حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی
یادیں
(بائیسویں قسط )
اب تک حضرت والدصاحب رحمۃ اللہ علیہ کاقیام ہمارے لسبیلہ ہاؤس والے مکان میں تھا ، ہمارے دو بڑے بھائی جناب محمد رضی صاحب(رحمۃ اللہ علیہ) اور جناب محمد ولی رازی صاحب مد ظلہم بھی ان کے ساتھ مقیم تھے ، اور ہم دارالعلوم شرافی میں رہتے تھے ، اور صرف چھٹیوں کے موقع پر گھر آنے کا موقع ملتا تھا ۔ دارالعلوم کی انتظامی ذمہ داریوں کا تقاضا یہ تھا کہ حضرت والدصاحب رحمۃ اللہ علیہ کی رہائش بھی دارالعلوم میں ہو، لیکن شہر میں ان کی طرح طرح کی مصروفیات اجازت نہیں دیتی تھیں ۔ آخر ہم لوگوں کے اصرار پر انہوں نے دارالعلوم منتقل ہونے کا ارادہ فرمالیا ، اور حاجی کبیر الدین صاحب مرحوم کے بنائے ہوئے جن دو کمروں میں ہم رہتے تھے ، ان کے متصل کھپریل کی چھت کے دو کمرے مزید بنالئے گئے ، اور آخرکار۴؍ اپریل ۱۹۶۳ء مطابق ۹؍ذیقعدہ ۱۳۸۲ ھ ہجری کو ہمارے والدین لسبیلہ ہاؤس کا مکان چھوڑکر دارالعلوم منتقل ہوگئے ۔(۱) اس پر ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا ، کیونکہ چھہ سال اپنے والدین سے دور رہنے کے بعد مستقل طورپر ان کی ٹھنڈی چھاؤں میں رہنے کا موقع مل رہا تھا۔اس کے علاوہ حضرت والدصاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ہر وقت استفادے کی نعمت بھی میسر آگئی تھی ۔
حج کا موسم قریب تھا ، اس لئے یہاں منتقل ہونے کے کچھ ہی عرصے کے بعدحضرت والدصاحب رحمۃ اللہ علیہ ،والدہ صاحبہ اور بڑے بھائی محمد رضی صاحب (رحمۃ اللہ علیہما) کے ساتھ حج کے لئے روانہ ہوگئے۔والدین کے سفر کے دوران کچھ عرصے کے لئے پھر وہی تنہائی !لیکن میں اپنی دارالعلوم کی تدریس، افتاء اورتصنیف کی خدمات کے ساتھ انٹر میڈییٹ کے امتحان کی تیاری کررہا تھا ، اس لئے اس میں مشغول ہوگیا ۔
عمرے کابحری سفر ۱۹۶۳ ء
یوں تو ہر مسلمان کا دل حرمین شریفین کی زیارت کی خواہش سے آباد ہوتا ہے ، لیکن خاص طورپر دورۂ حدیث کے سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وسنت کے واقعات پڑھنے کے بعد یہ خواہش ایک تڑپ بن گئی تھی ۔اگرچہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے بچپن ہی میں حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ حج کی سعادت حاصل ہوئی تھی ،لیکن میری عمر اُس وقت کل آٹھ سال تھی ، لہٰذا اس سفر کے چند دھندلے سے نقوش کے سوا (جن کا تذکرہ میں پہلے کرچکا ہوں )نہ کچھ یا د تھا ، اور نہ اس وقت اتنا شعور تھا کہ ان مقامات مقدسہ کی روحانی اور تاریخی اہمیت کو کسی درجے میں محسوس کرسکتا۔چنانچہ ہر سال جب لوگ حج کو جاتے ، تو رشک اور حسرت کے جذبات دل میں امڈتے ، اور میں تصور ہی تصور میں انہیں مختلف مقامات مقدسہ سے فیض یاب ہوتے دیکھتا ، اور دعا کرتا کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اس دولت سے فیض یاب فرمادیں ۔ اسی دوران (محرم ۳۸۲اھ مطابق جون ۱۹۶۲ ء میں) میری بڑی بہن (محترمہ عتیقہ خاتون صاحبہ مد ظلہا) جنہیں ہم آپا بی کہتے ہیں ، حج کے سفر سے واپس آئیں تو میں نے یہ اشعار کہے :
مبارک تم کو آپا بی !بڑی دولت ملی تم کو
جو ہر نعمت سے بڑھ کر ہے وہی نعمت ملی تم کو
مبار ک ہو دیارمصطفیٰ کو دیکھ کرآنا
خدا کی رحمتوں سے دامن امید بھر لا نا
تمہارے یہ قدم بیتِ خدا کے گرد گھومے ہیں
انہوں نے وادیٔ بطحا کے سنگریزے بھی چو مے ہیں
مجھے تو رشک آتا ہے تمہاری ان نگا ہوں پر
جو سجدے کر کے آئی ہیں نبی کی سجدہ گاہوں پر
الٰہی اپنے آسی پرتُو یہ احسان فرمادے
کہ اُس کو اک دفعہ پھر وادیٔ بطحا میں پہنچا دے
تمنا بھی تھی ، اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید بھی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے اس نالائق بندے پر یہ کرم ضرور فرمائیںگے ، لیکن بظاہر حالات وسائل نہیں تھے ۔ ۱۹۶۳ ء میں حضرت والد صاحب میری والدۂ محترمہ اور جناب بھائی محمد رضی صاحب (رحمۃ اللہ علیہم)کے ساتھ حج کو تشریف لے گئے ۔اس کے بارے میں مجھے اپنی ڈائری (۱) کے ۱۴؍مئی ۱۹۶۳ ء مطابق ۳؍محرم ۱۳۸۳ ھ کے صفحے پر اپنی یہ تحریر ملی ہے :
"رات دو بجارہی ہے ، اور میںاس سکون آفریں سناٹے میں ان مسرت خیز واقعات کا تصور کررہا ہوں جو آج کا دن اپنے دامن میں لیکر آیا تھا ۔آج صبح سب سے پہلے تو میرا (انٹر کا ) دوسرا پرچہ انتہائی قابل اطمینان انداز میں پورا ہوگیا ۔شام سے رات دس بجے تک کا وقت بڑی مشکل سے کٹا ، کیونکہ آج والدین دیار حبیب (صلی اللہ علیہ وسلم) سے واپس آنے والے تھے۔ طیارہ گیارہ بجے پہنچا ، اور ایک بجے رات والدین گھر تشریف لاچکے تھے ۔دیارحبیب کے پرکیف حالات سن کر دل گھنٹوں ان دلفریب مناظر میں گم رہا جہاں سے امن وسکون کی زندگی بخش کرنیں انسانیت پر طلوع ہوئی تھیں ۔”
اور اگلے دن کی ڈائری میں لکھا ہے :
"آج میں تمام دن تصور ہی تصور میں امن وسکون کی ان بہار آفریں وادیوں میں گھومتا رہا جہاں آج سے چودہ سو سال پہلے انسانیت کے رکھوالوں نے تہذیب کی قندیلیں بلند کی تھیں۔میں آج اپنے آپ کو سرزمین حجاز کی زندگی افروز آغوش میں دیکھ رہا تھا ، میرے تخیل کی نگاہیں ان نخلستانوں کو بوسے دے رہی تھیں جن کی گھنی اور ٹھنڈی چھاؤں میں سسکتی ہوئی انسانیت نے عدل وانصاف کا آب ِحیات نوش کیا تھا ۔ میں کبھی ان تلواروں کا دیدار کرتا تھا جن کے سائے میں اُس روشنی نے جنم لیا جو بعد میں مشرق ومغرب کو چمکا گئی ، اور کبھی اُن روح پرور مجلسوں کا تصور کرتا تھا جن کے "دُودِ چراغ” نے کائنات پر ایک عظیم ترین نظام زندگی کے نقوش ثبت کئے ۔مجھ پر کیف وسرور کی ایک غیر معمولی کیفیت طاری ہوجاتی ، مگر میں پھر عالم وجود کی طرف لوٹتا، تو تصورات کی وہ راگنی اُس نالۂ شبگیر میں تبدیل ہو جاتی جووقت کے بے رحم طوفانوں نے ہر حسّاس مسلمان کے دل میں پیدا کردیا ہے :
اے خاصۂ خاصانِ رُسل!وقت دعا ہے
امّت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے”
اس طرح حرمین شریفین کی زیارت کی آرزو دل میں پل رہی تھی ، اور تصورات کا عالم میری نو عمری کی اس جذباتی تحریر سے واضح ہے ، لیکن اس آرزو کی جلد تکمیل کا کوئی راستہ نہیں تھا ۔ لیکن حج سے واپسی پر حضرت والد صاحب ؒ نے ایک ایسی بات ارشاد فرمائی کہ امیدوں کے نئے چراغ روشن ہوگئے ۔انہوں نے فرمایا کہ پین اسلامک اسٹیم شپ کمپنی کے مالک نے انہیں یہ پیشکش کی ہے کہ ان کے پانی کے جہاز جب حج کے بعد حاجیوں کو کراچی پہنچاکر واپس دوسرے حاجیوں کو لینے کراچی سے جدہ جاتے ہیں، تو وہ تقریباً خالی جاتے ہیں ، اس موقع پر اگر کوئی عمرے کے لئے جانا چاہے، تو برائے نام کرائے پر اُسے لے جانے کے لئے تیار ہیں (جہاں تک یاد ہے ، یہ کرایہ صرف نوے روپے تھا)
حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس پیشکش کا ذکرگھرمیں فرمایا ، تو خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی ، اور صرف ایک دن پہلے جو باتیں میں صرف تصورات کی حد تک ہی سوچ رہا تھا ، شاید ان کے عمل میں آنے کا وقت آرہا تھا ۔چنانچہ میں نے اور میرے بڑے بھائی جناب محمد ولی رازی صاحب نے فوراً اس موقع سے فائدہ اٹھانے کا ارادہ کرلیا، لیکن میرے پاس اُس وقت پاسپورٹ نہیں تھا ، اور اُس وقت انٹر نیشنل پاسپورٹ بنوانا انتہائی مشکل کام تھا، اسٹیٹ بینک سے غیر ملکی سفر کی الگ اجازت لینی پڑتی تھی ، غرض بہت سے مراحل درپیش تھے،پاسپورٹ کے لئے پولیس ہیڈ کوارٹر سے منظوری حاصل کرنے کے لئے کئی کئی دن میں نے صبح سے شام تک کے اوقات اُس کے برآمدے میں گذارے،اورمیں صبح کو اس برآمدے میں جاکر پولیس والوں کی منتیں کرنے اور ان کی بے نیازی بلکہ بعض اوقات ان کی ڈانٹ سہنے میں لگ جاتا ۔کئی دن اس طرح گذارنے کے بعد اللہ اللہ کرکے وہاں سے این او سی ملا ، پھر پاسپورٹ آفس کے چکر لگائے ،مگر ایک ہفتے میکلوڈ روڈ (موجودہ چندریگرروڈ) کے مختلف دفتروں کی خاک چھاننے کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے تمام مراحل طے ہوگئے ، اورمؤرخہ ۱۷؍محرم ۱۳۸۳ھ مطابق ۱۰؍جون ۱۹۶۳ ء کو میں اپنے بڑے بھائی جناب محمد ولی رازی صاحب مدظلہم کے ساتھ سفینۂ حجاج میں سوار ہوگیا۔
یہ تقریباً دس منزلہ جہاز تھا ، اور پورے ایک شہر کے برابر ۔چونکہ یہ حجاج کو واپس لانے کے لئے جدہ جارہا تھا ، اس لئے اُس وقت مسافروں سے تقریباً خالی تھا ، اور ہمیں فرسٹ کلاس کاایک آرام دہ کیبن ملا تھاجس میں ہم دو بھائی اور ایک اور صاحب ہم سفر تھے۔جہاز کے کپتان پہلے سے حضرت والد صاحبؒ کی نسبت سے ہم پر بہت مہربان تھے۔ جب ہم اپنے کیبن میں پہنچے ، تو تھوڑی دیر بعد جہاز کے ایک اور افسر اچانک کیبن میں آئے ، اور پوچھا کہ "محمد تقی عثمانی کون ہیں؟” میں نے بتایا ، تووہ کہنے لگے کہ "میرا نام رشید ہے، میں جہاز کاچیف انجینئر ہوں ، اور ضبط ولادت پرآپ کی کتاب پڑھ رہا تھا کہ مجھے بتایا گیا کہ آپ جہاز پر ہی ہیں ، اس لئے ملنے آگیا ہوں ۔”اس طرح جہاز کے دونوں بڑے ذمہ دار ، یعنی کپتان اورچیف انجینئر، دونوں سے رسم وراہ ہوگئی، اور ان کی وجہ سے جہاز کا پورا عملہ سفر کے دوران ہمارا دوست بنا رہا۔اور انہوں نے برج (Bridge)سے لیکر انجینئرنگ روم تک ہر چیز کا معائنہ کرایا، اور جہاز چلانے کے تمام اسرار ورموز بھی ہمیں بتائے، اور تھوڑی دیر کے لئے جہاز کا اسٹیرنگ بھی ہمارے ہاتھ میں دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ بحری جہاز سے حرمین شریفین کے سفرمیں ہر لمحے بڑھتے ہوئے ذوق وشوق کی جو ناقابل بیان کیفیت ہوتی تھی ، آج ہوائی جہاز کے سفر میں اُس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ میں نے اس سفر میں ہرروز ڈائری کی شکل میں مختصر یادداشتیں لکھی تھیں ۔ افسوس ہے کہ اب جو میں نے وہ ڈائری نکالی، تو اُس کے بہت سے صفحات پر روشنائی اس طرح پھیل گئی ہے کہ اُسے پڑھنا مشکل ہے ۔ لیکن بعض صفحات پڑھے جاتے ہیں ۔روانگی کے دن (۱۰؍جون ۱۹۶۳ ء )کی ڈائری میں یہ تحریر پڑھی گئی:
"سفینۂ حجاج میں بیٹھا اپنے مالک کی اُن بے پایاں قدرتوں کا تصور کرکے حیران ہورہاہوں جنہوں نے ایک ہفتے میں ایک ذرّۂ خاک سے زیادہ ناچیز انسان کو اُس منزل کی طرف رواں کردیا جس تک رسائی کا اُسے چند روز قبل کوئی تصور تک نہیں تھا۔ہماراجہاز تلاطم خیز موجوں کا سینہ چیر تا ہوا آگے بڑھ رہا ہے ، اور اُس سے ٹکراتی ہوئی موجوں کے شور سے ایک خواب آفریں نغمہ پیدا ہورہاہے ۔ مشرق کے افق سے اٹھارویں رات کا چاند ابھی ابھی نکلا ہے ، اور اُس نے اٹھتی ہوئی لہروں کو پگھلی ہوئی چاندی کی طرح تابناک بنادیا ہے ۔”
اگلے دن کی یادداشت اس طرح درج ہے :
"رات کا وقت ہے ، اور ہمارا جہاز موجوں کی آغوش میں جُھول رہا ہے ۔جہاز کے باہر سوائے تاریکی کے کچھ نظر نہیں آتا۔ تاریکی نے زمین اور آسمان کو باہم اس طرح مدغم کردیا ہے کہ سمندر اور آسمان میں امتیاز کرنا مشکل ہی نہیں ، ناممکن ہے ۔( واقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے سورۂ نور میں اتھاہ تاریکی کے وقت سمندر کی موجوں کا جس طرح ذکر فرمایا ہے ، اُس کی گہرائی کا صحیح اندازہ سمندر کا اندھیرا دیکھے بغیر نہیں ہوسکتا ۔)میں اپنے کمرے میں نیم دراز اُن ملے جُلے تصورات سے باتیں کررہا ہوں جو آج دن بھر دل ودماغ پر چھائے رہے۔۔۔ اور اس تصور سے پورا وجود ایک شاداب گلزار بناہوا ہے کہ گذرتا ہوا ہر منٹ مجھے اُس عظیم اور محبوب سرزمین سے قریب کررہا ہے جسکے تصور نے نہ جانے کب سے کتنے نقشے بنائے ہوئے ہیں، اس کے ذرے ذرے سے عشق، اُس کے نظاروں کی آرزو، اور اس کے ایک ایک خم وپیچ پر نظروں ہی سے سجدے کرنے کی خواہش مسلمان کی گھٹی میں پڑی ہوتی ہے”
جیساکہ میں نے پہلے عرض کیا ، سفینۂ حجاج اتنا بڑا جہاز تھا کہ وہ پورا شہر لگتا تھا ، دوسری طرف ہم یہ سفر جون کے مہینے میں کرر ہے تھے جب سمندر اپنے شباب پر تھا ۔اس لئے جب پہاڑوں جیسی موجیں اٹھتیں تو جہاز ان کے مقابلے میں ایک بے حقیقت تنکا معلوم ہوتا تھا ۔ صبح کے وقت جس ہال( mess) میں ہم ناشتہ کرتے ، اُس کے دونوں جانب سمندر نظر آتا تھا ، اور یہ منظر ہم روزانہ دیکھتے کہ ہمارے دائیں جانب دور تک سمندر اور اُس کے آخری سرے پر آسمان نظر آرہا ہوتا ، پھر جہاز کسی موج پر گذرتے ہوئے دائیں طرف اٹھنا شروع ہوتا ،جس کے نتیجے میں دورتک پھیلا ہوا سمندر سمٹنا شروع ہوتا ، اور چند لمحوں میں پورا سمندر دائیں طرف سے غائب ہوکر بائیں طرف نظر آنے لگتا ، اوردائیں طرف صرف آسمان کا درمیانی حصہ نظر آتا ، اور پھر رفتہ رفتہ سمندر بائیں طرف سے غائب ہونے لگتا، اور دائیں طرف آسمان کے نیچے سمندر کی ایک لکیر ابھرتی، اور چند لمحوں میں پھر سمندردوبارہ ظاہر ہوجاتا۔
سفر کے پانچویں دن ہمارا جہاز عدن کے ساحل پر پہنچا۔ عدن کی بندرگاہ ایسی نہ تھی کہ اُس پر اتنا بڑا جہاز لگایا جاسکے۔ اس لئے وہ ساحل سے کچھ فاصلے پر لنگر انداز ہوا۔ یہاں اُسے ایک دن ٹھہرنا تھا ، اورہمیں ساحل تک جانے کی اجازت مل گئی۔ چنانچہ ہم رسی کی سیڑھی کے ذریعے جہاز سے اترکر کشتی میں سوار ہوئے جو ہمیں ساحل تک لے گئی ۔یہ ساحل ” اسٹیمر پوائنٹ” کہلاتا تھا جس کے آس پاس تھوڑی سی آبادی بھی تھی ، لیکن اصل شہر جو "کریٹر” کہلاتا تھا ، وہاں سے کافی دور تھا ۔اس لئے ہم وہاں سے ایک ٹیکسی میں سوار ہوئے ، اور ایک درمیانی محلے یا شہر (جس کانام غالباً معلاۃ تھا ) سے ہوتے ہوئے کریٹر پہنچے۔راستے میں مسجد ابان کے نام سے ایک مسجد کی زیارت بھی ہوئی ، اُس کے ساتھ ایک مزار بھی تھا، اور صاحب مزار ہی کے نام پر مسجد کا نام رکھا گیا تھا ۔ ہم اُس وقت یہ سمجھے کہ شاید یہ کسی صحابی کا نام ہے، بعد میں حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ایک تحریر سے جو انہوں نے ۱۳۸۲ ھ کے سفر عمرہ کے بارے میں لکھی تھی ، (اور ان شاء اللہ ان کے سفرناموں کے مجموعے میں شائع ہورہی ہے ) معلوم ہوا کہ یہ مزار حضرت حکم بن ابان بن عثمان ؒ کا ہے جو دوسری صدی ہجری کے بزرگ تھے ، اور حضرت امام احمدبن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے اُن سے احادیث لی ہیں ۔(۱) وہاں کے امام صاحب شیخ مطہر الغربانی نے جو ایک صاحب تصنیف عالم تھے،حضرت والد صاحبؒ کو یہ بھی بتایا کہ یہ مسجد عہد رسالت میں قائم ہوئی تھی ، اور جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ یمن تشریف لائے ، تو انہوں نے دو مرتبہ یہاں نماز پڑھی ۔
بہر حال! عدن کی سیر کے بعد ہمارا جہاز دوبارہ اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگیا ۔ میری اگلے دن کی ڈائری میں لکھا ہے :
"جوں جوں جدّہ نزدیک آرہا ہے ، دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی جارہی ہیں ۔اس وقت ہم جدّہ سے صرف ۱۸۰ میل دور ہیں ، اور ان شاء اللہ تعالیٰ کل بارہ بجے اس منزل تک پہنچ جائیں گے جس کا تصور دماغ کو مہکتا ہوا گلزار بنا دیتا ہے۔آج جہاز نے اپنا رُخ بدل کر شمال مغرب کی طرف کرلیا ہے ۔ مغرب میں افریقہ کا براعظم ہے ، اور مشرق میں یمن اور سعودی عرب کی دلکش پہاڑیاں نظر نواز ہوجاتی ہیں ۔ آج ہی ہم نے کنٹرول روم اور انجن کا تفصیلی نظارہ کیا۔”
اور اگلے دن (۱۷؍ جون)کی ڈائری یوں لکھی ہے :
"آج ہمارا سفینۂ مراد اُس ساحل تک پہنچ گیا جو امن وسکون کی ایک حیات آفریں وادی کی طرف رہبری کرتا ہے ۔آج ساڑھے بارہ بجے ہی سے دا ہنی جانب جزیرۂ عرب کی دھندلی پہاڑیاں نظر آنے لگی تھیں ۔ صبح سے ہر لحظہ دل کی دھڑکنوں میں اضافہ ہورہا تھا ، یہاں تک کہ جدّہ کی عمارتیں افق پر نمودار ہوئیں ، اور ایک ایک منٹ کاٹنا مشکل ہوگیا، مگر قدرت کو صبر کا ایک اور امتحان منظور تھا ۔بندرگاہ سے کچھ فاصلے پر جہاز تقریباً پون گھنٹے لنگر ڈالے کھڑا رہا، اور بڑی مشکل سے آگے بڑھا ۔جہاز ٹائم کے مطابق تقریباً دو بجے ہم جدہ کی بندرگاہ پراتر چکے تھے ۔حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ایک متوسل جناب اشرف سروجی صاحب کے یہاں سامان رکھا ۔۔۔اب دل یوں چاہتا تھا کہ جلد ازجلد مکہ مکرمہ پہنچیں ، مگررات کا قیام ضروری سمجھ کر دل کو کل پر ٹال دیا۔ ”
دراصل مکہ مکرمہ جانے سے پہلے کچھ قانونی کارروائی ضروری تھی جو کل صبح ہی ہوسکتی تھی ۔ اشرف سروجی صاحب کو اللہ تعالیٰ بہترین جزاء عطا فرمائیں ، وہ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے معتقدین میں سے تھے ، اور انہوں نے اپنا گھر حج اور عمرے پرآنے والوں کے لئے کھولا ہوا تھا ، وہ بندرگاہ پر بھی ہمیں لینے پہنچ گئے تھے، اور انہی کے گھر پر قیام رہا ۔ نماز کے لئے قریب کی مسجد میں گئے ، تو سجدہ کرتے ہوئے اس احساس سے دل خوشی اور تشکر سے لبریز تھا کہ جس کعبے کا رُخ کرکے ہم اب تک سجدے کرتے رہے ہیں ، اب وہ یہاں سے صرف ۵۴؍کیلومیٹر دور رہ گیا ہے ۔
نماز سے واپس جاتے ہوئے ایک مسقف بازار سے گذر ہوا، تو وہاں لوگ تھڑے لگاکر ایک تھالی میں رکھے ہوئے زیتون بیچ رہے تھے جن کا تیل بھی تھالی میں پھیلا نظر آرہا تھا ۔میں نے اس سے پہلے کبھی زیتون نہیں دیکھا تھا ،اوراُس کا ذائقہ بھی اس سے پہلے کبھی چکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا ۔ اُس وقت مجھے اُس کی شکل وصورت کچھ ایسی لگی جیسے چھوٹی چھوٹی گلاب جا منیں رس میں بھیگی ہوئی رکھی ہوں ۔میں نے بڑے شوق سے اسی تصور کے تحت اُسے منہ میں رکھاکہ وہ کوئی میٹھا پھل ہوگا ، لیکن منہ میں رکھنے کے بعد توقع کے بالکل برخلاف جب اُس کا کسیلا ذائقہ زبان اور تالو کو لگا ، تو اُسے چباکر نگلنا مشکل ہوگیا ، اور میں بڑا حیران ہوا کہ وہ زیتون جس کی اتنی تعریفیں سُنی ہوئی ہیں ، کیا ایسا ہوتا ہے ؟ لیکن بعد میں ہوا یہ کہ حجازمیں اُسی قیام کے دوران جب لوگوں کی دیکھا دیکھی ، تھوڑا تھوڑا کھانے کی عادت پڑی ، تو رفتہ رفتہ اسی کسیالے پن میں مزہ آنے لگا ، اور اب وہ میری پسندیدہ غذاؤں میں شامل ہوگیا ہے۔ سبق یہ ملا کہ شریعت کے بعض احکام پر جب انسان عمل کرنا شروع کرتا ہے ، تو وہ بھی شروع شروع میں کڑوے کسیلے معلوم ہوتے ہیں ، لیکن اگر انسان ہمت اور استقامت سے کام لیکر رفتہ رفتہ اپنے آپ کو ان کا عادی بنالے ، تو پھر وہ اتنے محبوب ہوجاتے ہیں کہ ان کے بغیر چین نہیں آتا۔
بہر کیف!اُس رات کے بارے میں یہ یاد ہے کہ مرطوب گرمی اتنی شدید تھی کہ پنکھے کے سامنے بیٹھنے کے باوجود پسینہ کسی طرح خشک نہیں ہورہا تھا ۔اشرف سروجی صاحب کی میزبانی سے لطف اندوز ہونے کے باوجود دل یوں چاہ رہا تھا کہ یہ رات لمحوں میں گذر جائے ، اور ہم کسی طرح مکہ مکرمہ پہنچ جائیں۔اللہ اللہ کرکے رات گذری ، اور صبح تقریباً آٹھ بجے ہم ٹیکسی اسٹینڈ پہنچے جہاں ٹیکسیاں سواریوں کے حساب سے چلتی تھیں ، ایک ٹیکسی میں سوار ہوئے ، اور وہ جدہ شہر سے نکل کر مکہ مکرمہ جانے والی سڑک پر آگئی ، اُس وقت تک موجودہ ہائی وے نہیں بنا تھا ، اور سڑک چھوٹی ، مگر ہموار تھی ۔تھوڑی ہی دیر میں دائیں بائیں پہاڑیاں نظر آنے لگیں ، اور بھیگی ہوئی نگاہیں ان پہاڑیوں اور پگڈنڈیوں کو دیکھ سکتی تھیں جنہوں نے کبھی سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے فداکار صحابہؓ کے قدم چومے ہوں گے۔ہم خاموشی کے ساتھ ان سنگلاخ صحراؤں کو دیکھ کر ماضی کے تصورات میں گم تھے کہ اتنے میں "شمیسی” آگیا ۔ حضرت والد صاحب ؒ نے بتایا تھا کہ یہ” حدیبیہ” کا نیا نام ہے۔ اب جدہ سے مکہ مکرمہ جانے کے لئے جو ہائی وے استعمال ہوتی ہے ، وہ اس مقام سے کچھ دور ہٹ کر گذرتی ہے ، لیکن اس وقت کی سڑک خاص "حدیبیہ” کے مقام سے گذرتی تھی ، لہٰذا اس مقام پر پہنچ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر حدیبیہ کے واقعات ایک ایک کرکے تصور کی نگاہ میں قطار بنائے ہوئے تھے۔سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمرے کے لئے تشریف لانا ، آپ کی اونٹنی کایہاں پہنچ کر آگے بڑھنے سے انکار کردینا ،حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قریش کے لوگوں سے بات چیت کے لئے مکہ مکرمہ روانہ فرمانا ، ان کی شہادت کی خبر مشہور ہوجانا، سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابۂ کرامؓ سے بیعت لینا کہ جنگ کی ضرورت پیش آئی تو سب فداکاری کا مظاہرہ کریںگے ، پھر قریش کے وفود کی آمد، اور صلح کی بات چیت ، نرم شرائط پر صلح نامے کی تیاری ، حضرت ابوجندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آمد، اور صلح نامے کی شرائط کے مطابق ان کی واپسی،صحابۂ کرام ؓ کا جوش وخروش ، اور آخر کار قرآن کریم کا اس صلح کو "فتح مبین” قرار دینا۔ وہ مقدس سرزمین نگاہوں کے سامنے تھی جہاں یہ سارے واقعات پیش آئے تھے ۔ یہیںسے کچھ فاصلے پر حدود حرم شروع ہورہی تھیں ، جن کی علامت کے طورپر سڑک کے دونوں طرف ستون نصب تھے۔ انہی ستونوں کے بالکل سائے میں ایک چھوٹی سی مسجد بنی ہوئی تھی جس کے بارے میں مشہور یہ تھا کہ حدیبیہ کے قیام کے دوران حضور سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نماز یں پڑھنے کے لئے یہاں تشریف لا تے تھے ، تاکہ نمازیں حدود حرم میں ادا ہوں ، اور سیرت کی روایات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔
جاری ہے ….
٭٭٭٭٭٭٭٭٭