حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی
یادیں
(تیرہویں قسط )
لسبیلہ ہاؤس کے مکان میں
رمضان ۱۳۷۴ ھ (تقریباً مئی ۵ ۵ ۱۹ )تک ہماری رہائش برنس روڈ کے قریب کیمبل اسٹریٹ کے ایک فلیٹ میں تھی۔اس فلیٹ میں ہم پانچ سال مقیم رہے ۔ یہ زمانہ بڑا بابرکت ثابت ہوا ۔اسی قیام کے دوران اُس حج کی توفیق ہوئی جس کا ذکر میں پہلے کرچکا ہوں ۔یہیں پر بڑے بھائی حضرت مولانا مفتی محمد رفیع صاحب مد ظلہم نے حفظ قرآن کی تکمیل کرکے پہلی محراب سُنائی ، یہیں رہتے ہوئے نانک واڑہ میں دارالعلوم قائم ہوا ، اور ہماری باقاعدہ تعلیم شروع ہوئی ۔یہیں پر ہماری بڑی بہن محترمہ عتیقہ خاتون صاحبہ جو دیوبند سے بیوہ ہوکر آئی تھیں ، ان کا نکاح حضرت مولانا نور احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ہوا۔ یہیں پر ہماری دوسری بہن جنہیں ہم چھوٹی آپا کہتے ہیں ، ان کا نکاح لاہور کے جناب حافظ شفقت علی صاحب مرحوم سے ہوا ، اور یہیں ہمارے دوسرے بڑے بھائی جناب محمد رضی صاحب مرحوم کا نکاح ہوا جو حضرت مولانا محمد یوسف بنوری صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے پڑھایا ۔اور یہیں رہتے ہوئے حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے دوسرے رفقاء نے بورڈ تعلیمات اسلامیہ میں پاکستان کے دستور کی اسلامی بنیادیں طے کیں جن کے نتیجے میں ۱۹۵۴ ء کا دستور ی مسودہ مؤثر اسلامی دفعات کے ساتھ تیار ہوا (اگرچہ بعد میں گورنر جنرل غلام محمد نے دستوریہ توڑکر ملک کو پٹڑی سے اتار دیا ، اور یہ مسودہ طاق نسیان میں چلا گیا )
لیکن یہ مکان بھی کرایہ کا تھا ، اور حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خواہش تھی کہ کراچی میں مکان اپنا ہو۔ حضرت والد صاحب قدس سرہ ہندوستان سے ہجرت کے وقت اچھی خاصی جائیدادکے مالک تھے ، جس میں وسیع گھر کے علاوہ کچھ آبائی زرعی زمینیں تھیں، اورایک باغ بھی تھا، جو انہوں نے بڑے شوق سے لگایا تھا ،اور جس سال آپ نے وہاں سے ہجرت فرمائی، اس سال اس پر آم کا پہلا پھل آرہا تھا، لیکن حضرت والد صاحب قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ جس دن میں نے اس گھر اور باغ سے قدم باہر نکالا، وہ گھر اور باغ میرے دل سے نکل گئے۔چنانچہ پاکستان ہجرت کے بعد یہ تمام جائیدادیں ہندوستان کی حکومت نے اپنے قبضے میں لے لیں ۔
بالآخر پاکستان اور ہندوستان کے ایک معاہدے کے نتیجے میں یہ طے پایا کہ آبادی کے تبادلے کے نتیجے میں جو لوگ اپنی جائیدادیں ایک ملک میں چھوڑکر دوسرے ملک گئے ہیں ، انہیں ایک خاص ضابطے کے تحت نئے ملک کی متروکہ جائیدادوں میں سے حصہ دیا جائیگا۔اس طرح حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو اپنی متروکہ جائیدادوں کے بدلے کراچی کے محلے لسبیلہ ہاؤس میں ایک پلاٹ ملا تھاجس پر حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے ایک چارکمروں کا مکان تعمیر فرمالیا تھا ۔ ( مجھے یاد ہے کہ حضرت والد صاحب رحمۃاللہ علیہ فرماتے تھے کہ ان چار کمروں کی تعمیرپر آٹھ ہزار روپے خرچ ہوئے تھے۔)
چنانچہ رمضان ۱۳۷۴ ھ میں اُس کی تعمیر مکمل ہوگئی تھی، اوراُس میں منتقل ہونے کیلئے عید کا انتظار تھا ۔ ہم بھائیوں نے یہ طے کیاکہ رمضان المبارک کی ستائیسویں شب اُسی مکان کی چھت پر شبینہ کرکے گذاری جائے۔ برادر محترم حضرت مولانا مفتی محمد رفیع صاحب مد ظلہم ما شاء اﷲحافظ ہیں ۔انہوں نے اپنے کئی ہم سبق حفاظ کو جمع کرکے تراویح ہی میں وہاں شبینہ کیا ، اور غالباً دس یابارہ پاروں کی تراویح میں تلاوت کی۔ اور عید کے بعد ۴؍ شوال ۱۳۷۴ ھ (مطابق تقریباً ۲۵؍مئی ۱۹۵۵ ء )کو ہم اُس گھر میں منتقل ہوگئے۔
برنس روڈ کے مکان سے تو ہم پیدل ہی مدرسے چلے جایا کرتے تھے ۔لیکن لسبیلہ ہاؤس کا مکان مدرسے سے تین ساڑھے تین میل کے فاصلے پر تھا ، اس لئے وہاں ہم دونوں بھائی سائیکل پر جایا کرتے تھے۔ سائیکل حضرت مولانا مفتی محمد رفیع صاحب مدظلہم چلاتے ، اور میں اُن کے پیچھے کیریر پر یا اگلے ڈنڈے پر بیٹھ کر جایا کرتا تھا۔کبھی کسی وجہ سے سائیکل میسر نہ ہوتی ، تو بس میں بھی جانا پڑتا، اور اُس کے لئے دوبسیں بدلنی پڑتی تھیں۔
لاہور اور دیوبند کا سفر
اسی تعلیمی سال کے دوران جب میری عمر بارہ سال تھی،میری والدہ صاحبہ کو دو سفر درپیش تھے،ایک سفر لاہور کا۔ اور دوسرے والدہ صاحبہ اپنے بھائیوں اوردیگررشتہ داروں سے ملنے کیلئے دیوبند بھی جانا چاہتی تھیں ۔ اگرچہ یہ میری پڑھائی کازمانہ تھا ، اور اس سفرمیں ایک مہینے سے بھی شاید کچھ زیادہ مدت لگنی تھی ، اور اتنے دن کا ناغہ میری تعلیم کے لئے نقصان دہ تھا، لیکن میری عمربار ہ سال تھی، اور میری والدہ نہ میرے بغیر سفر کرتی تھیں، اور نہ میں ان کے بغیر رہ سکتا تھا۔اس لئے میں بھی یکم نومبر ۵ ۵ ۱۹ ء کوانہی کے ساتھ روانہ ہوگیا۔ لیکن حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ نے تاکید فرمائی تھی کہ جب تک لاہور میں رہوں، جامعہ اشرفیہ میں اسباق میں شریک ہوجاؤں ، اور جب تک دیوبند رہنا ہو، دارالعلوم دیوبند میں ۔چنانچہ لاہور پہنچ کر حسب معمول جب حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُن سے حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ کی ہدایت کا ذکر کیا، تو حضرتؒ نے بڑی شفقت سے متعلقہ اسباق میں بیٹھنے کی اجازت دیدی ۔ چنانچہ میں وہاں اپنے تمام اسباق میں شریک ہوتا رہا ۔حسن اتفاق سے حضرت مفتی صاحب رحمۃ اﷲعلیہ کے دو صاحب زادے یعنی حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب رحمۃ اﷲعلیہ (جو بعد میں جوانی ہی میں اﷲتعالیٰ کو پیارے ہوگئے تھے) اور حضرت مولانا فضل الرحیم صاحب مد ظلہم (موجودہ مہتمم جامعہ اشرفیہ)بھی اُس سال وہی کتابیں پڑھ رہے تھے جو میں پڑھ رہا تھا ، اس طرح ان کے ہم سبق ہونے کا شرف حاصل ہوگیا، اور ہم تمام اسباق میں اکٹھے شریک ہوتے رہے ۔
اگرچہ دارالعلوم میں اپنے اسباق کو میں جس مقام پر چھوڑکر آیا تھا، ضروری نہیں تھا کہ یہاں بھی پڑھائی اُسی مقا م پر ہوتی، دوسرے کسی نئے استاذ سے مناسبت پیدا کرنے میں بھی کچھ وقت لگتا ہے، اس لئے اس طرح سفرکے نتیجے میں جوتعلیمی نقصان ہونا تھا، اُس کی پوری تلافی تو نہیں ہوسکتی تھی، لیکن کچھ نہ ہونے سے کچھ ہوجانا بہتر تھا ، اس لئے میں نے اسی کو غنیمت سمجھا تھا ۔ اور بعدمیں یہ غنیمت غنیمتِ کبریٰ اس طرح بن گئی کہ ہمارے شرح جامی اور شرح تہذیب کے استاد چھٹی پر چلے گئے ۔میں نے یہ سوچ کر کہ یہ مفلسی میں آٹا گیلا ہوگیا، حضرت مفتی صاحب قدس سرہ کے دونوں صاحبزادوں سے جو میرے ہم سبق تھے، یہ تجویز پیش کی کہ ہم حضرت مفتی صاحبؒ کی خدمت میں چل کر اُن سے درخواست کرتے ہیں کہ ان دو کتابوں کے پڑھانے کے لئے کسی دوسرے استاد کاانتظام فرمادیں ۔چنانچہ ہم تینوں حضرتؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، اور یہ درخواست پیش کی۔حضرتؒ ہماری یہ درخواست سُن کر کِھل اُٹھے ، اور جواب میں ایسی بات ارشاد فرمائی جو ہماری توقعات سے کہیں زیادہ تھی۔فرمایا: "کچھ فکر نہ کرو، ہم تمہیں یہ کتابیں پڑھائیں گے ، اور ان کتابوں کے گھنٹے میں یہاں میرے پاس آجایا کرو”۔ یہ سُن کر ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی۔حضرتؒ نے عرصۂ دراز سے تدریس کا سلسلہ چھوڑا ہوا تھا۔اپنی ٹانگ کٹنے کے بعد وہ ٹانگ سے معذور تھے، اور اس حالت میں اُن کا وجود سراپا رشد وہدایت تھا، اور ان کی مجلس ہمہ وقت اپنے شیخ حکیم الامۃ حضرت تھانوی رحمۃ اﷲعلیہ کے تذکروں اور اُن کے افادات سے آباد تھی، اور اُس چھوٹی سی عمر میں وہ مجھے دنیا کے مقدس ترین انسان لگتے تھے، اور جب کبھی کسی بزرگ سے بیعت ہونے کا خیال آتا، تو ان کے سوا کسی اورکی طرف ذہن نہیں جاتا تھا۔ان کی موجودہ کیفیت دیکھنے والا کوئی شخص یہ تصور بھی نہ کرسکتا تھا کہ وہ شرح جامی اور شرح تہذیب جیسی کتابیں پڑھائیں گے۔ لیکن حضرتؒ نے اپنی شفقتوں سے نہال فرمادیا۔ان کا مکان نیلا گنبد کے مدرسے کے ایک فلیٹ میں تیسری منزل پر واقع تھا۔ ہم روزانہ ان کی خدمت میں حاضر ہوتے ،اور حضرتؒ کے درس کے دوران اندازہ ہوتا کہ تقدس اور ولایت کا یہ سراپا نحو اور منطق کی دقیق باتوں کو بھی کتنی آسانی سے سمجھا دیتا ہے۔ شرح جامی میں حاصل ومحصول کی بحث اچھی خاصی مشکل سمجھی جاتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ حضرتؒ نے ہمیں وہ بحث چٹکیوں میں سمجھا دی تھی۔ اسی طرح شرح تہذیب کا اُس وقت کا نصاب ضابطے کی بحث تک ہوتا تھا ، اور ضابطہ مشکل ہونے کی وجہ سے نصاب سے خارج تھا، لیکن حضرتؒ نے فرمایا کہ ہم تمہیں وہ بھی پڑھائیں گے، اور واقعۃً پڑھایا اور خوب پڑھایا۔رحمہ اﷲ تعالی رحمۃً واسعۃ۔
تقریباًچھبیس دن لاہور کا قیام مکمل کرنے کے بعد۲۷؍نومبر۵ ۵ ۱۹ ء کو والدہ صاحبہ کو دیوبند جانا تھا۔اس سفر میں ہمارے بھائی جان (جناب محمد زکی کیفی صاحب مرحوم) والدہ صاحبہ کو دیوبند لے جانے کیلئے تیار ہوگئے، اور ان کی رفاقت میں ہم ریل کے ذریعے روانہ ہوئے۔ اُس زمانے میں ہندوستان کا سفر نت نئی مشکلات کا حامل تھا۔کسٹم سے گذرنا ، اور اُس کے بعد ریل میں سوار ہونا دنیا کے میدان حشر سے کم نہ تھا۔ اس ریل نے امرتسرپہنچایا، اور وہاں سے دوسری ٹرین ملی جس نے پورا مشرقی پنجاب عبور کرکے رات گئے دیوبند کے اسٹیشن پر اُتارا۔میرے بچپن کے ذہن میں دیوبند کی جگہوں کا جو تصورتھا، اب چھ سال میں کراچی اور لاہور کی شہری زندگی کا عادی ہوجانے کے بعد وہ ساری جگہیں بہت چھوٹی نظر آرہی تھیں۔ میرے ذہن میں دیوبند کے اسٹیشن اور پلیٹ فارم وغیرہ کی جو تصویر بیٹھی ہوئی تھی، ایسا معلوم ہوا جیسے کسی نے اُس تصویر کو یکایک چھوٹا کردیا ہے۔پلیٹ فارم پر رشتہ داروں کا بڑا مجمع تھا، اور والدہ صاحبہ رحمہا اﷲتعالیٰ کے اُن سے ملنے اور سب کے چہروں سے پھوٹتی ہوئی خوشی کا منظر قابل دید تھا۔
ہمارا قیام اپنے ماموں جناب انوار کریم صاحب رحمہ اﷲ تعالی کے گھر میں ہوا۔اگلے دن میں نے اپنی بچپن کی گلیوں اوراپنے مکان کا چکر لگایا، ہمارا مکان اب شرنارتھیوں کے قبضے میں تھا، مگر انہوں نے اندر آنے کی اجازت دیدی ،اور اُس میں حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ کا لگایا ہوا یہ کتبہ درسِ عبرت دے رہا تھا:
دنیا کا کچھ قیام نہ سمجھو ، کر و خیال
اس گھر میں تم سے پہلے بھی کوئی مقیم تھا
یہ شعر تو حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ نے گھر کی تعمیر کے وقت کندہ کرایا تھا جب اس گھر کو چھوڑنے کا کوئی تصور بھی نہیں تھا ،لیکن آج یہ شعر اُس کے نئے مکینوں کو عبرت دلا رہا تھا۔ اس کے علاوہ میرے بڑے بھائی جناب محمد رضی عثمانی صاحب رحمہ اﷲتعالی اس گھر کو چھوڑتے وقت اُس کی بالائی منزل کے ایک چھجے کے نیچے کوئلے سے ایک شعر لکھ آئے تھے۔ یہ کوئلے سے لکھا ہوا شعر بھی اُس وقت پڑھا جاتا تھا:
یہ چمن یونہی رہے گا اور ہزاروں جانور
اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اُڑ جائیںگے
بہر حال! اپنے گھر میں دوسروں کی اجازت سے داخل ہونے اورا ن کا ممنون ہونے کے بعد ہم اپنے محلے میں نکلے ، اُس کی ایک ایک چیز اپنی جگہ موجود تھی، لیکن چھوٹی نظر آرہی تھی، یہاں تک کہ وہ چوک جس کا تذکرٍہ میں پہلے کرچکا ہوں کہ وہ ہمارے لئے ایک بڑے میدان یا اسٹیڈیم کی حیثیت رکھتا تھا، اب یوں محسوس ہورہا تھا جیسے وہ سمٹ کر ایک چھوٹا سا صحن بن گیا ہے۔
زندگی کے مختلف مراحل میں انسان مختلف چیزوں کو بڑا سمجھتا ہے، لیکن بعد میں جب ان کی حقیقت واضح ہوتی ہے تو انسان اس بات پر ہنستا ہے کہ میں نے کس چیز کو بڑا سمجھا تھا۔ یہ دنیا بھی آج ہمیں بہت بڑی نظر آتی ہے، لیکن آخرت میں پہنچ کر جب اس کی حقیقت کھلے گی تو یقیناً اپنی اس کوتاہ نظری پر ہنسی آئے گی۔
بہر کیف!دیوبند کے قیام کے دوران حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ کی ہدایت کے مطابق میں نے دارالعلوم دیوبند میں اپنے اسباق شروع کردئیے۔شرح جامی اُس وقت حضرت مولانا نصیرالدین صاحب رحمۃ اﷲعلیہ پڑھاتے تھے (حو بعد میں شیخ الحدیث بنے) الحمدﷲ ان سے استفادے کی نوبت آئی۔کنزالدقائق اورشرح تہذیب حضرت مولانا اسعداللہ صاحب کے پاس تھی ، اور مقامات حریری حضرت مولانا جلیل الرحمن صاحب کے پاس۔ میرے پھوپی زاد بھائی حضرت مولانا سید حسن صاحب رحمۃ اﷲعلیہ اس وقت دارالعلوم کے بڑے قابل اور مقبول استاد تھے، وہ بھی مقامات حریری پڑھاتے تھے، اور میری اوران کی خواہش تھی کہ میں اُن کے پاس مقامات پڑھوں، لیکن اُن کے گھنٹے کا کنزالدقائق سے تعارض تھا، اس لئے میں اُن سے استفادہ کرنے سے محروم رہا، لیکن دیوبند کے اس سفر کا یہ فائدہ ہوا کہ مجھے دارالعلوم دیوبند کا، غیررسمی ہی سہی، طالب علم بننے کی سعادت حاصل ہوگئی، اور اُسی زمانے میں مجھے وہاں کے اکابر کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ۔میری عمر اتنی چھوٹی تھی کہ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد صاحب مدنی رحمۃ اﷲعلیہ کی خدمت میں باقاعدہ حاضری دینے کا حوصلہ نہ ہوا، لیکن دور دور سے الحمد ﷲزیارت کی سعادت حاصل ہوگئی۔
میری ایک خالہ دیوبند سے کچھ فاصلے پر تحصیل کھتولی کے ایک گاؤں سرائے رسول پور میں مقیم تھیں۔والدہ صاحبہ رحمہا اﷲتعالیٰ اُن سے ملنے دودن کے لئے وہاں بھی گئیں، اور میں ان کے ساتھ تھا۔کھتولی وہ قصبہ ہے جو ہمارے روحانی جد امجد حضرت میاں جی منے شاہ صاحب رحمۃ اﷲعلیہ کا مسکن تھا ۔یہاں سے ایک کچی سڑک نہر کے کنارے کنارے سرائے رسول پور جاتی تھی ۔اس سڑک پر رکشہ کے ذریعے ہم سرائے رسول پور پہنچے ۔یہ ایک چھوٹا سا خوبصورت اور سرسبزوشاداب گاؤں تھا جس کی واحد مسجد کی امامت ہمارے خالو کرتے تھے ، اور اسی وجہ سے ہماری خالہ وہاں مقیم تھیں۔یہ دودن اس گاؤں میں بڑے پرلطف گذرے۔خالص دیہاتی ماحول کا پہلی بار مشاہدہ ہوا ، اور اسی میں یہ دلچسپ واقعہ بھی پیش آیا کہ ہماری خالہ کی ایک پڑوسن کو جب پتہ چلا کہ ہم لوگ کراچی سے آئے ہیں، تو انہوں نے مجھے اپنے گھر بلابھیجا ۔یہ ایک عمررسیدہ خاتون تھیں، اور میں چونکہ بارہ سال کا بچہ تھا، اس لئے انہوں نے مجھ سے پردہ بھی نہیں کیا۔گھر میں بٹھاکر انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم کراچی سے آئے ہو؟ میں نے اثبات میں جواب دیا ، تو اُنہوں نے کہا: "تم میرے بیٹے حسین کو تو جانتے ہوگے ، اُس کا کیا حال ہے ؟” میں نے کہا”:میں تو ان کو نہیں جانتا” اس پر خاتون کی حیرانی قابل دید تھی، انتہائی تعجب کے لہجے میں وہ بولیں : ” ہائے! تم کراچی میں رہتے ہو، اور حسین کو نہیں جانتے ؟ ” میں نے کہا : "وہ کہاں رہتے ہیں؟ ” کہنے لگیں :”ارے وہ اُسی کراچی میں رہتا ہے جس میں تم رہتے ہو”۔ اب میں سمجھا کہ یہ خاتون کراچی کو بھی سرائے رسول پور پر قیاس فرمارہی ہیں کہ جیسے یہاں رہنے والا ہر شخص ایک دوسرے کو جانتا ہے، اسی طرح کراچی کا ہرباشندہ بھی ایک دوسرے کو جانتا ہوگا ۔اس پر میں نے اُن کو سمجھانے کی کوشش کی کہ کراچی اتنا بڑا شہر ہے کہ اُس کاایک سرا اگر یہاں سمجھا جائے تو دوسراسرا میرٹھ میں ہوگا۔یہ سن کر وہ اس قدر حیران ہوئیں جیسے میں انہیں الف لیلہ کی کوئی کہانی سُنارہا ہوں ۔
اب خیال آتا ہے کہ جب قرآن کریم جنت کے بارے میں یہ فرماتا ہے کہ اُس کی چوڑائی تمام آسمانوں اور زمین کے برابر ہے ، یا رسول کریم صلی اﷲعلیہ وسلم یہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک ادنیٰ جنتی کو اتنا بڑا رقبہ دیا جائیگا جو پوری دنیا سے دوگنا زیادہ ہوگا، تو اُس پر ہماری حیرت اُس دیہاتی خاتون کی سی ہوتی ہے جو کراچی شہر کے بارے میں یہ تصور کرنے کو تیار نہیں تھی کہ وہ سرائے رسول پور سے اتنا زیادہ بڑا ہوگا کہ اُس میں ایک باشندہ دوسرے کو پہچانتا نہیں ہوگا، اور جس کی سادگی پر ہمیں ہنسی آجاتی ہے ۔لیکن وہ انبیاء کرام جو یا تو اپنی آنکھوں سے عالم بالا کی سیر کرآئے ہیں یا عالم بالا کے پیدا کرنے والے نے براہ راست ان کو وہاں کی خبر پہنچادی ہے، وہ ہم دنیا کے دیہاتیوں کو حیرت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں ، پھر بھی انکو ہم پر ہنسی نہیں ، ترس آتا ہے ۔
بہرکیف ! اپنی والدۂ محترمہ کے ساتھ لاہور اور دیوبند کا یہ سفر بڑا پرکیف بھی تھا، اور میرے لئے بہت سی سعادتوں کا بھی سبب بنا ۔
وہاں سے واپس آکر میں لاہور ہی میں تھا کہ حضرت والد صاحب قدس سرہ جمعیت علماء اسلام کی طرف سے مغربی پاکستان کا دورہ کرتے ہوئے لاہور تشریف لائے ، اور آگے پنجاب اور صوبہ سرحد کے دورے پر روانہ ہونے کا پروگرام تھا ۔ا س سفر میں حضرت والد صاحب قدس سرہ کی معیت نصیب ہوئی جس کی کچھ تفصیل ذکر کرنے سے پہلے حضرت والد صاحب ؒ کی اُس وقت کی مصروفیات کا کچھ ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے :
جاری ہے ….
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
</section