمد یاسین فادانی رحمۃ اللہ علیہ کی شفقتوں کی بناپر ان سے الحمد للہ تعالی ایک خصوصی تعلق ہوگیا تھا، اور ان کی خدمت میں ایک سے زائد مرتبہ حاضری ہوئی۔ ایک مرتبہ شاید مجمع الفقہ الاسلامی کا کوئی ذیلی اجلاس تھا جس میں شرکت کے لئے میں جدہ حاضر ہوا۔اتفاق سے اجتماع کے بعد یا اس کے دوران مجھے صرف ایک دن ایسا ملا کہ میں اس میں مکہ مکرمہ حاضر ہوسکوں، چنانچہ میں وہ دن حرم شریف میں گذارنے کے لئے مکہ مکرمہ حاضر ہوا، اور وقت کم تھا، اس لئے مکہ مکرمہ میں کسی کو اپنے آنے کی اطلاع نہیں دی۔نماز ظہر کے بعد میں حرم شریف سے نکل رہا تھا کہ حضرت شیخ محمد یاسین فادانی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک شاگرد اچانک سامنے آکر مجھ سے بڑے تپاک سے ملے، اور فرمانے لگے کہ حضرت شیخ ؒنے آپ کو بلایا ہے۔ میں حیران رہ گیا کہ انہیں میرے آنے کی اطلاع کیسے ہوئی، میں نے پوچھا، تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھے تفصیل معلوم نہیں ہے، بس انہوں نے اتنا فرمایا تھا کہ گاڑی لیکر حرم شریف جاؤ، وہاں تقی ہوگا، اس کو ساتھ لیکر آجاؤ۔ حضرت شیخ ؒمکہ مکرمہ کے محلے عُتیبیہ میں رہتے تھے جو حرم شریف سے کافی دور تھا، میں تعمیل حکم کے لئے ان کی گاڑی میں بیٹھا، اوران کے مکان پر پہنچا، تو سلام کے بعد وہ مجھے دیکھ کر مسکرائے، اور فرمایا کہ تم چپکے چپکے آجاتے ہو، اور خبر بھی نہیں دیتے؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت!میں معذرت چاہتا ہوں، لیکن آپ کو میرے آنے کی اطلاع کیسے ہوئی؟ اس پر انہوں نے فرمایا کہ اس سوال کو رہنے دو، میں نے تمہیں اس لئے بلایا ہے کہ آج یوم عاشوراء ہے، اور ایک حدیث مسلسل بیوم عاشوراء ہے، جو عاشوراء کے دن ہی سنائی جاتی ہے، میں نے سوچا کہ تم آج یہاں آئے ہوئے ہو، اس لئے اچھا موقع ہے کہ تمہیں وہ حدیث سنادوں، تاکہ اس تسلسل کی برکت بھی تمہیں حاصل ہوجائے۔ میں ان کی شفقت اور ندامت سے پانی پانی ہوگیا، پھر حضرت شیخ نے مجھے حدیث مسلسل بیوم عاشوراء سُنائی۔ وہ عاشوراء کے بارے میں معروف حدیث ہے جو صحیح مسلم وغیرہ میں مروی ہے کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کے روزے کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ: ”إنی أحتسب علی اللہ أن یکفّر السّنۃ الّتی قبلہا ”(یعنی مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ یہ (عاشوراء کا روزہ) اپنے سے ایک سال پہلے کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے) حدیث تو معروف ہے، لیکن جس سند سے حضرت شیخ نے وہ حدیث سُنائی، اُس میں اکثر راویوں نے اپنے شاگردوں کو یہ حدیث عاشوراء کے دن سُنائی تھی، اس لئے حضرت ؒ نے بھی مجھے عاشوراء کے دن سُناکر مجھے اس تسلسل میں شامل ہونے کا شرف عطا فرمایا، لیکن مجھے آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ انہیں اُس دن میرے مکہ مکرمہ میں ہونے کی اطلاع کیسے ہوئی۔اس کی کوئی اور ظاہری وجہ اس کے سوا میری سمجھ میں نہیں آئی کہ یا تو ان کے کسی شاگرد نے مجھے دور سے دیکھ کر انہیں بتایا یا اللہ تبارک وتعالیٰ نے میری آمد ان پر منکشف فرمادی، واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔ یہ میری حضرت شیخ سے آخری ملاقات تھی۔ رحمہ اللہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ۔
حضرت شیخ فادانی رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے مسلسلات کی اجازت دیکر یہ بھی فرمایا تھا کہ تم ان مسلسلات کو دوسروں تک بھی پہنچاؤ۔ اس لئے عرصۂ دراز سے میرا معمول ہے کہ میں دارالعلوم میں عاشوراء کے دن مختلف مسلسلات علماء کرام کے سامنے سُناتا ہوں، اور بعض مسلسلات اپنے دورئہ حدیث کے طلبہ کے سامنے بیان کرتا ہوں۔
جاری

جاری ہے ….

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ :جمادی الثانیہ ۱۴۴۳ھ)