حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی
یادیں
(تینتالیسویں قسط)
چنانچہ ۱۲؍ ربیع الاول۱۳۹۹ ھ مطابق ۱۹۷۹ء کو ایوان صدر میں ان قوانین کے نفاذ کے لئے ایک پُر وقار تقریب منعقد ہوئی جس کے شروع میں مولانا قاری سعیدالرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی دلکش اور پُر اثر آواز میں یہ آیات تلاوت فرمائیں :
ثُمَّ جَعَلْنَاکَ عَلَی شَرِیعَۃٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْہَا وَلَا تَتَّبِعْ أَہْوَاء َ الَّذِینَ لَا یَعْلَمُونَ(۱۸) إِنَّہُمْ لَنْ یُغْنُوا عَنْکَ مِنَ اللَّہِ شَیْئًا وَإِنَّ الظَّالِمِینَ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء ُ بَعْضٍ وَاللَّہُ وَلِیُّ الْمُتَّقِینَ (۱۹) (الجاثیۃ)
اس کے بعد صدر مرحوم نے اپنی تقریر میں اسلامی قوانین کی اہمیت اور اپنے آئندہ عزم کااظہار فرمایا۔ایوان صدر کی تقریبات میں یہ پہلا موقع تھا جب تمام چہروں پر حقیقی مسرت کی لہر نظر آتی تھی۔
حدود اور زکوۃ کے قوانین کے علاوہ کونسل کے ایک پینل نے غیر سودی بنکاری کے بارے میں بھی ایک مفصل رپورٹ تیار کی تھی ، لیکن اُس پر ابھی کونسل کی طرف سے غورو فکر جاری تھا ، اس لئے اس موقع پر اُس کا نفاذ نہیں ہوسکا، بلکہ اُس میں کچھ دیر لگی جس کا ذکر میں ان شاء اللہ آگے کروں گا۔
اسلامی قوانین کے دشمنوں کو یہ بات کہاں بھاسکتی تھی؟ ان کی طرف سے تو عرصۂ دراز سے یہ پروپیگنڈا کیا جارہا تھا کہ اسلام میں مختلف فرقوں کی موجودگی میں اسلام کا نفاذ ممکن نہیں ہے۔ مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام نے اس پروپیگنڈے کا جواب ۱۹۵۲ء میں اُس وقت دیدیا تھا جب سب نے مل کر پاکستان کے آئین کے لئے بائیس متفقہ نکات پیش کردئیے تھے۔ ان نکات میں یہ بات طے ہوگئی تھی کہ تمام قوانین قرآن وسنت کے مطابق بنائے جائیں گے ، البتہ مختلف مکاتب فکر کے شخصی قوانین ( نکاح ، طلاق، وراثت وصیت جیسے معاملات )میں قرآن وسنت کی وہی تشریح معتبر ہوگی جسے وہ مکتب فکر درست سمجھتا ہو۔یہی بات پاکستان کے دستور میں بھی اسی طرح درج ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ ملک کے عام قوانین توتمام مکاتب فکر کے لئے ایک ہوںگے، البتہ نکاح وطلاق وغیرہ جن کو شخصی قوانین کہا جاتا ہے ، اُن میں ہر مکتب فکر کے لئے اُسی کے مسلک کے مطابق قانون سازی ہوگی۔ حدود کے قوانین چونکہ شخصی قوانین میں داخل نہیں تھے ، اس لئے ان میں اس طے شدہ اصول کے مطابق ہر مکتب فکر کے لئے الگ قانون سازی کا سوال نہیں تھا ۔ چنانچہ اسلامی نظریاتی کونسل نے جب یہ قوانین بنائے ، تو ان میں مختلف مکاتب فکر کے لئے الگ قانون بنانے کا کوئی ذکر نہیں آیا۔ یہاں تک کہ یہ بات بھی اصولی طورپر طے نہیں تھی کہ قوانین فقہ حنفی کے مطابق بنائے جائیںگے ، یہ اور بات ہے کہ اکثریت اور عملیت کا لحاظ رکھتے ہوئے ان قوانین کے اکثر معاملات حنفی فقہ کے مطابق ہی بنے، البتہ بعض مسائل میں ضرورت اور مصلحت کو مد نظر رکھتے ہوئے دوسری فقہ سے بھی استفادہ کیا گیا ۔چنانچہ جب چوری کی سزا قرآن کریم کے مطابق ہاتھ کاٹنے کا قانون بنا ، تو وہ جمہور کے قول کے مطابق ہاتھ کو پہنچے سے کاٹنا تجویز کیا گیا ۔ اس موقع پر کونسل کے شیعہ رکن مفتی جعفر حسین مجتہد صاحب نے اپنا مسلک یہ بتایا کہ چور کی صرف انگلیاں کاٹی جائیں گی۔ تھوڑی سی گفتگو کے بعد انہوں نے اپنا اختلافی نوٹ بھی لکھ کر دیدیا ، لیکن مذکورہ بالا طے شدہ اصول کے مطابق جس پر ۳۳ علماء کے بائیس نکات میں ان کے بھی دستخط تھے ، انہوں نے اس پر کوئی خاص اصرار نہیں کیا ، اور قانون چور کا ہاتھ کاٹنے کا بن کر نافذ ہوگیا۔
جب قوانین حدود کے نفاد کا اعلان ہوا ، تو بی بی سی کا ایک نمائندہ مارک ٹیلی (جو دینی حلقوں کی مخالفت میں مشہور تھا) ، مفتی جعفر حسین صاحب مجتہد کے پاس پہنچ گیا ، اور اُن سے سوال کیا کہ ان قوانین میں آپ کے مسلک کی تو کوئی رعایت نہیں رکھی گئی ، پھر آپ نے انہیں کیسے قبول کیا ؟ اس کا واضح جواب تو یہ تھا کہ ملک کے عام قوانین الگ الگ نہیں بنائے جاسکتے ، البتہ شخصی قوانین میں مختلف مسلکوں کی رعایت رکھی جائے گی۔لیکن انہوں نے اس موقع پر یہ مطالبہ کردیا کہ شیعہ مسلک کے لوگوں کے لئے حدود کے قوانین میں ترمیم کی جائے ۔ اسے بی بی سی کے نمائندے نے خوب اچھالا ، یہاں تک کہ جذباتی لوگوں نے اسے انا کا مسئلہ بنالیا، اور اس کی بنیاد پر "تحریک نفاذ فقہ جعفریہ "کے نام سے مفتی جعفر حسین صاحب کی سربراہی میں ایک حماعت قائم ہوگئی جس نے مطالبات کے مروجہ طریقے استعمال کرنے شروع کردئیے ۔ہم نے کونسل میں بھی اور باہر بھی مفتی صاحب سے گفتگو کی ، اور یہ عرض کیا کہ یہ ایک اصولی معاملہ ہے ، شخصی قوانین سے ہٹ کر مسلکوں کی بنیادپر الگ الگ قانون سازی کا مطالبہ اگر تسلیم کرلیا جائے ، تو اسلامی قانون ایک مذاق بنکر رہ جائے گا ، اور اس کا نتیجہ آخر کار یہ ہوگا کہ جو سیکولر حلقے اسلامی قانون کے مخالف ہیں ، ان کے ہاتھ میں ایک ہتھیار آجائے گا، اور اس سے اسلامی قوانین کا نفاذ ہی خطرے میں پڑ جائے گا ، لہٰذا جو اصول بائیس نکات اور دستور میں طے ہوچکا ہے ، اُسے نہ چھیڑیں۔ لیکن افسوس ہے کہ مفتی صاحب راضی نہ ہوئے ، اور ان کی تحریک چلتی رہی ، یہاں تک کہ ایک مرحلے پر ان کی جماعت نے اسلام آباد میں سرکاری عمارتوں کا گھیراؤ کرکے دھرنا دیدیا ۔
اس دھرنے کو ختم کرنے کے لئے حکومت کے بعض افراد نے ان کے مطالبے پر غور کرنے کی یقین دہانی کرائی ، جس پر وہ دھرنا ختم ہوا ۔ اس کے نتیجے میں وزارت قانون کی طرف سے اسلامی نظریاتی کونسل کو ایک خط موصول ہوا جس میں کونسل سے کہا گیا تھا کہ وہ چور کی سزا کے قانون میں ایسی ترمیم تجویز کرے جس سے شیعہ لوگوں کے لئے الگ سزا مقرر ہوجائے۔
وزارت قانون کی طرف سے یہ تجویز سامنے آئی ، تو ہمیں معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا ۔ اُس وقت جناب غلام اسحاق صاحب مرحوم وزیر خزانہ تھے ، لیکن صدر ضیاء الحق صاحب مرحوم ان پر بہت اعتماد کرتے تھے ، کونسل کے ارکان کی ان کے ساتھ ایک میٹنگ ہوئی ،اس میٹنگ میں میں نے عرض کیا کہ ہم لوگ اس تجویز کی جو مخالفت کررہے ہیں ، اُسے کسی فرقہ وارانہ تعصب کی بنا پر نہیں ، بلکہ اس اصولی بنیادپر کررہے ہیں کہ اگر پبلک لاء میں ہر مکتب فکر کے لئے الگ قانون بنانے کی طرح ایک مرتبہ ڈال دی گئی ، تو اس کی کوئی حد نہیں ہوگی ، اور اسلامی قانون کی تدوین اور اُس کا نفاذ عملاً ناممکن ہوجائے گا ۔اور یہ دستور پاکستان کے خلاف بھی ہوگا ۔غلام اسحاق صاحب نے اصولاً اس بات کو تسلیم کیا ،اور کہا کہ یہ سارے نتائج میرے سامنے ہیں ، لیکن جو مسئلہ کھڑا کردیا گیا ہے ، اس سے نمٹنے کی کوئی اور صورت سمجھ میں نہیں آرہی ۔
اس ہنگامے کے باوجود اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنا کام جاری رکھا ، اور حدود کے بعد قصاص اور دیت کا قانون بھی ابتدائی طورپر میں نے مرتب کرکے کونسل میں پیش کیا ۔
یہ مسودہ ابھی اپنی ابتدائی حالت میں تھا ، اور اس پر بحث جاری تھی کہ میں وفاقی شرعی عدالت میں منتقل ہوگیا ، پھر وہاں ایک اور حیثیت میں اس قانون کی خدمت کی توفیق ہوئی جس کی تفصیل میں ان شاء اللہ عدالتی کام کی تفصیل کے دوران آگے ذکر کروںگا ۔
اس کے علاوہ عائلی قوانین میں ترمیم کا ایک مسودہ بھی مرتب کرکے میں نے پیش کیا جو کونسل نے منظور بھی کرلیا ، لیکن ابھی اس کے نفاذ کا موقع نہیں آیا تھا کہ میں وفاقی شرعی عدالت چلا گیا ۔
اسلامی نظریاتی کونسل کا کام صرف قوانین کے بارے میں سفارشات مرتب کرنا ہی نہیں تھا ، بلکہ زندگی کے مختلف شعبوں میں دینی اصلاحات بھی اُس کا موضوع تھیں ۔ اور ظاہر ہے کہ ان میں تعلیمی اصلاحات سر فہرست تھیں ۔ اس لئے ملک کے تعلیمی نظام میں تبدیلی کے لئے بھی میں نے ایک مفصل رپورٹ تیار کی ، جو میری کتاب "ہمارا تعلیمی نظام ” میں شائع ہوچکی ہے ۔اسی موقع پر وزارت تعلیم کے ساتھ بھی متعدد نشستیں ہوئیں ، اور ان میں بہت سے مسائل زیر بحث آئے ۔ اُس وقت میں نے ایک خط کونسل کے اُس وقت کے سیکریٹری جناب مظفر اشرف صاحب کو لکھا تھا ۔ اس میں چونکہ متعدد اہم مسائل پر گفتگو ہے ، اس لئے وہ بھی یہاں نقل کرتا ہوں ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محترم ومکرم جناب ایس ایم اے اشرف صاحب
سیکرٹری اسلامی نظریاتی کونسل اسلام آباد
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ:
آپ کے گرامی نامے۹(۱)؍78 سی آئی آئی، ؍ 1827مورخہ 18 اکتوبر 1978ء کے جواب میں عرض ہے کہ اس خط کیساتھ آپ نے وزارت تعلیم کے جودوفائل میرے پاس بھیجے تھے، میں نے ان کا مطالعہ کیا، اس سے قبل میں وزارت تعلیم کی مقرر کردہ نصاب کمیٹی کی آخری میٹنگ میں اسلامی کونسل کے نمائندے کی حیثیت سے شرکت کرچکا تھا، اس سلسلہ میں میری معروضات مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) مذکورہ فائلوں میں نویں اور دسویں جماعت کے لئے اسلامیات کا جو نصاب تجویز کیاگیا ہے وہ اس بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے کہ ان جماعتوں میں بھی سُنی شیعہ دونوں مکاتب فکر کا نصاب تعلیم کلی طور پر مشترک ہوگا، لیکن قبل اس کے کہ میں اس مجوزہ نصاب کے بارے میں اپنی کوئی تفصیلی رائے ظاہر کروں مجھے اس بنیادی فکر کے بارے میں کچھ عرض کرنا ہے۔
چند سال سے ہمارے ملک میں یہ مسئلہ زیر بحث رہا ہے کہ اسلامیات کا نصاب تعلیم شیعہ سُنی دونوں قسم کے طلباء کے لئے مشترک ہو یا جداگانہ ، ایک نقطہ نظریہ ہے کہ ملی وحدت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نصاب مشترک ہونا چاہئے، اور دوسرا نقطہ نظر جداگانہ نصاب کے حق میں ہے، اس مسئلہ میں طویل غوروفکر اور مختلف مکاتب فکر کے اہم اہل علم سے تبادلہ خیال کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچاہوں کہ شیعہ سُنی دونوں قسم کے طلباء کے لئے اسلامیات کا نظام تعلیم کلی طور پر مشترک نہ ہونا چاہئے، ایک حصہ میں نصاب مشترک ہو اور دوسرے میں جداگانہ اس تجویز کے دلائل مندرجہ ذیل میں ہے:
(الف) اگر شروع سے آخر تک اسلامیات کا نظام تعلیم مشترک رکھاجائے تو اس کالازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ کوئی بھی مکتب فکر طلباء کو اسلامی معلومات کی اتنی مقدار فراہم نہیں کرسکے گا جو بحیثیت ایک تعلیم یافتہ مسلمان کے اس کے پاس ہونی ضروری ہے اور اس طرح عام اسلامیات کے مضمون میں معیار تعلیم کو اس سطح تک نہیں لے جاسکیں گے، جوہمارے ملی تقاضوں کے پیش نظرہونی چاہئے، اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں مکاتب فکر کے درمیان عقائد اور احکام کی تفصیلات میں اتنے شدید اختلافات موجود ہیں، اور عملی زندگی کے مسائل کا حل دنوں مکاتب فکر میں اتنا مختلف ہے کہ ان کے درمیان اشتراک پیداکرنا مشکل ہے لہذا مشترکہ نصاب تعلیم میں اسلامی معلومات کی بہت کم مقدار طالب علم تک پہنچ سکے گی کیونکہ مختلف فیہ مسائل کو لازماً چھوڑنا پڑے گا۔
(ب) مشترکہ نصاب تعلیم کا نتیجہ لازماً یہ ہوگا کہ چند بنیادی عقائد، عبادات کے فضائل اور کچھ موٹی موٹی معاشرتی تعلیمات کے سوا کوئی چیز نصاب کا جز نہ بنے مثلاً: مشترکہ نصاب میں نماز کی فضیلت تو بیان ہوگی لیکن نماز کا طریقہ اور اس کے دوسرے احکام اس لئے بیان نہ کئے جاسکیں گے کہ ان میں دونوں مکاتب فکر کے درمیان اختلاف ہے۔
حالانکہ محض نمازروزے کی فضیلت اور جھوٹ، دھوکہ فریب وغیرہ کی برائی وہ چیزیں ہیں جو ایک مسلمان بچہ ماں کی آغوش میں جان لیتا ہے یا اسے جان لینا چاہئے اس کے لئے باقاعدہ نصابی کتب کی زیادہ ضرورت نہیں یہ امر واضح ہے کہ اسلام محض چند عبادات ورسوم یا محض اخلاقی تعلیمات کا نام نہیں بلکہ اس کے احکام اور تعلیمات ہرشعبہ زندگی پر حاوی ہیں اور مسلمان طلباء کو اسلام کی عظمت سے آشنا کرنے اور ان میں ملی خودداری پیداکرنے کے لئے نیز انہیں سچا مسلمان بنانے کے لئے یہ ناگزیر ہے کہ انہیں ہر شعبہ زندگی سے متعلق اسلامی تعلیمات کی اتنی تفصیل کا علم حاصل ہو جس کے ذریعے وہ وقت کے چیلنج کا جواب دے سکیں اور اگر یہ اصول طے کرلیاجائے کہ طلباء کے سامنے کوئی ایسی بات بیان نہ کی جائے گی جو شیعہ سُنی مکاتب فکر کے درمیان اختلافی ہو تو پھر یہ مقصد حاصل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔
(ج) وزارت تعلیم نے جو فائل بھیجے ہیں ان میں تجویز کردہ نصاب پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے بھی مذکورہ بالا باتوں کی تصدیق ہوجاتی ہے کیونکہ اس میں بنیادی عقائد فضائل اور عام قسم کی اخلاقی ہدایات کے سوا کوئی ایسی بات شامل نہیں جسے جو حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی تفصیلات واضح کرتی ہو میں جب میٹنگ میں شریک ہوا اور میں نے دریافت کیا کہ اس نصاب میں نماز کے زیر عنوان کس قسم کی باتیں آئیں گی تو اس کا جواب یہ تھا کہ اس میں نماز کے فضائل اور اس کی خوبیاں بیان ہوں گی تو میں نے دریافت کیا کہ نماز کاطریقہ اور اس کے احکام کی تفصیلات طالب علم کب اور کہاں سیکھیں گے تو مجھے جواب ملا کہ مشترک نصاب کی موجودگی میں اس قسم کی باتیں وہ اپنے ماں باپ یا گھر والوں سے سیکھ لے گا حالانکہ میری رائے میں یہ معاملہ برعکس تو ہوسکتا ہے لیکن اگر اس نماز روزے اور زکوٰۃ کے تمام تفصیلی احکام گھر میں سیکھنے ہیں ،تو پھر محض فضائل اور خوبیوں کا علم حاصل کرنے کے لئے نصاب اور مدرس کے تکلف کی کوئی ضرورت نہ ہونی چاہئے۔
میں جن میٹنگوں میں شریک ہوا، ان میں یہ مسئلہ خاص شدت کے ساتھ موضوع بحث بنا ہوا تھا کہ متذکرہ نصاب میں خلفاء راشدین کا تذکرہ بھی شامل ہونا چاہئے یا نہیں ؟ احقر نے بصراحت عرض کیا کہ جس اسلامیات میں خلفاء راشدین کے مثالی عہد کا تذکرہ جان بوجھ کو چھوڑا جائے، وہ میرے نزدیک اسلامیات کا نصاب کہلانے کا مستحق نہیں۔ چنانچہ اس رائے سے ان حضرات کو تقویت ملی جو خلفاء راشدین کا تذکرہ نصاب میں شامل کرناچاہتے تھے۔اور بالآخر سب کمیٹی نے اسکو اپنی تجاویز میں شامل کرلیا۔ اس واقعہ کو ذکر کرنے کا منشاء یہ بتلاتا ہے کہ اختلافی باتوں کو نہ چھیڑنے کے نتائج کہاں تک پہنچتے ہیں۔
(د) اسلامی کونسل نے تعلیم سے متعلق اپنی جو مفصل سفارشات حکومت کو بھیجی ہیں ان میں نویں جماعت کے طلباء کے لئے اسلامیات کا جومعیار تعلیم تجویز کیا گیا ہے، اگر اس کا موازنہ زیرتبصرہ تجاویز سے کیا جائے تو دونوں کے درمیان زمین وآسمان کافرق نظر آتا ہے، اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ نصاب تعلیم کوکلی طور پر مشترک رکھنے کے لئے ہر اختلافی بات سے پرہیز کی کو شش کی گئی ہے۔
لہذا ان تمام نقائص کا حل میری نظر میں اس کے سوا نہیں ہے کہ نصاب کا ایک حصہّ جو صرف مشترک عقائد وفضائل وغیرہ پر مشتمل ہے ،دونوں کے لئے ایک رکھاجائے ،اور دوسرا حصہ جس میں احکام اور عقائد اور تاریخ کی تفصیلات ہوں دونوں مکاتب فکر کے لئے الگ بنایا جائے۔ امتحان کے پرچے اس دوسرے حصے میں الگ الگ ہوں، اور جس درسگاہ میں دونوں میں سے کسی مکتب فکر کے طلباء کی تعداد اس درسگاہ کے مجموعی طلباء کی تعداد سے بیس فیصد یا اس سے زائد ہو، وہاں اس مکتب فکر کے لئے الگ استاد کا تقرر کیا جائے، اور جس مکتب فکر کی تعداد مجموعے کے مقابلے میں بیس فیصد سے کم ہو، ان کے لئے الگ استاد کے تقرر کی ضرورت نہیں۔وہاں اس مکتب فکر کے طلباء جداگانہ حصۂ نصاب کا امتحان ازخود مطالعے کی بنیاد پر دیں گے ،یا پھر اسلامیات کے دونوں حصوں کو ایک ہی استاد پڑھائے گا۔
(۲) یہ تو تھا مشترک اور جداگانہ نصاب کے مسئلہ کے بارے میں احقر کا نقطہ نظر جسے مختلف مکاتب فکر کے بہت سے علماء کی بھی تائید حاصل ہے ۔لیکن جہاں تک موجودہ نصاب کمیٹی کی سفارشات کا تعلق ہے میرا مذکورہ بالا گزارشات سے ان کی تنقیص ہر گز مقصود نہیں، کیونکہ اس کو مامور ہی اس بات پر کیا گیا تھا کہ وہ مشترک نصاب کی بنیاد پر تجاویز مرتب کرے ،اور میں سمجھتا ہوں کہ اس محدود دائرے میں رہتے ہوئے اس نے جو کوشش کی ہے بحیثیت مجموعی بری نہیں اور اگر اس کی تجاویز میں اسلامیات کی مطلوب مقدار شامل نہیں ہوسکی تو اس میں کمیٹی بڑی حد تک معذور ہے کیونکہ اس کے دائرہ کار کو مشترک نصاب کی تعیین نے بڑی حد تک محدود کردیاتھا۔ البتہ اس بنیاد پر بھی کمیٹی کی مرتب کردہ نصاب میں چند ضروری مشورے اس نقطہ نظر سے پیش خدمت ہیں کہ جب تک مشترک نصاب کے تصور کو بدلا نہیں جاتا اس وقت تک کم از کم اس میں مندرجہ ذیل اضافے ضرور ہوجانے چاہئیں تاکہ مقدار نصاب کو ممکنہ حد تک معیاری بنایا جاسکے۔
(الف) حصہ اول باب اول میں قرآن مجید کی معجزانہ حیثیت ،اہمیت اور اس کے منجانب اللہ ہونے کے دلائل نیز اس کی صحت کی حفاظت پر مفصل علمی مقالے شامل ہونے چاہئیں۔
(ب) نصاب میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ احادیث کا انتخاب کرتے وقت صرف وہ احادیث لی گئی ہیں جو دونوں مکاتب فکر کی کتابوں میں موجود ہیں ۔چنانچہ فضائل قرآن کے بارے میں اس معیار پر صرف دو حدیثیں درج کردی گئی ہیں حالانکہ مشترکہ نصاب کی بنیاد پر بھی اصول یہ ہونا چاہئے کہ صحاح ستہ کی جن احادیث میں کوئی مختلف فیہ مسئلہ موجود نہ ہو، وہ لے لی جائیں، خواہ وہ احادیث دوسرے مکتب فکر کی کتابوں میں موجود نہ ہوں۔ اگر اس معیار پر احادیث کا انتخاب کیا جائے تو فضائل قرآن کے باب میں صرف مشکوٰۃ شریف میں سے بہت ضرورت اور مفید احادیث کا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
(ج) حصہ اول باب دوم میں بنیادی عربی کے قواعد مذکور ہیں ،لیکن ان کا معیار بہت کمتر ہے، نویں اور دسویں جماعت کے طلباء کو صرف اسم ، فعل، حرف، واحد، جمع اور مذکرومؤنث سمجھانے کے ساتھ مبتدا، خبر، مرکب اضافی اور مرکب توصیفی، فاعل اور مفعول بھی سکھادینے کی ضرورت ہے۔
(د) باب سوم میں قرآن کریم سے اقتباسات دیئے گئے ہیں، جس میں پارہ عم کی۶ سورتیں ،اور مختلف آیات درج ہیں ،حالانکہ پچھلے چند سالوں کو چھوڑ کر جو نصاب ہمیشہ سے رائج رہا ہے، اس میں پندرہ مکمل سورتیں پڑھائی جاتی تھیں جب کہ نصاب اس وقت بھی مشترکہ تھا، لہذا ان سورتوں میں اضافہ کی ضرورت ہے۔
(ہ) حصہ سوم سیرت نبوی سے متعلق ہے، لیکن اس میں صرف معراج، ہجرت اور ختم نبوت پر زور دیاگیا ہے حالانکہ احقر کی رائے میں سیرت طیبہ کے ان پہلوؤوں پر زیادہ زوردینا چاہئے جن کاتعلق عمل سے ہے ،اور جن سے زندگی کے مختلف شعبوں میں رہنمائی ملتی ہے۔
(و) باب ہفتم میں حدیث کا تعارف کرایا گیا ہے۔ اس میں حجیت حدیث اور تدوین حدیث کے بارے میں مختصر اور آسان مقالے شامل ہونے چاہئیں۔
اس باب میں کل پندرہ احادیث پڑھنے کے لئے دی گئی ہیں، حالانکہ شروع میں جب کہ نصاب مشترک تھا ،یہ معمول رہا ہے کہ۴۰؍ احادیث تک پڑھائی جاتی تھیں۔ لہذا ان احادیث کی تعداد میں بھی معقول اضافہ ہونا چاہئے۔
(ز) حصہ چہارم باب ہشتم بنیادی اعمال سے متعلق ہے جس میں ان بنیادی اعمال کی مشروعیت کی تاریخ بھی درج ہونی چاہئے اور ان کی حکمت اور فلسفہ بھی۔
(ح) باب نہم حقوق العباد سے متعلق ہے جس میں بہن بھائیوں ، دوستوں اور اساتذہ کے حقوق کا بھی ذکر شامل ہوناچاہئے، اس کے علاوہ اس میں بیع وشراء ، تجارت، معیشت اور افسروماتحت کے حقوق بھی شامل ہونے چاہئیں۔
(ط) باب دہم کا عنوان امر بالمعروف رکھا گیا ہے حالانکہ اس کے تحت فریضۂ تبلیغ کا کوئی ذکر نہیں، بلکہ دیانت، ایفائے عہد وغیرہ نیکیوں کا تذکرہ ہے ۔لہذا اس کا عنوان صرف اوامر رکھا جائے اور اس میں ایک مستقل عنوان فریضہ تبلیغ یا امر بالمعروف کے نام سے قائم کرکے اس میں تبلیغ سے متعلق آیات واحادیث کی تشریح کی جائے اس حصہ میں اسلام میں عورتوں کا مقام کے زیر عنوان جن آیات اور احادیث کا انتخاب کیا گیا ہے وہ تشنہ ہے اس میں اضافہ کی ضرورت ہے۔
(ی) اس طرح باب یازدہم کا عنوان نہی عن المنکر کے بجائے نواہی یا منکرات ہونا چاہئے اور اس میں رشوت، بغض وعناد، حسد، خود غرضی دنیا پر ستی وغیرہ کو بھی شامل کرنا چاہئے۔
(ک) باب دوازدہم آداب معاشرت سے متعلق ہے اس میں استیذان کے آداب، کھانے پینے کے آداب، راہ چلنے کے آداب وغیرہ کی سخت کمی معلوم ہوتی ہے اس حصہ میں آداب سفر کے تحت صرف بسم اللہ مجرہاومرسٰہا درج کیا گیا ہے حالانکہ اس موضوع پر بہت سی آیات واحادیث موجود ہیں۔
(۳) بحیثیت مجموعی نصاب کمیٹی کے کام کی کسی تنقیص کے بغیر میں یہ سمجھتا ہوں کہ مشترک نصاب کے دائرے میں رہتے ہوئے بھی جتنی معلومات کی مقدار دی جاسکتی تھی ،وہ اس میں نہیں دی گئی ،اور نویں دسویں جماعت کے طلباء کے معیار کے لحاظ سے اس میں کافی اضافہ کی نہ صرف گنجائش بلکہ ضرورت ہے اور اس کے لئے جن عنوانات پرکام کیا گیا ہے نیز جن عنوانات کا ذکر احقر نے کیا ہے ان سے متعلق مزید قرآنی آیات کی فہرست مضامین قرآن سے اور مزید احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم مشکوٰۃ شریف سے اور ان کی تشریح تفاسیر اور شروح حدیث کی کتابوں سے لے کر نصاب میں شامل کرنے کی ضرورت ہے ۔
والسلام
محمد تقی عثمانی
اور غیر سودی بنکاری کی رپورٹ پر بھی کام جاری رہا ۔ الحمد للہ یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد حضرت مولانا شمس الحق افغانی رحمۃ اللہ علیہ کو کونسل کا رکن بنالیا گیا تھا ۔ اس لئے اس کام کے دوران بفضلہ تعالیٰ ان کی صحبت اور ان کی آراء سے استفادے کا شرف بھی حاصل ہوتا رہا ۔
تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کی طرف سے جس مطالبے کا میں نے ذکر کیا ہے ، ان کے احتجاج کی بناپر ایسا لگ رہا تھا کہ حکومت اس مطالبے کو ماننے کی تیاری کررہی ہے ، اور اس سلسلے میں کونسل کے پاس ایک تحریری نوٹ بھی آگیا تھا۔ جب متعدد کوششوں کے باوجود کوئی اور راستہ نہ رہا ، تو میں صدر محمد ضیاء الحق صاحب مرحوم کو ایک مفصل خط لکھکر کونسل سے مستعفی ہوگیا، اور اُس کے کچھ عرصے کے بعد کونسل کی مدت ختم ہونے پر کونسل ٹوٹ گئی ۔اُدھر جناب جسٹس محمد افضل چیمہ صاحب مرحوم جن کے ساتھ الحمد للہ بہت اچھا وقت گذرا تھا، اورنفاذ شریعت کے معاملے میں ہم نے اُنہیں ہمیشہ نہایت مخلص پایا، انہیں رابطۂ عالم اسلامی کی طرف سے یہ پیشکش ہوئی کہ وہ پاکستان میں رابطے کے دفتر کے سیکریٹری جنرل بن جائیں جسے انہوں نے قبول کرلیا، اور کونسل کے چیئر مین کی جگہ خالی ہوگئی ، اور نئی تشکیل میں جناب جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمن صاحب کو کونسل کا چیئر مین بنا دیا گیا۔
اگرچہ میں کونسل سے مستعفی ہوچکا تھا ، لیکن یہ جناب صدر محمد ضیاء الحق صاحب شہید مرحوم کی بڑائی کی بات تھی کہ انہوں نے مجھ سے ذاتی حیثیت میں بھی تعلق قائم رکھا ، اور بعض امور میں مشورے بھی لیتے رہے۔میرے کونسل سے مستعفی ہونے کی وجہ، جس کا میں نے اوپر ذکر کیاہے، وہ بھی ختم ہوچکی تھی ، اور صدر مرحوم نے مجھ سے کونسل کی نئی تشکیل میں رکنیت قبول کرنے کی فرمائش کی ، لیکن مجھے دوبارہ کونسل میں جانے پر شرح صدر نہیں ہورہا تھا ۔
اسی دوران میرے پاس صدر مرحوم کا ٹیلی فون آیا ۔انہوں نے فرمایا کہ میرے بیٹے کی شادی ہونے والی ہے ۔ میرا نکاح حضرت مفتی محمد حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے پڑھایا تھا ، اور میرے بھائی کا نکاح آپ کے والد حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ۔ دونوں حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے ۔ میری خواہش ہے کہ میرے بیٹے کا نکاح بھی حضرت ؒ کے کوئی خلیفہ پڑھائیں ، حضرت ڈاکٹر عبد الحی صاحب عارفی آپ کے شیخ ہیں ۔ آپ میری طرف سے اُن سے درخواست کریں کہ اگر حضرتؒ کو زحمت نہ ہو، تو میرے بیٹے کا نکاح پڑھادیں ۔میں خود اُن سے کہنا اس لئے نہیں چاہتا کہ کہیں اُن پر بوجھ نہ ہو، آپ اُن سے بے تکلف پوچھ لیں ، اگر وہ راضی ہوجائیں ، تو خوش قسمتی ہوگی ، اور اگر زحمت کا اندیشہ ہو، تو کچھ فکر نہ فرمائیں ۔ میں نے حضرتؒ سے ذکر کیا ، تو حضرتؒ نے قبول فرمالیا۔ میں نے فون پر انہیں اطلاع دی ، تووہ بہت خوش ہوئے ، اور کہنے لگے کہ حضرتؒ کو آپ خود ساتھ لیکر آئیں۔
چنانچہ میں اس نکاح کی تقریب میں حضرت ؒ کے ساتھ گیا ۔صدرمرحوم نے راولپنڈی کے قدیم ایوان صدر میں حضرتؒ کو ٹھہرایا ، اور اسی میں انتہائی سادگی کے ساتھ نکاح کی تقریب منعقد ہوئی،صدرمرحوم حضرتؒکے سامنے نہایت ادب کے ساتھ دوزانو بیٹھے رہے ۔ نکاح کے بعد انہوں نے حضرتؒ سے کہا کہ حضرت!مجھے آپ سے ایک درخواست یہ کرنی ہے کہ مولانا محمد تقی عثمانی نے اسلامی نظریاتی کونسل سے استعفاء دیدیا ہے ۔میں یہ درخواست کرتا ہوں کہ آپ ان سے فرمادیں کہ وہ دوبارہ اُس کی رکنیت قبول کرلیں ۔ حضرتؒ نے فرمایا کہ میں اُن سے یہ کیسے کہہ سکتا ہوں جبکہ انہیں یہ شکایت ہے کہ وہ شریعت کی روشنی میں جو تجاویز آپ کو دیتے ہیں ، ان پر ٹھیک ٹھیک عمل نہیں ہوتا ۔صدرمرحوم نے کہا کہ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ ہم ان شاء اللہ کونسل کی تجاویز پر اہتمام کے ساتھ عمل کرنے کی پوری کوشش کریں گے ، البتہ بعض اوقات کچھ مجبوریاں پیش آجاتی ہیں جن کی وجہ سے کچھ دیر بھی ہوجاتی ہے ۔ حضرتؒ نے فرمایا کہ اگر کوئی عملی دشواری ہو، تو آپ دوبارہ کونسل سے رجوع کرکے انہیں اپنی مشکلات بتائیں ، اور کونسل ان مشکلات پر اچھی طرح غور کرکے اس کا حل بتائے ۔ لیکن قرآن وسنت کی روشنی میں علماء کرام جو فیصلہ کریں ، اس کو نظر انداز کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ اس موضوع پر کافی دیر حضرت ؒ اُن سے گفتگو فرماتے رہے ، اور آخرکار حضرتؒ نے میری طرف اشارہ فرمایا کہ میں دوبارہ رکنیت قبول کرلوں۔
بہر کیف!اس گفتگو کے نتیجے میں حضرتؒ نے صدر صاحب سے وعدہ فرمالیا ۔ دوسری طرف میں خط وکتابت کے ذریعے میں حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی رابطہ رکھتا تھا ، اور ان سے کونسل کے کام میں مشورے لیتا رہتا تھا ۔اس موقع پر انہوں نے مجھے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا:
محب گرامی منزلت ! زید ت مآثرہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے مودت نامہ مورخہ ۱۷؍جمادی الثانیہ ۱۴۰۰ ھ نے مفتخر اور خوش وقت کیا۔ آپ نے ایک اہم مسئلہ میں مجھ پر اعتماد کرکے جس خصوصیت اور اعتماد کا اظہار فرمایا ہے اس سے مسرت کے ساتھ شرمندگی بھی ہوئی ۔ آپ کا مکتوب اور اس کا موضوع اتنا اہم ہے کہ اگر سفر کی سہولتیں ہوتیں اور وہ پابندیاں نہ ہوتیں جو اس سلسلہ میں حائل ہیں تو اس کاامکان تھا کہ میں اس مسئلہ پر آپ سے گفتگو کرنے کے لئے خود کراچی آتا اور مختلف مجلسوں اور قسطوں میں اس مسئلہ کے تمام پہلؤوں کا جائزہ مشترک طورپر لیاجاتا اور اس پر تبادلہ خیال کیاجاتا۔ مگر افسوس ہے کہ میں اس وقت اس حال میں نہیں ہوں کہ کوئی غیر ملکی سفر کرسکوں، مجھے رائے بریلی میں آپ کے قصد کی اطلاع ملی تھی، بڑی خوشی تھی کہ آپ وہاں آرہے ہیں لیکن بعد میں آپ کی مجبوریوں کا علم ہوا ، اور خط سے مزید تفصیل کا علم ہوا ، اگر مجھے وقت پر اس مجبوری کا علم ہوجاتا تو شاید میں خود لکھنو سے ملنے آپ سے آجاتا ، لیکن مجھے آپ کی روانگی کے بعد سارا قصہ معلوم ہوا ۔آپ نے دارالعلوم کے بارے میں جو تاثرات لکھے وہ ہم لوگوں کے لئے موجب تقویب وطمانینت ہیں۔
مسئلہ معلوم پر تفصیل سے اظہار خیال نہیںکرسکتا ۔ کوئی جانے والا ملا تو شاید تفصیل سے کچھ لکھ سکوں اس وقت اتنا ضرور لکھتا ہوں کہ آپ اپنی موجودہ ذمہ داری کو کسی طرح ترک نہ فرمائیں آپ کا شریک رہنا بڑے خیر وبرکت کا باعث ہوگا اور اس سے توازن و اعتدال برقرار رہے گا اس دائرہ کار کے مرکزی نقطہ سے آپ جتنے قریب اور مشوروں میں شریک ہوں اس میں بالکل تامل نہ کریں ،میں نے رباط سے لیکر رابطہ تک سب کو دیکھا ہے ، مدارعلیہ شخصیتوں میں سے کوئی بھی اندر سے ایسا مسلمان نظر نہیں آیا جیسے کہ صاحبِ موصوف (اپنی تمام کمزوریوں اور خامیوں کے ساتھ)میں چاہتاہوں کہ علماء کا رول ،خاص طورپر آپ کا، اس دائرہ کے اندروہی ہو جو "رجاء بن حیوۃؒ”کا سلیمان بن عبدالملک کے دربار میں تھا، اور جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کو حضرت عمربن عبدالعزیز کی شکل میں خلیفہ راشد نصیب ہوا، یا کم سے کم وہ ہو جو حضرت خواجہ عبید اللہ احرر کا اپنے عہد وحکومت میں تھا اور جس کا حضرت مجدد الف ثانی اپنے مکتوبات میں بار بار حوالہ دیتے ہیں :
"من اگر شیخی کنم ھیچ شیخ درد نیا مریدے نیا بد،لاکن مرا کارے دگر فرمودہ اند”
پھر اس کی حضرت مجدد تشریح فرماتے ہیں کہ اس سے مراد اہل اقتدار سے مل کر اور تعلقات قائم کرکے احکام شرعیہ کا اجراء و نفاذ اور بدعات ومنکرات کا ازالہ تھا ، باقی آپ تدوین و تالیف کا جو کام کرنا چاہتے ہیں وہ بے حد اہم ہے اور آپ اس کے لئے وقت نکالیں ۔ میں پہلے دن سے اس نتیجہ پر پہنچ گیا تھا کہ اگر عصر حاضر کے مطابق اس علم کی تدوین نہیں ہوئی تو اس سے اس تجربہ کے ناکام ہوجانے کا ندیشہ ہے، آپ اس کے لئے دارالعلوم کے انتظامات اور البلاغ کی ذمہ داریوں سے زیادہ سے زیادہ وقت نکال لیں اور یہ کام دوسرے معتمد علیہ اشخاص کے سپرد کردیں۔ معارف القرآن کا ترجمہ وغیرہ آپ اپنی ہمت سے دیکھتے رہیں ، اللہ تعالیٰ وقت میں برکت دے گا۔ تدریس و افتاء کا کام بھی دوسروںکے سپرد کریں ۔ میں کونسل کے بارے میں ضرور رائے دیتا کہ آپ اس سے سبکدوشی حاصل کرلیں لیکن اول تو آپ کا کوئی بدل نظر نہیں آتا دوسرے آپ کی اس رکنیت سے آپ کے دوسرے کاموں میں بھی مدد ملے گی اور اس ملک میںکام کرنے کے لئے اس طرح کی رکنیت مفید ہوگی ۔
امید ہے کہ میرا یہ عریضہ کم سے کم آپ کو عجلت میں فیصلہ کرنے میںکسی درجہ مانع ہوگا ۔ اگر اس نے اتنی ہی خدمت انجام دی تو یہ بھی بڑی خدمت ہے، اس کے ساتھ مسلسل ایک ہفتہ استخارہ بھی فرمائیں اور پھر دیکھیں کہ پردئہ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے ۔ خدا کرے میرا یہ خط آپ کو مل جائے، اس کی رسید سے ضرور مطلع فرمائیں ۔
والسلام
مخلص ، (ابوالحسن علی ، ۲۳؍مئی ۱۹۸۰ ء )
بہرحال!ان وجوہ سے میں دوبارہ کونسل کا رکن بن گیا۔ جو کام چھوڑکر گیا تھا ، مثلاً قصاص ودیت کا قانون ، اُسے مکمل کرنے کی کوشش کی ، عائلی قوانین میں ترمیم کا مسودہ تیار کیا ،اور غیر سودی بنکاری کی رپورٹ کو حتمی شکل دینے میں حصہ لیا ۔
جاری ہے ….
٭٭٭
(ماہنامہ البلاغ :شوال المکرم ۱۴۴۲ھ)