حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی
یادیں
(تریپنویں قسط)
بہر حال! مجمع الفقہ الاسلامی میں کام کرنے سے مجھے اس ادارے کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ اِس وقت پورے عالم اسلام میں یہ ادارہ انتہائی موقر ادارہ سمجھا جاتا ہے، اور اس کی قراردادوں کو اہل علم بڑا وزن دیتے ہیں۔ نئی تالیفات اور تحقیقات میں اُس کی قراردادوں اور اُس میں پیش ہونے والے مقالات کو ایک مرجع کی حیثیت حاصل ہے۔اور مجھے یہ عرض کرنے میں کوئی تأمل نہیں ہے کہ ادارے کو اس سطح تک پہنچانے میں اس کے صدر شیخ بکر ابوزیدؒاور امین عام شیخ حبیب بلخوجہ ؒ دونوں کا بڑا اہم کردار رہا ہے۔لیکن چند سال کے بعد شیخ بکر ابوزید ؒ اتنے سخت علیل ہوگئے کہ ان کے لئے مجمع میں کام کرنا ممکن نہ رہا، اور بالآخران کا وقت موعود آپہنچا، اور وہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
شیخ بکر ابو زیدؒ کے بعد امام حرم مکی حضرت شیخ عبداللہ بن صالح بن حمید کو مجمع کا صدر بنایا گیا ہے۔الحمد للہ وہ بھی بڑی قابلیت کے ساتھ یہ خدمت انجام دے رہے ہیں۔ وہ سعودی عرب کی مجلس شوریٰ کے صدر بھی رہ چکے ہیں، اور اس وقت دیوان میں شاہ کے مشیر بھی ہیں۔ان سے میری پہلے سے جان پہچان تھی، اس لئے ان کے ساتھ بھی بفضلہ تعالیٰ اچھا تعاون قائم ہے۔ ان کی صدارت کے کچھ عرصہ بعد تک شیخ حبیب بلخوجہ ؒ ہی مجمع کے امین عام رہے۔منظمۃ التعاون الاسلامی (او آئی سی) جس کے تحت مجمع الفقہ الاسلامی قائم ہے، جب ترکی کے مصطفی اوگلو اس کے سیکریٹری جنرل بنے، تو انہوں نے مجمع کے کچھ قدیم ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی، تاکہ نئے حالات میں وہ مجمع الفقہ الاسلامی کے دستور پر نظر ثانی کرے۔ اس کمیٹی کاایک رکن میں بھی تھا، چنانچہ کئی نشستوں کے بعد ترمیم شدہ دستور تیار ہوا۔اس وقت تک شیخ حبیب بلخوجہ ؒ ہی مجمع کے سیکریٹری جنرل تھے،پھر وہ اس قدر ضعیف ہوگئے تھے کہ ان کے لئے یہ ذمہ داری سنبھالنا مشکل تھا۔ اس لئے وہ سبکدوش ہوئے، اور ان کی جگہ اردن کے ڈاکٹر عبدالسلام عبادی کو مجمع کا سیکریٹری جنرل بنادیا گیا۔ مجمع کے کئی اجلاسات انہی کے زیر انتظام منعقد ہوئے،لیکن چند سال بعد انہیں اردن میں وزیر اوقاف بنا دیا گیا، اس لئے وہ وہاں چلے گئے، اور مجمع کے امین عام کی نشست خالی ہوگئی۔ کچھ عرصے ان کے متبادل کسی موزوں شخص کی تلاش جاری رہی، اور اس جگہ کے خالی ہونے کی بنا پر اس دوران کوئی اجلاس بھی منعقد نہیں ہوسکا۔
مجمع الفقہ الاسلامی کے سیکریٹری جنرل کے طورپر میرا تقرر
مجھے اُن دنوں مثانے اور غدۂ قدامیہ کی ایک شدید تکلیف پیش آئی جو کئی مہینے جاری رہی، میں اسی بیماری کی حالت میں تھا کہ اچانک منظمۃ التعاون الاسلامی (اوآئی سی)کے سیکریٹری جنرل مصطفیٰ اوگلو کی طرف سے میرے پاس فون آیا کہ اوآئی سی کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس نے آپ کو مجمع الفقہ الاسلامی کا سیکریٹری جنرل مقرر کردیا ہے، انہوں نے مجھے اس تقرر پر مبارکباد بھی دی، اور کہا کہ عنقریب آپ کے پاس اس تقرر کے کاغذات پہنچ جائیں گے۔ اسی کے ساتھ حضرت شیخ عبداللہ بن صالح بن حمید کا فون آیا، اور انہوں نے مجھے مبارکباددیتے ہوئے فرمایا کہ آپ جلد ازجلد جدہ پہنچ جائیں، ہم ان شاء اللہ مل جل کر مجمع کے کام کو آگے بڑھائیں گے، اور آپ مطمئن رہیں، میرا پورا تعاون آپ کو حاصل ہوگا۔ میں نے اپنے کچھ اعذار بیان کئے، تو انہوں نے فرمایا کہ میں آپ سے ذاتی طورپر یہ فرمائش کرتا ہوں کہ آپ اس پیشکش کو ضرور قبول کرلیں۔ چند دن کے بعد باضابطہ تقرر نامہ بھی میرے پاس آگیا، جس میں اس منصب کا حق الخدمت چار ہزار ڈالر ما ہانہ،جدہ میں درجۂ اول کا مکان، ڈرائیور سمیت کار، پرائیویٹ سیکریٹری کے علاوہ ذاتی خادم کی سہولت طے کی گئی تھی، اور بتایا گیا تھا کہ آپ کا منصب ایک سفیر کے برابر ہوگا، اور کسی بھی ملک کے سفیر کو جو بین الاقوامی حقوق اور رعایتیں حاصل ہوتی ہیں،بیرونی اسفار سمیت وہ تمام مہیا کی جائیںگی۔
میرے لئے یہ پیشکش ایک بڑی آزمائش بن گئی۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا خاص فضل وکرم ہے کہ اس منصب سے جو مالی فوائد متعلق تھے، ان کی وجہ سے تو کوئی خاص کشش پیدا نہیں ہوئی، البتہ کئی وجہ سے میرے لئے کشش کے اسباب موجود تھے۔ سب سے پہلی کشش تو حرمین شریفین کے قرب کی تھی، اور اس منصب کے ساتھ وہاں کی حاضری میں جو سہولیات مل سکتی تھیں، وہ بڑی دلفریب معلوم ہوتی تھیں، دوسرے مجمع کا کام میرے ذوق کا بھی تھا، اور اس سے میں اپنی دلی وابستگی کا پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں، تیسرے مجھے یہ خیال تھا کہ مجمع کا انتظامی کام تو زیادہ تر ان دنوں میں ہوتا ہے جب مجمع کا اجلاس منعقد ہو، دوسرے اوقات میں مجھے اپنی تصنیف وتالیف کے لئے بڑا وسیع وقت بھی مل سکے گا، اور جدہ میں رہتے ہوئے اس کے لئے کتابوں کے حصول اور ان کی مراجعت کی سہولیات بھی یہاں سے کہیں زیادہ ہوں گی۔ چوتھے ایک خیال یہ بھی تھا کہ بین الاقوامی سطح کے اس ادارے میں پاکستان کے ایک طالب علم کی ذمہ دارانہ شمولیت کے نتیجے میں برصغیر کے علماء کا عالم اسلام سے ایک ربط قائم ہوگا، اور اپنے بزرگوں کی خدمات کو عالم اسلام میں متعارف کرانے کے مواقع بھی حاصل ہوںگے۔
یہ ساری باتیں پُرکشش تھیں، لیکن دوسری طرف کئی رکاوٹیں بھی تھیں۔ سب سے بڑی رکاوٹ تو اپنی افتاد طبع کی تھی، شروع سے مزاج اپنے دارالعلوم میں کام کرنے کی ایسی حلاوت کا عادی ہوچکا ہے کہ اُسے چھوڑکر کہیں جانا طبیعت پر بہت بوجھ معلوم ہوتا ہے، اور اسی لئے اس سے پہلے کئی مواقع پر معذرت کرچکا ہوں۔ دوسرے شروع سے طبیعت اپنے تمام بچوں کے ساتھ رہنے کی عادی ہے، اور جدہ منتقل ہونے کی صورت میں میرے لئے اپنی ساری اولاد کو وہاں لے جانا کم ازکم فوری طور سے ممکن نہیں تھا۔ تیسرے مجھے ایک اندیشہ یہ بھی تھا کہ مجمع کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد میں کسی دباؤ کا شکار نہ ہوجاؤں۔ الحمد للہ میں مجمع کے رکن یا نائب صدر کی حیثیت سے نہ کسی کا ماتحت تھا، نہ کسی خاص پالیسی کا پابند، چنانچہ جس کام کو فیما بینی وبین اللہ بہتر سمجھا، پوری آزادی کے ساتھ کرتا رہا ہوں، لیکن مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اس منصب کو قبول کرنے کے بعد مجھے کس قسم کی پابندیوں سے واسطہ پیش آسکتا ہے، اور اگر میں اپنا موجودہ نظام زندگی تبدیل کرکے جدہ منتقل ہوجاؤں، پھر کسی موقع پر میرا ضمیر مطمئن نہ ہو، تو اتنی اکھاڑ پچھاڑ کے بعد میرے لئے کیا مسائل پیدا ہوںگے۔
غرض ان تمام باتوں کی وجہ سے میرے دل میں ایک عجیب قسم کی گھبراہٹ پیدا ہوگئی۔میں اس وقت ایک طویل بیماری سے گذر رہا تھا، اور اس کی نقاہت کی وجہ سے بھی کوئی نئی ذمہ داری قبول کرنا بھاری معلوم ہوتاتھا۔دارالعلوم کے ماحول میں مشورے کئے، تو سب کی رائے یہ تھی کہ اس منصب کو ضرور قبول کرلینا چاہئے، یہاں تک کہ میرے بڑے بھائی حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب مد ظلہم نے بھی یہ فرما دیا کہ اگرچہ تمہارے جانے سے دارالعلوم کے لئے بڑے مسائل پیدا ہوںگے، اور خود ان کے لئے بھی ذاتی طورپر یہ بات بہت شاق ہے، لیکن مجموعی مصالح کے اعتبار سے قبول کرنا ہی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ادھر پاکستان کی وزارت خارجہ کی طرف سے بھی مجھ سے باربار رابطہ کیا گیا کہ آپ کا تقرر پاکستان کے لئے ایک اعزاز ہے، اور آپ اس سے انکار نہ کریں۔ علماء عرب میں جن حضرات سے میری دوستی ہے، ان کی طرف سے بھی مجھے بار بار یہی پیغام ملتا رہا، یہاں تک کہ ریاض کے بڑے سینئر عالم شیخ عبدالرحمن الاطرم نے (جو اس وقت مجلس شوریٰ کے رکن تھے) مجھے کئی بار فون کیا کہ اگر آپ نے یہ پیشکش قبول نہ کی، تو ہمیں متعدد اندیشے ہیں، اور میں شیخ عبداللہ بن صالح بن حمیدسے اس بارے میں کئی ملاقاتیں کرچکا ہوں، اور ہماری متفقہ رائے یہ ہے کہ آپ کو یہ منصب قبول کرلینا چاہئے۔
میں نے اس امکان کا بھی جائزہ لیا کہ میں جدہ منتقل ہوئے بغیر یہیں سے مجمع کی خدمت انجام دوں، اور وقتاً فوقتاً جدہ آنا جانا رکھوں، لیکن یہ صورت انتظامی طورپر ممکن نہیں تھی۔ آخر کار میں نے یہ طے کیا کہ میں عمرے کی غرض سے پہلے ہی جانا چاہتا تھا، اب یہ سفر کرکے مجمع کے دفتری حالات کا خود جائزہ لوں، اور متعلقہ حضرات سے ملاقات کے بعد کوئی فیصلہ کروں۔ چنانچہ میں نے اپنی اہلیہ اور بڑے بیٹے عزیزم مولوی عمران اشرف سلمہ کے ساتھ عمرے کا سفر کیا، اور جدہ میں دوروزہ قیام کے دوران او آئی سی کے سیکریٹری جنرل مصطفی ٰاوگلو سے ملاقات کی، نیز مجمع کے سیکریٹرییٹ جاکر وہاں کے حالات کا جائزہ لیا۔ اوگلو صاحب سے ملاقات کے دوران جب میں نے ان سے اپنے اعذار کا ذکر کیا، تو انہوں نے ایک طرف تو یہ کہا کہ ہم پوری کوشش کریں گے کہ آپ کے ساتھ آپ کے ایک شادی شدہ صاحب زادے اور ان کی اہلیہ کو بھی اقامہ دلوادیں، دوسرے انہوں نے کہا کہ میرا مجمع کے صدرحضرت شیخ عبداللہ بن صالح بن حمید سے مشورہ ہوا ہے، اور ہم نے یہ طے کیا ہے کہ آپ فی الحال چھہ مہینے کے ارادے سے آجائیں، اس کے بعد آپ کو اختیار ہوگا کہ اگر چاہیں، تو کام جاری رکھیں، اور اگر آپ کا دل نہ لگے تو واپس چلے جائیں۔ پھر شیخ عبداللہ بن صالح مدظلہم نے، جو اُس وقت ریاض میں تھے، مجھ سے فون پر بھی یہی بات کہی۔
اس فراخ دلانہ پیشکش کو رد کرنا بہت مشکل تھا، اتفاق سے اُس وقت میرے بڑے بھائی حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب مد ظلہم بھی عمرے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ان سے ذکر آیا تو انہوں نے فرمایا کہ اب اس فرمائش کو ردنہیں کرنا چاہئے۔ان کے فرمانے پر مجھے بڑی تقویت محسوس ہوئی،لیکن میں اس دوران مسلسل استخارہ کرتا رہا تھا، اور حرم مکہ مکرمہ میں بھی استخارہ جاری رکھا، اور جوں جوں استخارہ کرتا، طبیعت کا رجحان کم ہوتا چلا جاتا۔ اتفاق سے میری بیماری بھی طول پکڑ گئی جس کی بنا پر میرا وزن ایک دم تقریباً دس کیلو گرام کم ہوگیا۔ ادھر شیخ صالح بن حمید کی طرف سے باربار فون آرہے تھے۔ چنانچہ معاملے کو زیادہ ٹالنا مجھے اچھا نہیں لگا، استخارے کا نتیجہ بھی یہی رہا کہ میں یہ ذمہ داری نہ لوں، اور دوسری طرف بیماری بھی ایک مناسب عذر بن گئی۔آخر کار میں نے اُن سے اپنی بیماری، کمزوری اور گھر کے حالات کا عذر پیش کرکے معذرت کرلی۔ شیخ نے اس پر افسوس کا بھی اظہار فرمایا، لیکن ساتھ ہی فراخ دلی کے ساتھ میری معذرت قبول فرمالی، اگرچہ بعد کی ایک ملاقات میں انہوں نے ازراہ بے تکلفی مجھ سے فرمایا کہ میں آپ سے مصافحہ نہیں کروں گا، جس پر میں نے کہا کہ آپ کو ایسا کرنے کا پورا حق ہے، لیکن مجھے معلوم ہے کہ آپ میرا بڑھا ہوا ہاتھ واپس نہیں لوٹا سکتے، اس پر انہوں نے مسکراکر مجھے تقریباً لپٹا لیا۔
بہر حال! اس طرح میں مجمع الفقہ الاسلامی کی نظامت علیا سے تو سبکدوش ہوگیا، لیکن الحمد للہ، اُس کے کاموں سے میرا تعلق اب تک برقرار ہے، اور شیخ صالح بن حمید کے ساتھ بفضلہ تعالیٰ اچھی ہم آہنگی کے ساتھ مجمع کا کام جاری ہے۔لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات مجھ پر بالکل واضح فرمادی کہ بفضلہ تعالیٰ میں نے جو یہ عہدہ قبول کرنے سے عذر کیا، وہی درست تھا۔جیسا کہ میں پہلے ذکر کرچکا ہوں، شیخ بکر ابو زید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دین کے معاملے میں بہت متصلب تھے، اور کوئی ایسا کام نہیں ہونے دیتے تھے جس سے مجمع کے علمی وقار پر کوئی حرف آئے، یا مغرب زدگی کا کوئی شائبہ پیدا ہو۔دوسری طرف سعودی حکومت مجمع کے ساتھ بہت تعاون کرتی تھی۔ اس طرح مجمع کی قراردادوں اور اس کے انتظامی فیصلوں پر کسی طرح کا دباؤ نہیں تھا۔شیخ بکر ابوزید اور شیخ حبیب بلخوجہ رحمہما اللہ کے بعد جو انتظامیہ آئی، اس میں وہ بات نہیں تھی جو ان حضرات میں تھی۔اس کے علاوہ مجمع کے ارکان میں سے وہ لوگ جن کا میں نے پیچھے خاص طور پر ذکر کیا ہے، ایک ایک کرکے وفات پاگئے، یا معذور ہوگئے۔اور مجمع شیخ صدیق الضریر، شیخ وہبہ زحیلی، شیخ عبدالرحمن البسام، شیخ علی السالوس وغیرہ جیسے متصلب اہل علم سے محروم ہوتا گیا، اور نت نئے نوجوان چہرے سامنے آتے گئے، یہاں تک کہ مجمع کا جو آخری اجلاس مدینہ منورہ میں ہوا (جس کے بعد کورونا کی وجہ سے ابتک کوئی اجلاس نہیں ہوسکا) اس میں حاضری ہوئی تو یہ شعر مجھے تھوڑے سے تصرف کے ساتھ باربار یاد آرہا تھا کہ:
أماالخیام، فإنّہا کخیامہم
وأری رجال الحیّ غیر رجالہا
دوسری طرف بعض حالات ایسے بھی پیش آئے جن میں مجمع کے موضوع سے باہر کی باتوں کو مجمع کا نام استعمال کرکے نشر کیا گیا، اور ان پر میں نے احتجاج کیا، تو اس کا برا منایا گیا، بلکہ بعض ارکان نے مجھے اس قسم کی باتیں سرِعام کرنے سے روکا۔اندازہ یہ ہوا کہ مجمع کے سیکریٹری جنرل اور صدر پر حکومت کی طرف سے کوئی دباؤ تھا جس کی بناپر انہوں نے یہ اعلان کیا۔اگرچہ کہا یہ گیا کہ یہ اعلان صدر اور سیکریٹری جنرل کی طرف سے ہے، لیکن اس میں مجمع کا لیٹر پیڈ اور اس کا امتیازی نشان استعمال کیا گیا، اور الفاظ میں اس بات کی کوئی صراحت نہیں تھی کہ یہ بیان مجمع کی طرف سے نہیں، بلکہ اس کے صدر اورسیکریٹری جنرل کی طرف سے ہے۔
اس کے علاوہ بھی بعض ایسے امور صادر ہوئے جو کم ازکم شیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ تعالیٰ کی موجودگی میں ممکن نہیں تھے۔
اس وقت میں نے اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ میں نے اُس وقت مجمع کے سیکریٹری جنرل کا منصب قبول نہیں کیا، اس لئے کہ میرے لئے اس قسم کی باتیں نا قابلِ برداشت ہوتیں، اور میرے لئے عملی طورپر بڑی آزمائش بن جاتیں۔
یہ تمام باتیں زیادہ تر انتظامی نوعیت کی تھیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ابتک مجمع سے کوئی ایسا فقہی فیصلہ نہیں آیا جس پر شرمندگی محسوس ہو۔اللہ تعالیٰ اس ادارے کو جو عالم اسلام میں ایک بڑا مقام حاصل کرچکا ہے، ہر طرح کے فتنوں سے محفوظ رکھے، اور وہ جادۂ مستقیم سے ہٹنے نہ پائے۔آمین
جاری ہے ….
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
(ماہنامہ البلاغ :رمضان المبارک ۱۴۴۳ھ)