حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی
یادیں
(بیالیسویں قسط)
اُس وقت اسلامی نظریاتی کونسل کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ صدر ضیاء الحق صاحب مرحوم کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے کونسل کی سفارشات فوراً کابینہ میں اور کابینہ کی منظوری کے بعدتنفیذ کے لئے متعلقہ وزارتوں میں پہنچ جاتی تھیں ۔ چنانچہ جب کونسل کی طرف سے مسودات اردو میں تیار ہوگئے ، تو کابینہ نے ان کی اصولی منظوری دینے کے بعد انہیں وزارت قانون کو بھیج دیا ، تاکہ وہ قانونی نقطۂ نظر سے ان کا جائزہ لیکر اُنہیں انگریزی میں منتقل کرے۔ ہماری رائے تو یہ تھی کہ ہمارے قانون کی زبان اُردو ہونی چاہئے ، اور قانون کا ایسی زبان میں ہونا جو ملکی آبادی میں ایک فی ہزار افراد بھی نہ سمجھتے ہوں ، سوائے ذہنی غلامی کے اور کچھ نہیں ۔لیکن مشکل یہ ظاہر کی گئی کہ ابتک چونکہ قانون کی زبان انگریزی رہی ہے ، اس لئے قانون کی تشریحات میں عدالتوں کے فیصلوں کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے ، اور ہماری عدالتیں ان تشریحات کی عادی ہیں ۔فوری طور پر زبان کی تبدیلی سے عدالتیں مشکل میں پڑجائیں گی ۔ اگرچہ یہ دلیل اتنی وزنی نہیں تھی ، اور اس مشکل کا حل نکالا جا سکتا تھا ، لیکن اس وقت اصل مسئلہ یہ تھا کہ قانون کو کسی طرح بدل کر شریعت کے مطابق بنایا جائے ، اور اُ س وقت زبان کے مسئلے پر اصرار کرنے سے اس مقصد ہی کے فوت ہونے کا اندیشہ تھا ، اس لئے ہم نے با دل نا خواستہ ان قوانین کو انگریزی میں ڈھالنے پر آمادگی ظاہر کردی۔البتہ یہ اندیشہ سب کو تھا کہ جب وزارت قانون ان کو انگریزی میں منتقل کرے گی ، تو کہیں ان میں کوئی جوہری تبدیلی واقع نہ ہوجائے ۔ وزارت قانون کے حضرات چونکہ شرعی اصطلا حات اوراحکام سے نا مانوس ہیں ، اس لئے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی غلطی کرسکتے ہیں ۔یہ مسئلہ کونسل میں زیر بحث آیا ، تو یہ طے ہوا کہ ان قوانین کی ڈرافٹنگ ( تسوید)میں وزارت قانون کونسل کو شریک رکھے ، اور اس غرض کے لئے وزارت قانون کے ذمہ داروں اور کونسل کے بعض ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے جو باہمی مشورے سے ڈرافٹنگ کا کام انجام دے ۔چونکہ قوانین کا ابتدائی اُردو مسودہ میں نے تیار کیا تھا ، اور اس کمیٹی میں ایسے شخص کی ضرورت تھی جو اسلامی فقہ کے ساتھ انگریزی اور اس کی قانونی زبان سے بھی واقف ہو، اس لئے تمام ارکان نے باتفاق مجھے یہ کام سونپا کہ میں وزارت قانون کے حضرات سے مل کر یہ فریضہ انجام دوں ۔یہ بات طے کرکے کونسل کا اجلاس تو برخاست ہوگیا، لیکن چونکہ مجھے یہ فریضہ سونپا گیا تھا ، اس لئے مجھے اسلام آباد میں غیر معین مدت تک کے لئے رُکنا پڑا ۔
وزارت قانون کے ایڈیشنل سیکریٹری جناب میرمحمد علی صاحب اس وقت چیف ڈرافٹس مین تھے ، جو اپنے کسی معاون کے ساتھ روزانہ میرے ساتھ تسوید کا کام کرنے کے لئے آجاتے تھے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا دفتراُس وقت مارگلہ روڈ پر ایک مختصر سے بنگلے میں واقع تھا ۔اُس وقت کونسل کے سیکریٹری جناب مظفر اشرف صاحب تھے ۔وہ بھی ہماری میٹنگ میں شریک رہتے ، اور کبھی کبھی کونسل کے چیر مین جناب جسٹس محمد افضل چیمہ صاحب بھی ہمارے ساتھ شامل ہوجاتے تھے۔محمد علی صاحب حیدرآباد دکن کے ایک خوش مزاج اور تجربہ کار افسر تھے ، اور ان کے ساتھ بڑی اچھی ہم آہنگی ہوگئی تھی۔
جناب محمد علی صاحب کا طریقہ یہ تھا کہ کونسل کا منظور کردہ مسودہ (جو بنیادی طورپر میرا تیار کردہ تھا ) اپنے سامنے رکھ کر اس کی ایک ایک دفعہ کوانگریزی کی قانونی زبان میں منتقل کرتے ، اور مجھے سناتے ۔ میں اُس پر فقہی نقطۂ نظر سے غور کرتا، اور جہاں الفاظ اور تعبیر میں مجھے کوئی اشکال ہوتا ، وہ انہیں بتاتا ، اور متبادل تعبیر بھی پیش کرتا تھا ۔ بعض اوقات تعبیرات کے انتخاب میں ہمارے درمیان خوشگوار بحث بھی ہوجاتی تھی، لیکن اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائیں ، شرعی قانون کی تشریح یا اُس کے لئے مناسب تعبیر اختیار کرنے میں وہ ہمیشہ میری بات کو نہ صرف وزن دیتے ، بلکہ آخرکار اُس کو سراہتے بھی تھے ، اور جس تعبیر پر میں اصرار کرتا ، اُس سے تجاوز نہیں کرتے تھے ، اور فقہاء کرام کی دقت نظر کا جگہ جگہ اعتراف کرتے جاتے تھے ۔البتہ قانون اور اُس کی تعبیرات کے بارے میں مجھے اُن سے بہت کچھ سیکھنے کا بھی موقع ملا ، اوران کے ساتھ کام کرنے کے دوران میری معلومات میں بھی بڑا اضافہ ہوا ۔
اُن میں اور مجھ میں ایک قدر مشترک یہ تھی کہ وہ بھی میری طرح پان کے شوقین تھے ، اورانہوں نے ایک دن میرے ساتھ اس "ہم آہنگی ” کی سزا بھی خوب اٹھائی ۔میں اپنے ساتھ ایک ڈبیہ میں پان لگاکر لے جایا کرتا تھا ، اوراس بات کا خیال رکھتا تھا کہ وقتاً فوقتاً ان کی خاطر بھی کرسکوں، چنانچہ جب بحث کرتے کرتے دیر گذر جاتی ، تو میں پا ن کی ایک گلوری ان کی خدمت میں پیش کردیتا ، جسے وہ خوشی خوشی قبول فرمالیتے تھے، اورچونکہ جانتے تھے کہ مجھے اس ہم ذوقی سے خوشی ہوتی ہے ، اور میرے پان کے ذخیرے میں پہلے سے اُن کا طے شدہ حصہ موجود ہوتاہے ، اس لئے بعض مرتبہ چائے پینے کے بعدوہ بڑی محبت سے میری پان کی ڈبیہ خود ہی اٹھا لیا کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ میں کسی وجہ سے اٹھ کر چند منٹ کے لئے کہیں چلا گیا ، اور جب واپس آیا تو جناب محمد علی صاحب نے ہنستے ہوئے مجھ سے کہا کہ مولانا ! آج تو مجھے آپ کے پان کی چوری کی پوری پوری سزا مل گئی، اور اس نے میرے منہ کے پرخچے اُڑا دئیے۔ مجھے اچانک خیال آیا کہ میری ڈبیہ میں ایک لپٹا ہوا چاندی کا ورق صرف چونے کا رکھا ہوا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ اگر کسی وقت پان میں کڑواہٹ محسوس ہو ، تو اُس میں سے تھوڑا سا چونا لیکر اُس کی تلافی کرلی جائے۔معلوم ہوا کہ جناب محمد علی صاحب نے اُسے باقاعدہ گلوری سمجھ کرمنہ میں رکھ لیا ، اور اپنے کام میں محو ہوگئے ، اور غلطی کا اندازہ انہیں اُ س وقت ہوا جب چونا اپنا کام کرچکا تھا ۔نتیجہ یہ کہ شاید کئی دن تک ان کے منہ کا اندرونی حصہ زخمی جیسا رہا ۔ اس واقعے کو وہ بعد میں مزے لے لیکر بیان فرمایا کرتے تھے۔
بہر حال! یہ مجلسیں ہفتوں اس طرح جاری رہیں کہ ہم صبح نو بجے کونسل کے دفتر آتے ، اور ظہر تک مسلسل کام کرتے ۔ پھر دوپہر کا کچھ وقفہ کرکے شام عصر سے لیکر عشاء تک ، بلکہ بعض دنوں میں اس کے بعد بھی رات گئے تک کام کرتے رہتے تھے ۔
کونسل کے دوسرے ارکان تو چند روز کے اجتماع کے بعد اپنے اپنے گھر چلے جاتے تھے ، لیکن اس کام کی وجہ سے مجھے کئی کئی ہفتے اسلام آباد میں رہنا پڑتا تھا ۔ جب کسی مشورے کی ضرورت پیش آتی ، تو میں مختلف علماء سے مشورے کیا کرتا تھا ۔ خاص طورپر اُس زمانے میں حضرت مولانا مفتی محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ بکثرت ہمارے محترم دوست مولانا قاری سعید الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مدرسے جامعہ اسلامیہ کشمیر روڈ راولپنڈی میں آکر مقیم رہا کرتے تھے ۔جب موقع ملتا، میں ان کے پاس چلا جاتا ، اور مختلف فقہی مسائل میں اُن سے رہنمائی لیتا تھا ۔
مجھے کراچی سے باہر تنہا رہنے کی عادت نہیں تھی ، اس لئے اسلام آباد کا یہ طویل قیام مجھے بہت بھاری لگتا تھا ۔دارالعلوم میں میرے ذمّے تدریس اور فتویٰ کے جو فرائض تھے ، وہ بھی اسلام آباد کے قیام کی وجہ سے بُری طرح متأثر ہوتے تھے ، اور مجھے ایک گوشے میں بیٹھ کر تصنیف وتالیف کے کام میں جو ذہنی اور روحانی سکون ملا کرتا تھا ، میں یہاں اُس سے بھی محروم ہو جاتا تھا ۔
شروع میں کونسل کے ارکان کے قیام کا انتظام گورنمنٹ ہاسٹل میں تھا، جو ارکان اسمبلی کے لئے بنائی گئی تھی ۔اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان کا سرکاری رتبہ چونکہ ایک رکن اسمبلی کے برابر تھا ، اس لئے اُنہیں بھی وہاں کرائے پر ٹھہرنے ،اور اُس کے ریسٹورنٹ سے قیمۃً ً کھانالینے کا استحقا ق تھا۔ ایک تجارتی ریسٹ ہاؤس چودھری افضل صاحب مرحوم نے ایف 3-6 کے ایک بنگلے میں قائم کررکھا تھا، جس کے کمرے کرائے پر مل جاتے تھے۔کونسل کی انتظامیہ نے بعد میں ہمارے قیام کاانتظام اُس ریسٹ ہاؤس میں کردیا تھا جسے چودھری افضل صاحب اکموڈیٹر کہتے تھے۔ اس میں قیام کا فائدہ یہ تھا کہ اس میں گھر کا سا ماحول مل جاتا تھا ، چودھری صاحب بذات خود دوست نواز آدمی تھے ، اور ان سے گھریلو انداز کے تعلقات ہوگئے تھے۔ریسٹ ہاؤس میں ایک باورچی بھی تھاجس سے اپنی مرضی کا کھانا پکوایا جاسکتا تھا ، اور وہ سستا بھی پڑتا تھا۔ہمیں کراچی اسلام آباد کے درمیان پی آئی اے کے اکانومی کلاس کا ایک فرد کا کرایہ سرکار کی طرف سے ملتا تھا ، اور روزانہ کی رہائش اور کھانے کے اخراجات کے لئے اتنی رقم ملتی تھی جو ان دونوں کاموں کے لئے کافی ہوجاتی تھی۔اس کے علاوہ ایک اجلاس پر(جواُس وقت عام طورپر ایک ہفتے کے لئے ہوتا تھا)ایک ہزار روپیہ اعزازیہ ملا کرتا تھا ۔اور اجلاس کے بعد مزید رہنا ہو ، جیسے مجھے وزارت قانون کے ساتھ کام کے لئے مدتوں وہاں رکنا پڑتا تھا ، تو اس دورانیہ میں کوئی اعزازیہ نہ میں نے کبھی طلب کیا ، اور نہ حکومت نے خود سے دیا۔ البتہ روزانہ کی رہائش اور کھانے کے جو اخراجات مجھے ادا کرنے پڑتے تھے، وہ یومیہ الاؤنس کے طورپر مل جاتے تھے ۔ملتے کیا تھے ؟ اس کاایک طویل طریق کار تھا جس کے نتیجے میں اُسے ہم تک پہنچتے پہنچتے مہینے لگ جاتے تھے ۔چنانچہ شروع میں یہ سارے اخراجات ہمیں خود اپنی جیب سے کرنے ہوتے تھے ، اور کئی کئی مہینے کے ٹکٹ خود خریدنے اوررہائش اور کھانے کے بل اپنی جیب سے ادا کرنے کے بعد پچھلے مہینوں کے واجبات ادا ہوتے تھے۔اور جب یہ رقم سرخ فیتے کے چکر کاٹ کر ہم تک پہنچتی تھی ، تو اُس وقت تک آگے کے کئی مہینوں کے اخراجات ہم کرچکے ہوتے تھے، اور اس طرح کونسل ہر وقت ہماری مقروض رہتی تھی۔کبھی ایسا نہیں ہوا کہ یہ اخراجات ہمیں سفر سے پہلے یا اُس کے فوراً بعد مل گئے ہوں ۔البتہ چونکہ اس میں ایک ہزار روپیہ ماہانہ کا اعزازیہ بھی شامل ہوجاتا تھا ، اس لئے مآل کار کچھ بچت ہو جاتی تھی۔ اس بچت کے لئے میں نے اسلام آباد ہی کے ایک بینک میں اکاؤنٹ کھلوالیا تھا ۔ اس کی اصل وجہ رقم جمع کرانے اور نکالنے کی سہولت کے علاوہ یہ تھی کہ میں کونسل سے حاصل ہونے والی آمدنی کو اپنے عام نظام زندگی میں شامل کرنا نہیں چاہتا تھا ، کیونکہ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا یہ عمل مجھے یاد تھا کہ کسی سرکاری محکمے میں اگر جانا ہوتا، تو خالص دینی ضرورت سے جاتے، اورجب کبھی اپنے مقصد سے انحراف نظر آنے لگتا، تو اُس سے بلا تاخیر استعفا دینے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔اس لئے اپنے روز مرہ کے اخراجات کو اُسی معیار پر رکھتے تھے جو سرکاری آمدنی سے پہلے تھا ۔چنانچہ میں نے کونسل کی آمدنی کو جو اُس وقت کے لحاظ سے بھی کچھ زیادہ نہیں تھی ، اپنے نظام زندگی میں شامل نہیں کیا ، بلکہ اس کو اپنے اسلام آباد کے اخراجات کی حد تک ہی محدود رکھا ، کیونکہ اپنی رہائش اور کھانے کے علاوہ کبھی کوئی مہمان بھی میرے ساتھ آکر مقیم ہوجاتا تھا، اور کبھی جمعرات جمعہ کی چھٹی ہوتی، تو میں دو دن کے لئے کبھی اکوڑہ خٹک اپنے دوست حضرت مولانا سمیع الحق صاحب کے پاس چلا جاتا ، اور خشک مسائل سے تھکے ہوئے ذہن کو ان کی باغ وبہار شخصیت کی صحبت سے نئی تازگی میسر آجاتی، اور کبھی لاہور جاکر اپنی چھوٹی آپا کی شفقتوں کے سائے میں پہنچ جاتا ، جن کا ذکر میں باربار کرچکا ہوں ۔وہ میری پسند کے کھانے کھلاتیں،مجھے اشعار سناتیں،میں اپنے کوئی نئے شعر سناتا، تو میری ہمت افزائی فرماتیں ،میں انہیں بچپن کی یادیں دلاتا ، اور دودن ان کی صحبت کے ٹھنڈے سائے میں گذارنے کے بعد تازہ دم واپس اسلام آبادآجاتا تھا ۔جب ان سے ملے ہوئے بہت دن ہوجاتے ، تو میں ٹیلی فون کرکے انہیں بلالینے کے لئے اپنی قیام گاہ کے ساتھ ایک کمرہ ان کے لئے بک کرالیتا تھا۔ وہ کبھی ہمارے بہنوئی مر حوم کے ساتھ اور کبھی اپنے کسی بیٹے کے ساتھ میرے پاس آجاتیں ۔انہیں معلوم تھا کہ میں سرکاری قیام گاہوں کے کھانے مجبوری ہی میں کھاتا ہوں ، وہاں عموماً مرغوں کی ریل پیل رہتی تھی ، جو میرے نزدیک ذبح کرکے کھانے سے زیادہ اذان دینے اور انڈے فراہم کرنے کے لئے موزوں تھے ۔اور بکرے کا گوشت بنانے کے لئے جو سلیقہ درکار ہوتا ہے ، وہ کسی محبت سے پکانے والی ہمدرد ہی کوحاصل ہوتا ہے ، پیشے کے لئے پکانے والے ہاتھ میں بسا اوقات وہ لذت نہیں ہوتی ۔یہ اُس زمانے کی بات ہے جب خواتین کااصل ہنر خانہ داری تھا، اور ان کی منصبی دلچسپیاں اسی حد تک محدود تھیں ۔اب جبکہ خاتون گھر سے نکل رہی ہے ، تو لوگوں میں باہر کے کھانوں کا رجحان بڑھ گیا ہے ۔
بہرحال! چھوٹی آپا کو معلوم تھا کہ میں اسلام آباد میں کھانا واجبی ہی سا کھاتاہوں ، اور مجھے ان کے ہاتھ کے بنے ہوئے کھانے اور خاص طورپر قیمے اور مونگرے کی ڈش اور ہری مرچوں کا اچار اور مسالے والے چاول بہت پسند ہیں ، چنانچہ وہ یہ ڈشیں میرے لئے بناکر لاتیں ، اور کبھی خود نہ آسکتیں تو کسی آنے جانے والے کے ہاتھ بھیج دیا کرتی تھیں۔
بعد میں صوبۂ سندھ سے تعلق رکھنے والے افسران کے لئے سندھ ہاؤس قائم ہوگیا جو اُس وقت کے لحاظ سے اسلام آباد کی سب سے خوبصورت ، آرام دہ اور خوش منظر رہائش گاہ تھی ، اور اُس کے چمن سے اسلام آباد کا نظارہ بڑا حسین تھا ، لیکن کام سے فارغ ہونے کے بعد مجھے وہاں رہنا قید تنہائی معلوم ہوتا تھا ، اور جب میرے کراچی واپس جانے کا وقت آتا ، تو میری حالت کچھ ایسی ہوتی تھی جیسے کسی قیدی کو رہائی مل گئی ہو۔
حدود کے قوانین کے علاوہ کونسل نے ماہرین معاشیات کا ایک پینل بنایا تھا جس کے سپرد نظام زکوۃ اور معیشت کو سود سے نجات دلا نے کے لئے تجاویز مرتب کرنا تھا ، اس پینل کی سربراہی کونسل کے رکن جناب ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب مرحوم کررہے تھے ، جو اُس وقت اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ڈپٹی گورنر بھی تھے ، وہ بڑے دینی ذہن کے آدمی تھے ، اور ان کے ساتھ بہت اچھی ہم آہنگی قائم ہو گئی تھی ۔ انہوں نے اس پینل میں ممتاز ماہرین معاشیات کو شامل کیا ہوا تھا ، اور اُس نے سب سے پہلی رپورٹ زکوۃ کے سلسلے میں کونسل کے سامنے پیش کی ۔
ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب مرحوم کے دل میں یہ جذبہ تھا کہ ملک میں زکوۃ کا نظام اس طرح قائم ہو کہ وہ فقرو افلاس کا خاتمہ کرسکے ۔جذبہ بڑا قابل قدر تھا ، لیکن ملک میں بدانتظامی اور مالی بد عنوانیوں کا جو حال ہم سالوں سے دیکھتے آرہے تھے ، اُس کی وجہ سے ہمیں خطرہ یہ تھا کہ اگرحکومت کی طرف سے زکوۃ وصول کرنے اور خرچ کرنے کا انتظام کیا جائے گا ، تو ملک میں پھیلی ہوئی بد عنوانیوں کے پیش نظر اس کے ناکام ہونے اور لوگوں کی زکوۃ ضائع ہونے کا امکان زیادہ ہے ۔ دولت کی یہ جھیل سرکاری افسران کے ہاتھ میں آئے گی تو وہ نہ جانے اس کا کیا حشر بنائیں گے ؟ میں نے کونسل میں ان خدشات کا اظہار کرکے یہ رائے ظاہر کی کہ زکوۃ کا نظام سرکاری سطح پر قائم کرنے میں جلدی نہ کی جائے ، بلکہ پہلے سرکاری انتظامیہ کو بد عنوانیوں سے پاک کرنے کی طرف توجہ دی جائے ۔ جب اس بات کا اطمینان ہوجائے کہ زکوۃ جیسے اسلامی رکن کو صاف ستھرے انداز میں برسر کار لایا جاسکے گا ، تو اُس وقت یقیناً زکوۃ کا نظام اپنے صحیح نتائج ظاہر کرسکے گا ۔ جب تک یہ اطمینان نہ ہو، لوگ اپنے طورپر مستحقین تلاش کرکے جو زکوۃ ادا کررہے ہیں، اُسی میں عافیت ہے ۔
میں نے یہ بات بار بار مختلف اسالیب میں کہی ، اور کونسل کے علماء ارکان نے بھی اس کی تائید فرمائی، لیکن ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب اور جسٹس افضل چیمہ صاحب کو اصرار تھاکہ اسلام کی معاشی تعلیمات کا یہ اہم رکن سرکاری سطح پر جلد از جلدبروئے کار لانا چاہئے ۔ ہمارے دلائل کے بارے میں انہیں یہ غلط فہمی ہوئی کہ ہماراتعلق چونکہ ایک دینی مدرسے سے ہے، اس لئے شاید ہمیں یہ اندیشہ ہے کہ اس وقت لوگ زکوۃ کا بڑا حصہ جو دینی مدارس کو دے رہے ہیں ، سرکاری انتظام کی وجہ سے مدارس کو زکوۃ نہیں مل سکے گی۔ اس لئے ایک موقع پر جناب جسٹس افضل چیمہ صاحب مرحوم نے فرمایا کہ : مولانا! ہم زکوۃ کی جو اسکیم شروع کرنے جارہے ہیں، اطمینان رکھئے کہ اُس میں دینی مدارس کے لئے بھی ایک وافر حصہ رکھا جائے گا۔
اس پر میں نے عرض کیا کہ ہمارے اعتراض کی وجہ یہ ہر گز نہیں ہے کہ ہمیں دینی مدارس کو زکوۃ نہ ملنے کا اندیشہ ہے ۔ الحمد للہ ، یہ دینی مدارس کسی سرکاری سرپرستی سے آزاد ہوکر اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر چل رہے ہیں ، اور اگربالفرض حکومت نے زکوۃ وصول اور خرچ کرنے کا انتظام اپنے ذمے لیا تو ہم حکومت سے زکوۃ بھی نہیں لیں گے ، اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ اُس نے جس طرح ابتک کسی مستقل ذریعۂ آمدنی کے بغیر ان کی کفالت فرمائی ہے ، وہ ان شاء اللہ آئندہ بھی کرے گا ، نیز ہم اس بات کو بھی کسی طرح درست نہیں سمجھتے کہ دینی مدارس ملکی سطح پر زکوۃ کا نظام قائم کرنے میں رکاوٹ بنیں ، بشرطیکہ ہمیں اس بات کا اطمینان ہو کہ زکوۃ صحیح طریقے پر وصول کرکے صحیح طریقے پر خرچ کی جائے گی۔ لیکن ہمیں سب سے بڑا اشکال یہی ہے کہ موجودہ حالات میں ایسا ہونا مشکل نظر آرہا ہے ۔
لیکن کونسل کے اکثر ارکان اس کا جواب یہ دیتے تھے کہ ہم اسکیم کو اس طرح بنائیں گے کہ اس میں سرکاری افسران کا واسطہ کم سے کم آئے ۔ چنانچہ زکوۃ کے لئے وفاقی اور صوبائی سطحوں پر ناظم اعلیٰ ایسے لوگوں کو بنانا تجویز کیا گیا جواچھی شہرت کے حامل ہوں ، نیز ضلعی سطح پر زکوۃ کمیٹیوں کی تشکیل مسجدوں میں انتخاب کے ذریعے تجویز کی گئی ۔ زکوۃ کی رقوم کو عام سرکاری خزانے سے الگ رکھنے کی تجویز ہوئی ، اور ان کی تقسیم عام مسلمانوں پر مشتمل زکوۃ کمیٹیوں کے سپرد کرنا تجویز کیا گیا۔
جب ایک مرتبہ یہ تجویز کرلیا گیا ، تو زکوۃ وصول کرنے اور خرچ کرنے کے مسائل زیر بحث آئے ۔ ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب کے پینل نے یہ تجویز دی تھی کہ بینک اکاؤنٹس سے زکوۃ وصول کی جائے ،اورچونکہ یہ اندیشہ ہے کہ جس تاریخ میں اکاؤنٹس سے زکوۃ کاٹی جائے گی ،لوگ زکوۃ سے بچنے کے لئے اُس سے ایک دن پہلے اپنی رقمیں نکال لیا کریںگے ۔لہٰذا طریق کار یہ اختیار کیا جائے کہ تاریخ زکوۃ پر جتنی رقم اکاؤنٹ میں موجود ہو ، اُس سے زکوۃ کاٹنے کے بجائے سال بھر جو رقم موجود رہی ہے ، اُسکے اوسط پر زکوۃ نکالی جائے ۔
شرعی نقطۂ نظر سے بینک اکاؤنٹس سے زکوۃ نکالنے میں متعدد امور قابل غورتھے۔ پہلا مسئلہ تو یہی تھا کہ شرعاً حکومت کو اموال ظاہرہ سے زکوۃ وصول کرنے کا حق ہوتا ہے ، اموال باطنہ سے نہیں ۔ آیا بینک اکاؤنٹس کو اموال ظاہرہ میں شمار کیا جاسکتا ہے جن سے زکوۃ کی کٹوتی کی جائے ؟ دوسرے شرعاً زکوۃ کے فرض ہونے کے لئے ضروری ہے کہ مقدار نصاب پر سال گذرا ہو۔بینک اکاؤنٹ میں یہ کیسے معلوم ہوگا کہ یہ اکاؤنٹ ہولڈر کی اپنی ملکیت ہے ، اور اُس کے صاحب نصاب بننے پر سال گذرچکا ہے۔ تیسرے یہ کہ اوسط پر زکوۃ وصول کرنے کا جو طریقہ تجویز کیا گیا ہے ، وہ کس حد تک قابل قبول ہے ۔
ان میں سے پہلی بات (یعنی بینک اکاؤنٹس کے ساتھ اموال ظاہرہ کا معاملہ کرنا) اس کے بارے میں میں اپنے والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ سے سن چکا تھا کہ موجودہ حالات میں انہیں اموال ظاہرہ میں شمار کرنا چاہئے ۔ نیز حضرت مولانا ظفر احمد صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی بھی یہی رائے تھی ۔اس لئے اس میں کچھ زیادہ اشکال نہیں تھا ۔سال گذرنے اور صاحب نصاب نہ ہونے کے بارے میں یہ طے کیا گیا کہ جو شخص یہ اقرار نامہ داخل کرے کہ وہ صاحب نصاب نہیں ہے ، یا اُس پر زکوٰۃ کسی وجہ سے واجب نہیں ہے ، اُسے کٹوتی سے مستثنی کردیا جائے گا۔ لیکن تیسرا مسئلہ کہ زکوۃ اکاؤنٹ کے سالانہ اوسط پر کاٹی جائے ، شرعی اعتبار سے اس کا کوئی جواز نہیں تھا ۔ چنانچہ ہم نے اُسے قبول کرنے سے انکار کردیا ۔اس پر بڑی لمبی بحثیں ہوئیں ۔آخر کار اُس وقت کے وزیر خزانہ غلام اسحاق خان صاحب مرحوم نے ایک اجتماع بلایا جس میں اوسط کی بنیادپر زکوۃ نکالنے کے لئے بڑے دلائل پیش کئے ، لیکن آخرکار ہماری بات مان لی گئی ، اور یہ مسئلہ اس طرح حل ہوگیا ۔
بالآخراس طرح دو قسم کے قوانین نفاذ کے لئے تیار ہو گئے۔جسٹس صمدانی اُس وقت وزارت قانون کے سیکریٹری تھے ۔انہوں نے بھی بڑی اہمیت کے ساتھ ان قوانین پر نظر ثانی کی ، اور اُس میں مجھے بھی شریک رکھا۔میں قوانین کو آخری شکل دینے کے لئے مدت سے اسلام آباد کے سندھ ہاؤس میں مقیم تھا ، جہاں ان قوانین کی نوک پلک درست کرنے کے لئے مشترک کاوشیں ہوتی رہیں ۔میں اجلاسات کے بعد بھی مسودات پر نظر ڈالتا رہتا ، اور ایک آدھی بار ایسا بھی ہوا کہ مجھے کسی لفظ کو تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ، تو میں نے صمدانی صاحب کو فون کرکے وہ تبدیلی کرائی۔ آخر کار یہ مسودات پوری کابینہ کو بھیجے گئے ، تاکہ سب اُن پر غور کرسکیں۔ پھر صدرجنرل ضیاء الحق صاحب نے کابینہ کااجلاس بلایا ، اور اُس میں جسٹس افضل چیمہ صاحب، جسٹس صمدانی کے علاوہ مجھے، مولانا ظفراحمدصاحب انصاری ، مفتی محمد حسین نعیمی صاحب اور مفتی سیاح الدین صاحب رحمہم اللہ تعالیٰ کو بھی دعوت دی گئی۔کابینہ کے اجلاس میں دو دن ان قوانین کی ایک ایک شق پر مفصل بحث ہوئی ، اور آخرکار صدر صاحب نے ان کی منظوری دیدی ، اور یہ تجویز کیا کہ ۱۲؍ ربیع الاول کو جو مشہورقول کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم ولادت باسعادت تھا ، حدود آرڈی ننس اور زکوۃ آرڈی ننس باقاعدہ نافذ کردئیے جائیں ۔
ملک کی تاریخ میں قادیانیت کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے کی دستوری ترمیم کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب کچھ قوانین شریعت کی بنیاد پر نافذ کئے جارہے تھے ۔اس لئے اس موقع پر ایک جشن کا سا سماں تھا ۔ کئی ہفتوں سے مسلسل گھر سے دور اوردن رات کی انتھک محنت کے بعد مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے ایک لمبے سفر کا مسافر ایک درمیانی منزل پر پہنچ کر دم لے رہا ہو۔ اُس دن سر سے ایک بڑا بوجھ اترا تھا ، اس لئے میں اپنے آپ کو ہلکا محسوس کررہا تھا ۔ میرے بڑے بھائی حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب مد ظلہم بھی کسی مناسبت سے اُس روز اسلام آباد تشریف لے آئے تھے ، اور اس خوشی کے موقع پر شریک تھے ۔شام کے وقت ہم تفریح طبع کے لئے شکرپڑیاں کی پہاڑی پر چلے گئے ۔ وہاں سے پورے اسلام آباد کا منظر سامنے تھا ، سرکاری عمارتیں روشنی میں نہائی ہوئی تھیں ، اور یوں لگ رہا تھا جیسے اسلام آباد کے اب واقعی اسلام آباد بننے کا آغاز ہو رہا ہے کہ اس میں شریعت کے کچھ اہم قوانین نافذ ہو رہے ہیں ، اور آئندہ اس راستے پر مزید آگے بڑھنے کے امکانات پیدا ہوئے ہیں ۔کیونکہ صدر جنرل ضیاء الحق شہید مرحوم جس طرح کونسل کے ساتھ بھر پور تعاون کررہے تھے، اُس کے پیش نظر امید یہ تھی کہ ان قوانین کا نفاذ پہلا قدم ہے ، اور اب ان شاء اللہ دوسرے قوانین کی ترتیب و تدوین بھی اسی طرح ہوسکے گی۔ اُس شام کی وہ خوشی مجھے ابتک ایک دلکش خواب کی طرح یاد ہے ۔
جاری ہے ….
٭٭٭
(ماہنامہ البلاغ :شوال المکرم ۱۴۴۲ھ)