حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی

یادیں

(اکتالیسویں قسط)

اسلامی نظریاتی کونسل کی رکنیت
۱۹۷۷ء میں اُس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب مرحوم کے خلاف ایک ملک گیر تحریک چلی۔ شروع میں اس کی وجہ یہ تھی کہ ملک کے عام انتخابات میں ان کی پیپلز پارٹی نے بڑی اکثریت سے اسمبلی کی سیٹیں حاصل کرلی تھیں۔ اپوزیشن کا کہنا یہ تھا کہ انتخابات میں شدید دھاندلی ہوئی ہے، اس لئے ملک میں نئے انتخابات کرائے جائیں۔اس موقف پر ملک کی نو سیاسی جماعتوں نے ایک متحدہ محاذ قائم کیا، جس کا اصل مطالبہ یہی تھا کہ انتخابات دوبارہ کرائے جائیں۔ ان جماعتوں میں بڑی دینی سیاسی جماعتیں جمعیت علماء اسلام، جمعیت علماء پاکستان اور جماعت اسلامی بھی شامل تھیں۔ انہوں نے اس تحریک کو "نظام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم”قائم کرنے کا عنوان دیا، اور ملک بھر میں بھٹو صاحب کی حکومت ختم کرنے کے لئے مظاہرے شروع ہوگئے۔ اورآخر کار اُس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل محمدضیاء الحق صاحب مرحوم نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لاء نافذ کردیا۔
اس تحریک میں جن حضرات نے جان ومال کی قربانیاں دی تھیں ، شایدیہ ان کے اخلاص کی برکت تھی کہ مارشل لاء کے نتیجے میں جن جنرل صاحب نے اقتدار سنبھالا (یعنی جنرل محمد ضیاء الحق صاحب مرحوم)وہ بذات خود نماز روزے کے پابند اور بحیثیت مجموعی دینی ذہن کے حامل تھے ، اور جس تحریک کے نتیجے میں وہ برسر اقتدار آئے تھے ، وہ "نظام مصطفیٰ” کے نام پر چلی تھی ۔اس لئے انہوں نے برسر اقتدار آنے پر ملک میں اسلامی شریعت نافذ کرنے کا عزم ظاہر کیا ، اور باوجودیکہ سیاسی عناصرکو مارشل لاء کے خلاف ہونا چاہئے ، اُس وقت تمام دینی اور سیاسی جماعتوں نے ان کا خیر مقدم کیا۔
اُس وقت کے دستور کے مطابق ملک میں اسلامی قوانین کے نفاذ کا واحد طریقہ یہ تھا کہ دستور کے تحت ایک ادارہ "اسلامی نظریاتی کونسل” کے نام سے قائم کرنا حکومت کی ذمہ داری تھی جو شرعی احکام کو قانونی حیثیت دینے کے لئے سفارشات مرتب کرے ۔ ابتک اس ادارے کے قیام ، اس کی ہیئت ترکیبی اور اُس کی سفارشات کو روبعمل لانے کے سلسلے میں حکومتیں طرح طرح کے لیت ولعل سے کام لیتی چلی آئی تھیں۔ اس کے بارے میں خود میں نے البلاغ میں متعدد اداریے لکھے تھے کہ اس ادارے کو مضبوط اورمؤثر بنانے کے لئے کیااقدامات ضروری ہیں ۔جنرل ضیاء الحق صاحب نے اس موقع پر یہ اعلان کیا کہ وہ اس ادارے کو ازسر نو تشکیل دیکر اس کی سفارشات پر عمل کرائیں گے۔یہ اعلان اگرچہ ہمت افزا تھا ، لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس پر عمل کس درجے میں ہو سکے گا ۔
اسی دوران مجھ سے حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری صاحب قدس سرہ نے فرمایا کہ جنرل صاحب نے اُن سے مشورہ کیا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کا رُکن کس کس کو بنایا جائے ، اور انہوں نے میرانام بھی مجوزہ ناموں میں شامل کرکے بھیج دیا ہے ۔ دوسری طرف مولانا ظفراحمد انصاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی مجھ سے یہی بات فرمائی کہ انہوں نے بھی میرا نام رکنیت کے لئے تجویز فرمایا ہے ۔
مجھے اپنی نااہلی کے علاوہ دو و جہ سے تأمل تھا۔ ایک یہ کہ مارشل لاء کی آئینی حیثیت کچھ نہیں ہوتی ، اور خود جنرل صاحب کے اعلان کے مطابق وہ صرف نوے دن کے لئے اقتدار میں آئے ہیں جس کے بعد نئے انتخابات ہوںگے ۔ اس مختصر مدت میں اسلامی نظریاتی کونسل کے ذریعے کوئی قابل ذکر پیش رفت مشکل معلوم ہوتی تھی ، دوسرے ابھی یہ بھی واضح نہیں تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پہلے کی طرح الماریوں کی زینت رہیں گی ، یا ان پر عمل کا بھی کوئی اطمینان بخش راستہ ہوگا ۔
لیکن ان دونوں بزرگوں نے جو جنرل صاحب سے تفصیلی ملاقاتیں کرچکے تھے ،یہ امید ظاہر فرمائی کہ ان شاء اللہ اس مرتبہ سفارشات پر عمل ہوگا ، اور اس مختصر مدت میں بھی اتنا کام کیا جاسکے گا جو آئندہ کے لئے بنیاد کا کام دے گا۔ان بزرگوں نے نہ صرف یہ کہ یہ امید ظاہر فرمائی، بلکہ خود بھی اس کی رکنیت قبول فرمالی۔اس سے مجھے حوصلہ ہوا کہ جو کچھ ہوگا، ان بزرگوں کی سرپرستی میں ہوگا۔
دوسری طرف مجھے اپنے ایک مقدس بزرگ حضرت بابا نجم احسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ایک بات یاد آئی ۔ حضرت بابا نجم احسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ حضرت حکیم الامت قدس سرہ کے مجازین صحبت میں سے بڑے پائے کے بزرگ تھے ،اورجاننے والے جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ انہیں رؤیائے صالحہ اور بعض اوقات کشف سے نوازتے رہتے ہیں۔ میرے دوست جناب محمد کلیم صاحب کے والد جناب محمد ایوب صاحب کی درخواست پروہ اپنی آخر عمر میں انہی کے گھر کے ایک بیرونی کمرے میں مقیم تھے ، اور وہیں بیٹھ کر آنے جانے والوں کو اپنے فیوض سے مستفید فرماتے رہتے تھے۔میں وقتاً فوقتاً کلیم صاحب کے گھر جاتا رہتا تھا ، اور حضرت بابا صاحب کی خدمت میں بھی حاضری دیتا تھا ، وہ بھی مجھ پر بہت شفقت فرماتے تھے ، اور اپنی گرانقدر نصیحتوں سے نوازتے رہتے تھے ، چنانچہ تقریباً ہربارحضرت کی کوئی نہ کوئی قیمتی بات گرہ میں باندھکر لوٹتا تھا ۔
۱۹۷۱ء میں جب ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی حکومت نئی نئی برسر اقتدار آئی، تو انہوں نے کلیم صاحب کے ذریعے مجھے پیغام بھیجا کہ میں اُن سے جاکر ملوں ۔ یہ میری غفلت ہی تھی کہ میں کسی اور مصروفیت میں الجھ گیا ، اور فوراً حضرت کی خدمت میں حاضری نہ دے سکا ، اور دوتین دن گذرنے کے بعد ان کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ حضرتؒ نے پہلے تو اس بات پر محبت آمیزخفگی کا اظہار فرمایا کہ میں نے آنے میں اتنی دیر کی ۔ میں نے معافی مانگی، تو اس پر حضرت نے فرمایا: "میں نے ایک خواب دیکھا ہے کہ تم اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے بیٹھے ہو، اور وہ تمہیں کہہ رہے ہیں کہ اسلامی قانون لکھو۔اس کی تعبیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی وقت تم سے اسلامی قانون کے سلسلے میں کوئی کام لیں گے ۔ ایسا موقع آئے تو تم انکار مت کرنا۔”
یہ وہ وقت تھا جب مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور ملک میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی وجہ سے دینی حلقوں کے دل ٹوٹے ہوئے تھے ، اور دور دور تک ملک میں اسلامی قانون کی طرف پیش رفت کا کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا ۔میں نے حضرتؒ کے اس ارشاد کو ایک نیک فال سمجھ کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا ، اور پھر بات آئی گئی ہوگئی۔لیکن اس موقع پر جب اسلامی نظریاتی کونسل کی رکنیت کا سوال آیا تو مجھے حضرت بابا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی یہ بات یاد آئی، اور خیال ہوا کہ شاید اس خواب کی تعبیر اسی شکل میں ہو کہ مجھے اس کونسل کے ذریعے اسلامی قانون کی کوئی خدمت کرنے کا موقع مل جائے ۔
چنانچہ میں نے اپنے شیخ حضرت عارفی قدس سرہ سے مشورے کے بعد اللہ تعالیٰ کے نام پر یہ رکنیت قبول کرلی، اور یہیں سے میری دارالعلوم سے باہر کی مصروفیات کا آغاز ہوا۔
چونکہ دستور کی رو سے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئر مین کے لئے ضروری تھا کہ وہ کسی اعلیٰ عدالت کا جج ہو، اس لئے وہ جناب جسٹس محمد افضل چیمہ کی سربراہی میں قائم کی گئی تھی، اور میرے علاوہ اُس کے ارکان مندرجہ ذیل تھے :
حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری صاحب رحمۃ اللہ علیہ
حضرت مولانا مفتی سیاح الدین صاحب کاکا خیل
حضرت مولانا مفتی محمد حسین صاحب نعیمی
حضرت پیرقمرالدین صاحب سیالوی
حضرت مفتی جعفر حسین صاحب مجتہد
حضرت مولانا ظفراحمد صاحب انصاری
جناب اے کے بروہی صاحب ایڈوکیٹ
جناب خالد اسحاق صاحب ایڈوکیٹ
جناب جسٹس(ریٹائرڈ) صلاح الدین صاحب سابق جج سپریم کورٹ
جناب ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان
کونسل کا پہلا افتتاحی اجلاس اسلام آباد میں تھا۔ حضرت مولانا سید محمد یوسف ینوری صاحب قدس سرہ نے فرمایا کہ تم میرے ساتھ ایک ہی جہاز میں چلنا۔میرے لئے کونسل کی رکنیت میں کشش کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس طرح حضرت بنوری قدس سرہ کی معیت باربارنصیب ہوگی، اور ان کی رہنمائی میں کام کا موقع ملے گا۔الحمد للہ ایسا ہی ہوا ۔میں نے اُسی جہاز میں سیٹ بک کرائی جس میں حضرت کو سفر کرنا تھا ، اورپھرحضرتؒ کے ساتھ ہی اسلام آباد پہنچا ، جناب مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر صاحب مد ظلہم بھی حضرت کی خدمت کے لئے حضرت کے ساتھ تھے ۔قیام کا انتظام گورنمنٹ ہوسٹل میں تھا، اورحضرتؒ کے کمرے کے قریب ہی مجھے کمرہ ملا۔
افتتاحی اجلاس میں جناب جنرل محمد ضیاء الحق صاحب مرحوم نے بھی شرکت کی اور اپنی تقریر میں اس عزم کا اعادہ کیا کہ آپ حضرات جو سفارشات دیںگے ، ان پر ان شاء اللہ تعالیٰ فوری طورسے عمل کیا جائے گا۔اور انہوں نے کونسل کے ارکان سے خاص طورپر یہ فرمائش کی کہ وہ ملک سے سودی نظام کو ختم کرنے کے لئے بینکاری کے نظام میں شرعی اصولوں کے مطابق اصلاحات تجویز کریں، اور اس کو اپنے کام میں اولیت دیں ۔تقریر کے بعد ارکان نے اور بالخصوص حضرت بنوری قدس سرہ نے جنرل صاحب کے جذبات اور ان کی تقریر کو سراہا، اور فرمایا: "إِنْ تَنْصُرُوْااللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ أَقْدَامَکُمْ”.
اس کے بعد کونسل کا پہلا اجلاس شروع ہوا، تو اس میں یہ بات زیر بحث آئی کہ کام کا آغاز کس طرح کرنا چاہئے ۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ کونسل کا بنیادی کام قوانین کو شریعت کے سانچے میں ڈھالنا ہے ، اس لئے کام کا آغاز بھی قوانین کے بارے میں سفارشات سے کرنا چاہئے ۔ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب نے فرمایا کہ ملک میں معاشی اصلاحات کو اولیت دینی چاہئے ۔ بحث کے بعدباتفاق یہ طے پایا کہ دونوں سطحوں پر ایک ساتھ کام کرنے کے لئے دو پینل تشکیل دئیے جائیں ۔ایک پینل قوانین پر کام کرے ، اور دوسرا اسلام کی معاشی تعلیمات پر عمل کرنے کے لئے بینکاری کے نظام کو سود سے پاک کرنے اور زکوٰۃ کا نظام نافذ کرنے کے لئے سفارشات تیار کرے ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
قوانین کے سلسلے میں حضرت بنوری قدس سرہ نے فرمایا کہ شریعت کی شوکت حدود شرعیہ سے قائم ہوتی ہے ، اس لئے حدود شرعیہ کے نفاذ کے لئے قوانین بنانے کو اولیت دی جائے۔اس پر سب کا اتفاق بھی ہوگیا۔ کونسل کے جو ارکان مروجہ قوانین کے ماہر تھے ، ان کی رائے یہ تھی کہ مروجہ قوانین کا ڈھانچہ برقرار رکھتے ہوئے اُن میں ایسی ترمیمات تجویز کردی جائیں ،جو ان قوانین کو شریعت کے مطابق بناسکیں، کیونکہ اس طرح وکلاء اور ججوں کو قوانین کی تشریح اور تنفیذمیں دشواری پیش نہیں آئے گی۔ میں نے اس تجویز کی مخالفت کی، اور عرض کیا کہ اسلامی قوانین اور مروجہ انگریزی قوانین کے درمیان بنیادی تصورات کا اختلاف ہے ، اس لئے موجودہ قوانین میں پیوند کاری کے عمل سے مقصود حاصل نہیں ہوگا ، بلکہ اس سے شدید غلط فہمیاں پیدا ہوںگی ، کیونکہ ان کا ڈھانچہ برقرار رکھنے کا مطلب یہ ہوگا کہ ابتک اُن قوانین کے تحت جو عدالتی فیصلے ہوئے ہیں ، وہ اسلامی ترمیمات کے بعد بھی بطور نظیر استعمال کئے جائیں۔ اس طرح اسلامی قوانین کے تصورات میں ایسا شدید خلط ملط واقع ہوگا جس سے شرعی احکام مسخ ہوکر رہ جائیں گے ۔لہٰذا میری حتمی رائے یہ تھی کہ شریعت کے بنیادی احکام کے لئے ازسرنو قانون سازی ضروری ہے، موجودہ قوانین میں ترمیم سے کام نہیں چلے گا۔اس موضوع پر کافی ردو قدح ہوتی رہی ۔آخرکار میں نے یہ محسوس کیا کہ اس بارے میں نظریاتی بحث کے بجائے عملی طورپر کوئی مسودہ تیار کرکے پیش کرنے سے صورت حال زیادہ واضح ہوسکے گی ۔چنانچہ میں نے عرض کیا کہ اگر آپ حضرات چاہیں تو میں ورکنگ پیپر کے طورپر ایک مسودہ تیار کرکے پیش کروں ۔ میں چونکہ پوری کونسل میں سب سے کمسن تھا ، (میری عمر اُس وقت شمسی حساب سے چونتیس سال تھی) اس لئے کسی نے اس پر نہ انکار کیا ، نہ بہت زیادہ ہمت افزائی کی۔لیکن حضرت بنوری قدس سرہ نے پہلے ہی مجھ سے فرمایا ہوا تھا کہ تمہیں کونسل میں تسوید کا اہم کردار ادا کرنا ہے ، اور خود مجھے ایک طرف یہ شوق تھا کہ اسلامی قوانین کی تسوید میں میرا قلم کام آئے ، اور دوسری طرف میرا تجربہ یہ ہے کہ اجتماعی کاموں میں زیادہ تر بات اُسکی چلتی ہے جس کے ہاتھ میں قلم ہو۔ اس لئے میں نے یہ کام اپنے ذمے لے لیا۔
لیکن ابھی کونسل کے دو اجلاس ہی ہوئے تھے کہ حضرت بنوری قدس سرہ پر،جن کی صحبت وسرپرستی میرا بہت بڑا سہارا تھی ، اچانک دل کا شدید حملہ ہوا اور آخرکار وہ دیکھتے ہی دیکھتے اپنے مالک حقیقی سے جاملے ۔ (حضرت کی وفات کا مفصل واقعہ اور اپنے تاثرات میں حضرت کے تذکرے میں لکھ چکا ہوں ) ؛(۱) اگرچہ میں حضرتؒ کے فرمانے پر کونسل میں آیا تھا ، اور مجھے یہ توقع تھی کہ قدم قدم پر حضرتؒ کی سرپرستی مجھے حاصل رہے گی، لیکن اس ذمہ داری کو قبول کرنے کے بعد اسے نبھانا بھی ضروری تھا ، اس لئے میں نے کام جاری رکھا ، اور اپنے وعدے کے مطابق میں نے حد سرقہ کے قانون کا ایک مسودہ تیار کیا ، اور اس کی نقلیں تمام ارکان میں تقسیم کردیں، تاکہ وہ اسے دیکھ کر آئیں۔اگلے دن (مؤرخہ۵ جنوری ۱۹۷۸ ء کو) میں نے اسے کونسل کے اجلاس میں پیش کردیا ۔کونسل کے ایک بزرگ ممبر نے (جو کسی نوعمرمولوی کے کام کو قانونی کاوش قرار دینا نہیں چاہتے تھے) یہ تبصرہ فرمایا کہ: "آپ کے اس کام سے ان شاء اللہ ہم فائدہ اٹھائیں گے ، لیکن معاف کیجئے اس کو مسودہْ قانون نہیں کہا جاسکتا”۔ میں نے عرض کیا کہ اس کو آپ مسودہْ قانون کہیں یا نہ کہیں ،میں پہلے ہی یہ عرض کرچکا ہوں کہ اسے ایک ورکنگ پیپرکے طورپر دیکھئے ، اور جہاں کسی ترمیم کی ضرورت محسوس ہو، وہاں ترمیم کرلیجئے۔یہ بات سنتے ہی کونسل کے چیئر مین جناب جسٹس افضل چیمہ صاحب نے (جو اس وقت سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج بھی تھے )فوراً مجھ سے کہا : "نہیں نہیں مولانا!میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں ۔ مجھے آپ کے مسودے کا مطالعہ کرکے بڑی خوشگوار حیرت ہوئی ہے۔ ایک تو اس وجہ سے کہ اس سے اسلامی فقہ کی جامعیت کا اندازہ ہوتا ہے ، اور دوسرے اس وجہ سے کہ آپ نے جس خالص قانونی اسلوب میں یہ مسودہ تیار کیا ہے ، اورجن قانونی باریکیوں کا لحاظ رکھا ہے ، اُس کی مجھے پہلے توقع نہیں تھی، اور اس سے ہمیں یہ امید بندھی ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ ہم اسلامی قوانین کو مدون کرنے میں کامیاب ہوجائیںگے ۔ ”
پھر انہوں نے دوسرے ارکان سے کہا کہ یہ یقیناً ایک مسودئہ قانون ہے ، اور ہماری گفتگو کے لئے ایک بنیاد فراہم کرتا ہے ، اس لئے اب ہم شق وار اس کو پڑھیں گے ، اور اس پر جو حضرات کوئی اعتراض یا تجویز دینا چاہیں ، بیشک وہ متعلقہ مقام پر اپنی تجویز پیش کردیں ۔ ”
اس طرح اس مسودے کی بنیاد پر کئی دن بحث ہوتی رہی ، اوربحث ومباحثہ کے نتیجے میں اس میں تبدیلیاں بھی ہوئیں ، لیکن آخر کار وہ کونسل کی طرف سے متفقہ طور پر منظور ہوگیا ، اور پھر کونسل کے چئیرمین اور ارکان نے مجھ سے فرمائش کی کہ دوسری حدود شرعیہ سے متعلق قوانین کے مسودات بھی میں تیار کروں۔ چنانچہ اس کے بعد حد حرابہ، حد زنا ، حد قذف اور حد شرب خمر کے بارے میں بھی ابتدائی مسودات میں نے تیار کئے ۔
آخرکار طویل بحث کے بعد وہ بھی منظور ہوئے۔الحمد للہ اس سارے کام میں حضرت مفتی سیّاح الدین کا کا خیل اور حضرت مفتی محمد حسین نعیمی رحمہما اللہ تعالیٰ نے جس محبت ، تندہی اور اخلاص کے ساتھ میری مددفرمائی، اور اپنے مشوروں سے نوازا ، اور جس طرح قدم قدم پر میری ہمت افزائی فرمائی ، وہ ان کی بڑائی کی دلیل تھی ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ انہیں بہترین جزائے خیر عطا فرمائیں ۔آمین
دوسرے مسودات کی تیاری میں توکوئی بڑا مسئلہ پیش نہیں آیا ، لیکن جب حد رجم کی بات آئی ، تو کونسل کے قانون داں ارکان کو بڑا تأمل تھا جن میں جناب خالد اسحق صاحب ، جناب جسٹس صلاح الدین صاحب اور خود جسٹس افضل چیمہ صاحب بھی داخل تھے ، اور مولانا ظفراحمد انصاری صاحب بھی مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی تدبر قرآن کی بنیادپر مترددتھے ۔ کونسل کے ارکان میں یہ بحث دیر تک چلتی رہی، اور شاید بعض ارکان کی خواہش پر سعودی عرب سے جناب ڈاکٹر معروف الدوالبی ( سابق وزیر اعظم شام )کو بلایا گیا جو اُس وقت سعودی عرب کے شاہی مشیر تھے ، اور عرب دنیا میں انہیں ایک محقق کے طورپر جانا جاتا تھا ۔ان کو دعوت دینے کا مقصد یہ بتایا گیا کہ قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لئے ان کے تجربے سے فائدہ اٹھایا جائے، اور اس میں عرب ممالک کی نمائندگی بھی ہوسکے ۔
انہوں نے اپنی طرف سے قوانین حدود کا مسودہ عربی زبان میں خود مرتب کرکے پیش کیا ، اور ان کی شخصی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے میرا مرتب کیا ہوا اردو مسودہ کچھ عرصے کے لئے پیچھے چلا گیا ،اور ان کے مسودے کو ورکنگ پیپر کے طورپر کونسل کے کئی اجلا سات میں بحث کے لئے منظور کرلیا گیا۔لیکن دشواری یہ پیش آئی کہ کونسل کے جو ارکان عربی سے ناواقف تھے ، ان کے لئے اُس پر بحث کرنا بہت مشکل ہورہا تھا ۔ لہٰذا آخر کار یہ طے پایا کہ اُسے میرے مسودے کے ساتھ ملاکر پڑھا جائے گا ۔ اس طرح رفتہ رفتہ بنیاد میرے مسودے ہی پر پڑگئی ۔جب حد رجم کا ذکر آیا تو انہوں نے یہ موقف اختیار فرمایا کہ رجم کو حد کے بجائے تعزیر کے طورپر اختیار کیا جائے ۔ڈاکٹر معروف دوالبی اگرچہ علم دین میں کوئی با قاعدہ اختصاص نہیں رکھتے تھے ، لیکن شام کے سابق وزیر اعظم اور اس وقت سعودی عرب کے شاہی مشیر ہونے کی حیثیت سے انہیں ایک مقام حاصل تھا ۔اس لئے کونسل کے جو حضرات پہلے سے حد رجم کے خلاف تھے ، انہیں ڈاکٹر معروف دوالبی کی صورت میں ایک سہارا مل گیا ۔چنانچہ اس موضوع پر کئی دن بحث جاری رہی۔میرے علاوہ کونسل کے علماء ارکان، خاص طورپر حضرت مولانا مفتی سیاح الدین کاکا خیل اور حضرت مولانا مفتی محمد حسین نعیمی رحمۃ اللہ علیہما نے اس بات پر زور دیا کہ جمہور امت کے خلاف اس رائے کو پاکستان کا قانون نہیں بنایا جاسکتا ۔ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب نے بھی اس کی تائید کی ۔جو حضرات اُسے حد کے طورپر تسلیم کرنا نہیں چاہتے تھے ، ان کی تائید میں ڈاکٹر معروف دوالبی نے ایک مرحلے پر یہ کہا کہ رجم کی حد کی حیثیت سورۂ نور کی پہلی آیت نے منسوخ کردی ہے ۔ مجھے چونکہ اندازہ تھا کہ یہ دلیل پیش کی جائے گی ، اس لئے میں اس کی تحقیق کرکے آیا تھا ۔چنانچہ اس بحث کے آخر میں میں نے تفصیلی گفتگو کی اجازت مانگی ، اور تین نکات پر زور دیا ۔ایک یہ کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں رجم کے جتنے واقعات ہوئے ہیں ، وہ سب کے سب سورۂ نور کی آیت کے نازل ہونے کے بعد کے ہیں ، کیونکہ سورۂ نور ۵؍ہجری میں نازل ہوئی ، اور رجم کا سب سے پہلا واقعہ یہودیوں کے رجم کا ہے جس میں حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود موجود تھے، اور وہ ۸ ھ ہجری میں اسلام لائے تھے ۔لہٰذا اس کو منسوخ قرار دینا کسی طرح درست نہیں ہے۔دوسرے یہ کہ رجم کی احادیث اخبار آحاد نہیں ،بلکہ معنیً متواتر ہیں ۔تیسرے اگر یہ حکم منسوخ ہوتا، تو حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما اپنے اپنے عہد خلافت میں رجم کی سزا پر عمل کرکے اُسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت قرار نہ دیتے ۔
ان تینوں باتوں کے دلائل کتابوں کے حوالوں کے ساتھ میں نے پیش کئے ۔آخر کار ارکان کی اکثریت نے ہمارے ساتھ اتفاق کیا ،اور حد رجم کو قانون کا حصہ بنانے کا فیصلہ ہوگیا ۔
اسی زمانے میں سعودی عرب کے مفتی ٔ اعظم حضرت شیخ عبدالعزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ کا ایک خط کونسل کے نام موصول ہوا جس میں انہوں نے اس بات پر تشویش کااظہار فرمایا تھا کہ ڈاکٹر معروف دوالبی نے رجم کو حد کے بجائے تعزیر قرار دینے کا موقف اختیار کیا ہے ۔ انہوں نے اپنے خط میں واضح فرمایا تھا کہ ڈاکٹر معروف دوالبی اپنی ذاتی حیثیت میں وہاں آئے ہیں ، اور وہ سعودی عرب کے علماء کی نمائندگی نہیں کرتے ۔ علماء کا واضح موقف یہی ہے کہ رجم حد شرعی ہے ، اور کونسل کو اسی کے مطابق قانون سازی کرنی چاہئے ۔اس خط نے کونسل میں ہمارے موقف کو بڑی تقویت پہنچائی ۔ افسوس ہے کہ وہ خط تو میرے پاس محفوظ نہیں رہا ، لیکن اُس کا جو جواب میں نے کونسل کی طرف سے بھیجا تھا ، وہ محفوظ ہے ۔اس کا متن یہ تھا :
اسلام آباد — فی — ربیع الأول ۱۳۹۹ھ
إلی سماحۃ العلامۃ المحقق الشیخ عبد العزیز ابن عبد اللہ بن باز، الرئیس العام لإدارات البحوث العلمیۃ والإفتاء والإرشاد، حفظہ اللہ تعالیٰ ورعاہ.
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، وبعد!
فقد استلمت بسرور کتابکم المؤرخ فی ۱۳؍۳؍ ۱۳۹۹ھ والذی احتوی علی تأییدکم لما ذہبت إلیہ أکثریۃ مجلس الفکر الإسلامی من "وجوب حد الزانی بالجلد مائۃ جلدۃ إذا کان غیر محصن ورجمہ إذا کان محصنا”.
ویسرّنی أن أفیدکم فی ہذا الصدد أن المشروع القانونی الّذی وصلکم لم یکن آخر ما شفع بہ المجلس، وإنما کان مشروعاً ابتدائیاً، ثم إننا قد وفّقنا لإعادۃ النظر فیہ وجعلہ أشمل وأوضح وأوفق بالقرآن والسّنّۃ، فالمشروع الأخیر الذی أرسلناہ إلی الحکومۃ، والذی وفّقت الحکومۃ بتنفیذہ قد بتّ فی حد الزنا علی ما ذہب إلیہ جمہور علماء المسلمین وعلی ما أیّدتموہ من رجم الزانی المحصن حدّاً لا تعزیراً، فالقانون الذی وفق اللہ سعادۃ الرئیس الجنرال ضیاء الحق لتنفیذہ یقوم علی أساس مذہب الجمہور من غیر أیّما خلاف والحمد للہ، وقد حتم المجلس بہذا الرأی خلال جلساتہ الأخیرہ.
أما المشروع الأول الذی تشرّف بمطالعتکم إیاہ، فکان بعض أعضاء المجلس قد اختاروا فیہ الرأی القائل بأنّ الرجم تعزیر، وقد أیدہ معالی الدکتور معروف الدوالیبی، لا لأنّہم ینکرون ثبوت الرجم بالسنۃ، وإنما فعلوا ذلک بالنظر إلی ظروف محلیۃ خاصۃ، وہی أنہ کانت ہناک دعایات قویۃ وعنیفۃ فی أوساط بعض المثقفین ثقافۃ علمانیۃ، والطلاب، والقضاۃ والمحامین وغیرہ ضد تطبیق أحکام الشریعۃ الإسلامیۃ، وخاصۃ فی أحکام الحدود الّتی وصفہا بعضہم بکلّ وقاحۃ بالأحکام الوحشیّۃ والرجعیۃ، وإن علماء ہذہ البلاد وقادۃ الفکر من أہل الدین قد قاوموا ہذہ الأفکار الباطلۃ بکل عزیمۃ. ولقد کان لمعالی الدکتور معروف الدوالیبی کبیر الفضل فی ہذا الصدد، فإنہ قد ساعدنا فی ہذہ المہمۃ مساعدۃ مشکورۃ، وتولی خلال أشہرٍ الحوار مع الفئات المختلفۃ بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ مع شرح محاسن الشریعۃ الاسلامیۃ بما فیہا الحدود بأسلوب علمیّ جذّاب.
غیر أن تلک الدعایات المسمومۃ ضد الشریعۃ الاسلامیۃ فی الخارج والداخل قد جعلت النّاس یخشون من أن یکون نصیب ہذہ القوانین مثل نصیبہا لدی الحکومتین اللیبیۃ والمصریۃ، حیث تراجعتا عن إعلان ہذہ القوانین بعد الانتہاء من صیاغتہا، وذلک تحت ضعط تلک الدعایات الخبیثۃ.
ففی ہذا الجوّ اقترح بعض أعضاء المجلس وأیدہم معالی الدکتور الدوالیبی بأن یبدی المجلس رأیین فی حق الرجم لیمکن للحکومۃ الأخذ بما ہو أسہل فی تلک الظروف.
وکان کل ذلک فی مبدأ الأمر، وأما الآن فقد انقشعت السّحب والحمد للہ، وقد استطاع سعادۃ الرئیس الجنرال ضیاء الحق بفضل اللہ تعالیٰ أن یتغلب علی العقبات، وأعلن بکل قوۃ وحزم تنفیذ الشریعۃ الإسلامیۃ، وخاصۃً الحدود منہا، علی أساس رجم المحصن حدّاً لا تعزیراً.
ولا بد لنا أن نشکر ہنا المملکۃ العربیۃ السعودیۃ الشقیقۃ التی بعثت إلینا معالی الدکتور معروف الدوالیبی، حفظہ اللہ فإننا قد استفدنا بعلمہ وتجار بہ وحکمتہ فی شتی مراحل صعبۃ، ونعترف بکل إجلال وتقدیر ذلک الجہد الذی بذلہ لمساعدتنا فی ہذہ المہمۃ الجلیلۃ.
ویجدر ہنا بالذکر أنّ معالی الدکتور الدوالیبی لم یقل قط إنہ یمثل علماء المملکۃ السعودیۃ، وإنما استفدنا من آراء ہ الشخصیۃ القیمۃ اعترافا بعلمہ.
وأخیرا نشکر فضیلتکم لما تفضلتم برأیکم الثمین، فإنّہ یدلّ علی اہتمامکم البالغ نحو المجلس ونحو باکستان بما یجعلنا مفتخرین بہ شاکرین للہ سبحانہ.
کما نشکر فضیلتکم لإرسال سماحۃ الشیخ عبد اللہ بن حسن عضو ہیئۃ کبار العلماء الذی یرافقنا فی المجلس منذ یومین ولا نزال نستفید من علمہ وعرفانہ، ونرجو فضیلتکم مساعدتنا فی مہمتنا التی تولیناہا بکل ما أمکن، وإرشادنا إلی الصواب فی المستقبل أیضا، ولفضیلتکم الشکر والمنۃ.
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ
ترجمہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم

از اسلام آباد ، ربیع الاول ۱۳۹۹ھ
گرامی ٔ قدر علامہ محقق الشیخ عبد العزیز ابن عبد اللہ بن باز، الرئیس العام لإدارات البحوث العلمیۃ والإفتاء والإرشاد، حفظہ اللہ تعالیٰ ورعاہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آنجناب کا گرامی نامہ مؤرخہ ۱۳؍۳؍ ۱۳۹۹ھ مسرت کے ساتھ موصول ہوا، جو اسلامی نظریاتی کونسل کے اکثریتی موقف کے حق میں آپ کی تائید پر بھی مشتمل ہے، یعنی یہ موقف کہ زانی غیر محصن پر سو کوڑے کی حد لازم ہے، اور محصن پر رجم کی۔
مجھے آنجناب کو اس سلسلے میں مطلع کرنے پر بھی مسرت ہے کہ قانون کاجو مسودہ آنجناب تک پہنچا ہے، وہ مجلس کی سفارشات کی آخری شکل نہیں ہے، بلکہ وہ ایک ابتدائی مسودہ ہے، جس کے بعد اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہم نے اس پر نظر ثانی کر کے اسے زیادہ جامع ،واضح اور قرآن وسنت سے زیادہ موافق بنایا، چنانچہ جو آخری مسودہ ہم نے حکومت کو بھیجا ہے ، اور جسے حکومت کو نافذ کرنے کی توفیق ہوئی، اُس میں حتمی طور پر حدِّ زنا کے سلسلے میں وہ موقف اختیار کیا گیا جو جمہور علماء کا ہے، اور جس کی تائید آپ نے بھی فرمائی، یعنی زانی محصن کو سنگسار کرنا بطور حد ہے ، تعزیر کے طور پر نہیں، غرضیکہ جس قانون کو نافذ کرنے کی اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے عالی جناب صدر جنرل ضیاء الحق صاحب کو توفیق عطا فرئی اس کی بنیاد بحمد للہ بغیر کسی ادنیٰ اختلاف کے جمہور کے مذہب پر ہے، کونسل نے اپنے آخری اجلاسات میں اسی کے مطابق حتمی موقف اختیار کیا۔
جہاں تک اُس پہلے مسودہ کا تعلق ہے جسے یہ شرف حاصل ہے کہ آپ کے مطالعے میں آیا ہے، اس مسودے میں کونسل کے بعض ارکان نے یہ رائے اختیار کی تھی کہ رجم ایک تعزیر ہے، اور اس موقف کی تائید ڈاکٹر معروف دوالیبی صاحب نے فرمائی، اس وجہ سے نہیں کہ یہ حضرات رجم کے ثبوت کو سنت سے نہیں مانتے ہیں، بلکہ انہوں نے یہ موقف کچھ خاص مقامی حالات کی بناء پر اختیار کیا ، یعنی یہ کہ احکام شریعت کے نفاذ کے خلاف زبردست اور شدید پروپیگنڈا بعض ان حضرات میں پایا جاتا ہے جن کی تربیت سیکولر ثقافت کے ساتھ ہوئی ہے، نیز طلبہ ، جج حضرات، وکلاء وغیرہ میں بھی پایا جاتا ہے؛اور خاص طور پر احکامِ حدود کے بارے میں ان میں سے بعض لوگوں نے بڑی بے شرمی کے ساتھ یہ کہا کہ وہ وحشی اور رجعت پسند قوانین ہیں۔ اس ملک کے علماء اور متدیّن فکری رہنماؤں نے ان باطل افکار کا بڑے حوصلے کے ساتھ مقابلہ کیا، اور عالی جناب ڈاکٹر معروف دوالیبی کا اس سلسلے میں بڑا اعلیٰ کردارہے، آپ نے ہماری اس مہم میں بڑی مدد فرمائی جس کے ہم ممنون ہیں، یہاں کچھ انہوںنے کچھ مہینوں تک مختلف گروہوں کے ساتھ حکمت اور موعظہ حسنہ، اور بیانِ محاسن شریعت بشمول احکام حدود کے ساتھ گفتگو کو اپنے ذمہ لیا تھا، اور یہ کام آپ نے ایک پُرکشش اور علمی اسلوب پرانجام دیا۔
البتہ شریعت کے خلاف ان اندرونی اور بیرونی زہریلے پروپیگنڈوں نے لوگوں کے اندر یہ اندیشہ پیدا کردیا کہ ان قوانین کے حصے میں وہ نتیجہ نہ آئے جو لیبیا اور مصر کی حکومتوں کے ان جیسے قوانین کے حصے میں آیا تھا کہ مدوّن کرنے کے بعد بھی ان حکومتوں نے ان کو نافذ کرنے کے اعلان سے اسی قسم کے ناپاک پروپیگینڈوں کے دباؤ میں آکر پسپائی اختیار کی۔
اسی ماحول میں کونسل کے بعض اعضاء نے یہ تجویز پیش کی ،اور عالی جناب ڈاکٹر دوالیبی صاحب نے ان کی تائید فرمائی، کہ کونسل حکومت کے سامنے رجم کے سلسلے میںدونوں رائے پیش کردے، تاکہ حکومت کے لئے اس رائے کو لینے کا امکان رہے جو موجودہ حالات میں زیادہ آسان ہو۔
یہ تمام تر صورتِ حال ابتداء کی تھی، اب توبحمد اللہ تمام بادل چھٹ گئے، اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے عالی جناب صدر جنرل ضیاء الحق صاحب تمام رکاوٹوں کو سر کرنے میں کامیاب ہوئے، اور آپ نے پوری قوت اور اعتماد کے ساتھ شریعت، اور خاص طور پر حدود کے نفاذ کا اعلان کیا، کہ رجمِ محصن حد ہے تعزیر نہیں۔
اس موقع پر برادر ملک” المملکۃ العربیۃ السعودیۃ” کا شکریہ ادا کرنا ضروری ہے جس نے عالی جناب ڈاکٹر معروف دوالیبی صاحب حفظہ اللہ تعالی ٰکو ہمارے پاس بھیجا، ہم نے ان کے علم ، تجربے اور حکمت سے بڑے کٹھن مراحل میں استفادہ کیا، اور ہم پورے احترام اور قدردانی کے ساتھ اس عظیم مہم میں ان کے تعاون کے معترف ہیں۔
یہاں یہ ذکر کرنا بھی مناسب ہے کہ عالی جناب ڈاکٹر دوالیبی صاحب نے کبھی بھی یہ نہیں فرمایا تھا کہ وہ المملکۃ السعودیۃ کے علماء کی نمائندگی فرمارہے ہیں، بلکہ ہم نے ان کی قیمتی ذاتی آراء سے ان کے علم کے معترف ہوکر استفادہ کیا۔
آخر میں ہم آنجناب کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ نے اپنی قیمتی رائے عنایت فرمائی، کیونکہ یہ کونسل اور پاکستان کے حق میں آپ کے بڑے اہتمام کی دلیل ہے، جو ہمارے لئے قابلِ فخر بھی ہے، اوراس پر ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا شکر بھی ادا کرتے ہیں۔
اسی طرح ہم آنجناب کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ نے الشیخ عبد اللہ بن حسن، رکن ہیئت کبار العلماء ، کو ہمارے پاس بھیجا، دو روز سے وہ کونسل میں ہماری رفاقت فرمارہے ہیں، اور ہم برابر ان کے علم وعرفان سے مستفید ہورہے ہیں، آنجناب سے امید کرتے ہیں کہ ہم جس مہم کو لے کے چلے ہیں، اس میں ہر ممکن تعاون سے ہماری مدد فرماتے رہیں گے، اور درست بات کی طرف مستقبل میں بھی ہماری رہنمائی فرماتے رہیں گے، آنجناب کے ہم شکر گزار اور احسان مند رہیں گے۔ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ۔

جاری ہے ….
٭٭٭
(ماہنامہ البلاغ :رمضان المبارک ۱۴۴۲ھ)