حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی

یادیں

(اٹھارہویں قسط )

دارالعلوم کی مسجد
دارالعلوم کے شرافی منتقل ہونے کے بعد درسگاہوں اور دارالاقامہ کی عمارتیں تو بن گئی تھیں ، لیکن کوئی باقاعدہ مسجد فوری طور سے نہیں بن سکی تھی ، اور شروع میں نمازیں ایک کنویں کے قریب بنے ہوے فرش پر ادا کی جاتی تھیں ۔پھر طلبہ زیادہ ہوئے تو شمالی درسگاہ کے ہال کمرے کو مصلے کے طور پر استعمال کیا گیا ۔ باقاعدہ مسجد کا سنگ بنیاد ۱۵؍ شعبان ۱۳۷۷ ؁ھ (مطابق ۷؍ مارچ ۱۹۵۸ ؁ ء) کو سالانہ جلسے کے وقت رکھا گیا تھا ۔ اس کی تعمیر رفتہ رفتہ جاری رہی، یہاں تک کہ ۶؍ ربیع الثانی ۱۳۷۸؁ھ کو اس کی چھت پڑنے کا کام ہونا تھا۔ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ چھت ڈالنے کا کام مزدوروں سے کرانے کے بجائے دارالعلوم ہی کے افراد انجام دیں ۔ چنانچہ اُس روز مدرسے کے تمام اساتذہ ، طلبہ اور منتظمین سارے دن چھت ڈالنے کے کام میں مصروف رہے ۔ ہمیں بھی یہ سعادت الحمد للہ حاصل ہوئی ۔ سالہا سال اسی مسجد میں جماعت ہوتی رہی ۔ پھر حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد یہ مسجد بھی تنگ پڑی ، تو اس میں توسیع کا بڑا منصوبہ برادر معظم حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب مد ظلہم کی نگرانی میں شروع ہوا ، اور اب الحمد للہ تعالیٰ تکمیل تک پہنچ گیا ہے ۔ سابق مسجد پوری کی پوری اس میں آگئی ہے ۔
دارالعلوم کی طرف سے طلبہ کو تقریر وتحریر کی مشق کرانے کے لئے مختلف اجتماعات منعقد ہوتے رہتے تھے۔ اس سال جمادی الثانیہ ۱۳۷۸؁ھ مطابق دسمبر ۱۹۵۸؁ء کو ایک تحریری مقابلہ منعقد ہوا جس میں تحصیل علم سے متعلق تین سوالات دئیے گئے تھے ۔ میں نے ” علم کے متعلق اسلام کی روش” کے موضوع پر مقالہ لکھا جو پہلے انعام کا مستحق قرار دیا گیا۔
بہرحال !اس طرح ہمارا یہ تعلیمی سال اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے بخیرو خوبی پورا ہوا، اور امتحان سالانہ میں بھی الحمدللہ اچھی کامیابی ہوئی ۔ لیکن اس امتحان کے ایک واقعے کا صدمہ بھی اب تک یاد ہے ۔ ہم نے امتحان کی بفضلہ تعالیٰ اچھی تیاری کی تھی ، اور توقع یہ تھی کہ ان شاء اللہ تعالی اچھے نمبر ملیں گے ، چنانچہ بیشتر کتابوں میں ایسا ہی ہوا ۔ لیکن شرح نخبۃ الفکر کا پرچہ حضرت مولانا اکبر علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس تھا جو سخت امتحان لینے اور کَس کر نمبر دینے میں مشہور تھے، اس لئے ڈر لگا ہوا تھا ۔چنانچہ جب پرچہ آیا تو ایک سوال دیکھ کر دماغ چکرا گیا ۔ وہ سوال بھی مجھے ا ب تک یاد ہے ۔ سوال میں شرح نخبۃ الفکر کی یہ عبارت درج تھی:
"فإن قیل: إنما اتفقوا علی وجوبِ العملِ بہ لا علی صحتہ، منعناہ۔”
اس عبارت کے تحت سوال یہ تھا کہ : "اس عبارت کی تشریح کیجئے ، اور سند منع بیان کیجئے ۔”
چونکہ عبارت اتنی ہی مذکور تھی ، اس لئے میں اپنی کم فہمی کی بنا پر سیاق وسباق کے بغیر عبارت کا مطلب سمجھنے سے قاصر رہا، نہ ” وجوب العمل بہ” کی ضمیر کامرجع سمجھ میں آیا ۔ نہ "منع” کا مطلب سمجھ سکا، ” سند منع” تو کیا سمجھتا ۔ لہٰذا نہ جانے کیا اوٹ پٹانگ جواب لکھ دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے اس پرچے میں حضرت مولانا اکبر علی صاحب قدس سرہ نے (شایددوسرے دو جوابوں کے پیش نظر) اکتالیس نمبر دئیے جو ادنیٰ درجے کے نمبر تھے ۔ مشکوۃ شریف میں اگرچہ میں نے اچھی محنت کی تھی ، مگر اُس میں بھی نمبر بہت کم آئے ، اور مجھے یاد نہیں ہے کہ کسی اور کتاب کے امتحان میں کبھی مجھے اتنے کم نمبر ملے ہوں۔ اس کا صدمہ بہت ہوا ، اور اسی صدمے کی یہ ” برکت” ہے کہ مجھے آج چھپن سال گذرنے کے بعد بھی یہ سوال یاد ہے ۔
اس سال میرے امتحان سالانہ کا نتیجہ یہ رہا:
مشکوۃ شریف:۴۱، نخبۃ الفکر:۴۱، شرح عقائد: ۵۰، جلالین شریف:۵۰، الفوزالکبیر:۴۹ ، حصون حمیدیہ:۴۹۔ میں نے اپنی ڈائری میں جہاں یہ نتیجہ درج کیا ہے ، وہاں یہ نوٹ لکھا ہے کہ ": مشکوۃ اور نخبۃ الفکر کا امتحان مولانا اکبرعلی صاحب نے لیا تھا۔ ”
میری پہلی فقہی تحریر
تعلیمی سال ختم ہونے پر ہم شعبان اوررمضان کی چھٹیاں گذارنے کے لئے گھر آگئے۔ حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ کے پاس رمضان میں تہجد کی جماعت کے بارے میں ایک مفصل استفتاء آیا ہواتھا۔حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ نے مجھ سے فرمایا کہ اس مسئلے کے بارے میں فقہ کی کتابوں سے حوالے اکٹھے کرلو، تاکہ مجھے جواب لکھنے میں آسانی ہوجائے، اور تمہیں کتابوں سے مراجعت کی مشق ہو۔ مجھے بھی اپنا شوق پورا کرنے کا موقع مل گیا۔ چنانچہ حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ کے ذاتی کتب خانے میں جتنی فقہ کی کتابیں میسر آئیں، میں نے ان میں اس مسئلے کا مواد اکٹھا کرکے کتابوں کا ایک ڈھیر نشان لگا لگاکر اپنے سرہانے جمع کرلیا۔حضرت والد صاحبؒ نے ، وہ ڈھیر دیکھا تو بہت خوش ہوئے ،اور فرمایا کہ تم نے میرے مزاج والا کام کیا ہے کہ اتنی کتابیں جمع کرلیں۔اس پر مجھے حوصلہ ہوا تو میں نے عرض کیا کہ اگر آپ اجازت دیں تو ان حوالوں سے جو بات سمجھ میں آرہی ہے، وہ میں قلم بند کرکے آپ کو پیش کردوں؟ حضرت والد صاحبؒ نے اجازت دیدی تو میں نے ایک مفصل تحریر لکھی، اور حضرت والد صاحب قدس سرہ کی خدمت میں پیش کردی۔ حضرتؒ اُسے دیکھ کر کِھل اٹھے، اور بہت دعائیں دیں۔اور پھر خط کے جواب ( مؤرخہ ۴؍ شوال ۱۳۷۸ ؁ ھ ) میں مکتوب نگار کو شروع میں یہ تحریر فرمایا :
"اپنے چھوٹے لڑکے محمد تقی سلمہ کو جو اس سال دورۂ حدیث میں شریک ہونے والا ہے ، یہ مسئلہ حوالے کیا، خیال یہ تھا کہ کہ اس کو مشق ہوگی، اور کتابوں کے حوالے یہ نکال کر پیش کردے گا ، تو پھر میں کچھ لکھوں گا ، مگر ماشاء اللہ یہ لڑکا ذہین ہے ، اس لئے تمام کتابوں کے حوالے بھی بغیر میری کسی امداد کے نکالے ، پھر ان کے اقتباسات لیکر خود ہی ایک تحریر لکھ دی۔ اب جو تحریر دیکھی تو میری نظر میں بالکل کافی وافی تھی ، اس لئے اسی پر تصدیق لکھ دی ، وہ بھیج رہا ہوں ۔”
اور فتویٰ کے آخر میں یہ عبارت تحریر فرمائی:
"للہ درّ المجیب، حیثُ أصاب فیما أجاب ، وأجاد فیما أفاد ، مع ملاحظۃ أدب الأکابر، وفقہ اللہ تعالی لما یُحبّ ویرضی ”
یہ میری پہلی علمی تحریر تھی جو بعد میں سلہٹ کے جناب مجدالدین صاحب مرحوم نے” جماعت تہجد دررمضان” کے نام سے رسالے کی شکل میں بھی شائع کی۔یہ میری عمرکا پندرہواں سال تھا، اور عید کے بعد ہمارا دورۂ حدیث شروع ہوگیا۔
دورۂ حدیث کا سال
اس سال (شوال ۱۳۷۸؁ ھ مطابق اپریل ۱۹۵۹ ؁ ء) ہمارا بخاری شریف کا درس حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ کے پاس تھا، ترمذی شریف کاحضرت مولانا سلیم اﷲخان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ،صحیح مسلم کاحضرت مولانااکبر علی صاحب رحمۃ اﷲعلیہ کے پاس، ابوداود شروع میں حضرت مولانا محمد حقیق صاحب رحمۃ اﷲعلیہ کے پاس تھی، اور بعد میں حضرت مولانا قاری رعایت اﷲصاحب رحمۃ اﷲ علیہ کے پاس منتقل ہوگئی، اور بیشتر حصہ ہم نے انہی سے پڑھا۔ سنن نسائی اور موطأ امام محمد حضرت مولانا سحبان محمود صاحب رحمۃ اﷲعلیہ کے پاس، سنن ابن ماجہ حضرت مولانا محمد حقیق صاحبؒ کے پاس اور موطأامام مالک اور شمائل ترمذی حضرت والد صاحب قدس سرہ کے پاس ہوئیں۔حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ اُس وقت شہر میں رہتے تھے، اور ہفتے میں ایک یا دو مرتبہ دارالعلوم تشریف لاتے ، اور اُنہی دنوں میں یہ اسباق پڑھاتے تھے۔
پڑھائی میں انہماک
دورۂ حدیث کا سال ایک طالب علم کی زندگی کا بڑا یادگار سال ہوتا ہے۔ اس سال میں انسان ہر دوسرے موضوع سے الگ ہوکر صرف اور صرف حضور رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کی احادیث پر اپنی توجہ مرکوز رکھتا ہے، اور صبح سے لیکر شام تک ایک ہی دھن ہوتی ہے، ہر گھنٹے میں احادیث ہی احادیث کا درس ہورہا ہوتا ہے۔اور مجھے حضرت مجذوب صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کا یہ شعر یاد آیا کرتا تھا کہ:
اُن کا ذکر، اُن کی تمنا ، اُن کی یاد
وقت کتنا قیمتی ہے آج کل
حضرت مفتی رشید احمد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ کے فیض صحبت سے کتابوں کا شوق تو پچھلے سال ہی سے پیدا ہوگیا تھا۔دورۂ حدیث کا سال شروع ہوا، تو دل میں خواہش یہ تھی کہ ہر سبق اچھی طرح مطالعہ کرکے پڑھا جائے ۔ چنانچہ ہم چند کتابیں تو حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کے ذاتی کتب خانے سے لے آئے تھے۔ ایک صحیح مسلم کی شرح فتح الملہم، اور دوسرے ترمذی شریف کی ایک نامکمل شرح "الطیب الشذی "جوحضرت مولانا اشفاق احمد صاحب کاندھلوی رحمۃ اﷲ علیہ کی لکھی ہوئی تھی، اوربڑے سائز میں قدیم زمانے کے ٹائپ پر چھپی ہوئی تھی۔ اُس وقت تک حضرت بنوری رحمۃ اﷲ علیہ کی شرح "معارف السنن "چھپی نہیں تھی، اس لئے اُس وقت کے لحاظ سے یہ ترمذی کی بہترین شرح تھی، لیکن صرف کتاب الطہارۃ تک پہنچی تھی۔نیز ” العرف الشذی” اور” الکوکب الدّری” بھی حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ نے عطا فرمادی تھی۔ اس کے علاوہ حضرت والد ماجد قدس سرہ نے حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیری رحمۃ اﷲعلیہ کی جو تقریر ترمذی خود ضبط فرمائی تھی ،وہ بھی موجود تھی، اور حضرت والد ماجد قدس سرہ نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت مولانا ظہور احمد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ سے اُسے پورانقل کرواکر اُس کے حاشیے پر” الکوکب الدّری” اور ” العرف الشّذیّ ” سے بہت سے اضافے بھی شامل کروالئے تھے، اور وہ ایک ضخیم جلد میں مجلد کرواکر رکھی ہوئی تھی۔وہ بھی حضرت والد صاحب قدس سرہ نے ہمیں عطا فرمادی تھی۔لہٰذا ترمذی شریف کے مطالعے کے لئے ہمارے پاس عمدہ مواد موجود تھا۔
اس کے علاوہ بخاری شریف کے مطالعے کے لئے شروع میں” عمدۃ القاری” اور ” فتح الباری” کا جتنا مطالعہ کرنا ممکن ہوتا، اُس کا بھی مطالعہ کرنے کو دل چاہتا تھا۔ یہ دونوں کتابیں اپنے پاس موجود نہ تھیں، اس لئے ان کے مطالعے کے لئے دارالعلوم کے کتب خانے میں جانا پڑتا تھا ۔کتب خانہ اُس وقت اُس بوسیدہ عمارت میں تھا جو پرانا بنگلہ کہلاتی تھی ۔ یہ وہی بنگلہ تھا جو زمین وقف کرنے والے حاجی ابراہیم دادا بھائی صاحب مرحوم نے زمین کے ساتھ ہی دارالعلوم کو دیا تھا ۔ اس کی مشرقی جانب میں دومنزلہ رہائشی عمارت تھی ، اور پھر ایک صحن چھوڑکر مغربی سمت میں ایک لمبی سی عمارت تھی جس کے ایک حصے کو دفتر اہتمام بنالیا گیا تھا۔ دفتر اہتمام کیا تھا؟ ایک لمبی سی دری بچھاکر اُس کے ایک جانب ایک زمینی ڈیسک رکھدیا گیا تھا، اور ایک گاؤ تکیہ۔ اسی لمبی سی عمارت کے دوسرے حصے کو کتب خانہ بنادیا گیا تھا جس میں لکڑی کی بہت سی بے ہنگم الماریاں انمل بے جوڑ رکھی ہوئی تھیں جن میں موضوعات کے لحاظ سے کتابیں رکھی رہتی تھیں۔ حضرت مولانا عبد الحفی صاحب سہارن پوری رحمۃ اﷲعلیہ ناظم کتب خانہ تھے، اور اپنی سخت گیری میں مشہور۔لیکن وہ ہماری کتب بینی کے شوق کو دیکھ کر ہم پر بہت مہربان ہوگئے تھے ۔چنانچہ چوتھے گھنٹے میں ترمذی شریف کا سبق پڑھنے کے بعد ہم وہاں چلے جاتے ۔ "عمدۃ القاری” اور "فتح الباری” کا حسب توفیق مطالعہ کرتے، اور اسی دوران دوسری کتابوں سے بھی شناسائی حاصل کرتے۔ایک آدھ مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ کسی کتاب کے مطالعے میں محویت کے دوران ہی کتب خانہ بند ہونے کا وقت آگیا ، تو میں نے مولانا ؒ سے درخواست کی کہ آج ظہر تک مجھے یہیں رہنے دیں، اور آپ کھانے کے لئے تشریف لے جائیں ۔چنانچہ اُنہوں نے کرم فرمایا، اور اس کی اجازت دیدی۔
صحیح بخاری میں حضرت مفتی رشید احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ رواں تقریر فرمایا کرتے تھے ، اور میں اُسے اردو ہی میں ضبط کرتا تھا ۔اس کی کاپی ابھی تک میرے پاس محفوظ ہے ۔اس کے برعکس حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ جامع ترمذی کے درس میں اپنی تقریر املاء کرایا کرتے تھے ، اور چونکہ املاء کرانے میں کچھ وقفہ مل جاتا تھا ، اس لئے ان کی تقریر میں عربی میں ضبط کرتا تھا ، اور حقیقت یہ ہے کہ حضرتؒ کی یہ تقریر اتنی منضبط ہوتی تھی کہ اُس سے مسئلے کے تمام پہلو بڑے حسن ترتیب کے ساتھ یکجا ہوجاتے تھے ، اور جو باتیں شروح میں منتشر ملتی ہیں، وہ یہاں نہایت منطقی ترتیب کے ساتھ چھنے چھنائے انداز میں مہیا ہوجاتی تھیں ۔ ان دونوں تقریروں کے مسودات میرے پاس اب بھی محفوظ ہیں ۔
اس طرح طالب علمی میں جو لطف اور انہماک تھا، اُس کی وجہ سے اپنے تن بدن کا بھی ہوش نہیں رہتا تھا۔ ہم اُس وقت دارالعلوم میں نقل وحرکت کے لئے کھڑاویں استعمال کرتے تھے، اب تو شاید کھڑاؤں کا مطلب سمجھنے والے بھی کم رہ گئے ہوں ۔یہ ایک لکڑی کی چپل ہوتی تھی جس کے اوپر کے حصے میں ربر لگی ہوتی تھی، اور اُسی ربر کے نیچے پاؤں داخل کرکے اُسے پہنا جاتا تھا ۔اگر کسی پکے فرش پر کھڑاؤں پہن کر چلیں تو کھٹ کھٹ کی آواز دور تک جاتی تھی ۔ عام طور سے کھڑاویں غسل خانے میں وضو کے لئے استعمال ہوتی تھیں، لیکن ہم نے انہیں مستقل جوتے کے طورپر استعمال کیا ہوا تھا ۔ جب ہم جمعرات کو گھر جاتے، تو ایک جوڑا جمعہ کو پہن کر آجاتے، اور ایک جوڑا ساتھ لاتے، اور وہ پیر یا منگل کو بدلا جاتا تھا۔رات کو دیر تک تکرار ، مطالعے اور بعض اوقات سبق دیر تک ہونے کی وجہ سے نیند کم ہوتی تھی، اور صبح ہی سے اسباق کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا، لیکن اگر کسی وقت کسی استاد کے آنے میں دیر ہوتی، تو تھوڑی دیر کے لئے برآمدے کے ایک کونے میں لیٹنے کا موقع مل جاتا تھا ۔چنانچہ ہم ننگے فرش ہی پر کچھ دیر سستا لیا کرتے تھے۔
حضرت مفتی رشید احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ہمیں فتویٰ کی تربیت کے طورپر فقہی مسائل نکالنے کی جو مشق پچھلے سال سے شروع کرا رکھی تھی ، وہ اس سال بھی جاری رہی ۔اس کے علاوہ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی کبھی کبھی کوئی تحریری کام دیدیا کرتے تھے۔ اُس وقت حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ امداد الفتاویٰ کا نیا تصحیح شدہ اڈیشن شائع فرمارہے تھے، آپ نے فرمایا کہ اس کے شروع میں صاحب فتاویٰ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مختصر حالات زندگی بھی ہونے چاہییں، چنانچہ آپ نے مجھے حکم دیا کہ تم حضرتؒ کے حالات پر ایک مختصر مضمون لکھ دو۔ اُس وقت میری دورۂ حدیث کی تعلیم شروع ہی ہوئی تھی۔ میں نے "اشرف السوانح” اور منشی عبدالرحمن صاحب مرحوم کی کتاب "سیرت اشرف” سامنے رکھ کر ایک مختصر مضمون لکھا جو شاید میرا کسی کتاب میں طبع ہونے والا پہلا مضمون تھا ۔ یہ اب بھی امداد الفتاویٰ کے شروع میں چھپا ہوا ہے ، اور اس کے آخرمیں محرم ۱۳۷۹ ؁ ھ (جولائی ۱۹۵۹ ؁ ء)کی تاریخ درج ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ امتحان سہ ماہی سے پہلے پہلے ہی میں یہ مضمون لکھ چکا تھا ، اور میری عمر اُس وقت سولہ سال تین ماہ تھی، بلکہ شمسی حساب سے سولہ سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے۔یہ بات اس لئے لکھ رہا ہوں کہ اگر اُس مضمون میں ناپختگی نظر آئے ، تو اس کی وجہ بھی معلوم ہوجائے ۔
اُس سال سہ ماہی امتحان آیا،تو اُس میں مجھے یہ اعزاز حاصل ہوا کہ صحیح بخاری اور جامع ترمذی میں میں جماعت میں اول رہا ، اور بخاری شریف میں مجھے ۵۴ نمبر ملے، جو اس سے پہلے کبھی کسی کو نہیں ملے تھے، اور جامع ترمذی اور شمائل وموطأ میں بھی ۵۲ نمبر رہے ۔ششماہی امتحان میں بھی میں جامع ترمذی کے امتحان میں اول رہا ، اور سوائے سنن ابی داود کے ، جس میں میرے نمبر ۴۷ تھے ، کسی بھی کتاب میں پچاس سے کم نمبر نہیں تھے ، بلکہ بخاری میں ۵۲، طحاوی میں ۵۱ اور باقی سب کتابوں میں ۵۰ نمبر تھے۔
دورۂ حدیث کے سال میں عموماً ششماہی کے بعد رات کو بھی سبق ہوتے ہیں ۔اُس وقت ہماری دورۂ حدیث کی جماعت تقریباً تیس افرادپر مشتمل تھی ۔چنانچہ رات کو ایک ہنڈے کی روشنی میں عشاء کے بعد حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ پرانے بنگلے کے قریب دودرختوں کے نیچے صحیح بخاری کا درس دیا کرتے تھے۔ یہ نیم اور املی کے درخت تھے، جو اوپر جاکر یکجان ہوگئے تھے ، اور ابھی تک زندہ ہیں۔میں جب ان کے نیچے سے گذرتا ہوں تو اس درس کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔
خاص طورپر صحیح بخاری میں آخرسال کے دروس ایسے ہوتے ہیں کہ اکثر احادیث پہلے گذری ہوئی ہوتی ہیں اور استاذ ان پر تقریر کرچکے ہوتے ہیں، اس لئے صرف عبارت پڑھ لینا کافی ہوتا ہے ۔اس لئے درس بہت تیز چلتا ہے، اور عبارت پڑھنے کے لئے صرف ان منتحب طلبہ کو اجازت دی جاتی ہے جو عبارت تیز بھی پڑھ سکیں، اور صحیح بھی ۔چنانچہ ہماری جماعت میں چار طلبہ کو استاذ نے عبارت پڑھنے کے لئے مقرر فرمایاہوا تھا۔دو تو ہم دو بھائی تھے، تیسرے مولانا محمد امین کوئٹوی صاحب اور چوتھے مولانا محمد ایرانی ۔ جب استاذ محسوس فرماتے کہ ایک طالب علم پڑھتے پڑھتے پڑھتے سست پڑ گیا ہے، تو فرماتے: ” چلو اب ڈرائیور بدل دیتے ہیں” اور پھر ہم میں سے کسی کا نام لے کر فرماتے کہ” اب تم پڑھو”۔ اس طرح یہ سبق رات گئے تک جاری رہتا تھا ۔
پہلے عرض کرچکا ہوں کہ حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ جامع ترمذی کے درس میں اپنی تقریر املاء کرایا کرتے تھے ، لیکن ظاہر ہے کہ حضرت استاذکو املاء کرانے میں وقت لگتا تھا۔ اس لئے درس کی رفتار کم رہتی تھی ۔ یہاں تک کہ آخر سال تک کتاب ارکان اربعہ تک ہی ہو پائی تھی ۔دوسری طرف ترمذی جلد ثانی حضرت نے املاء کے بغیر شروع کرارکھی تھی، جس کی مقدار نسبۃً زیادہ ہوگئی تھی۔ لیکن جب سال ختم ہونے میں بہت کم وقت رہ گیا، تو حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اب بیشتر احادیث ایسی ہیں جو صحیح بخاری یا صحیح مسلم یا ابوداود وغیرہ میں گذرچکی ہیں، اس لئے باقی کتاب روایۃًپڑھ لینا بھی کافی ہوگا۔ اس کے لئے حضرت نے اضافی وقت دیکر کتاب مکمل کرانی شروع فرمائی ۔یہاں تک کہ جب تقریباً سو صفحات باقی رہ گئے ہوں گے، تو حضرت نے ایک پوری رات سبق پڑھایا ۔اس کے لئے درسگاہ ہی میں اسٹوو منگواکر وقفے وقفے سے چائے بنانے اور پلا نے کا سلسلہ بھی جاری رہا، یہاں تک کہ شاید ایک یا دو راتوں میں کتاب مکمل ہوگئی ۔
اسی زمانے میں نہ جانے کس دھن میں اپنے درس کے ساتھیوں سے خطاب کرتے ہوے میں نے کچھ شعر بھی کہدئیے تھے :
بہت ہی سخت آگے گردش ایام ہے ، پی لو!
غنیمت ہے کہ گردش میں ابھی تک جام ہے ، پی لو
تمہیں تصویر ہستی میں وفا کا رنگ بھرنا ہے
جفا وجور کی ظلمت جہاں میں عام ہے ، پی لو!
تمہیں طاغوت کی بے رحم طغیانی سے لڑنا ہے
بہت سا کام ہے ، پی لو ، بہت سا کام ہے ، پی لو !
سخاوت جام ومینا کی بڑی نعمت ہے دیوانو!
یہ ساقی کی توجہ بھی بڑا انعام ہے ، پی لو!
یہاں ایک بات واضح کردینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے، اور وہ یہ کہ ہمارے مدارس میں دورۂ حدیث جس طرح پڑھایا جاتا ہے ، اُسے دیکھ کر ہمارے زمانے کے ماہرین تعلیم کے دل میں شاید یہ اعتراض پیدا ہو کہ اس طرح اتنی ساری کتابوں کو اول سے آخر تک پڑھنے کا کیا فائدہ ہے؟ جبکہ ان سب کتابوں میں ایک ہی طرح کی احادیث بار بار آتی رہتی ہیں ۔بہت سی احادیث پر کئی کئی استاذ بحث کرتے ہیں، اور آخر سال میں عموماً تلاوت پر ہی اکتفا کرلیا جاتا ہے ۔ اس کے برعکس یونی ورسٹیوں کے طریقے پر اگر کتابوں کے خلاصے تیار کرکے پڑھائے جائیں ، تو نہ اتنی محنت کرنی پڑے ، اور نہ پوری کتاب کی تلاوت کی ضرورت پیش آئے ۔
اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ حدیث پڑھانے کے دو مقصود ہوتے ہیں ، اور ان میں سے کسی بھی مقصد کو غیر اہم نہیں کہا جاسکتا ۔ ایک یہ کہ احادیث کے متعلقہ مضامین ومباحث طالب علم کے سامنے آجائیں ، اور اُسے احادیث کو سمجھنے اور ان سے نتائج کے استنباط کا سلیقہ بھی آئے ، اور احادیث کی جرح وتعدیل سے بھی مناسبت پیدا ہو، جسے دوسرے الفاظ میں”درایۃ الحدیث”کہہ سکتے ہیں۔ لیکن دوسرا مقصد "روایۃ الحدیث” ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ امہات کتب کی احادیث طالب علم کو براہ راست استاذ کے سامنے پڑھنے کا موقع ملے ، تاکہ ان تمام احادیث میں وہ خودسند حدیث کاایک حصہ بن جائے۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ نے احادیث کی حفاظت کے لئے اسناد حدیث کا وہ سلسلہ جاری فرمایا ہے جس کی کوئی نظیر دنیا کے کسی علم وفن میں موجود نہیں ہے ۔ اسی اسناد کی بدولت آج ہم ہرحدیث کے بارے میں پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ فلاں حدیث کو کس کس نے روایت کیا ہے، اور روایت کرنے والے کس حد تک قابل اعتماد ہیں ۔ چنانچہ سلف صالحین کے وقت سے یہ طریقہ چلا آتا ہے، کہ استاذ جو حدیث کسی کو پڑھا تاہے ، وہ اُس حدیث کے بارے میں اپنی سند بیان کرتا ہے کہ وہ اُسے کس سند سے پہنچی ہے۔ شاگرد کے استاذ کے سامنے بیٹھ کر حدیث پڑھنے کا یہ سلسلہ صحابۂ کرام ؓ کے وقت سے چلا آتا ہے اور ہمارے اکابر نے کتابوں کے طبع ہوکر شائع ہونے کے بعد بھی اس کو اس لئے جاری رکھا ہے کہ اس طرح حدیث کی اسناد کا ایک حصہ بن جانا بذات خود ایک سعادت ہے۔ اس سعادت کے حصول کے لئے احادیث کا استاذ کے سامنے صرف پڑھ لینا بھی کافی ہے کہ اس کے ذریعے انسان کا رشتہ اُس سلسلۃ الذہب سے قائم ہوجاتا ہے جو سلف صالحین سے گذرتی ہوئی سرکار رسالت مآب صلی اﷲعلیہ وسلم تک پہنچتی ہے۔ اس کی برکتیں خلاصوں کا مطالعہ کرنے سے حاصل نہیں ہوسکتیں۔ برصغیر کے علاوہ عالم اسلام میں چونکہ ٹھیٹھ دینی مدارس ناپید ہوگئے ہیں، اس لئے وہاں درسگاہوں کی سطح پر یہ طریقہ متروک ہوچکا ہے ۔ البتہ انفرادی سطح پر کہیں کہیں بعض مشائخ اس طرح کتب احادیث اب بھی روایۃً پڑھاتے ہیں، اور شوقین لوگ اپنے طورپر یہ سعادت حاصل کرلیتے ہیں۔لیکن بفضلہ تعالیٰ برصغیر کے مدارس میں یہ طریقہ اب تک جاری ہے۔
بہرحال! اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے دورہ ٔحدیث کا سال پورا ہوا ۔ اور جمعرات ۷ رجب ۱۳۷۹ ؁ ھ مطابق تقریباً ۴ جنوری ۱۹۶۰ ؁ء کو حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بخاری شریف کے آخری باب کا درس دیکر اُ س کی تکمیل فرمائی(۱)۔ اور شعبان ۱۳۷۹؁ھ مطابق فروری ۱۹۶۰ ؁ ء میں امتحان کا وقت آگیا۔اُس وقت میری عمر کا چاند کے حساب سے سترھواں سال پورا ہونے میں دومہینے باقی تھے ، اور شمسی اعتبار سے آٹھ مہینے ۔اُس وقت تک دارالعلوم کراچی وفاق المدارس العربیہ کے ساتھ ملحق نہیں تھا، وفاق کا اُس وقت تک وہ مقام بھی نہیں تھا جو اﷲتعالیٰ کے فضل وکرم سے آج اس کو حاصل ہے، اور حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ نے اُس وقت کے حالات کے مطابق متعدد وجوہ کی بناپر وفاق سے علیحدہ رہنے ہی کو پسند فرمایا تھا۔چنانچہ دارالعلوم کے تمام امتحانات اپنے مدرسے ہی کی سطح پر ہوتے تھے۔ البتہ بعض حضرات اساتذہ کی خواہش تھی کہ دارالعلوم بھی وفاق میں شامل ہوجائے، اور اس کے لئے حضرت والد صاحب قدس سرہ کو وفاق سے الحاق جن اسباب کی وجہ سے ناپسندتھا، انہیں دور کرنے کے لئے مختلف تجاویز بھی سامنے آتی رہتی تھیں۔
دوسری طرف اﷲتعالیٰ کا خاص فضل وکرم تھا کہ ہم دونوں بھائیوں کو اپنے اساتذۂ کرام کی بھر پور شفقت حاصل تھی، اور وہ سب حضرات ہمارے بارے میں حسن ظن بھی رکھتے تھے ۔ہم تمام امتحانات میں اپنا پرچہ عربی میں لکھا کرتے تھے جسے اساتذۂ کرام عموماً پسند فرماتے تھے۔ اس لئے حضرت مولانا سلیم اﷲخان صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک موقع پر اساتذہ کی محفل میں یہ فرمایا کہ اگر وفاق سے دارالعلوم کو ملحق کرنا ہے، تو اسی سال کرنا بہتر ہوگا، کیونکہ اگر اس سال دارالعلوم کا سالانہ امتحان وفاق کے تحت ہوا ، تو ان شاء اﷲتعالیٰ تقی کو پورے وفاق میں پہلی پوزیشن حاصل ہونے کی امید ہے، اور اس طرح وفاق سے الحاق کے پہلے ہی سال دارالعلوم کووفاق میں پہلی پوزیشن حاصل ہو سکتی ہے ۔
وفاق سے تو اُس سال بھی الحاق نہ ہوسکا لیکن جب دارالعلوم ہی کی سطح پر امتحانات ہوئے ، تو اﷲتعالیٰ کے فضل وکرم سے ہمارے جوابات پر اساتذۂ کرام نے بڑی حوصلہ افزائی فرمائی۔ اُس وقت تک دارالعلوم کراچی میں دارالعلوم دیوبند کے قدیم طریقے پر ہر پرچے کے کل نمبر پچاس ہوتے تھے، لیکن اگر کسی طالب علم کا پرچہ بہت اچھا ہوتا، تو ممتحن پچاس سے اوپر بھی انعامی نمبر دیدیتا تھا ۔عام طورپر ایسے پرچوں کو اکیاون نمبر دئیے جاتے تھے اور اگر بہت غیر معمولی طورپر پرچہ اچھا ہو، تو باون، اور شاذ ونادر حالات میں تریپن نمبر بھی دیدئے جاتے تھے ۔ میرے دورۂ حدیث کے امتحان میں یہ ریکارڈ صورت حال پیش آئی کہ حضرت مولانا اکبر علی صاحب رحمۃ اﷲعلیہ امتحانی پرچوں پر نمبر لگانے میں انتہائی سخت گیر مشہور تھے ، اور ان کی سخت گیری کا ایک مظاہرہ خود میرے ساتھ ہوا تھا جس کا تذکرہ میں پچھلے سالانہ امتحان کے ذیل میں کرچکا ہوں کہ انہوں نے پچھلے سال شرح نخبۃ الفکر کے پرچے میں مجھے اکتالیس نمبر دئیے تھے، جو اُس وقت کے لحاظ سے ادنیٰ درجے کے نمبر سمجھے جاتے تھے، اور مجھے اُس کا بہت صدمہ ہوا تھا ۔ اس مرتبہ سنن نسائی کا پرچہ ان کے پاس تھا ، اور انہوں نے اُس پرچے پر مجھے پچپن نمبر دئیے ، (جو دارالعلوم کے امتحانات کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے جو کبھی ٹوٹ نہیں سکا) اور پرچے پر کوئی تعریفی نوٹ بھی لکھا تھا ۔افسوس ہے کہ مجھے خود حضرتؒ کی یہ تحریر دیکھنے کا موقع نہیں ملا ،کیونکہ طلبہ کو جوابی پرچے دکھائے نہیں جاتے تھے ، لیکن حضرت مولانا ؒنے حضرت والد صاحبؒ اور حضرت ناظم صاحب (رحمۃ اﷲعلیہم)سے غالباً یہ بیان فرمایا تھا کہ میں نے اپنی تدریسی زندگی میں ایسا پرچہ نہیں دیکھا۔ دوسری طرف ہمارے نتائج تو بعدمیں ہمیں معلوم ہوئے، لیکن حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب ؒجب میرا پرچہ دیکھ رہے تھے، تو انہوں نے اُسی وقت حضرت والد صاحب ؒ کو مبارکباد کا فون کیا ، اور مجھے چون نمبر دئیے۔ میرا جو نتیجہ اُس وقت شائع ہوا ، وہ یہ تھا :
بخاری شریف:۵۴، مسلم شریف : ۵۲، ابوداود شریف:۵۲، نسائی شریف: ۵۵، ترمذی شریف: ۵۰، طحاوی شریف:۵۲، موطأ امام محمد:۵۲، شمائل ترمذی:۵۰، موطأ امام مالک:۵۱، ابن ماجہ: ۵۱۔
میرے برادر بزرگ حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب مدظلہم کا نتیجہ بھی کم وبیش ایسا ہی تھا۔

جاری ہے ….

٭٭٭٭٭٭٭٭٭