حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی

یادیں

(سینتیسویں قسط)

۱۹۷۵ ء کا سفر عمرہ وافریقہ
اگلے سال حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تقریباً شعبان ۱۳۹۵ ھ میں مجھے بلاکر فرمایا کہ افریقی ممالک میں قادیانیوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرف سے یہ تجویز ہوئی ہے کہ قادیانی مسئلہ کی وضاحت کے لئے افریقی ممالک کا ایک سفر کیا جائے ، تاکہ وہاں کے مسلمانوں کو ان کی حقیقت معلوم ہوسکے ۔ اس سفر میں کسی ایسے شخص کی ضرورت ہے جو اس موضوع کی واقفیت کے ساتھ انگریزی میں تقریر وتحریر کرسکتا ہو ۔اس لئے میں چاہتا ہوں کہ تم میرے ساتھ چلو۔پہلے رمضان کے دوران عمرہ کریںگے ، اور عید کے بعد ان شاء اللہ افریقہ روانہ ہوجائیںگے۔رمضان المبارک میں عمرہ ،حضرتؒ کی رفاقت اور اس مبارک مقصد کے لئے!میرے لئے اس سے بڑی سعادت کیا ہوسکتی تھی!صرف اشکال یہ ہوسکتا تھا کہ حضرت والد صاحبؒ دل کا دورہ پڑنے کے بعد سے بستر علالت پر تھے ،اور میرے لئے اُن سے طویل جدائی بہت شاق تھی ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کا بھی یہ انتظام فرمادیا کہ خود حضرت والد صاحبؒ کے پاس رابطۃ العالم الاسلامی کی طرف سے "مؤتمر رسالۃ المسجد”کے عنوان پر رمضان میں ایک کانفرنس کا دعوت نامہ آیا۔ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ عام حالات میں کسی سفر کے متحمل نہیں تھے ، اور اس حالت میں ان کا سفر کرنا بہت مشکل تھا ، لیکن انہیں رمضان المبارک کے اس عمرے کے موقع کو چھوڑنا بھی گوارا نہیں تھا ۔ ان کی علالت کی وجہ سے ان کے ساتھ ایک رفیق ِسفر کو بھی لانے کی دعوت دی گئی ۔ حضرت والد صاحبؒ یوں تو اپنی علالت کی وجہ سے تمام سفر موقوف فرما چکے تھے ، لیکن رمضان المبارک میں عمرے کے خیال سے آپ نے بھی جانے کا ارادہ فرمالیا ، اور رفیقِ سفر کے طورپر برادر محترم حضرت مولانا مفتی محمد رفیع صاحب کو ساتھ رکھنے کاارادہ کرلیا۔ اس طرح مجھے یہ اطمینان ہوگیا کہ کم ازکم عمرے کی حد تک ، یعنی عید تک، حضرت والد صاحبؒ کی رفاقت ان شاء اللہ تعالیٰ حاصل رہے گی ۔اُدھر ہمارے بڑے بھائی جناب محمد ولی رازی صاحب ، حکیم مشرف حسین صاحب اؒور میرے بچپن کے دوست جناب محمد کلیم صاحب بھی سفر میں ساتھ چلنے کے لئے تیار ہوگئے۔اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے حضرت والد صاحبؒ کے ساتھ ہم پانچ افراد کا قافلہ تیار ہوگیا ، حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ سے یہ بات طے ہوگئی کہ رمضان کے دوران میں حضرت والد صاحبؒ کے ساتھ رہوں گا ، اور ان کی واپسی کے بعد اُن کی خدمت میں حاضر ہوجاؤں گا۔اس طرح رمضان ۱۳۹۵ ھ کی ۱۳؍ تاریخ کو ہم سعودی ائیر لائن سے روانہ ہوئے ۔ جہاز شام کے تقریباً پانچ بجے روانہ ہوا ، اورنہ جانے اُس وقت ائیر لائنز کا نظام کیا تھا کہ جہاز کے اڑتے ہی جہاز کے میزبانوں نے کھانا پیش کردیا۔ہمارا چونکہ روزہ تھا ، اس لئے اُن سے معذرت کی ، اور خیال یہ تھا کہ افطار کے وقت وہ کھانا دوبارہ پیش کریں گے ، لیکن جب افطار کا وقت ہوا ، تو جہاز دبئی اترگیا ، اور جہاز والوں نے چند کھجوریں دینے پر اکتفا کیا۔ دبئی کے ائیرپورٹ پر قیام مختصر تھا ،وہاں سے روانہ ہوئے ، توجہاز والوں سے کھانے کے لئے عرض کیا، تو جواب یہ ملا کہ شام آپ کھانے سے انکار کرچکے ہیں ۔تھوڑی دیر کے بعد جہاز ریاض اترا ، وہاں ائیرپورٹ میں داخل ہوئے، تو وہاں کچھ ایسی بد نظمی تھی کہ ہمیں کسی کرسی پر بیٹھنا بھی نصیب نہ ہوسکا ، ایک کمرے والے دوسرے کمرے کی طرف اور دوسرے کمرے والے پہلے کی طرف جانے کااشارہ کرتے رہے ، ہم نے بمشکل حضرت والد صاحبؒ کو کہیں بٹھایا ، اور خود ان کمروں کے درمیان چکر کاٹتے رہے، یہاں تک کہ جہاز دوبارہ روانہ ہو نے کا وقت آگیا ۔دوبارہ جہاز میں بیٹھنے کے بعد بھی میزبانوں کی بے رخی برقرار رہی، یہاں تک کہ ہم جدہ اترگئے ۔ وہاں رابطۃ العالم الاسلامی کے نمائندوں نے استقبال کرکے ہمیں وی آئی پی روم میں بٹھادیا جو اُس وقت خالی پڑا تھا ، سامان کے انتظار میں کافی وقت لگا، اور آخر میں پتہ چلا کہ حکیم مشرف صاحبؒ کا ایک سوٹ کیس نہیں آیا ۔شکایت درج کراکر جب مکہ مکرمہ پہنچے تو وہاں حرم شریف کے شمال مشرق میں باب العمرہ کے سامنے فندق مکہ میں قیام ہوا جو اُس وقت مکہ مکرمہ کا بہترین ہوٹل تھا، لیکن جب تک ہم اپنے کمروں تک پہنچے ، اُس وقت دیکھا ، تو سحری کا وقت ختم ہونے میں شاید دس پندرہ منٹ باقی تھے ۔ جلدی سے بھاگ دوڑ کرکے ہوٹل کے مطعم میں پہنچے ، تو وہاں کھانا ختم ہورہاتھا ، بھوک اپنے شباب پر تھی ، جلدی جلدی ڈبل روٹی ،مکھن اور کسی بچی کھچی چیزسے سحری کی جو اُس وقت بہت غنیمت معلوم ہوئی ، یہاں تک کہ وقت ختم ہوگیا ، اذان کی دلکش آواز سنکرفوراً حرم کارُخ کیا ۔ ہوٹل اور حرم کے درمیان صرف ایک چھوٹی سی سڑک کا فاصلہ تھا ، اس لئے اذان کے دوران ہی حرم پہنچ گئے۔حضرت والد صاحبؒ کے بارے میں فکر یہ تھی کہ اتنے پُر مشقت سفر کے بعد ان کی کیا حالت ہوگی ؟اس لئے اُن سے گزارش کی تھی کہ وہ نماز کمرے ہی میں پڑھ کر آرام فرمالیں ۔ہم نے حرم شریف میں نماز ادا کی ، تو دل کا تقاضا یہ ہوا کہ عمرہ فوراً کرلیا جائے ، چنانچہ نماز کے بعد ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے عمرہ کیا۔ گرمی اپنے شباب پر تھی ، اور سعی کے دوران ایسا معلوم ہورہا تھا کہ حلق بالکل خشک ہے۔ لیکن رمضان کے عمرے کا لطف ہی کچھ اور تھا ۔
عمرہ کرکے واپس آئے تو حضرت والد صاحب ؒ عمرے کے لئے تیار تھے ۔ میں ،حکیم مشرف حسین صاحب مرحوم اور کلیم صاحب انہیں عمرہ کرانے کے لئے لے گئے ۔ بیماری کی حالت میں توقع یہ تھی کہ وہ پیدل طواف نہیں کرسکیں گے ، چنانچہ ہم نے اصرار کیا کہ وہ سواری پر طواف کریں ، لیکن وہ نہ مانے ، اور پیدل طواف شروع کردیا ، اور پیدل ہی مکمل کیا ، البتہ سعی کے لئے کرسی استعمال فرمائی ۔واپس آئے تو جمعہ کا وقت قریب تھا۔ جمعہ حرم میں اداکرکے کچھ آرام کیا ۔ حرم میں افطار کرنے کا پہلا موقع تھا ۔ حرم کی ترکی عمارت کے سامنے صحن میں کنکریوں کا فرش ہوتا تھا ۔ وہیں ہم سب بیٹھ گئے ۔ کولروں کارواج نہیں ہوا تھا ، مٹی کی چھوٹی چھوٹی صراحیوں میں زمزم بھر کر لائے ، ان صراحیوں کی خاصیت یہ ہوتی تھی کہ موسم جتنا گرم اورخشک ہو، اور جتنی لُو چلتی ہو، صراحیوں میں پانی اتنا ہی ٹھنڈا ہوتا تھا ۔ شدید گرمی کے عالم میں جب اذان ہوئی ، اور توپ کی آواز آئی ، توایسا لگا جیسے صراحیوں کے اس ٹھنڈے پانی نے جسم وجان میں نئی زندگی پھونک دی ہو۔
"مؤتمر رسالۃ المسجد "غزہ سے آگے ایک پرانے شاہی محل میں منعقد ہورہی تھی جس کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ بانی ٔ سعودی حکومت شاہ عبدالعزیزبن سعود رحمۃ اللہ علیہ کا محل تھا ۔ دنیائے اسلام کے مختلف خطوں سے بڑے بڑے علماء اور خطباء اُس میں فصاحت وبلاغت کے جو ہر دکھا رہے تھے ۔حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی تشریف فرما تھے ، حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے بھی ایک مقالہ پیش ہونا تھا ،لیکن وہ علالت کی وجہ سے اس مشقت کے متحمل نہیں تھے ، انہوں نے مجھے حکم دیا کہ کچھ لکھ کر پیش کروں ، چنانچہ میں نے حکم کی تعمیل کی ۔یہ مقالہ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے عربی مقالات کے مجموعے میں شائع ہوچکا ہے ۔
کانفرنس ختم ہونے کے بعد بھی چند روز مکہ مکرمہ میں قیام کی سعادت حاصل ہوئی ، اور حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی رفاقت میں یہ قیام بہت یادگاررہا ۔ ان کی طبیعت میں نشیب وفراز آتے رہے ، لیکن ان کے طواف کے شوق میں کمی نہیں آئی ، اور روزانہ وہ کسی نہ کسی وقت ہم میں سے کسی کے ساتھ حرم شریف جاکر طواف فرماتے رہے ۔
اُس کے بعد مدینہ منورہ حاضری ہوئی ۔ وہاں اُس وقت سب سے اچھا ہوٹل حرم کے شمال مشرق میں فندق التیسیر ہوا کرتا تھا ۔(غالباً اب وہ حرم کے اندر شامل ہوگیا ہے )وہاں قیام رہا ۔ رمضان کے عشرۂ اخیرہ کے ایام وہاں نصیب ہوئے ۔ ۲۸؍رمضان کو وہاں سے جدہ واپس آئے ۔اور جدہ کے مطار قدیم کے قریب ایک ہوٹل "فندق الریاض”میں قیام ہوا ۔ اگلا دن گذارکر رات گیارہ بجے یہاں سے حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کراچی کے لئے سیٹ بک تھی ۔ حضرت مفتی محمد رفیع صاحب اور بڑے بھائی مولانا محمد ولی رازی صاحب کو ان کے ساتھ واپس جانا تھا ۔ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خواہش تھی کہ اس دوران ایک عمرہ اور کرلیں ، لیکن مسلسل سفر کی وجہ سے بہت تھک چکے تھے ، اس لئے ہم نے درخواست کی کہ اب یہاں آرام فرمائیں ۔ مجھے چونکہ ابھی حجاز میں عید کے بعد تک رکنا تھا ، اس لئے میں ان کے پاس ہوٹل میں ٹھہر گیا ، اور باقی سب رفقاء عمرے کے لئے چلے گئے ۔ رات کے وقت حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی آنکھ لگ گئی تھی جس سے طبیعت میں بفضلہ تعالیٰ افاقہ ہوا، اگلا سارا دن میں نے انہی کے پاس گذارا ۔ یہاں تک کہ شام کو رفقاء عمرہ کرکے واپس آگئے ، اور رات کو روانگی کا وقت آگیا۔میری طبیعت پر اُس وقت حضرت والد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ سے جدائی کا بہت اثر تھا ، کیونکہ عید کے چنددن بعد مجھے حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ افریقہ جانا تھا ، اور اندازہ نہیں تھا کہ وہاں سے کب واپس آسکوں گا ۔ ان کی علالت کی حالت میں اتنی طویل جدائی کا تصور پہاڑ معلوم ہورہا تھا ۔میں انہیں پہنچانے کے لئے ہوائی اڈے تک گیا ، یہاں تک کہ وہ حد آگئی جس سے آگے میں نہیں جاسکتا تھا ۔ میرے چہرے پر اُداسی کے آثار تھے ۔حضرت والد صاحبؒ اپنے کسی عزیز یا دوست کو سفر کے لئے رخصت کرتے وقت آیۃ الکرسی پڑھ کر دم کیا کرتے تھے ،اوروہ اپنی اولاد سے بہت محبت فرماتے تھے ، لیکن اس کے اظہار کے لئے عادت لاڈ پیار کی نہیں تھی ، مگر اُس وقت انہوں نے مجھے رخصت کرتے ہوئے دعا پڑھی، اور بیساختہ میری پیشانی پر پیار کیا جس کی حلاوت کبھی بھولتی نہیں ہے ۔ پیار کرکے وہ اندر تشریف لے گئے ، اور میری نگاہوں سے اوجھل ہوگئے ۔ حکیم مشرف حسین صاحب مرحوم اور میرے دوست کلیم صاحب کاارادہ یہ تھا کہ وہ میرے ساتھ ایک دن مزید گذارکر عید یہاں کریں ، اور عید ہی کی شام کوواپس جائیں ۔ چنانچہ ہم تینوںحضرت والد صاحبؒ کو رخصت کرکے رات کے تقریباً ڈیڑھ بجے کے قریب مطار سے نکلے ۔ ابتک ہمارا قیام ہوٹلوں میں تھا ،لیکن آج کے بعد ہمیں مکہ مکرمہ پہنچ کر مدرسہ صولتیہ کے ایک حجرے میں ٹھہرنا تھاجس کی چابی کلیم صاحب کے پاس تھی ۔اُس رات چاند نہیں ہوا تھا ، اس لئے اگلے دن روزہ تھا ۔ ہم وہاں سے بسوں کے اُس اڈے پر پہنچے جہاں سے ویگنیں مکہ مکرمہ لیجاتی تھیں ، اور ایک ویگن میں سوار ہوگئے ، جب ویگن بحرہ نامی بستی کے اسٹاپ پر پہنچی جو مکہ مکرمہ کے تقریباً آدھے راستے پر ہے ،تو اُس وقت اچانک کلیم صاحب کو دیکھا کہ وہ شدید گھبراہٹ اور بے چینی محسوس کررہے ہیں ۔ شروع میں وہ کچھ اس لئے نہیں بتا رہے تھے کہ شاید ہم انہیں الزام دیں،لیکن جب ہم نے اصرار کیا تو انہوں نے بتایا کہ جس حجرے میں جاکر ٹھہرنا ہے ، اُس کی چابی وہ فندق الریاض جدہ میں چھوڑ آئے ہیں ۔ایک بجلی سی گری کہ اب مکہ مکرمہ پہنچ بھی گئے تو کمرہ میسر نہیں آسکے گا ، اور رات کے وقت وہاں کے کسی منتظم کو جگانا بھی مناسب نہیں ،اور یہ بھی یقین نہیں کہ ان کے پاس کوئی دوسری چابی ہوگی ۔اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ آدھا راستہ طے کرنے کے بعد ویگن سے اتریں ، اور کسی اور ویگن سے واپس پہلے اڈے ، اور پھر ہوٹل جاکر وہاں سے چابی لیں ،پھر اڈے پرجاکر دوسری ویگن سے مکہ مکرمہ پہنچیں ۔ چنانچہ ناچار ایسا ہی کیا ۔ اللہ تعالیٰ کا کرم تھا کہ ہوٹل سے چابی مل گئی ۔ اور ہم دوبارہ ویگن میں سوار ہوکر مکہ مکرمہ کے لئے روانہ ہوگئے۔ کئی راتوں سے ہماری نیند بہت کم ہورہی تھی ، ویگن چلی تو ہوا میں بھی کچھ ٹھنڈک آگئی تھی ، ہوا کے جھونکوں نے تینوں کو گہری نیند سلادیا ۔اور آنکھ اُس وقت کھلی جب ویگن حرم کے باب ابراہیم کے سامنے پہنچ چکی تھی ، اور حرم سے اذان کی دلکش آواز بلند ہورہی تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ سحری کا وقت گذرگیا ، خشک حلق میں پانی ڈالنے کی بھی گنجائش نہیں تھی ۔اور اس طرح رمضان کا آخری روزہ شروع ہوگیا۔ ابتک جن ہوٹلوں میں قیام رہا ، وہ سب ائیر کنڈیشنڈ تھے ۔مگر اب مدرسہ صولتیہ کے ایک پرانے کمرے میں جس کا ایک حصہ اناج سے بھراہواتھا ، ہمارا قیام ہوا، اس میں پنکھا ضرورتھا، مگر دن میں گرم ہوا پھینکتا تھا ۔ غرض وہ آخری روزہ وہاں رکھ کر حسب معمول حرم شریف میں پرکیف افطار کیا ، اور اُس کے بعد حجرے میں آگئے ۔ عشاء کے بعد کھانا حضرت مولانا محمد سلیم صاحب ؒ کی شفقتوں میں کھایا ۔ اورپتہ چلا کہ عید کی نماز حرم میں پڑھنی ہے، تو رات کوتین بجے سے حرم جانا ہوگا ۔
مکہ مکرمہ میں عید
چنانچہ تین بجے باہر نکلے تو سڑکوں پر جوق درجوق لوگوں کے قافلے حرم کا رخ کررہے تھے ، ہمیں الحمد للہ صحن میں جگہ مل گئی ، رات کا بقیہ حصہ گذرا ، فجر کی نماز ہوئی ، اور اُس کے بعد سے اشراق تک مکبرہ سے تکبیریں لاؤڈ اسپیکر پر کہی جاتی رہیں، حاضرین بھی تکبیر کہتے رہے ۔بلکہ ہمارے پیچھے کی صفوں میں بیٹھے ہوئے ایک عرب بزرگ نے کھڑے ہوکر اس طرح بلند آواز سے اجتماعی تکبیروں پر اعتراض کیا ، اور کہا : "ہذہ بدعۃ شنیعۃ منکرۃ” یعنی یہ ایک بہت بری بدعت ہے۔ان کا مقصد یہ تھا کہ ان کے علم میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابۂ کرام سے عید کے موقع پر اس طرح بلند آواز سے اجتماعی تکبیریں ثابت نہیں ہیں ۔ (حالانکہ بعض روایات سے اس کا ثبوت بھی ملتا ہے)بہرکیف! عید کی نماز بڑی شان وشوکت کے ساتھ ہوئی ۔ نماز کے بعد مجمع چھٹناشروع ہوا ، اور ہم مدرسہ صولتیہ واپس آگئے۔ عصر کے بعد حکیم مشرف حسین صاحب مرحوم اور کلیم صاحب کو پاکستان واپسی کے لئے جدہ جانا تھا ۔میں انہیں پہنچانے کے لئے بس اسٹاپ تک گیا ۔ وہ روانہ ہوگئے ۔میں سترہ دن ان حضرات کی بھر پوررفاقت کے بعد تنہا رہ گیا تھا ، اس کا طبیعت پر اثر بھی تھا جسے حرم شریف حاضر ہوکر دور کیا ۔پھر مجھے یہ عجیب منظر نظر آیا کہ عید ہوتے ہی پورا شہر بالکل سنسان ہوگیا ۔سارے بازار ، یہاں تک کہ ہوٹل اور قہوہ خانے جو رمضان میں چوبیس گھنٹے چہل پہل سے بھرپور نظر آتے رہتے تھے، مکمل طورپر بند اور خاموش تھے ۔
عید کا دوسرا دن آیا ، تو خیال آیا کہ آج پاکستان میں عید ہوگی ۔ میں صبح کا وقت حرم شریف میں گذارکر مدرسہ صولتیہ کے حجرے میں واپس آیا ، تو وہاں بھی میں اکیلا تھا ۔ والدین اور بہن بھائیوں کے بغیر عید گذارنے کا یہ پہلا موقع تھا، اور حضرت والد صاحبؒ کی صحت کی وجہ سے تشویش بھی ۔ ابھی تک ان کے بخیریت پہنچنے کی خبر بھی نہیں ملی تھی ۔ان باتوں کا طبیعت پر اثر تھا ، اسی حالت میں جب میں حجرے میں تنہا تھا ، اچانک حجرے سے باہر حضرت مولانا محمد سلیم صاحب ؒ کے صاحب زادے مولانا محمد شمیم صاحبؒ کی آواز آئی: "بھائی تقی! کراچی سے فون ہے "اُس زمانے میں دو ملکوں کے درمیان فون کرنا اتنا آسان نہیں تھا ،میں خوشی اور تشویش کے ملے جلے جذبات کے ساتھ ان کے دفتر میں پہنچا ، اور فون اٹھایا، تو دوسری طرف بڑے بھائی حضرت مفتی محمد رفیع صاحب تھے ، اور انہوں نے حضرت والد صاحبؒ سے میری بات کرائی ۔ معلوم ہوا کہ الحمدللہ وہ خیریت سے پہنچ گئے ہیں ، اور بخیریت ہیں ،اُس گفتگو کی مسرت اور حلاوت آج تک یاد ہے۔
حضرت مولانا محمد یوسف بنوری صاحب رحمۃ اللہ علیہ جن کے ساتھ مجھے افریقہ جانا تھا ، ابھی مدینہ منورہ میں تھے ، اور اطلاع یہ تھی کہ وہ شوال کی ۵؍ تاریخ تک یہاں تشریف لائیں گے ، اُس کے بعد سفر شروع ہوگا ۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ عید کے بعد کے یہ پانچ دن مجھے یہیں گذارنے تھے ۔ الحمد للہ ، اُس وقت حرم شریف کا ہجوم ختم ہوچکا تھا ، اس لئے اطمینان کے ساتھ طواف اور مقامات مقدسہ پر حاضری کے بہترین مواقع میسر آئے جس پر اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کروں ، کم ہے ۔البتہ حرم شریف کے باہر سناٹے کا وہی عالم پانچ دن تک رہا ، اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت مولانا محمد سلیم صاحب اور حضرت مولانا محمد شمیم صاحب کو جنت میں اعلیٰ درجات عطا فرمائیں ، انہوں نے اپنی شفقتوں سے نہال کئے رکھا ، یہاں تک کہ حضرت بنوری ؒ تشریف لے آئے ، ان کے ساتھ حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر صاحب مد ظلہم بھی تھے ، اورپھر ان کی پرُ لطف رفاقت میں سفر شروع ہوا ۔ پہلے ایک یا دو رات جدہ میں قیام رہا ، اُس کے بعد ہم نیروبی کے لئے روانہ ہوگئے جو افریقہ کے سفر کی پہلی منزل تھی ۔
نیروبی کا سفر
نیروبی کا موسم نہایت خوشگوار اور ٹھنڈاتھا۔ میں اس شہر میں پہلی بار آیا تھا ، اور یہاں کے سرسبز مناظر اور دلکش موسم کا بھی پہلی بار تجربہ ہوا۔ چونکہ یہ شہر خط استوا کے بالکل قریب واقع ہے ، اس لئے یہاں بارہ مہینے اوقات نماز ایک جیسے رہتے ہیں ، اور اگرچہ استوائی ممالک میں قدرے گرمی ہوا کرتی ہے ، لیکن سطح مرتفع پر ہونے کی وجہ سے یہاں عموماًخوشگوار ٹھنڈ رہتی ہے ۔ یہاں حضرت بنوری ؒ کے شاگر د مولانا مطیع الرسول صاحب نے رہائش کا انتظام ایک مقامی تاجر کے ایک پُرفضا بنگلے پر کیا ہوا تھا ، جن کے بارے میں اتنی بات یاد رہ گئی ہے کہ انہیں آغا صاحب کہا جاتا تھا ، اور غالباً وہ اصلاً افغانستان کے باشندے تھے ۔
حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت اللہ تعالیٰ نے بارہا عطا فرمائی تھی ، اور مجھ پر ان کی شفقتوں کا بلا استحقاق مظاہرہ ہمیشہ ہوتا تھا ، لیکن حضرتؒ سے براہ راست کچھ پڑھ کر تلمذ کا شرف حاصل کرنے کی تمنا تھی ۔ میں نے اس سفر میں یہ شرف حاصل کرنے کے لئے مکہ مکرمہ سے اصول حدیث پرحافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب اپنے ساتھ رکھ لی تھی ، تاکہ وہ حضرت ؒ سے پڑھوں ۔ چنانچہ حضرتؒ سے درخواست کی تو انہوں نے قبول فرمالیا ، اور فجر کے بعد پڑھنے کے لئے فرمایا ، اور طریقہ یہ تجویز کیا کہ تم عبارت پڑھتے جاؤ، جہاں مجھے کچھ کہنا ہوگا ، کہدونگا ۔چنانچہ نیروبی کے قیام میں فجر کے بعد یہ سلسلہ شروع ہوگیا ۔ جناب ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر صاحب بھی ساتھ ہوتے تھے ۔
حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ بڑے شگفتہ مزاج بزرگ تھے ، اور سیاحت کا بھی ذوق رکھتے تھے ، اور میرے شوق سیاحت کا بھی انہیں اندازہ تھا ، اس لئے اسی قیام کے دوران وہ مولانا مطیع الرسول کی رہنمائی میں نیروبی کے کچھ سیاحتی مقامات پر بھی لے گئے ۔کھلے جانوروں کے باغ میں بن مانس کی پہلی بار اُسی وقت "زیارت” ہوئی ۔وہیں پر افریقہ کے ایک جنگلی قبیلے کی ایک عورت نظر آئی جس کے بارے میں مقامی حضرات نے بتایا کہ یہ جنگلی قبیلہ اصل میں آدم خور قبیلہ ہوتا ہے ، لیکن جب ان کے لوگ شہرمیں آجاتے ہیں ، تو رفتہ رفتہ وہ متمدن ہونے لگتے ہیں ۔اسی قیام میں نیروبی شہر سے باہر نکل کر ہم ٹھیک خط استوا کی لکیر تک بھی گئے جو سرسبز پہاڑوں اور وادیوں سے گذرتی تھی ۔
جمعہ کا دن آیا ، تو نیروبی کی مرکزی مسجد میں حضرت بنوری قدس سرہ کا بیان تھا ، اور پھر انگریزی میں میری تقریر ہوئی جو غالباً حضرت ؒ ہی کے بیان کا خلاصہ تھی ۔اس کے بعد افریقہ کے مختلف علاقوں میں کام کرنے کے لئے پروگرام بنایا گیا ۔اس کے لئے نیروبی ہی سے افریقہ کے مزید مقامات کا ٹکٹ بنوانا تھا ، چنانچہ مولانا مطیع الرسول صاحب کی معرفت ایک ٹریول ایجنسی سے تنزانیہ سے لیکر نائیجیریا تک مختلف ملکوں کے ٹکٹ بنوانے کی کارروائی شروع ہوگئی۔
حضرت والد صاحب ؒ کی علالت کی وجہ سے مجھے ہر وقت ایک فکر لگی رہتی تھی ، حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ اسے محسوس فرماتے رہتے تھے ، میری بھوک بھی اس فکر کی وجہ سے اُڑی ہوئی تھی ، لیکن نیروبی کے خوشگوار موسم اور آب وہوا کا کچھ اثر یہ ہوا کہ ایک دوپہر کے کھانے پر میں نے رغبت سے کھانا کھایا ، حضرت بنوری ؒ نے بعد میں مجھ سے فرمایا کہ آج مجھے یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ تم رغبت سے کھانا کھارہے ہو۔حضرتؒ کی یہ بات سنکر مجھے اندازہ ہواکہ وہ اپنے ایک ادنیٰ خادم سے بیٹے کی طرح محبت فرماتے اور اُ س کی ان باریک باتوں کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ رحمہ اللہ تعالیٰ رحمۃً واسعۃ ۔
ایک صبح ناشتے کے بعداچانک پیغام ملا کہ مولانا مطیع الرسول صاحب کے دفتر میں کراچی سے میرے بڑے بھائی حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی کا فون آیا تھا کہ انہیں فون کرلیا جائے۔ میرا ماتھا ٹھنکا کہ حضرت والد صاحب ؒ کے بارے میں کوئی خبر نہ ہو۔ میں گرتا پڑتا ایک ایسے دفتر پہنچا جہاں سے فون کیا جاسکتا تھا۔الحمدللہ ٹرنک کال بک کرانے پر فون فوراً مل گیا ۔بھائی صاحب نے بتایا کہ حضرت والد صاحب ؒ کو دوبارہ دل کا حملہ ہوا ہے ، اور انہیں اسی ہسپتال میں داخل کردیا گیا ہے جہاں وہ پہلے زیر علاج رہے تھے۔اب میں بڑی کشمکش میں پڑگیا ۔ ایک طرف دل کا یہ شدید تقاضا کہ کسی طرح جلد ازجلد حضرت والد صاحب ؒ کے پاس پہنچوں ، اور دوسری طرف جس کام کے لئے یہ سفر اختیار کیا تھا ، اس کی ابھی بالکل شروعات تھیں ، اور میں حضرت بنوری قدس سرہ سے پورے سفر میں ساتھ رہنے کا وعدہ کرچکا تھا ، اس لئے اُن سے واپسی کی بات کرتے ہوئے بھی شرم آتی تھی ۔ لیکن حضرتؒ کو پوری بات بتانا بھی ضروری تھا۔انہیں حضرت والد صاحب ؒ سے بڑی محبت تھی ، اس لئے انہوں نے فون کی بات سنتے ہی فرمایا کہ تم جلد ازجلد کراچی چلے جاؤ ، اور کچھ اس مضمون کی بات ارشاد فرمائی کہ مجھے معلوم ہے کہ حضرت مفتی صاحب کو تم سے اور تمہیں اُن سے عشق ہے ، اس لئے مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ تمہارے جانے سے ان کی صحت پر اچھا اثر پڑے گا ، ان کی زندگی بڑی قیمتی ہے ، اس لئے تم سفر بیچ میں چھوڑنے کی فکر نہ کرو ۔ حضرتؒ کی یہ بات سنکر مجھے اطمینان ہوا ، لیکن پتہ نہیں تھا کہ کراچی جانے کے لئے کوئی جہازکب مل سکے گا، کیونکہ نیروبی سے روزانہ پروازیں نہیں ہوتی تھیں۔ لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کا کرم تھا کہ معلوم ہوا ایک جہاز آج شام ہی کو کراچی جارہا ہے ۔الحمدللہ سیٹ بھی مل گئی ۔ایک بہت بڑا مرحلہ زرد بخار کے ٹیکے کا تھا ۔ اس کے لئے بڑی لمبی کارروائی کرنی پڑ تی تھی ، ورنہ ائیرپورٹ پر قرنطینہ میں کئی دن گذارنے پڑتے تھے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ مولانا مطیع الرسول صاحب کو جزائے خیر عطا فرمائیں،انہوں نے سارے مراحل اپنے خصوصی تعلقات استعمال کرکے شام تک طے کرادئیے ، اور میں رات کے وقت کراچی کے لئے روانہ ہوگیا۔ راستے بھر دعائیں کرتے ہوے کراچی پہنچا ،اور سیدھا ہسپتال چلا گیا۔ حضرت والد صاحب ؒدیکھ کر باغ باغ ہوگئے ۔الحمد للہ وہ دل کے حملے سے نکل کر رُوبہ صحت تھے۔مجھے ایسا معلوم ہوا جیسے دنیا میں جنت مل گئی۔الحمدللہ اس مرتبہ نسبۃً کم دن انہیں ہسپتال میں رہنا پڑا ، اور وہ جلد ہی گھر تشریف لے آئے۔لیکن اب ان کی زندگی اپنے کمرے اور بستر تک محدود ہوکر رہ گئی تھی ۔اسی بستر علالت پر انہوں نے دارالعلوم کے انتظام سے لیکر فتویٰ نویسی ، معارف القرآن کی تالیف اور دوسری تصنیفی مصروفیات کا سلسلہ جاری رکھا۔

(ماہنامہ البلاغ :جمادی الاولیٰ ۱۴۴۲ھ)

جاری ہے ….

٭٭٭٭٭٭٭٭٭