حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی
یادیں
(ساتون ویں قسط)
بینکوں سے ملنے والا اعزازیہ
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب میں نے پہلی بار فیصل اسلامک بینک میں شریعہ بورڈ کے رکن کی حیثیت میں کام کرنا منظور کیا، اس وقت اس کام کا داعیہ صرف یہ شوق تھا کہ سود کے خلاف اللہ تعالیٰ نے جس جنگ کااعلان سورۂ بقرہ میں کررکھا ہے، اس سے بچنے بچانے میں مجھ ناچیز کو بھی کچھ حصہ لگانے کی سعادت مل جائے۔ اس وقت حاشیہ خیال میں بھی دوردور یہ تصور نہ تھا کہ اس خدمت کے صلے میں کوئی اعزازیہ بھی ملا کرے گا۔لیکن ہوا یہ کہ فیصل بینک نے اپنی طرف سے ازخود سال بھر کا اعزازیہ تین ہزار ڈالر کے چیک کی شکل میں مجھے دیدیا جو اس وقت کے لحاظ سے تقریباً ڈیڑھ لاکھ پاکستانی روپے بنتے تھے۔ شروع میں مجھے اس کے قبول کرنے میں تأمل رہا، لیکن حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر اور حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنہما کو جو ہدایت عطا فرمائی تھی کہ یہ مال اگر تمہاری طلب یا اشراف نفس (لالچ) کے بغیر ملے ،تو اسے اللہ تعالیٰ کی نعمت سمجھ کر قبول کرلو، اس کی بناپر میں نے یہ قبول کرلیا۔لیکن اس بینک میں بھی اور آئندہ جن بینکوں میں کام کرنے کا موقع ملا، ان میں بھی اس معاملے میں میں نے چند اصول مدنظر رکھے جو درج ذیل ہیں:
(۲) دوسرااہتمام یہ کیا کہ اگرچہ میں نے اپنے آپ کو کبھی عالم نہیں سمجھا، اس کے بجائے یہ سمجھتا رہا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے صحیح معنی میں طالب علم بنادیں تو میرے لئے یہی بہت بڑی معراج ہے، لیکن بینکوں میں جن لوگوں سے واسطہ پڑتا تھا، وہ ہمیں عالم سمجھ کر ہی معاملہ کرتے تھے، اس لئے میں چاہتا تھا کہ یہ ہمارے لئے ناگزیر نہیں، ہم ان کے لئے ناگزیر ہیں، اس لئے ان کے دلوں اور طرزعمل میں ہمارا وہی وقار اور مقام ہونا چاہئے جو ایک عالم کے شایان شان ہو، اور وہ ہمیں بینکوں کا ملازم سمجھ کر ہمارے ساتھ معاملہ نہ کریں۔ چنانچہ عام ملازمین یا قانونی مشیروں کے ساتھ ان کا معاملہ یہ تھا کہ جب وہ بینک کی کسی میٹنگ یا اس کے کسی اور کام کے لئے سفر کریں، تو انہیں روزانہ کی بنیا دپر ایک وظیفہ دیدیا جاتا تھا، وہ اس وظیفے سے ائیر پورٹ پر اتر کر ٹیکسی بھی خود کرتے، رہائش کے لئے ہوٹل کی تلاش بھی خود کرتے، اور طعام وقیام کا بل بھی اسی وظیفے سے ادا کرتے تھے۔اس سے انہیں کبھی بچت بھی ہوجاتی تھی۔
لیکن میں نے یہ شرط لگائی ہوئی تھی کہ میں اس وظیفے کی بنیاد پر سفر نہیں کروںگا۔ مجھے ائیرپورٹ پر ادارے کا کوئی سینئر نمائندہ استقبال کے لئے آئے، اور پہلے سے کسی اچھے ہوٹل میں بکنگ کراکر مجھے وہاں پہنچائے، اور میٹنگ میں لانے لے جانے کا انتظام بھی خود کرے۔
(۳) بہر حال! پاکستان کے کسی بینک سے تو میں کوئی مالی اعزازیہ نہیں لیتا تھا لیکن ان پابندیوں کے ساتھ بھی دوسرے ملکوں سے جو کچھ ملتا تھا، اس میں بندہ نے وہی انتظام کیا جو اسلامی نظریاتی کونسل یا وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کی شریعت بنچ میں کیا تھا۔ یعنی اس آمدنی کو میں نے اپنے روزمرہ کے نظام روزی میں شامل نہیں کیا، بلکہ اس کو الگ رکھا، اور گھر کا خرچ جس طرح پہلے چلتا تھا، اسی معیار پر چلتا رہا۔ مقصد یہ تھا کہ میں اپنی زندگی کے گذارے میں ان آمدنیوں کا محتاج نہ رہوں اور اگر مجھے کبھی اپنے اصولوں کی خاطر ان اداروں سے مستعفی ہونا پڑے تو مجھے گھر کے خرچ کا کوئی مسئلہ رکاوٹ نہ بنے، چنانچہ جب جب میرے دل میں کسی ادارے سے مستعفی ہونے کا عزم پیدا ہوا، الحمدللہ ایک لمحے کے لئے بھی کوئی تردد نہیں ہوا۔ البتہ یہ رقوم جو الگ رکھی گئی تھیں، کچھ تو میں نے غیر سودی بینکاری ہی کی کسی ضرورت میں خرچ کیں، مثلاً علماء کے ایک اجتماع کے مصارف میں جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔ اور کچھ مجھے چند جائیدادیں حاصل کرنے میں کام آئیں جن میں سے بعض مناسب آمدنی کا بھی ذریعہ ہیں، اور اب بفضلہ تعالیٰ میرا اشاعتی ادارہ یعنی مکتبہ معارف القرآن بھی خود کفیل ہوگیا ہے، اور میرا گھر کا خرچ اسی سے پورا ہوتا ہے،دارالعلوم کی تنخواہ جو میں شروع میں لیا کرتا تھا، اب سالہاسال سے وہ چھوڑی ہوئی ہے۔
اسلامی بینکوں کے لئے ضابطہ اخلاق
اگرچہ مجلس شرعی کے ذریعے معاییر تیار ہورہے تھے۔لیکن شروع میں ان معاییر کی حیثیت صرف ایک علمی کاوش کی تھی، اور کسی اتھارٹی نے اسے بینکوں پر لازم نہیں کیا تھا (جیسے کہ بعد میں ہوا)اُس وقت عرب ملکوں میں دھڑا دھڑ اسلامی مالیاتی ادارے قائم ہورہے تھے، اور ان کے شریعہ بورڈز میں نئے نئے علماء کام کرنے لگے تھے، اور افراد کی قلت کے پیش نظر بعض اوقات ایک ہی عالم بیک وقت درجنوں بینکوں کے شریعہ بورڈز میں کام کرنے لگا تھا جس کی وجہ سے شرعی نگرانی کا جو معیار مطلوب ہے، اس میں کمی آرہی تھی، نیز عرب ممالک کے بینکوں میں ایسے ایسے معاملات سامنے آرہے تھے جو شریعت کے اور خود معاییر کے خلاف تھے۔ الحمدللہ پاکستان کے ادارے تو ان خامیوں سے محفوظ تھے، لیکن عرب ممالک میں ان کا رواج عام ہونے لگا تھا۔میں اس سلسلے میں بہت متفکر تھا، اور چاہتا تھا کہ عرب دنیا کے علماء کاایک اجتماع بلاکر انہیں کسی ضابطہ کار پر متفق کیا جائے۔
جو علماء مالیاتی اداروں کی نگرانی کررہے تھے ان کو کسی ضابطے پر متفق کرنے کے لئے عرب دنیا ہی کی کسی مؤثر شخصیت کی ضرورت تھی۔اس کے لئے مجھے شیخ یوسف قرضاوی سب سے زیادہ موزوں نظر آئے کیونکہ عرب ممالک میں ان کو بزرگی کا ایک مقام حاصل ہے، اور ان کی بات کو بہت وزن دیا جاتا ہے۔ میں چاہتا تھا کہ یہ اجتماع ان کی صدارت میں ہو، تاکہ وہ نتیجہ خیز ہوسکے۔
یہ اجتماع میں کسی مالیاتی ادارے کے خرچ پر کرنا نہیں چاہتا تھا، بلکہ خود اپنے خرچ پر کرنا مقصود تھا۔ شیخ قرضاوی دامت برکاتہم اصلاً تو مصری ہیں، لیکن عرصہ دراز سے دوحہ (قطر) میں مقیم ہیں، اور مختلف مجالس میں مجھے ان کی خاصی طویل صحبت اور محبت حاصل رہی ہے۔متعدد مسائل میں ان سے اختلاف کے باوجود مجموعی اعتبار سے وہ شریعت کی بالا دستی اور گمراہانہ مغربی افکار سے بیزاری کا موقف رکھتے ہیں، اور ان کی وسعت علم میں کوئی کلام نہیں۔ میں نے سوچا کہ پہلے ان سے تنہائی میں مل کر انہیں صورتِ حالات سے آگاہ کروں، اور اپنی یہ تجویز انہیں پیش کروں۔ اس کے لئے مجھے قطر کا سفر کرنا تھا۔شیخ قرضاوی نے جو جماعت "اتحاد علماء المسلمین” کے نام سے بنائی ہے، اس کے سیکریٹری جنرل میرے دوست شیخ ڈاکٹر علی محی الدین قراداغی ہیں۔ وہ بھی قطر ہی میں رہتے ہیں، اور ان کابھی وہاں کے اسلامی بینکوں سے تعلق ہے، اور میری مذکورہ بالا تشویش میں وہ میرے ہم خیال تھے۔میں نے انہیں اپنے ارادے سے مطلع کیا۔انہوں نے میرے لئے قطر کے ویزا کا انتظام کردیا، چنانچہ میں نے ۲۲؍جون ۲۰۰۷ ء کو کراچی سے قطر کا سفر کیا، اور شیخ قرضاوی سے مفصل ملاقات کی،انہیں اپنی تشویش سے آگاہ کرکے یہ تجویز دی کہ ان کے زیر صدارت متعلقہ علماء کاایک اجتماع مکہ مکرمہ میں منعقد کرکے اس میں صورتِ حال پر مفصل بحث ہو، اور اسی اجتماع میں شریعہ بورڈز کے لئے ایک ضابطہ کار طے کرلیا جائے، تاکہ آئندہ ان غلطیوں کااعادہ نہ ہو۔ شیخ یوسف قرضاوی صاحب نے مجھ سے مکمل اتفاق کا اظہار کرکے اس اجتماع میں شرکت کی دعوت قبول کرلی۔
عنقریب مکہ مکرمہ میں ایک اجلاس ہونے والا تھا جس میں وہ بیشتر علماء مدعو تھے جنہیں میں اس اجتماع میں شریک کرنا چاہتا تھا۔اس اجلاس کے اختتام پر اگلے دن میں نے سب کو مجوزہ اجتماع کے لئے مدعو کیا، اور شیخ یوسف قرضاوی اور شیخ علی قراداغی مدظلہم کو بھی اپنی دعوت پر مکہ مکرمہ بلا لیا۔ اس اجتماع کے لئے میں نے ایک مفصل یادداشت پہلے سے تیار کررکھی تھی۔ وہ میں نے اس اجتماع میں پیش کی۔ شیخ یوسف قرضاوی نے اس کی سرگرم تائید کرکے تمام حاضرین کو نصیحت فرمائی کہ غیر سودی مالیاتی اداروں کا قیام جتنا ضروری ہے، اس سے زیادہ ضروری یہ بات ہے کہ وہ ہر معاملے میں سودی اداروں کی نقالی سے بچ کر اسلام کے حقیقی احکام میں ادنیٰ مداہنت سے بچیں۔اس سلسلے میں انہوں نے تمام حاضرین سے میری مرتب کی ہوئی یادداشت پر عمل کرنے کی تاکید کی۔
میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اس اجتماع میں میری مرتب کردہ یادداشت کے تمام نکات پر سب نے عمل کا وعدہ کیا ہو، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے بعض ایسی خامیاں اس کے بعد دور ہوئیں جو میری نظر میں زیادہ تشویشناک تھیں۔
صکوک المشارکۃ اور ان کے بارے میں میرا ایک اقدام
بینکاری کی صنعت میں "بانڈز” کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ حکومت یا کوئی مالیاتی ادارہ اپنے کسی بڑے منصوبے وغیرہ کے لئے سرمایہ مہیا کرنے کے لئے لوگوں سے قرض لیکر اسکی سند کے طورپر ایک دستاویز جاری کرتا ہے جسے "بانڈ” کہا جاتا ہے۔یہ قرضے چونکہ سودی ہوتے ہیں، اس لئے جو شخص یہ بانڈ حاصل کرے، اسے ایک متعین شرح سے سود کا حقدار سمجھا جاتا ہے۔شرعی لحاظ سے اس کا بہترین متبادل یہ ہے کہ جس منصوبے کے لئے سرمایہ حاصل کرنا مقصود ہے، پیسہ لگانے والوں کو اس منصوبے کے نفع یا نقصان میں شریک کرنے کے معاہدے کے ساتھ ان سے سرمایہ لیا جائے۔دوسرے الفاظ میں ان سے شرکت یا مضاربت کا معاہدہ کیا جائے۔پھر انہیں سود کے بجائے حقیقی نفع کا حصہ ادا کیا جائے، اور اگر نقصان ہو تو وہ نقصان میں بھی شریک ہوں۔
۲۰۰۷ ء میں بہت سے بینکوں نے بظاہر اسی بنیاد پر مالی اوراق جاری کئے ، اور ان کا نام "صکوک المشارکۃ” رکھا۔لیکن بہت سے بینکوں نے اس میں یہ اضافہ کردیا کہ صکوک جاری کرنے والا یہ وعدہ کرتا تھا کہ مدت شرکت ختم ہونے پر وہ تمام شرکاء کے حصص ان کی لگائی ہوئی ابتدائی رقم پر خرید لے گا۔ اس وعدے کا عملی اثر یہ تھا کہ تمام شرکاء کا ابتدائی سرمایہ محفوظ ہوگیا ، اور ایک طرح سے وعدہ کرنے والے شریک نے باقی تمام شرکاء کے رأس المال کی ضمانت دیدی۔ یہ صورت شرعاً جائز نہیں تھی ، اور معاییر میں بھی اس کو ناجائز قرار دیا گیا تھا۔لیکن چونکہ شروع میں معاییر کے احکام بینکوں پر لازم قرار نہیں دئیے گئے تھے، اس لئے بازار میں ایسے صکوک المشارکۃ کا چلن بہت عام ہورہا تھا ۔ میں نے متعدد مجالس میں اس صورت حال پر تنقید کی، اور آخرکار ایک کانفرنس کے دوران رائٹر نیوز ایجنسی نے مجھ سے انٹر ویو کرنا چاہا۔میں نے وہ انٹر ویو دیتے ہوئے موقع غنیمت سمجھا اوریہ بیان دیا کہ بازار میں پھیلے ہوئے صکوک میں اسّی فی صد شریعت کے خلاف ہیں۔
یہ بیان اگرچہ میں نے اپنی ذاتی حیثیت میں دیا تھا، لیکن مجلس شرعی کا صدر ہونے کی وجہ سے شرق اوسط اور مغرب کے اخبارات نے اسے شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کردیا ۔اس بیان کا شائع ہونا تھا کہ مالیاتی بازار میں ایک تہلکہ مچ گیا ، اور صکوک کی مارکیٹ جو کروڑوں بلکہ شاید اربوں ڈالر کی مالیت پر مشتمل تھی، یک بیک ٹھپ ہونے لگی، اور اخبارات ورسائل میں اس پر تبصروں کا ایک انبار لگ گیا۔
اسی دوران ایک مرتبہ میں دبی جارہا تھا، تو میرے ایک اجنبی رفیق سفر کے ہاتھ میں فنانشل ٹائمز کا ۸؍ دسمبر ۲۰۰۹ ء کا شمارہ تھا ۔ اس کے دوسرے صفحے پر میری بڑی سی تصویر چھپی ہوئی تھی، وہ صاحب کبھی اس تصویر کو دیکھتے ، اور کبھی مجھے ، اور آخر کار انہوں نے مجھ سے پوچھ ہی لیا کہ "کیا یہ آپ ہی ہیں؟”میں نے ان سے اخبار لیکر دیکھا ، تو واقعی فنانشل ٹائمز کے کسی نمائندے نے نہ جانے میری تصویر کہاں سے لیکر اسے اخبار کے تقریباً چوتھائی صفحے پر شائع کیا ہوا تھا ، اور ایک مضمون میرے صکوک کے بیان کے اثرات کے بارے میں لکھا ہوا تھا ۔وہ دکھانا یہ چاہتے تھے کہ کس طرح ایک پاکستانی ملاّ کے ایک بیان نے مالیاتی بازار میں زلزلہ ڈال دیا ہے ۔
اس ہنگامے کے نتیجے میں صکوک جاری کرنے والوں نے مجھ سے اور مجلس شرعی سے رابطہ کرکے مطالبہ کیا کہ ہمارا موقف سنا جائے ۔چنانچہ میں نے ان سب حضرات کو مجلس شرعی کے ایک ذیلی اجتماع میں دعوت دی ، اور ان سے ان کا موقف سنا ۔ان کا کہنا یہ تھا کہ اس وعدے کی وجہ سے سرمائے کا پورا ضمان صکوک جاری کرنے والے پر نہیں آتا، کیونکہ اگر منصوبہ کلی طورپر تباہ ہوجائے تو اس نقصان میں سب شریک ہوںگے۔اس لئے خریداری کے اس وعدے کو مکمل ضمان قرار نہیں دیا جاسکتالیکن یہ ایک دور ازکار خیال تھا جس کا واقعے کی دنیا میں کوئی عملی اثر نہیں تھا۔حقیقت یہی تھی کہ ان صکوک کے ذریعے شرکت کے نام پر بانڈ جیسی خصوصیات حاصل کرنا مقصود تھا۔
بہرحال! علماء کرام اور بینکاروں کی ایک بڑی محفل میں ان کا نقطہ نظر سننے کے بعد میں نے مجلس شرعی کاایک خصوصی اجلاس اسی موضوع پر طلب کیا ، اور اس کے لئے ایک مقالہ بھی لکھا جو "الصکوک وتطبیقاتہ المعاصرۃ” کے نام سے شائع ہوا۔مجلس شرعی کے اس اجلاس میں بعض وہ علماء بھی موجود تھے جن کی منظوری سے وہ قابل اعتراض صکوک جاری ہوئے تھے ۔ انہوں نے اپنے موقف کے دلائل بھی پیش کئے، لیکن میں ان کے اخلاص اور حق پسندی کو آفرین کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ انہوں نے ہمارے دلائل سنکر نہ صرف یہ کہ اپنے موقف سے رجوع کیا، بلکہ میرے بیان کی تائید میں مجلس نے جو تاریخی بیان جاری کیا ، اس پر کھلے دل کے ساتھ دستخط کئے ، اور بعد میں اخباری بیانات کے ذریعے بھی اسی کی مکمل حمایت کی، اور اس کے بعد ایسے صکوک کا اجراء بند ہوگیا۔
لیکن بعد میں جو صکوک جاری ہوئے، ان میں کچھ دوسری خرابیاں سامنے آنے لگیں اس لئے اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اس سے پہلے صکوک کا جو معیار مجلس شرعی کی طرف سے جاری ہوا تھا، اس کو مزید تفصیل کے ساتھ مرتب کیا جائے، جس کے ذریعے ان خرابیوں کا بھی ازالہ ہوسکے۔آجکل اس معیار کی تیاری پر کام ہورہا ہے، اور چونکہ مجلس شرعی کے تیارکردہ معاییر مرکزی بینکوں کی طرف سے ایک قانون کی طرح اسلامی بینکوں پر لازم کردئیے گئے ہیں، اس لئے امید ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ ان خرابیوں کا بھی ازالہ ہوجائے گا۔
جاری ہے ….
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
(ماہنامہ البلاغ :محرم الحرام ۱۴۴۴ھ
)
(۱)یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ دوسری عالمی مجالس کی طرح مجلس شرعی میں بھی تمام معاییر مجلس کی طرف سے شائع ہوتے ہیں ، لہٰذا یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر ہر مسئلے سے ہر رکن متفق ہو ، کسی کو اختلاف ہوتا ہے تو اجلاس کی روداد میں اس کا اختلاف ذکر کردیا جاتا ہے ۔
” width=”20″ height=”20″>