حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی

یادیں

(انیتسویں قسط )

فتویٰ کی تربیت
شروع میں تدریس کے دوگھنٹوں کے علاوہ باقی وقت فتویٰ کی تربیت حاصل کرنے میں صرف ہوتا تھا جس کے لئے” درمختار”کا مقدمہ حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ نے خود پڑھایا، اور "امدادالفتاویٰ” کے بغور مطالعے کی تاکید فرمائی ۔اور اس کا طریقہ یہ بتایا کہ پہلے سوال پڑھنے کے بعد خود سوچنا چاہئے کہ اگر یہ سوال مجھ سے کیا جائے ،تو میں اس کا کیا جواب دوں گا؟ اگر کوئی جواب سمجھ میں آجائے تو پھر حضرتؒ کا جواب پڑھکر دیکھیں کہ میرے جواب میں اور حضرتؒ کے جواب میں کیا فرق ہے ؟ نیز حضرتؒ نے اپنے جواب میں جو فقہی عبارتیں نقل فرمائی ہیں ، اُن سے یہ جواب کس طرح نکل رہا ہے ؟ اگر وجہِ استدلال ان عبارتوں کو پڑھکر واضح ہوجائے تو خیر، ورنہ جس کتاب کا حوالہ جواب میں دیا گیا ہے، اُس کی طرف رجوع کرکے اس کے سیاق وسباق کو دیکھا جائے ۔ پھر اس بات پر بھی نظر رکھی جائے کہ حضرتؒ نے جواب دینے کے لئے کیا اسلوب اختیار فرمایا ہے ؟ حضرت والد صاحب قدس سرہ فرماتے تھے کہ محض فقہی کتابوں کی جزئیات یاد کرلینے سے فتویٰ کی صلاحیت پیدا نہیں ہوتی ، بلکہ فتویٰ کاایک خاص مزاج ہوتا ہے جو کسی ماہر اور صاحب بصیرت مفتی کی صحبت میں رہ کر اور اس کی نگرانی میں مدت تک کام کرنے سے حاصل ہوتا ہے ۔ ہر علم وفن کا حال یہ ہے کہ اُس کے منضبط قواعد واصول ایک حد تک تو کام دیتے ہیں، لیکن واقعات پر ان کو منطبق کرنے کے لئے کوئی دو اور دو چار قسم کا لگا بندھا اصول نہیں بتایا جاسکتا۔وہاں انسان کا وہ ذوق اور ملکہ ہی کام دیتا ہے جو ماہرین کی صحبت اور تربیت کے نتیجے میں انسان کی طرف منتقل ہوتا ہے ۔اسی وجہ سے فقہاء کرام نے فرمایا ہے کہ اگر کسی نے فقہ کی کتابیں ازبر یاد کرلی ہوں، لیکن کسی ماہر فقیہ اور مفتی کی صحبت میں رہکر فتویٰ کی تربیت نہ لی ہو، اُس کے لئے فتویٰ دینا جائز نہیں ہے ۔
نیز دارالعلوم دیوبند سے استعفاء دینے کے بعدبھی حضرت والد صاحب قدس سرہ کے پاس بہت سے استفتاء آیا کرتے تھے ۔ان فتووں کی نقل کا کوئی باقاعدہ انتظام تو نہیں تھا، لیکن خاص خاص فتووں کی نقل حضرت والد صاحب ؒ نے متفرق طورپر محفوظ رکھی ہوئی تھی ۔ان فتاویٰ کو مرتب کرنے کا کام بھی حضرت والد صاحب قدس سرہ نے مجھ سے شروع کرایا ۔ مقصد یہ تھا کہ ان کے فتویٰ کے مزاج ومذاق سے فی الجملہ آگاہی ہوتی رہے۔اس کے علاوہ روزانہ ہمیں کوئی نہ کوئی استفتاء دیدیا جاتا کہ ہم کتابوں کی مدد سے ان کا جواب لکھیں۔ یہ جواب لکھنے کے بعدروزانہ تو حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ کو دکھایا جاتا، لیکن ہفتے میں تین دن حضرت والد صاحب قدس سرہ بذات خود شہر سے دارالعلوم تشریف لاتے ، اور بہت سے سوالات کے جواب خود ملاحظہ فرماکر ان کی تصحیح فرماتے تھے۔اسی زمانے میں ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ حضرت والد صاحبؒ دارالعلوم تشریف لائے ، تو عصر کی نماز پڑھائی ، اور اُس کی پہلی یا تیسری رکعت میں سجدے کے بعد سیدھے کھڑے ہونے کے بجائے چند لمحوں کے لئے بھول کربیٹھ گئے ، لیکن فوراً ہی یاد آنے پر کھڑے ہوگئے ، اور چونکہ چند لمحوں کے لئے بیٹھے تھے ، اس لئے سجدۂ سہو نہیں کیا۔ حضرت مفتی رشید احمد صاحب ؒ نے نماز کے بعد حضرت والد صاحبؒ سے فرمایا کہ ایسی صورت میں سجدۂ سہو کرنا چاہئے تھا ۔ حضرت والد صاحبؒ نے فرمایا کہ سجدۂ سہو اُس وقت واجب ہوتا جب میں تین تسبیحات کی مقدار بیٹھا ہوتا ۔چونکہ اتنی دیر نہیں بیٹھا تھا ، اس لئے سجدۂ سہو واجب نہیں تھا ۔ حضرت مفتی رشید احمد صاحبؒ نے فرمایا کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے امداد الفتاویٰ میں مطلق بیٹھنے پر سجدۂ سہو کرنے کو فرمایا ہے ، چاہے وہ کتنا کم ہو۔ حضرت والد صاحبؒ نے امدادالفتاویٰ منگواکر دیکھا ، تو اُس میں ایک سائل نے منیۃ المصلی کے حوالے سے مسئلہ وہی لکھا تھا جو حضرت مفتی رشید احمد صاحبؒ نے بیان فرمایا ، لیکن ساتھ ہی کچھ دوسری کتابوں سے اس کے خلاف بھی نقل کیا تھا ۔ اس کے جواب میں حضرت حکیم الامت ؒ نے تحریر فرمایا تھا کہ:
"مجھ کو بھی مدت سے تردد ہے ، مگر عمل اس پر ہے کہ بمجرد جلوس سجدۂ سہو کرتا ہوں ،لا لأنہ ترک السنۃ ، بل لتأخیر القیام ۔ اور ایک تسبیح کی قدر توعادۃً جلوس ہو ہی جاتا ہے۔اس میں ذرا غور کیجئے۔”
اس طرح امدادالفتاویٰ سے حضرت مفتی رشید احمد صاحب ؒ کی تائید ہوئی ، لیکن چونکہ حضرت تھانویؒ نے تردد کا بھی اظہار فرمایا تھا ، اس لئے دونوں بزرگوں نے چاہا کہ اس مسئلے کی قدرے مفصل تحقیق ہوجائے تو بہتر ہے ۔ چنانچہ دونوں بزرگوں نے اس کی تحقیق کے لئے مجھے مأمور فرمایا ۔ اس حکم کی تعمیل میں میں نے ایک تحریر لکھی جس میں راجح اسی کو قرار دیا گیا کہ تین تسبیحات سے کم تاخیر میں سجدۂ سہو واجب نہیں ہوتا ، بلکہ جتنی مقدار شافعی مسلک میں جلسۂ استراحت کی ہوتی ہے ، اس میں بھی سجدۂ سہو واجب نہیں ہوتا۔ یہ تحریر میں نے دونوں بزرگوں کو دکھائی، اور پھر دونوں نے اس کی تصدیق فرمائی ، بلکہ حضرت مفتی رشید احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تائید میں کچھ مزید عبارتوں کی نشاں دہی فرمائی جو میں نے اُس تحریر میں شامل کیں ۔ یہ تحریر یکم محرم ۱۳۸۰ھ کو لکھی گئی تھی ، اور حضرت والد صاحبؒ نے امداد الفتاویٰ کی اگلی طباعت میں اُسے مذکورہ بالا مقام پر ایک حاشیہ کے طورپر شائع بھی فرمادیا ۔ اس حاشیے کے شروع میں حضرت والد صاحبؒ نے تحریر فرمایا ہے :
"اس مقام کی تحقیق پر ایک حاشیہ برخوردار مولوی محمد تقی سلمہ نے لکھا ہے جو میرے نزدیک صحیح ہے ۔” (امداد الفتاویٰ ج۱ ص :۳۵۲ سوال ۴۴۵)
اسی زمانے میں حضرت مفتی رشید احمد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ کے پاس ہمارے دیسی کوّے کے بارے میں ایک استفتاء آیا ہوا تھا۔اس کے ساتھ کسی مفتی صاحب کا ایک مفصل جواب بھی تھا جس میں انہوں نے اس کی حرمت پر دلائل دئیے تھے۔حضرت مفتی صاحب ؒ نے اس کی تحقیق کے لئے مجھے مأمور فرمایا ، اور میں نے اُس کا مفصل جواب لکھا جو جماعت تہجدکے فتوے کے بعد میرادوسرا مفصل فتویٰ تھا جو ایک رسالے کی صورت اختیار کرگیا ۔یہ فتویٰ ۴؍ربیع الاول ۱۳۸۰ ھ کو لکھا گیا تھا ، اور اب احسن الفتاویٰ ج :۷ص :۴۴۱پر شائع بھی ہوا ہے ۔ اس زمانے کے کچھ فتاویٰ اب میرے” فتاویٰ عثمانی ” میں بھی شائع ہوچکے ہیں۔آخر میں ہمیں ایک تحقیقی مقالہ لکھنے کے لئے دیا گیا جس کا موضوع خود حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ نے” بیع الحقوق” تجویز فرمایا تھا ۔ مقصد یہ تھا کہ ہمارے دور میں بہت سے حقوق کی بیع کا رواج ہوگیا ہے، مثلاًحقوق اشاعت، امپورٹ لائسنس ، گڈول وغیرہ۔ ان کے بارے میں تحقیق کی جائے کہ ان کی خریدوفروخت کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ اگرچہ حقوق اشاعت کے بارے میں حضرت والد صاحب قدس سرہ کاایک رسالہ” ثمرات التقطیف فی حقوق التألیف” کے نام سے پہلے سے لکھا ہوا تھا (اور اب” جواہر الفقہ” میں شامل ہے) لیکن حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ زمانے کے نئے مسائل کے بارے میں ہمیشہ غوروفکر اور نظر ثانی کا عمل جاری رکھتے تھے ، اس لئے ان کا مقصد یہ تھا کہ اس موضوع پر مزید تحقیق کا سلسلہ جاری رہے ۔ چنانچہ ہم کئی طالب علموں نے اس موضوع پر مقالے لکھے۔لکھنے کو تو میں نے بھی لکھ لیا ، لیکن دل اُس پر پوری طرح مطمئن نہیں ہوا ، اور خود حضرت والد صاحب ؒ نے بھی اس پر مزید تحقیق جاری رکھنے کا عندیہ دیا ۔ افسوس ہے کہ حضرت والد صاحب ؒ کی حیات میں اس کام کو آگے بڑھانے کا موقع نہ مل سکا ۔البتہ جب مجمع الفقہ الإسلامی جدہ میں یہ موضوع زیر بحث آیا ، تو میں نے اس پر مفصل مقالہ لکھا جو” بیع الحقوق "کے نام سے میری کتاب "بحوث فی قضایا فقہیۃ معاصرۃ” میں شائع ہوا ہے۔
حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ٹیلی فون پر بھی بہت سے مسائل پوچھے جاتے تھے ۔ شروع میں ہمیں ان کی تاکید یہ تھی کہ ہم سائل سے خود سوال سُن کر حضرت والد صاحب ؒ کو نہ پہنچایا کریں، بلکہ خود سائل سے براہ راست بات کرایا کریں ، تاکہ سوال سمجھنے میں کوئی غلطی نہ رہ جائے ، پھر جب رفتہ رفتہ فتویٰ کی تربیت کو ایک عرصہ گزر گیا ، تو اس بات کی اجازت دیدی کہ سائل سے سوال سُن کر حضرت والد صاحبؒ سے نقل کردیں، اور والد صاحبؒ کا جواب اُن کو پہنچادیں۔ اس کے کچھ عرصے کے بعد اس کی بھی اجازت مل گئی کہ اگر کوئی آسان اور غیر مشتبہ سوال ہو، تو اس کا جواب خود بھی دیدیا کریں ۔
تخصص فی الفتویٰ کی مدت تو اس طرح پوری ہوگئی، لیکن اس کے بعد بھی فتویٰ نویسی کا سلسلہ مستقل جاری رہا ، اور بفضلہ تعالیٰ آج تک جاری ہے ، لیکن حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی حیات میں کوئی فتویٰ انہیں دکھائے بغیر جاری نہیں کیا گیا ۔آپ کی وفات کے بعد عموماً اپنے استاذگرامی حضرت مولانا سحبان محمود صاحب اور کبھی حضرت مولانا محمد عاشق الہی صاحب قدس سرہما کو دکھاکر فتویٰ جاری کیا جاتا تھا ۔ان حضرات کی وفات کے بعد ڈرڈرکر صرف اپنے دستخط سے بھی فتاویٰ جاری کرنے شروع کئے ، پھر جو طلبہ تخصص میں فتویٰ کی مشق کرتے تھے ، ان کے فتاویٰ پر نظرثانی کا سلسلہ بھی شروع ہوا جو آج تک جاری ہے ۔ ان فتاویٰ میں بسااوقات ان کی لکھی ہوئی عبارت کو بھی یکسر بدلنا پڑتا تھا ، اور مسائل کی تصحیح بھی کرنی پڑتی تھی، یہاں تک کہ وہ ایک بالکل نیا فتویٰ ہوجاتا تھا ، لیکن وہ اسی طالب علم کے نام سے ہماری تصدیق کے ساتھ جاری ہوتا۔
اب میرے خود لکھے ہوئے فتاویٰ کو عزیزم مولانا زبیر حق نواز صاحب سلمہ نے چار جلدوں میں "فتاویٰ عثمانی” کے نام سے مرتب کردیا ہے جو چھپ چکی ہیں ، اور وہ پانچویں جلد پر کام کررہے ہیں ۔
فتویٰ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے ، اور اُس میں غلطی کا ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے ، اور بعض اہل علم کی طرف سے بعض اوقات بندہ کے فتاویٰ اور دوسری تحریروں کے بارے میں کچھ سوالات یا تجویزیں آتی رہتی ہیں، الحمد للہ تعالیٰ میں ان پر غور کرتا ہوں ، اور جہاں اپنی کوئی غلطی سامنے آجاتی ہے ، اس سے رجوع کرلیتا ہوں ، یا اپنی عبارت میں تبدیلی کرلیتا ہوں ، اور جہاں اشکال صحیح معلوم نہیں ہوتا ، وہاں اس کی وضاحت کردیتا ہوں ۔اس غرض کے لئے ماہنامہ البلاغ میں ایک سلسلہ جاری کیا ہوا ہے جو پہلے "غلطی ہائے مضامین”کے نام سے شائع ہوتا تھا ، اور اب "اصلاح وایضاح”کے نام سے شائع ہوتا ہے ۔ میں اس پر اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کروں ، کم ہے کہ بفضلہ تعالیٰ بندے کے فتاویٰ اور تحریریں اہل علم کی نظر سے گذرتی رہتی ہیں ، اور اس طرح میں ان کی آراء سے مستفید ہوتا رہتا ہوں ۔
انگریزی کی تعلیم
دارالعلوم میں تدریس کے دوران مجھے یہ شوق بھی تھا کہ میں نے انگریزی پڑھنے کا بھائی ولی رازی صاحب مدظلہم سے جو سلسلہ شروع کیا تھا ، وہ کسی نہ کسی طرح جاری رہے ۔گرامر کی بالکل ابتدائی اوربنیادی باتیں تو انہوں نے پڑھا دی تھیں، لیکن میرے پاس انگریزی کا ذخیرۂ الفاظ( vocabulary)بہت کم تھا۔ چنانچہ میں نے ساتویں جماعت کاایک ریڈر لیکر اُسے پڑھنا شروع کردیا۔پڑھانے والا کوئی میسر نہ آیا ، تو مولانا محمد اسحاق جہلمی صاحب سلمہ جو اُس وقت درجۂ ثانیہ میں پڑھتے تھے ، اور ان کی ایک آدھ کتاب میں بھی پڑھاتا تھا ، وہ چونکہ میٹرک کئے ہوئے تھے ، اس لئے وہ ریڈر میں ان سے پڑھنے لگا ، اور کچھ دنوں میں اس قابل ہوگیا کہ کسی نہ کسی طرح عبارت پڑھنے اور سمجھنے میں آسانی ہوگئی۔ انگریزی الفاظ زبان پر چڑھتے نہیں تھے ۔اﷲتعالیٰ میرے بڑے بھائی جناب مولانا محمد ولی رازی صاحب مد ظلہم کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ اس کے لئے انہوں نے مجھے یہ نصیحت کی تھی کہ انگریزی عبارت بلند آواز سے پڑھا کرو، چاہے اس کے لئے کتنا اٹکنا پڑے ۔ چنانچہ میں نے اس نصیحت پر عمل کیا تو الفاظ زبان پر چڑھنے لگے، اور پھر رفتہ رفتہ پڑھنے میں روانی آگئی۔
الحمد ﷲ!انگریزی پڑھنے کے شوق میں کبھی یہ خواہش دور دور دل میں پیدا نہیں ہوئی کہ اس کے ذریعے کوئی اچھی ملازمت حاصل کی جائے، یا اُسے دنیوی مفادات کا ذریعہ بنایا جائے ۔البتہ اصل داعیہ یہ تھا کہ اس زبان کے ذریعے ایک طرف مغربی افکارو خیالات سے باخبر ہوسکوں ، اور دوسری طرف دین کا پیغام ان حلقوں تک ان کی ذہنیت سمجھ کر پہنچا سکوں جو انگریزی ما حول ہی میں پلے بڑھے ہیں ، اور روایتی دینی حلقوں تک ان کی پہنچ نہیں ہے۔
دورۂ حدیث کی تکمیل کے بعد میراارادہ یہ تھا کہ پرائیویٹ طورپر میٹرک سے شروع کرکے ایم اے تک پہنچوں ۔لیکن تدریس اور افتاء کی مصروفیات کے ساتھ میٹرک کے تمام مضامین کاامتحان دینا مشکل تھا۔ اُس زمانے میں پنجاب یونی ورسٹی کے تحت السنہ شرقیہ (مشرقی زبانوں)کی ڈگریوں کاانتظام تھا ۔اردو کے لئے بالترتیب تین ڈگریاں ادیب ، ادیب عالم اور ادیب فاضل کی تھیں ، فارسی کے لئے منشی، منشی عالم اور منشی فاضل اور عربی کیلئے مولوی، مولوی عالم اور مولوی فاضل کے امتحانات ہوا کرتے تھے۔ حضرت مولانا محمد ادریس صاحب میرٹھی رحمۃ اﷲعلیہ نے ان امتحانات کی تیاری کرانے کے لئے جیکب لائن میں ایک ادارہ ” ادارۂ شرقیہ” کے نام سے قائم کیا ہوا تھا ، اور وہ ہمیں اس کی ترغیب بھی دیتے رہتے تھے ۔
جو کوئی شخص ان امتحانات میں سے کوئی پاس کئے ہوئے ہوتا، اُسے یہ سہولت مل جاتی تھی کہ وہ صرف انگریزی میں امتحان دیکر میٹرک اور ایف اے کی سند لے سکتا تھا ۔دارالعلوم کی تعلیم کے بعد میرے لئے مولوی فاضل (جسے بعد میں فاضل عربی کہنے لگے تھے )کاامتحان دیناکچھ مشکل نہیں تھا ۔اس لئے میں نے پرائیویٹ امیدوار کے طورپر اس امتحان کے لئے اپنے آپ کو رجسٹر کرالیا، اور آسانی سے اُس کا امتحان دیا جس میں مجھے پوری یونی ورسٹی میں پہلی پوزیشن بھی ملی۔
اس کے بعد میں نے میٹرک کی تیاری شروع کی۔ اس وقت کوئی باقاعدہ استاد میسر نہیں تھے ۔میٹرک کی نصابی کتابیں میں نے خرید لی تھیں، اور کبھی کسی سے، کبھی کسی سے انہیں پڑھتا رہا ۔ عربی صرف ونحو سے چونکہ مجھے مناسبت تھی، اس لئے انگریزی گرامر میں مجھے کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ بھائی محمد ولی رازی صاحب مد ظلہم نے دو مہینے میں مجھے گرامرکی جو بنیادیں سکھادی تھیں، ان کے بعد میں اس قابل ہوگیا تھا کہ انگریزی گرامر کی کتاب خود پڑھ کر اس کی مشق کرسکوں ۔چنانچہ اس دور میں میٹرک کے نصاب میںWren and Martin کی جو کتاب مقبول عام سمجھی جاتی تھی، وہ میں نے خود پڑھنی شروع کردی ، اور جہاں کوئی دشواری معلوم ہوتی ،کسی سے پوچھ کر کام چلا لیتا تھا۔ لیکن انگریزی زبان کی لغات (vocabulary) میں مجھے بہت کمزوری کااحساس رہتا تھا ۔
چونکہ حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ بھی اس بات کی ضرورت محسوس فرماتے تھے کہ کم ازکم کچھ لوگ ایسے تیار ہوں جو اسلامی علوم میں مہارت کے ساتھ انگریزی زبان سے بھی واقف ہوں ، اور اس زبان میں دین کی خدمت کرسکیں ، اس لئے حضرت والد صاحب قدس سرہ نے دارالعلوم میں اختیاری مضمون کے طور پر انگریزی پڑھانے کے لئے ایک استاذ رکھ لیا تھا ۔یہ جناب ماسٹر محمد سلطان صاحب رحمۃ اﷲعلیہ تھے۔ انہیں انگریزی پڑھانے کا عمربھر کا تجربہ تھا، اور ساتھ ہی ماشاء اﷲوہ اتنے عبادت گذار تھے کہ دوسروں کے لئے قابل رشک۔ جماعت میں وہ ہمیشہ صف اول میں نظر آتے تھے ، اور میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ ان کی جماعت تو کجا ، کوئی ایک رکعت بھی کبھی چھوٹی ہو۔ میں نے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر ان سے مختلف ریڈر پڑھے ، اور لکھنے کی مشق کی۔ انہیں گرامرپڑھانے کا بھی بڑا وسیع تجربہ تھا۔لیکن ان سے گرامر ترتیب کے ساتھ پڑھنے کے بجائے میں صرف ان مواقع پر ان سے رجوع کرتا جہاں مجھے کسی کی رہنمائی کی ضرورت محسوس ہوتی تھی ۔ انگریزی گرامر میں ڈائریکٹ ان ڈائریکٹ کا مضمون ایسا ہے جس کی نظیر عربی یا اردو فارسی میں موجود نہیں ہے، اور اس درجے کے طلبہ کو وہ خاصا مشکل بھی معلوم ہوتا ہے، لیکن چونکہ میں نے اس کا بنیادی اصول اچھی طرح سمجھ لیا تھا ، اس لئے مجھے اس میں کوئی مشکل محسوس نہیں ہوتی تھی ۔ ایک مرتبہ ماسٹر صاحب رحمۃ اﷲعلیہ نے پورے ایک صفحے کی بڑی لمبی عبارت مجھے ڈائریکٹ سے ان ڈائریکٹ میں تبدیل کرنے کے لئے دی ، مجھے الحمد ﷲاسے تبدیل کرنے میں چند منٹ سے زیادہ نہیں لگے، اور ماسٹر صاحب ؒ اُسے دیکھ کر نہ صرف یہ کہ حیران رہ گئے، بلکہ یہ فرمایا کہ گرامر میں تمہیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔
میٹرک کاامتحان مجھے پنجاب یونیورسٹی سے دینا تھا ، چنانچہ امتحان کے وقت میں لاہور چلا گیا ،اور اپنے بڑے بھائی جناب محمد زکی کیفی صاحب رحمۃ اﷲعلیہ کے یہاں قیام کیا۔چونکہ میں نے تمام تر تیاری پرائیویٹ طورپر کی تھی، اس لئے مجھے کچھ خوف ساتھا کہ میں ان طلبہ کا مقابلہ کیسے کرسکوں گا جنہوں نے باقاعدہ اسکولوں میں پڑھا ہے۔ بھائی جان مجھے تسلی دیتے، اور فرماتے کہ ان شاء اﷲتعالیٰ تم اچھی طرح کامیاب ہوگے۔امتحان کا مرکز دیال سنگھ کالج میں مقررہوا، اور میں ڈرتے ڈرتے امتحان گاہ میں پہنچا جو طلبہ سے کھچا کھچ بھر ا ہوا تھا ۔ حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ نے مجھے ایک عمل یہ بتایا ہواتھا کہ جب کبھی امتحان گاہ میں جاؤ تو پرچہ کھولنے سے پہلے دائیں ہاتھ کی پانچ انگلیوں پر "کہیعص” اس طرح پڑھا کرو کہ پہلے چھوٹی انگلی پر کاف کہکر انگلی بند کرلو، پھر ہرحرف پرایک ایک انگلی بند کرتے جا ؤ یہاں تک کہ ص پر پوری انگلیاں بند ہوجائیں ، اس کے بعد کہو: کُفِیْتُ پھر "حٰمعسق” ا س طرح پڑھو کہ حا کہکر چھوٹی انگلی کھولو ، پھر ہرحرف پر ایک ایک انگلی کھولتے جاؤ، یہاں تک کہ جب ساری انگلیاں کھل جائیں تو کہو: "حُمِیْتُ”چنانچہ میں اپنے سارے امتحانات میں یہ عمل کرتا آیا تھا، اورالحمد ﷲہمیشہ نمایاں طورپر کامیاب ہوا تھا۔ اس موقع پر بھی میں نے یہی عمل کیا، اور پرچہ کھولا تو اس کا کوئی سوال ایسا نہیں تھا جو مجھے مشکل لگا ہو ۔آخر میں اس میں ایک انگریزی مضمون لکھنے کو کہا گیا تھا۔ میں نے وہ مضمون بھی کئی صفحوں میں لکھا، اور دلچسپ انداز میں لکھا ۔ جب نتیجہ آیا تو پتہ چلا کہ مجھے پورے بورڈ میں دوسری پوزیشن ملی ہے۔ فالحمد ﷲعلی ذلک۔
اس کے بعد میں نے انٹر کی تیاری شروع کی ۔اس کی کتابیں نسبۃًاونچے معیار کی تھیں ۔اس مرتبہ بھی میں نے مختلف استادوں سے مدد لی ۔پہلے تو ہمارے دارالعلوم کے قریب جناب ڈاکٹر اسراراحمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کے بھائی کی ایک فیکٹری تھی ۔اس میں ڈاکٹر صاحب مرحوم کے ایک بھائی جناب اقتداراحمد صاحب نے مہربانی سے مجھے پڑھانے کی پیشکش کی ۔ میں مغرب کے بعد ان کی فیکٹری میں چلاجاتا ۔وہاں مچھروں کی بھر مار تھی، اور ہم دونوں پڑھائی کے دوران مچھروں سے مسلسل جنگ کرتے رہتے تھے۔ اقتدارصاحب ؒ نے ان کے دفعیہ کے لئے سبز رنگ کے کئی کوائل کمرے میں لگالئے تھے جن سے مچھروں کی فوج کو تو کسی قدر شکست ہوئی ،لیکن ان کوائلوں کے دھویں سے کمرہ بھر ارہتا، اور ان کی بدبو بھی خوب پھیلتی۔ دھویں کی کثرت سے میرے سرمیں درد ہوجاتا تھا ۔ لیکن اﷲتعالیٰ انہیں بہت جزائے خیر عطا فرمائیں، انہوں نے بڑی محبت سے کچھ دن پڑھایا ۔پھر کسی عذر کی وجہ سے چھوڑنا پڑا ۔ اور بعد میں نہ جانے کس طرح وہ کتاب پوری کی ۔ایک دوسری کتاب جو در حقیقت ایک قدیم ناول تھی ، میں نے جناب ماسٹر سلطان صاحب رحمۃ اﷲعلیہ سے پڑھنی شروع کی جو خاصی مشکل تعبیرات پر مشتمل تھی۔ انہوں نے ماشاء اﷲ بڑی توجہ سے پڑھائی ۔مگر مجھے اپنی تدریس اور فتویٰ کے کاموں کے بعد انگریزی کے لئے وقت کم ملتا تھا، اس لئے میں اس کتاب کو درساً پوری نہ کرسکا، اور آخر کار ذاتی مطالعے پر ہی اکتفا کرنا پڑا ۔یکم محرم ۱۳۸۳ ھ مطابق۲۵؍مئی ۱۹۶۳ ء کو امتحان شروع ہوا ، جوں توں کرکے امتحان دیدیا، اس میں پوزیشن تو کوئی نہ ملی لیکن نمبر اچھے خاصے (غالباً سیکنڈ ڈویژن کے) آگئے۔امتحان میں کامیابی کی اطلاع مجھے میری ڈائری کے مطابق ۱۷؍ اگست ۱۹۶۳ ء مطابق ۲۶؍ ربیع الاول ۱۳۸۳ ھ کو ملی۔
بی اے کا امتحان
بی اے کرنے کے لئے انگریزی کے ساتھ دو مزید مضمون لینے ضروری تھے ۔ میں نے معاشیات (اکنامکس ) اور علم سیاست (پولیٹیکل سائنس)کو اختیار کیا ۔ پولیٹیکل سائنس تو میں نے محض معلومات میں اضافے کے لئے اختیار کی تھی، اوراُس کے لئے تومجھے کسی استاذ کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوئی، کیونکہ اس کی نصابی کتابیں مطالعے سے بہ آسانی سمجھ میں آجاتی تھیں ۔البتہ معاشیات کے لئے کسی استاد کی رہنمائی ضروری معلوم ہوتی تھی۔اور معاشیات کا مضمون میں اس لئے پڑھنا چاہتا تھا کہ بدلتی ہوئی زندگی میں کسی بھی قوم کی کامیابی اور فتح یابی میں اُس کے نظام معیشت کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہوگئی تھی، اور جس وقت کا میں ذکرکررہاہوں ،اُس وقت دنیا سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکیت کے متضاد نظاموں میں بٹی ہوئی تھی، اور دونوں نظریات میں مسلسل ٹھنڈی جنگ جاری تھی ۔سرمایہ دارانہ نظام نے غریب اور امیر کے درمیان جو مہیب فاصلے پیدا کررکھے تھے، اور ان سے جو خرابیاں پیدا ہوئی تھیں، ان کے رد عمل میں اشتراکیت کا غلغلہ پوری دنیا میں پھیلا ہوا تھا، اورسرمایہ داری کے نظام سے اکتائے ہوئے اسلامی ملکوں میں بھی اشتراکیت کی طرف رجحان بڑھ رہا تھا، بلکہ اشتراکیت کے معاشی نظام کو اسلام کے عین مطابق قرار دینے کی کوششیں بھی جاری تھیں۔میں عمومی نعروں سے ہٹ کر ان دونوں نظاموں کی فلسفیانہ بنیادوں کو بھی سمجھنا چاہتا تھا، اور یہ بھی جاننا چاہتا تھاکہ اسلامی نقطۂ نظر سے کو ن سا نظریہ اسلامی احکام سے کہاں مختلف ہے، اور اُسے کہاں غلطی لگی ہے ۔
معاشیات کا علم چونکہ اب بہت آگے بڑھ چکا ہے، اور اُس کی بہت سی شاخیں ہوگئی ہیں، اس لئے صرف مطالعے کی بنیادپر اُسے پڑھنا مشکل یا کم ازکم نا قابل اعتبار ہوتا۔ چنانچہ مجھے کسی استاذ کی تلاش تھی جواُس وقت دارالعلوم میں میسر نہیں تھا ، اور نہ میرے لئے یہ بات قابل عمل تھی کہ میں شہر جاکر کسی تعلیمی ادارے میں پڑھوں، کیونکہ دارالعلوم میں میری تدریس، فتویٰ اور تصنیف کی خدمات جاری تھیں اور دارالعلوم سے شہر آنے جانے کیلئے گھنٹے درکار تھے۔ بالآخر میرے ایک دوست جناب حسن الزماں اختر صاحب جو حضرت مولانا ظفراحمد انصاری صاحب ؒ کے داماد تھے ، اور اسٹیٹ بینک کے اسلامی ریسرچ کے شعبے کے سربراہ، وہ اس شرط پر مجھے معاشیات پڑھانے کے لئے تیار ہوگئے کہ میں انہیں ہدایہ اخیرین پڑھاؤں۔اور طے یہ ہوا کہ ہفتے میں کچھ دن شام کے وقت میں ان کے گھر جاؤں، اور کچھ دن وہ دارالعلوم آئیں۔ اس طرح ان سے میں نے معاشیات پڑھنی شروع کی ۔سیموئیلسن کی کتاب جو بی اے کے نصاب میں داخل تھی، اُس میں مجھے بھی اور انہیں بھی ضرورت سے زیادہ تطویل نظر آئی ۔ لہٰذا انہوں نے ایک اور کتاب کو بنیاد بناکر پڑھانا شروع کیا جس میں اتنی تطویل نہیں تھی ۔ جواباً میں انہیں ہدایہ پڑھاتا رہا جس میں بعد میں میرے بڑے بھائی اور انگریزی میں میرے پہلے استاذ جناب مولانا محمد ولی رازی صاحب بھی شریک ہوگئے۔ اختر صاحب جب کسی اجنبی سے میرا تعارف کراتے تو کہتے کہ :” یہ میرے استاد ہیں” اور جواباً میں ان کے بارے میں کہتا کہ : "یہ میرے استاد ہیں ” سننے والا نہ صرف حیران ہوتا،بلکہ بعض اوقات ہماری سنجیدگی پر بھی شک کرتا ، لیکن باتیں دونوں ہی درست تھیں۔
پڑھنے کو تو میں نے اخترصاحب سے معاشیات کی کتاب پڑھ لی، لیکن مجھے بہت سی باتوں میں یہ تشنگی رہ گئی تھی کہ میں نے جس مقصد سے اس موضوع کاانتخاب کیا تھا ، اُس مقصد کے لحاظ سے میں کسی بامعنی نتیجے تک نہیں پہنچ سکا تھا ۔ چنانچہ میری تشنگی کسی ایسے شخص کی تلاش میں تھی جو ان موضوعات پر کچھ تحقیقی کام کر چکا ہو، اور اُسے تدریس کا بھی تجربہ ہو۔
جماعت اسلامی کے معروف رہنما جناب پروفیسر خورشید احمد صاحب حفظہ اﷲ تعالیٰ سے میرے بڑے اچھے تعلقات تھے ۔وہ علمی اور تحقیقی ذہن کے بزرگ تھے، اور مجھ پر اُس وقت سے شفقت فرماتے تھے جب میں نیا نیا دورۂ حدیث سے فارغ ہواتھا، اور تخصص میں پڑھنا شروع کیا تھا۔اُس وقت میری عمر سترہ سال تھی، اور میں نے اپنی پہلی کتاب،” ضبط ولادت” پر لکھی تھی ۔ پروفیسر صاحب موصوف نے اُس پر ایک جان دارمقدمہ بھی لکھا تھا ۔میں نے اُن سے اپنی اس الجھن کا ذکر کیا تو اُنہوں نے یہ مشفقانہ پیشکش کی کہ میرے پاس اپنی تدریس کے زمانے کی کچھ یادداشتیں موجود ہیں ۔ان کی مدد سے میں آپ کو کچھ اہم موضوعات پڑھا سکتا ہوں۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ اس کام میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔میں نے ان کی پیشکش سے پورا فائدہ اٹھا تے ہوئے ان کے پاس حاضر ہونا شروع کردیا، اور غالباً ہفتہ عشرہ یا دوہفتے ان کے تجربہ کارانہ لیکچروں سے خوب خوب مستفید ہوا۔ اس ہفتے دو ہفتے کی تعلیم نے معاشیات کے مضمون سے متعلق میرے ذہن کے بہت سے کانٹے نکال دئیے، اور ایک مربوط انداز میں اُس کے مباحث میری سمجھ میں آگئے، اور میں ازخود معاشیات کی کتابیں پڑھنے اور سمجھنے کے قابل ہوگیا۔پھر اسی کو بنیاد بناکر میں نے دوسری کتابوں کا مطالعہ شروع کیا ۔
اس سے پہلے سرمایہ داری اور اشتراکیت کے موضوعات پر محض صحافیانہ اور واعظانہ تبصرے تو بہت پڑھے تھے، لیکن دونوں نظریات کی فلسفیانہ بنیادوں سے خاطر خواہ آگاہی نہیں تھی ۔اب اس مطالعے کے نتیجے میں دونوں نظریات کی فلسفیانہ بنیادیں سمجھ میں آگئیں، اور یہ بھی پتہ چل گیا کہ اسلامی احکام سے ان دونوں کا کہاں کہاں اختلاف ہے ؟ چنانچہ اسی کے بعد میں نے تینوں نظاموں کے تقابل پر پہلے دارالعلوم میں درس دیا، پھر تکملہ فتح الملہم کی کتاب البیوع کے آغاز میں عربی میں یہ مضمون بیان کیا۔ اور پھر اپنی کتاب ” اسلام اور جدید معیشت وتجارت” میں قدرے تفصیل کے ساتھ اس کی وضاحت کی۔
بہر حال! انگریزی کے ساتھ معاشیات اور سیاسیات کے مضامین کے ساتھ میں نے بی اے کرلیا۔ بی اے کے امتحان میں نمبر اتنے تو نہیں آئے جتنے میٹرک اور انٹر میں آئے تھے، لیکن الحمد ﷲسیکنڈ ڈویژن میں کامیابی ہوگئی۔اور مؤرخہ ۱۶؍اپریل ۱۹۶۶ ء کو مجھے بی او ایل (بیچلر آف اورینٹیل لرننگ) کی ڈگری ملی جو بی اے ہی کے برابر تھی۔

(ماہنامہ البلاغ :شعبان المعظم ۱۴۴۱ھ)

جاری ہے ….

٭٭٭٭٭٭٭٭٭